کتنی حسین ہے وہ!!! جس کا تصور دنیا وما فیہا سے زیادہ دلکش اور جس کی یاد جہان آب وگل سے زیادہ محبوب ہے۔ کیا وہ کوئی ساحل سمندر پر فلک بوس جاذب نظر عمارت ہے؟ یا نگاہوں کو خیرہ کردینے والی بیش قیمت کار ہے جس کے حصول کے لئے تمنائیں مضطرب ہوجاتی ہیں؟ یا کوئی ماہ رخ ہے جس کا جمال ذہنوں پر راج کرتا ہے اور نیندوں پر شب خون مارتا ہے۔
ان سے ملئے، حنظلہ بن ابی عامر انصاری، غسیل الملائکہ (وفات کے وقت آپ کو فرشتوں نے غسل دیا)، قبیلہ بنی أوس نے جب خزرج پر فخر جتانا چاہا تو کہا کہ ہم میں تو غسیل الملائکہ ہیں۔ شب زفاف میں حرم سے پہلی ملاقات ہے کہ اعلان جہاد ہوگیا، اللہ اور اس کے رسول کی محبت دنیا کی ساری لذات پر وزنی ثابت ہوئی، غسل کرنا بھی اطاعت امر میں تاخیر جانا اور میدان کارزار میں شہادت کے رتبہ بلند کو جا پہنچے ۔
یہ ہیں مصعب بن عمیر، نہایت معزز و خوش رو، خوش لباس نوجوان، ناز و نعمت میں پرورش پائی، جس گلی سے گزر جاتے دیر تک معطر رہتی لیکن جب عشق اسلام میںگرفتار ہوئے اور حلاوت ایمان کو چکھا تو سب کچھ بھول گئے، ایک دن کھاتے تو دوسرے دن فاقہ رہتا۔ غزوہ أحد میں شہید ہوئے تو کفن کے لئے صرف ایک تنگ چادر میسر ہوئی، سر چھپایا جاتا تو پیر گھل جاتے اور پیر ڈھانپتے تو سر، بالآخر سر کو چھپا دیا گیا اور پیروں پر گھاس رکھ کر رحمت خداوندی کے سپرد کردیا گیا۔
سمیہ بنت خباط (زوجہ یاسر) عمر دراز اور فقیرہ لیکن شدائد کے مقابل ایک چٹان ، اولین مسلمانوں میںہیں۔ سخت مصائب اور ان پر آپ کا صبر اور اولوالعزمی دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آل یاسر صبر کرو تمہارا ٹھکانا جنت ہے۔ نیزہ ابوجہل اس پر عزم مومنہ کے ایمان سے ٹکراکر کند ہوگیا۔ راہ اسلام میں اول شہیدہ کا رتبہ بلند حاصل کیا۔
ہاں! یہ حب الہی ہے جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، جس کا نشہ سارے عالم سے بے نیاز کردیتا ہے، جس قلب کو مسکن بناتا ہے وہاں اپنی تپش سے دوسری ساری محبتوں کو جلا کر خاکستر کردیتا ہے۔ جب یہ رنگ لاتا ہے تو اکلوتے فرزند کو بھی ذبح کرنے کے لئے آستین چڑھالیتا ہے، تمام اثاثہ حیات فی سبیل اللہ لٹا دیتا ہے، رسول اللہ کی جانب بڑھتے تیروں کے سامنے انسانی ڈھال بن جاتا ہے، دہکتے انگاروں پر لیٹ جاتا ہے۔
کیا ہم نے بھی کبھی اس لذت کو محسوس کیا جس کے بعد اس جہان کی ساری لذتیں بے معنی ہوجاتی ہیں، جس سیل مسرت میں تمام دیگر خوشیاں خس و خاشاک کے مانند بہ جاتی ہیں، جس کی سایہ دار عنبریں زلفوں میں دوسری ساری راحتیں سراب نظر آتی ہیں۔ ذرا اس ذات سے دل لگاکر تو دیکھیں، اس کے سامنے سر جھکا کر تو دیکھیں، غم فراق اور شوق وصل میں دو قطرے آنسو کے بہا کر تو دیکھیں ۔
’’عجب چیز ہے لذت آشنائی۔‘‘
——