بوڑھا دبلا اور نحیف، سر پر میلی کچیلی گاندھی ٹوپی اور ٹوپی سے جھانکتے کھچڑی بال اس بات کے شاہد تھے کہ بوڑھے نے کئی دنوں سے حجامت نہیں بنوائی۔ ٹوپی کے نیچے باسی آلو جیسا جھریوں بھرا چہرہ، پرشکن پیشانی، پیشانی میں دھنسی ہوئی آنکھیں، آنکھوں کے درمیان لمبی ناک جو منہ میں دانت نہ ہونے کی وجہ سے ہونٹوںپر جھک گئی تھی۔ چہرے پر بے ترتیب ڈاڑھی جسے شاید عرصہ ہوا صابن سے دھویا نہیں گیا تھا اس لیے ڈاڑھی کے بال زردی مائل ہوگئے تھے۔
وہ بوڑھا میلے کچیلے قمیص پاجامے میں ملبوس اسٹک واک ہاتھ میں لیے رکوع کی حالت میں جب راستے سے گزرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو مجھے جانے کیوں ایسا لگتا ہے جیسے وہ راستہ پر اپنی قبر تلاش کر رہا ہے۔ یہ خیال اس وقت کا ہے جب میں بارہ تیرہ سال کا بھی نہیں تھا۔
بوڑھا میرے محلے میں ہی رہتا ہے اس لیے میری اس سے اچھی خاصی شناسائی ہے۔ میں اسے ’’دادا جان‘‘ کہتا ہوں اور وہ مجھے کبھی بیٹا اور کبھی بابا کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔
میںجب تقریباً بارہ تیرہ سال کا تھا تب اس نے مجھے کبھی بیٹا نہیں کہا تھا اور پیار سے بابا کہہ کر پکارا تھا اور میں نے بھی اسے کبھی دادا جان کہہ کر مخاطب نہیں کیا تھا بلکہ اپنے ہمجولیوں کے ہمراہ اکثر اسے ستایا کرتا تھا۔
ان دنوں جب بھی وہ راستے سے گزرتا دکھائی دیتا میں اور میرے ہمجولی کسی گھر کی دیوار کی اوٹ میں چھپ کر ’’کبڑا پیڑ‘‘ کی صدا لگاتے اپنے بدن کی ساری قوت یکجا کر کے چلاتے ’’کبڑا پیڑ، کبڑا پیڑ‘‘۔
ہماری آوازیں جیسے اس کے لیے پتھر بن جاتیں، ایسے پتھر جو شریر بچے کسی دیوانے کو مارتے ہیں۔ وہ اسٹک واک راستے پر پٹخ کر ایسے رک جاتا جیسے زمین میں اس کے پاؤں دھنس گئے ہوں۔ پھر وہ اسٹک واک پر وزن دے کر تھوڑا سیدھا ہوتا اور ہمیں نہایت غلیظ گالیاں بکنے لگتا…
بوڑھے کی گالیاں ہمارے کانوں میں جیسے شہد گھولنے لگتیں۔ ہم تالیاں بجا بجا کر ناچا کرتے تھے۔ کتنا مزا آتا تھا اس کی گالیاں کھانے میں۔ جیسے وہ ہمارے لیے گالیاں ہنیں تھیں، گدگدانے والے پیارے پیارے کلمات تھے۔ تازہ تازہ چٹکلے تھے۔ نہیں وہ گالیاں جیسے انگلیاں تھیں، گدگدی کرنے والی انگلیاں جو ہماری پسلیوں میں ہماری بغلوں میں سرسراتی تھیں۔
بوڑھے کی گالیوں کا لطف حاصل کیے زمانہ گزر گیا۔ پندرہ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ میں اب بوڑھے کو دادا جان کہتا ہوں اور وہ مجھ سے کبھی بیٹا اور کبھی بابا کہہ کر مخاطب ہوتا ہے اور محلے کے بچے اسے ’’کبڑا پیڑ‘‘ کہہ کر اب بھی چڑاتے ہیں اور وہ انہیں ویسی ہی گالیاں بکتا ہے جیسی ہمیں دیا کرتا تھا۔
