کتاب اور زندگی

عاطف مرزا

آپ نے یقینا ایسی کئی کتابوں کے بارے میں سنا ہوگا جو پڑھنے والے کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتی ہیں، جنہیں پڑھنے کے بعد پڑھنے والا خود کو ایک بہتر انسان محسوس کرتا ہے، اس کی سوچ میں وسعت آتی ہے یا وہ اپنے اندر ایک نیا حوصلہ اور امید ڈھونڈ لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی کتاب بھی انسان کو نہیں بدل سکتی جب تک خود اس کے اندر اپنے آپ کو بدلنے اور بہتر بنانے کی خواہش موجود نہ ہو۔ دو افراد ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں، ایک اس سے بہت متاثر ہوتا ہے اور اپنی سوچ بدل لیتا ہے جب کہ دوسرا شخص اسے پڑھ کر کچھ بھی ایسا محسوس نہیں کرتا کہ وہ اپنے اندر کوئی مثبت تبدیلی لے کر آئے۔ یہاں سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ کتاب نہیں بلکہ خود انسان اپنے اندر تبدیلی کو جنم دیتا ہے۔ جب آپ پڑھنے کے ساتھ ساتھ غور و فکر بھی کرتے ہیں، اپنے پہلے سے قائم شدہ تصورات کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور خود کو بدلنے کے لیے تیار بھی رہتے ہیں تو صرف اسی وقت کتاب اپنا اثر دکھاتی ہے اور آپ کے اندر مثبت تبدیلی کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔

اس مرحلے پر میں آپ کو دو منظر دکھانا چاہتا ہوں، پہلے منظر میں ایک طالب علم کتاب پڑھ رہا ہے، وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر وہ اس عمل سے پوری طرح بیزار دکھائی دے رہا ہے۔ وہ اس سے ذرا بھی لطف اندوز نہیں ہو رہا۔ اس کے ذہن پر صرف ایک ہی خوف سوار ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ کل اسکول میں اس کتاب کے بارے میں ہونے والا ٹیسٹ پاس کرلے۔ دوسرے منظر میں ایک شخص کتاب پڑھ رہا ہے۔ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے سامنے اپنی لاعلمی، اپنی غفلت اور کمزوریوں کا نقشہ بھی آرہا ہے۔ اسی حالت میں اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں جو کتاب کے صفحات گیلے کرتے جا رہے ہیں۔ وہ کہاں بیٹھا ہے؟ اسے اس کی کچھ خبر نہیں۔ وہ پوری طرح کتاب میں کھو چکا ہے۔ کتاب کا ایک ایک لفظ تاثیر سے بھرا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی اپنے آپ کو بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے پوری طرح چوکس ہے۔ پہلے منظر میں کتاب پڑھنے والا اپنے اندر کوئی بھی مثبت تبدیلی لانے میں ناکام ہے جب کہ دوسرے منظر میں کتاب کی تاثیر صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض اوقات بدلنے والے ایک چھوٹی سی تحریر یا مقولہ پڑھنے سے بھی بدل جاتے ہیں۔

