کانٹے

تسنیم حسین شیخ

رافعہ کا ذہنی توازن بگڑ چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے اسے اسپتال میں داخل کرلیا۔ وہ بستر پر لیٹی خلاؤں میں دائرے بنارہی تھی۔ اسے اپنے ارد گرد کا بالکل ہوش نہ تھا۔ ماں سے اپنی لختِ جگر کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ انھوںنے کینو چھیل کر رافعہ کو مخاطب کیا: ’’بیٹا رافعہ! لو یہ کینو کھالو۔‘‘ مگر رافعہ ہنوز خلاء نوردی میں مصروف تھی۔ اس نے تو جیسے ماں کی آواز سنی ہی نہ تھی۔ یک دم وہ اٹھ بیٹھی اور ماں کو خطرناک انداز میں گھورنے لگی۔ پھر اٹھی اور تیز تیز قدموں سے کمرے میں گھومنے میں محو ہوگئی… ’’ماردوں گی، جلادوں گی۔‘‘ وہ خونخوار لہجے میں گویا ہوئی۔ ہاتھ چلانے شروع کیے… ماں نے کمرے میں موجود دوسرے مریضوں کی جانب دیکھا جو اپنی اپنی خیالی دنیاؤں میں کھوئے ہوئے تھے۔ ہر کوئی کسی سوچ یا حرکت میں مبتلا تھا۔ ماں نے اٹھ کر رافعہ کو دم کیا اور پکڑ کر بستر پر بٹھایا۔ لیکن وہ ہر قیمت پر ماں سے ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہتی تھی… ماں سوچ رہی تھی: مولوی صاحب کے علاج سے بھی کوئی فرق نہ پڑا… انھوں نے بتایا تھا اس پر سات جنوں کا سایہ ہے۔ اے اللہ میری نازوں میں پلی بچی کا کیا حال ہوگیا۔ نہ جانے کس گندی روح کے جال میں پھنس گئی؟ ڈاکٹرز نے جو نسخہ تجویز کیا تھا… وہ دوائیاں بھی دے رہی ہوں مگر ہنوز کوئی افاقہ نظر نہیں آرہا … آخر کیا کروں…!! اسے کہاں لے کر جاؤں…!! غرض یہ کہ ماں کا دل پریشان تھا، طرح طرح کے خیالات انھیں ستارہے تھے۔ بیٹی کی تیمارداری نے انھیں ادھ موا کرڈالا تھا۔ وہ عمر کے اس دوراہے پر تھیں جہاں ان کی خدمت ہونی تھی، لیکن وہ بیٹی کی فکروتردد میں محو تھیں۔
’’رافعہ بیٹی کھانا کھالو… رات بہت ہوچکی ہے۔ میری پیاری بیٹی کو بھوک لگی ہوگی۔‘‘ ماں نے شفقت سے اس کے گال پر ہاتھ پھیرا۔
رافعہ ایک دم خیالوں کی دنیا میں چلی گئی۔ وہ آٹھ بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھی۔ گوری چٹی رنگت کے باعث ذرا فخر سے گردن تنی رہتی۔ اسکول میں بھی اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ ایک مرتبہ میڈم بدر نے جب اپنی موٹی موٹی آنکھیں نکال کر ہوم ورک مکمل نہ ہونے پر ڈانٹا تو وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔ جب سے تمام ٹیچرز کو حکم تھا کہ وہ رافعہ کو کچھ نہ کہیں۔ ادھر میٹرک کرتے ہی ایک اچھا رشتہ آیا اور ماں نے ہاتھ پیلے کردیے۔
والد ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھے، والدہ بھی ٹیچر تھیں۔ دونوں نے زندگی کے سرد وگرم میں بڑے انہماک سے بچوں کی پرورش کی تھی۔ میانہ روی سے چلنے والے اس خاندان نے تھوڑے بہت انتظام سے رافعہ کو وداع کیا۔ بڑے بھیا کی بھی جلد ہی شادی کردی گئی۔ وہ ثانیہ بھابی سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے مبشر کو سب ہی دل و جان سے چاہتے تھے۔ گھر میں سارا دن ٹیوشن والے بچوں کی شفٹ لگی ہوتی۔ اس قدر سخت محنت کے دوران ننھے مبشر کی کلکاریاں گھر میں رونق کردیتیں اور سب ہی افراد اس کی خوش گفتاری میں مصروف ہوجاتے۔ ثانیہ بھابی کچن میں مگن رہتیں۔ انھوں نے اپنی خد مت اور خوش اخلاقی سے پورے گھر کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ شادی کے کچھ عرصے بعد رافعہ پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ وہ ماں بننے کے قابل نہیں۔ اس کی ساس اپنے بیٹے کامل کی اولاد کو گود میں کھلانے کی بہت شوقین تھیں۔ انھوں نے علاج معالجے میں کسر نہیں چھوڑی، لیکن سب بیکار رہا۔ پھر مولویوں کے چکروں میںآگئیں۔ وہیں سے پتا لگا کہ سات جنوں کا سایہ ہے۔ انھوں نے اس بچی کو اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے۔ اور پھر کالا بکرا، مٹھائیاں وغیرہ اور بے شمار الجھاوے اخراجات کی مد میں شروع ہوگئے۔ رافعہ کی والدہ پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ وہ ان باتوں پر یقین نہیں کرتی تھیں، لیکن بچی کی محرومی نے انھیں بھی ایسی لغویات میں ڈال دیا۔