میں اکثر ان بچوں کو ڈانٹتا ہوں، لیکن جب میں انہیں ڈانتا ہوں تب ہی میرے اندر کا ماضی مجھے گدگدانے لگتا ہے اور بے اختیار جی چاہنے لگتا ہے کہ میں بھی ان بچوں جیسا بچہ بن جاؤں اور بوڑھے کی گالیوں کا لطف اٹھاؤں جو اس کے بدن سے ساری قوت سمیٹ کر فوارے کے پانی کی طرح نکلنے لگتی ہیں۔ غلیظ غلیظ گالیاں، میری پسلیوں اور بغلوں میں گدگدی کرنے والی انگلیاں بن کر مچلنے لگتی ہیں تاہم میں اپنے اندر کے احساسات کو لگام دے کر بچوں کو ڈانتا ہوں۔
’’کبڑا پیڑ‘‘ بوڑھے کی یہ چڑ کس نے نکالی میں نہیں جانتا۔ ہاں اس کی زندگی کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد وہ مجھے حقیقتاً ’’کبڑا پیڑ‘‘ ہی لگا جو پھلوں کے بوجھ سے کبھی سیدھا نہ ہونے کے لیے جھک چکا ہے۔
اس کے پھل؛ اس کی اولادیں ہیں۔
کہتے ہیں وہ بڑا جفاکش آدمی تھا۔ اس نے اپنے بیٹوں کی پرورش کے لیے کڑی محنت کی تھی۔ سردی، گرمی، برسات میں جانوروں کی طرح کھیتوں میں کام کیا کرتا تھا اور جب کھیتوں میں کام نہ ہوتا تو وہ دیگر محنتی کام کرتا تھا۔ ہمیشہ اس پر زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی دھن سوار رہتی تاکہ وہ اپنے بیٹوں کو شہر کی معیاری درس گاہ میں پڑھا سکے۔
بڑا فرزند گاؤں کے قریب شہر میں کسی پرائیویٹ فرم کا منیجر بن گیا تھا اور شہر میں ہی اپنی زندگی شان سے گزار رہا تھا۔ چھوٹا بیٹا بھی اسی شہر میں پی، ڈبلیو ڈی ڈپارٹمنٹ میں کلرک تھا اب ہیڈ کلرک بن گیا ہے وہ بھی وہیں رہتا ہے۔
محلے کے ایک بزرگ نے جو بوڑھے کے ہی ہم عمر ہیں ایک دن مجھ سے کہا تھا ’’بوڑھے نے کڑی محنت سے پیسہ کما کر اولاد کی جیسی پرورش کی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس نے خود پیوند لگا لباس پہنا اور اولاد کو اچھا لباس پہنایا۔ خود زندگی کی تکلیف سہتا رہا اور اولاد کو سکھ میں رکھا، شہر کی معیاری درس گاہوں میں انہیں پڑھایا تاکہ وہ معیاری انسان بنیں اور سماج کی اچھی سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل ہوسکیں۔
اس کے دونوں فرزند تعلیم حاصل کر کے ایک ایسی سوسائٹی میں بیٹھنے کے لائق تو بن گئے جسے سماج اچھی سوسائٹی تسلیم کرتا ہے، مگر وہ اچھی سوسائٹی میں بیٹھ کر اپنے باپ کو اس طرح بھول گئے جس طرح چھپکلی اپنی کٹی دم بھول جاتی ہے۔ پر کیا مجال بوڑھے نے کبھی حرف شکایت زبان پر لایا ہو۔ بڑا صابر، شاکر آدمی ہے وہ! زہر بھی مسکرا کر پی جانے والا، دکھ سہہ کر سکھ بانٹنے والا، غم پی کر خوشی دینے والا۔ سچ مچ وہ پھل دار پیڑ ہے جو صرف پھل دیتا ہے۔ لیتا کچھ نھیں!‘‘