کوئی بڑی کتاب ہماری زندگی کو کسی حد تک متاثر کرسکتی ہے، اس کی شاندار مثال لیسا کی کہانی ہے۔ لیسا کی عمر ۲۲ سال تھی اور وہ ایک کمپنی میں سافٹ ویئر انجینئر تھی۔ اس کی ملازمت اچھی تھی لیکن وہ سمجھتی تھی کہ اس ملازمت میں اس کی پوری شخصیت کا اظہار نہیں ہو رہا ہے۔ وہ سوچتی کہ اسکول کے زمانے میں وہ اس سے کچھ مختلف بننے کا خواب دیکھتی تھی یا اس کے قریبی لوگ اسے کسی مختلف شخصیت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی سوچ اسے اپنی زندگی کے مقصد کی تلاش پر مجبور کرتی رہتی تھی۔ وہ کمپنی میں اپنی ایک سینئر خاتون سے بڑی متاثر تھی۔ اس خاتون کی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ اور اطمینان اسے بہت متاثر کرتا تھا۔ سینئر خاتون نے لیسا کو اسٹیفن کوہن کی کتاب ’’پراثر لوگوں کی سات عادات‘‘ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اس کتاب نے لیسا کو ایک مختلف انداز سے جینا سکھا دیا۔ اسٹیفن کے مشورے کہ ’’اپنی زندگی کا انجام ذہن میں رکھ کر زندگی گزاری جائے‘‘ نے اسے بہت متاثر کیا۔ وہ اس بات پر سوچنے لگی کہ مرنے کے بعد لوگ اسے کس کامیابی کے حوالے سے یاد رکھیں گے۔ اس نے سیکھ لیا تھا کہ وہ صرف وہی کام کرے گی جو اس کے لیے اہم ہیں۔ اس نے اپنی پوری زندگی کا جائزہ لیا اور اپنی کئی خواہشات اور منصوبوں کو ترک کر دیا۔ اس نے اپنے اندر کی آواز محسوس کی تو اسے لگا کہ سافٹ ویئر انجینئر کے بجائے موٹیویشنل اسپیکر بننا اس کی زندگی کا مقصد ہے۔ آنے والے برسوں میں اس نے بے شمار لوگوں کی زندگی میں ولولہ، جوش اور امید کی روشنی پیدا کی۔ وہ اپنا ہر دن اس طرح گزارتی رہی جیسے وہ چاہتی تھی کہ دنیا اسے یاد رکھے۔

لیسا کی زندگی میں تبدیلی لانے والی کتاب ’’سات عادات‘‘ بیسویں صدی میں لکھی گئی اہم کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ دیانت دارانہ اور پروقار زندگی گزارنے کا پیغام دیتی ہے۔ معروف مصنف انتھونی رابز نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ کتاب ضرور خریدیں لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسے استعمال بھی کریں۔ کسی بڑی کتاب کی سچائیوں کا اطلاق اپنی زندگی پر کرنا دشوار ہوتا ہے۔ سات عادات سے مصنف نے خود اقرار کیا کہ اپنی اس کتاب میں میں نے جو باتیں لکھی ہیں ان پر عمل کرنے کے لیے مجھے خود بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن یہ محنت ضروری بھی ہے اور اطمینان بخش بھی، یہ میری زندگی کو معنی دیتی ہے۔

جب آپ کتاب پڑھیں تو اپنے سامنے کوئی واضح مقصد بھی رکھیں، اسی صورت میں پڑھنا ہمارے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ ڈیل کارنیگی اپنی عظیم کتاب ’’پریشان ہونا چھوڑئیے اور جینا شروع کیجئے‘‘ میں اپنے قارئین کو یہی مشورہ دیتا ہے۔ اپنی کتاب کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس کتا ب کے پانچ ابواب پڑھ جائیے، اگر انہیں پڑھنے کے بعد آپ کو اپنے اندر ایک نئی قوت کا احساس نہ ہو جس سے آپ اپنی پریشانیوں پر قابو پاسکیں اور آپ کے دل میں نئی زندگی کی تڑپ پیدا نہ ہو تو اس کتاب کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیجئے۔ یہ کتاب آپ کے کام کی نہیں۔ مصنف کے خیال میں اگر قارئین پرانی عادات کو چھوڑ کر نئی زندگی اپنانا نہیں چاہتے تو کتاب ان کے لیے کسی طرح کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔

آپ اس بات پر بھی غور کریں کہ اسکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کو ایک طویل عرصے تک اعلیٰ ادب پڑھایا جاتا ہے۔ اس کوشش کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ عملی زندگی میں بھی اعلیٰ ادب کی سچائیوں سے فیض یاب ہوتے رہیں۔ لیکن عملی زندگی میں ان کی اعلیٰ ادب سے دلچسپی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ پوری زندگی کوئی اچھی کتاب کھول کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ طالب علم صرف مجبوری کے باعث کتابیں پڑھتے ہیں۔ تعلیمی ادارے طالب علموں کا کتابوں سے دیرپا تعلق پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ مطالعہ کو موثر بنانا اور اس سے زندگی بہتر بنانا خود ہمارے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ اگر ہم خود بدلنے کے لیے تیار نہ ہوں تو کوئی بڑی سے بڑی نصیحت بھی ہمارے لیے کارگر نہیں ہوسکتی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں