حالانکہ میں توہم پرستی کا قائل نہیں ہوں۔ نہ ہی میں اس طرح کی بے سروپا باتوں پر یقین رکھتا ہوں جو نہ جانے کس طرح سے ہمارے سماج کا ایک لازمی جز بن کر رہ گئی ہیں۔ مثلاً اگر آپ کہیں جارہے ہیں اور کسی بلی نے آپ کا راستہ کاٹ دیا تو آپ کے چہرے پر تفکرات کے آثار نمودار ہوجائیں گے اور اگر واقعی آپ توہم پرست واقع ہوئے ہیں تو آپ اس ارادے کو فوری طور پر ملتوی کردیں گے جس ارادے سے آپ کہیں جارہے تھے۔ میں اس بات کوجاہلیت سے تعبیر کرتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ آخر بلی کے راستہ کاٹ دینے سے ہماری زندگی کے کسی معاملے پر کیا اثر پڑسکتا ہے، لیکن جو لوگ اس مرض کے شکار ہوتے ہیں اگر آپ ان کے سامنے اس طرح کی باتیں کریں گے تو وہ آپ کو جاہل، احمق اور نہ جانے کیا کیا کہنا شروع کردیں گے۔
میرے ایک واقف کار توہم پرستی کے مرض میں گرفتار ہی نہیں بلکہ اس علم کے باوا آدم مانے جاتے ہیں۔ مجھ سے ایک دن کہنے لگے: ’’میاں تم کو معلوم ہے کہ کالا کتا دراصل کوئی پہنچا ہوا ولی ہوتا ہے، جو اس روپ میں بے کس لوگوں کی امداد کرتا ہے۔‘‘ میں اس کی بات سن کر بے ساختہ قہقہہ لگا بیٹھا۔ بس پھر کیا تھا۔ برس ہی جو پڑے۔ چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا… کہنے لگے… ’’تم ہو بالکل احمق۔ اس لیے تو پریشان رہتے ہو باپ داداؤں کے زمانے سے جو روایات چلی آرہی ہیں کیا وہ سب بکواس ہیں…؟‘‘
میں ان کی تقریر خاموشی سے سنا کرتا ہوں کیونکہ ایسے موڈ میں ان کی بات کو درمیان میں کاٹ دینا مزید مصیبت مول لینا ہے۔
ایک دن مجھے کسی ضروری کام سے ایک رشتہ داری میں جانا تھاوہ جگہ ہمارے یہاں سے ۸؍میل کے فاصلے پر تھی، ۸؍میل کا فاصلہ ریل سے طے کرنا تھا باقی دو میل کا راستہ پیدل کا تھا۔ میں نے جلدی سے ناشتہ کیا اور چند ضروری کاغذات اور مطالعہ کے لیے چند کتب بیگ میں رکھیں اور گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ گاڑی ۹؍بجے جاتی تھی اور بس ۸؍بجے۔ لہٰذا میں نے وقت کی بچت کی خاطر بس سے جانا بہتر سمجھا۔
ابھی میں گھر سے نکل کر چند ہی قدم آگے بڑھا تھا کہ میرے واقف کار توہم پرستی کے پروفیسر سامنے سے آتے نظرآگئے۔ مجھے اس طرح باہر جاتے دیکھ کر چونک کر بولے…’’ کیاسفر کا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ بس یہ سن کر کہنے لگے: ’’کتنی بار کہا ہے کہ جب سفرکا ارادہ ہوا کرے تو پہلے مشورہ کرلیا کرو کہ کون سا دن سفر کے لیے مناسب ہے کون سی ساعت مبارک ہے۔ معلوم ہے آج دن کون سا ہے، آج سنیچر ہے میاں سنیچر… یہ سب سے منحوس دن ہے اور جو وقت جناب نے سفر کے لیے منتخب کیا ہے اس وقت دو متضاد ستارے آپس میں ٹکرانے والے ہیں ان کی روشنی کے مضر اثرات براہِ راست آپ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ چلو واپس گھر چلو۔‘‘ انھوں نے حکمیہ انداز میں کہا۔
میں نے عرض کیا: ’’قبلہ! آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اس طرح کی خرافات کا قائل نہیں ہوں۔ پھر کیا آج کے دن پورے ملک میں ریل گاڑی اور بسیں بند رہیں گی؟ کیا آج سارے لوگ اپنے کام دھندے چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ رہیں گے…؟ میری عقل تو ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتی…۔‘‘