میں نے اخلاقاً بزرگ کی باتیں سر جھکا کر سن لیں اور اقرار میں سر بھی ہلا دیا لیکن میرا ذہن ان کی باتوں سے متفق نہیں تھا۔
میں سوچ رہا تھا ’کبڑا پیڑ‘ کا کردار اگر اتنا بلند ہے تو پھر وہ بچوں کو غلیظ گالیاں کیوں بکتا ہے۔ جب بچے اسے جڑاتے ہیں تو بہرا کیوں نہیں بن جاتا؟ چند ماہ پہلے بزرگ کی باتیں سن کر یہ سوال میرے ذہن میں پیدا ہوا تھا۔
آج میں اپنے بھلے کے بھوت کو دیکھ کر کچھ اور ہی سوچ رہا ہوں۔
بچے جن کے چہروں پر شگفتگی تھی نہ تو شوخی اور نہ شرارت کا چلبلاپن ان کے چہرے بالکل سپاٹ تھے، میں کیا نام دوں بچوں کے سپاٹ چہروں کے خالی پن کو، کونسی تشبیہ؟ میرا ذہن ان کے چہروں کا خالی پن دیکھ کر بالکل سنسان ہوگیا ہے۔
وہ سب بچے نکڑ پر ایک شکستہ مکان کی چھترائی چھاؤں میں ایسے گم صم کھڑے تھے جیسے پتھر کے ننھے منھے مجسّمے۔ کتنا اذیت ناک لگتا ہے بچوں کا مجسّمے کی طرح دکھائی دینا اور اس راستے کا سنسان رہنا جس پر ان کے کھیلوں اور ان کی شرارتوں کا شور و غل مچا رہتا تھا۔ کیسا لگتا ہے ایسا سنسان راستہ جیسے …جیسے کرفیو زدہ علاقہ، جیسے پاش کالونی کی سنسان سڑکیں، جیسے قبرستان میں قبروں کے درمیان بنے راستے۔
راستے کے سناٹے کو دیکھ کر پہلی بار مجھے یہ اذیت ناک احساس ہوا کہ بچوں کی شرارتیں ان کے کھیل، ان کے قہقہے، ان کا شور و غل نہ ہو تو ماحول کس قدر شمشان اور قبرستان کا سا ماحول لگتا ہے۔ اداس، اداس! جیسے زندگی جل کر راکھ بن گئی ہو، مٹی میں دب کر خاک ہوگئی ہو۔
میں بے محابا بچوں کے پاس پہنچا، کیوں بچو! کیا ہوگیا تمہیں! آج ایسے کیوں کھڑے ہو؟
ایک بچہ ان بچوں کے درمیان سے نکل کر سر جھکائے میرے قریب آیا۔
یہ تو وہی بچہ تھا… ہاں وہی بچہ میں اس بچے کو کیسے بھول سکتا ہوں… کچھ دن قبل جس کے جملوں اور جس کے چہرے کے بھولپن نے مجھے معصومیت کے صحیح مفہوم سے روشناس کرایا تھا۔
ہوا یہ تھا کہ بچے کے دادا جان کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے دادا جان کی لاش کو غسل دے کر کفن پہنا کر گہوارے میں رکھ دیا گیا تھا۔
میں وہیں کھڑا تھا جب اس بچے نے گہوارے میں رکھی کفن میں لیٹی اپنے دادا جان کی میت دیکھ کر اپنے ابا جان سے دریافت کیا تھا ’’ابو ابو! دادا جان دیکھیے نا کیسے لگ رہے ہیں۔ بالکل چوکلیٹ جیسے… ہے نا!‘‘
میں چونک کر اس بچے کے چہرے کو دیکھنے لگا تھا۔ ایک عجیب شرارت آمیز بھولپن اس کے چہرے پر نمایاں تھا۔