ہر طرف سے ناامید ہوکر کامل نے اپنی بہن کا نومولود بچہ گود لے لیا۔ لیکن رافعہ اس میں بھی اپنی ممتا کو تسلی نہ دے پائی۔ وہ سوچتی کہ اپنی اولاد کو مارلو، ڈانٹ ڈپٹ بھی کرلو، لیکن دوسرے کی اولاد کو کتنا ہی دل و جان سے پالو، پھر بھی غیر ہی کہلاتی ہے۔ کبھی اپنی نہیں بنتی… اور اپنا آپ ایک مجرم بن کر رہ جاتا ہے۔
ان دس برسوں میں بھابھی ثانیہ کے ہاں عروج اور جنید کے بعد طلحہ نے اضافہ کرڈالا۔ رافعہ سسرال کے ظلم و ستم سہہ کر اب پھر گھر آبیٹھی تھی۔ ساس نے صبح و شام طعنے دے دے کر اس کا جینا محال کرڈالا تھا۔
دوسری طرف بڑی بہن تھی جو کہ شادی کے تقریباً پندرہ سال بعد بھی ماں نہ بن سکی تھی۔ رافعہ اپنی بہن روحانہ کے بے اولاد ہونے پر بھی کڑھتی رہتی۔ دوسری طرف بھابی چار بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔ دونوں بہنیں ذہنی تناؤ میں رہنے لگیں۔ ان کے لہجہ کی کٹرواہٹ سے کوئی محفوظ نہ رہتا۔ جو بھی مخاطب ہوتا، جلے بھنے جواب پاتا اور اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا۔ رافعہ اکثر بھتیجے بھتیجی کے کھلونے گھر کی صفائی کے دوران ڈسٹ بن میں پھینک دیتی تھی۔ بظاہر تو وہ بچوں میں خوش نظر آتی، لیکن اندر سے کڑھتی رہتی کہ اللہ نے اسے اولاد کی نعمت سے کیوں نہ نوازا۔ یہ خلش بڑھتی جارہی تھی۔ پھر دوسرے بھائی جواد کی شادی ہوئی اور دوسرے سال ہی اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ اب تو رافعہ جل بھن کر کباب ہوگئی۔ خاندان میں اور بھی کزنز کی شادیاں ہوئیں اور وہ پہلے سال ہی میں اولاد کی نعمت سے سرفراز ہوگئے۔ اس کا شوہر کامل ہر ممکن کوشش کررہا تھا کہ رافعہ گھر بسالے، لیکن رافعہ کو نہ جانے کیا چڑ لگ چکی تھی۔
کامل کی والدہ نے بہت انتظار کیا کہ رافعہ گھر آجائے۔ لیکن وہ اپنی ساس کے طعنوں سے دلبرداشتہ ہوچکی تھی۔ سارا دن سسرال والوں کی خدمت کرتی، پھر بھی اسے بے اولاد کے طعنے ملتے تھے۔ اب تواس کی ساس نے اپنے بیٹے کی دوسری شادی کی رٹ لگا رکھی تھی جو کہ رافعہ کو کسی طرح بھی منظور نہ تھی۔ کامل نے بہت کوشش کی کہ وہ لکھ کر دے دے، اس کی عزت میں کوئی کمی نہ آئے گی۔ آنے والی اس کی بھی خدمت کرے گی اور بچے رافعہ پال لے گی۔ لیکن رافعہ کا ہنوز ایک ہی جواب ہوتا:’’مجھے یہ منظور نہیں۔‘‘ رافعہ کے والد بہت غمگین رہنے لگے۔ انھیں رافعہ کی ضد کے باعث گھر بگڑتا نظر آرہا تھا۔ سب ہی نے اسے سمجھایا کہ تم اجازت دے دو، لیکن رافعہ کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔
آخر کار کامل اور اس کی والدہ نے جب کوئی امید نہ پائی تو طلاق دے دی۔ رافعہ پر یہ خبر بجلی کی طرح گری۔ وہ اپنا ذہنی توازن برقرار نہ رکھ سکی۔
اب اسے گھر کا ہر فرد مجرم نظر آتا۔ وہ ڈنڈا لے کر بچوں کو مارتی۔ اسے دوپٹے کا ہوش نہ رہتا۔ اکثر گھر سے باہر بھی نکل جاتی۔ چھتوں پر گھومتی اور خالی نظروں سے آسمان کی طرف تکتی رہتی۔
بچے نظر آتے تو ان کے پیچھے لے کر بھاگتی۔ بچوں سے چڑتی۔ ان کی معصوم شرارتوں پر طیش میں آجاتی۔ آخر کار سدھار کی کوئی امید نظر نہ آئی تو اس کی والدہ نے اسے اسپتال میں داخل کرانے میں ہی عافیت جانی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146