وہ غصہ میں بھر کر بولے: ’’مجھے دوسروں سے کیا لینا دینا تم سے ایک خاص تعلق ہے، جس کی وجہ سے تمھیں سمجھا رہا ہوں۔ اگر نہیں مانتے تو نہ مانو لیکن ایک خیال رکھنا کہ آج تمہارا کسی کانے آدمی سے سامنا نہ ہونے پائے۔ آج کے دن کانے آدمی کو دیکھ لینا گویا موت کو دعوت دینا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تو چلے گئے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے ذہن میں عجیب سی کشمکش ہورہی ہے۔ میں کانے آدمیوں کے بارے میں سوچنے لگا کہ کیا واقعی توہم پرستی میں کانوں کی بھی کوئی اہمیت ہے؟ مجھے ایسا لگا کہ کوئی میرے ذہن کو عملِ تنویم کے ذریعہ انہی خیالات پر سوچنے کے لیے مجبور کررہا ہے۔ میں نے فوراً ان خیالات کو ذہن سے نکالا اور آگے بڑھ گیا۔
اچانک میں ایک جانی پہچانی آواز سن کر چونک اٹھا … کوئی کہہ رہا تھا : ’’کہیے سالک صاحب کہاں چلے؟‘‘ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ میرے محلے کا کلوا حجام میرے سامنے کھڑا تھا اب یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ کلوا کانا تھا۔ میں نے سوچا کہ کیا کانوں کی یلغار کا آغاز ہوچکا ہے۔ شاید کسی شیطانی قوت ہی نے کلوا کو میرے سامنے لاکھڑا کیا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو کلوا روز صبح ۷؍بجے دوکان کھول کر اپنا کام شروع کردیتا تھا آج ساڑھے سات بجے یہاں کھڑاہے۔ میں جب بس اڈہ پہنچا تو یہ انکشاف ہوا کہ ۸؍بجے والی بس آج ملتوی ہوگئی ہے اب دوسری بس ۱۱؍بجے آئے گی۔ میں نے سوچا کہ کیا واقعی کانوں کی شیطانی قوت حرکت میں آگئی ہے۔
جب میں اسٹیشن پر پہنچاتو ٹکٹ کے لیے لمبی لائن لگی تھی میں بھی لائن میں لگ گیا۔ اچانک میرے پیچھے کھڑے آدمی نے کہا: ’’آپ کہاں کا ٹکٹ لیں گے؟‘‘ میں نے کہا میں قاسم پور جاؤں گا۔ اس نے کہا: ’’میں بھی وہیں جاؤں گا یا تو آپ میرا ٹکٹ لے لیں یا مجھے پیسے دے دیں میں آپ کا ٹکٹ لے لوں۔‘‘ میں نے جب مڑ کر اسے دیکھا تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ حضرت بھی کانے تھے۔ میں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ ان کو پیسے دینے کے بجائے ان کے پیسے لے کر خود ہی ٹکٹ لے لوں۔ کیونکہ اگر واقعی یہ کوئی شیطانی قوت ہے تو کم از کم میرا ٹکٹ تو محفوظ رہے گا۔ اب میرا نمبر آچکا تھا میں نے کھڑکی میں ہاتھ ڈال کر کہا: ’’جناب قاسم پور کے ۲؍ٹکٹ…‘‘
اور جب میں نے بکنگ کلرک کو پیسے دے کر دو ٹکٹ لیے تو میں ایک بار پھر چونک اٹھا… کیونکہ وہ بکنگ کلرک بھی کانا تھا۔ اتفاق ملاحظہ فرمائیے کہ ایک کانا میرے عقب میں اور ایک میرے سامنے ایسا لگا کہ کانوں کی پوری فوج میرے خلاف حرکت میں آگئی ہے۔ حالانکہ میں خوف زدہ نہیں تھا اور نہ ہی میں توہم پرستی پر یقین رکھتا تھا لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی کہ اتنی تھوڑی مدت میں ان تین کانوں سے ہونے والی ملاقات سے میرے ذہن میں خیالات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔
گاڑی آچکی تھی۔ میں نے اچھی طرح دیکھ بھال کر ایسے ڈبے کا انتخاب کیا، جس میں کسی کانے آدمی کا وجود تک نہ تھا۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ جہاں مجھے اترنا تھا وہاں تک درمیان میں کئی اسٹیشن آتے تھے۔ ایک اسٹیشن گزر چکا تھا۔ میں نے وقت گزاری کے لیے بیگ سے کتابیں نکال لیں اور ایک کتاب کا مطالعہ کرنے لگا۔ اچانک سامنے والی سیٹ پر بیٹھے ایک آدمی نے مجھ سے وہ کتاب مانگی جو میرے بیگ پر رکھی تھی میں نے جب وہ کتاب اٹھا کر اس آدمی کو دی تو میرے ہوش اڑ گئے کیونکہ وہ حضرت بھی کانے تھے۔ میں سوچنے لگا کہ یہ حضرت کب ڈبے میں آئے اور اگر آئے بھی تو کیا ضروری تھا کہ یہ میرے ہی سامنے بیٹھتے ڈبے میں اور بھی بہت سی سیٹیں خالی تھیں۔ پھر اگر میرے سامنے آکر بیٹھ بھی گئے تھے تو کتاب مانگنے کی کیا ضرورت تھی اور اگرمطالعہ کا اتنا ہی شوق تھا تو کتاب بنااجازت ہی اٹھا لیتے۔ لیکن اس اتفاق کو کیا کہا جائے جو آج صبح سے میرے ساتھ کانوں کے واقعات پیش آرہے تھے۔ اب میں سنجیدگی کے ساتھ یہ بات سوچنے لگا کہ کیا واقعی آج کا دن منحوس ہے۔ کیا ان کانوں کو واقعی انسانی زندگی کے معاملات پر کوئی اثر ڈالنے کی قوت حاصل ہے کیا واقعی میرا یہ سفر موت کا سفر ہے…؟ مجھے بالکل ایسا ہی لگا کہ جیسے یہ گاڑی قاسم پور نہیں بلکہ دوزخ کی جانب دوڑی جارہی ہے۔ میری یہ ہمت نہ ہوسکی کہ میں اس کانے کی طرف نظر بھر کر دیکھ سکوں۔
اچانک شور ہوگیا کہ قاسم پور آگیا۔ اب آپ اسے میری بزدلی سمجھیں یا حماقت کہ میں نے اپنی سیٹ سے اٹھتے وقت اس کانے سے اپنی کتاب واپس نہ مانگی۔ میں نے طے کرلیا تھا کہ اس طرح کی دوسری کتاب تو میں خرید لوں گا لیکن اس کانے پر نگاہ نہیں ڈالوں گا۔ ایک معمولی کتاب کی خاطر میں کسی کانے کے خوفناک چہرے کی طرف دیکھنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔
پلیٹ فارم پر میرے ایک واقف کار مل گئے جو اسی گاؤں کے رہنے والے تھے جہاں مجھے جانا تھا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ باہر ہماری گاڑی کھڑی ہے اس پر سامان آیا تھا اب گاؤں واپس جائے گی تم اسی پر بیٹھ کر چلے جانا میں نے بھی سوچا کہ واقعی یہ تو اچھی بات ہے کیونکہ اسٹیشن سے گاؤں ۲؍میل تھا اور راستہ بھی دھول مٹی کا تھا، جس سے پیدل جانے سے کافی پریشانی ہوتی۔ میں ان سے رخصت ہوکر باہر آیا۔ میری احتیاط کا یہ عالم تھا کہ میں بہت کم ادھر ادھر دیکھ رہا تھا مبادا پھر کوئی کانا نظر نہ آجائے۔ سڑک کے کنارے ایک بیل گاڑی کھڑی تھی ایک آدمی گاڑی کے جوئے پر رسی باندھ رہا تھا اس کی پشت میری طرف تھی میں نے اس سے پوچھا: ’’کیا بندے حسن کی یہی گاڑی ہے۔‘‘ اس نے کہا : ہاں۔ میں نے کہا: میں بھی تمھارے ساتھ گاؤں چلوں گا کب تک چلو گے۔ اس نے کہا: بابو جی بس چلنے ہی والا ہوں۔ میں نے سوچا کہ قریب کی دوکان سے پان ہی کھالوں۔ جب پان لے کر میں واپس ہوا تو میرے سامنے گاڑی بان کی شکل میں ایک کانا کھڑا تھا۔ میری حیرت میں اضافہ فطری بات تھی۔ اب مجھے پختہ یقین ہوگیا کہ میرا یہ سفر واقعی موت کا سفر ہے، کیونکہ میں اب اِس بات کو اتفاقی حادثہ ماننے کے لیے قطعی تیار نہیں تھا کہ ہر جگہ مجھے ایک کانا مل جائے۔ میں حیران تھا کہ آخر بات کیا ہے میرا خیال تھا کہ آج شیطانی قوت ان کانوں کی شکل میں میرے اوپر اپنا منحوس سایہ پھیلا رہی تھی کہیں وہ کلوا حجام بن کر سامنے آئی کبھی ٹکٹ لینے والے کی شکل میں کبھی بکنگ کلرک اور کبھی گاڑی میں سفر کرنے والے کی شکل میں اور اب بندے حسن کے گاڑی بان کی صورت میں وہ میرے سامنے جلوہ گر ہے، میں سوچ رہا تھا کہ بندے حسن کے اصلی ملازم کا نہ جانے کیا حشر ہوا ہو۔