آج اس بچے کے چہرے پر بھی وہ شرارت آمیز بھولپن نہیں تھا۔ ایک گہری افسردگی چھائی ہوئی تھی۔
وہ چند لمحے سر جھکائے میرے قریب کھڑا رہا۔ پھر میری طرف آنسوؤں میں ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کے کومل لب کانپے۔ کپکپاتی آواز میں وہ بولا ’’کبڑا پیڑ مرگیا!‘‘
’’آں!‘‘ میرے ذہن کو ایسا جھٹکا لگا کہ دل سینے میں دھک سے ہوکر رہ گیا۔
پیشانی پر شکنوں کا جال تن گیا۔ بھوئیں پیشانی پر چڑھ گئیں، میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے بچوں کو دیکھنے لگا جو آنسوؤں کا سمندر اپنی پلکوں میں سمیٹے اس راستے کو تک رہے تھے جو کبڑا پیڑ کے گھر تک جاتا ہے۔
راستہ سنسان پڑا تھا۔
مجھے یاد آیا، ایک دن اسی راستہ کو سنسان دیکھ کر ’’کبڑا پیڑ‘‘ بیچ راستے میں رک گیا تھا اور مجھے سے پوچھنے لگا تھا۔
’’بیٹا! اپنے محلے کے سب بچے کہاں گئے، کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے؟‘‘
دادا جان! میں نے ان بچوں کو جو تمہیں ستایا کرتے تھے کل بہت دانٹا اور کچھ بچوں کو مارا بھی۔ اسی لیے شاید آج بچے انہیں دیکھ کر اپنے اپنے گھروں میں گھس گئے ہیں!‘‘
میری بات سن کر ’’کبڑا پیڑ‘‘ کا جھریوں سے بھرا چہرہ یکلخت بدل گیا تھا۔ غصہ ، ناگواری اور اذیت کے ملے جلے تاثرات اس کے چہرے پر امنڈآئے تھے۔
’’کیوں! کیوں کیا تم نے ایسا؟ کیوں مارا بچوں کو؟ کیوں مارا!‘‘ اس کے لہجے میں لرزش آگئی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ بچے مجھے چڑاتے ہیں تو میں ان سے ناراض ہوتا ہوں! نہیں بیٹا… نہیں، ایسا نہیں ہے، میں انہیں جو گالیاں دیتا ہوں نا وہ صرف اسی لیے کہ وہ میری گالیاں کھاکر خوش ہوتے ہیں۔ ان کی خوشیوں اور ان کے قہقہوں میں اضافہ کرنے کے لیے ہی تو میں چڑتا ہوں بیٹا، کیا تم نہیں جانتے بچپن ہی انسانی زندگی کا وہ مختصر سا وقت ہے جس میں وہ دل کی گہرائیوں سے خوش ہوتا ہے ہنستا ہے، قہقہے لگاتا ہے۔ بڑا پاکیزہ ہوتا ہے بچپن، خدا کے لیے بچوں سے ان کی خوشی، ان کے قہقہے مت چھینو! آئندہ اس بات کا خیال رکھنا! یہ کہہ کر اس نے آسمان کی طرف سر اٹھایا۔ ایک سرد آہ کھینچ کر نہایت درد بھرے لہجے میں جیسے وہ آسمان سے مخاطب تھا۔ میرے بچوں کا بچپن، ان کی شرارتیں، ان کے قہقہے کتنے اچھے تھے ہائے کتنے اچھے!‘‘
کبڑا پیڑ کے الفاظ میرے ذہن میں آج صدائے بازگشت بن گئے تھے اور میں بچوں کو دیکھ رہا تھا جن کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور ان کے چہرے اس پھول کی طرح مرجھائے ہوئے تھے جنہیں ٹہنی سے توڑ لیا گیا ہو۔lll