اچانک میں نے سوچا کہ اگر میں اس گاڑی پر سوار ہوگیا تو کیا زندہ بچ سکوں گا۔ اور پھر میں بے تحاشہ گاڑی کی سمت پیدل ہی دوڑ پڑا۔ میرے کانوں میں بندے حسن کے ملازم کی نہیں بلکہ کانے عفریت کی آوازیں آرہی تھیں، وہ ’’بابو جی … بابو جی…‘‘ چیخ رہا تھا اور میری یہ کوشش تھی کہ میں اِن آوازوں کی حدود سے دور نکل جاؤں۔
جب میں کافی دور نکل گیا تو میرے ہوش و حواس اپنی جگہ پر واپس آئے۔ میرا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ چہرے پر موت کی زردی چھائی تھی۔ اسی لمحہ یہ انکشاف ہوا کہ وہ عفریت اپنا کام کرگیا کیونکہ میری بغل میں جو بیگ تھا اس کا کوئی پتہ نہ تھا کیا وہ پان والے کی دوکان پر رہ گیا۔ یا راستے میں کہیں گرگیا، کچھ پتہ نہ تھا، لیکن اس بیگ کو تلاش کرنے واپس جانے کی ہمت میرے اندر نہ تھی۔
خدا خدا کرکے گاؤں پہنچا اور اپنے عزیز کے یہاں گیا۔ میں نے وہاں کسی سے بھی اپنے ساتھ پیش آنے والے ان پراسرار واقعات کے بارے میں تذکرہ نہ کیا، بلکہ اس بات کو سرے سے نظر انداز کرگیا۔
لیکن جب موت سر پر منڈلا رہی ہو۔ اور جب حالات کسی طرح پیچھا نہ چھوڑیں تو پھر کیا علاج ہے آج صبح سے جو کانوں کی یلغار میرے اوپر ہوئی تھی اس کی وجہ سے ایک عدد کتاب اور چند قیمتی کاغذات کے ساتھ ایک عدد بیگ سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
شاید آپ یقین نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب میں کھانا کھانے کے لیے اپنے عزیز کے ساتھ دستر خوان پر پہنچا تو میری جان ہی نکل گئی کیونکہ دسترخوان پر بھی ایک عدد کانا موجود تھا۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ اب میں کسی بھی حالت میں زندہ بچ کر نہیں جاسکتا کیوں کہ اب تک تو بات کتاب اور بیگ تک ہی محدود تھی، لیکن دسترخوان پر کسی کانے کی موجودگی اس بات کا واضح ثبو ت تھا کہ اب شاید یہ کہانی اپنے بھیانک اختتام کو پہنچنے والی ہے۔ حالانکہ میرے عزیز اس کانے کو بار بار بھائی صاحب کہہ کر مخاطب کررہے تھے لیکن میں یہ بات کسی طور پر ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ وہ کانا کوئی انسان ہوگا۔
میں کس طرح واپس گھر آگیا یہ میںخود نہیں جانتا، میرے اعصاب پر کانے آج بھی بری طرح سوار ہیں۔ میں انتہائی محتاط زندگی گزار رہا ہوں۔ کسی بھی ایسے پروگرام میں نہیں جاتا جہاں کسی کانے کی موجودگی کا شبہ ہو۔ کسی مشاعرے کی دعوت ملتی ہے تو میں مشاعرے کے منتظمین سے بلاتکلف کہہ دیتا ہوں کہ مشاعرہ میں کسی کانے کی شرکت میرے لیے ناقابلِ برداشت ہوگی۔
آج بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو کانپ کر رہ جاتا ہوں۔ میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ میرے وہ واقف کار جو توہم پرستی کے باوا آدم ہیں مجھ سے اب بہت خوش ہیں… کیوں نہ ہوں … میں ان کے فلسفے کا قائل جو ہوگیا ہوں۔