خاتون آہن،برطانیہ کی سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے ایک موقع پر سابق سوویت روس کے صدر گوربا چوف سے ایک بڑی اہم بات کہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد عظیم سوویت روس زبردست اندرونی خلفشار کا شکار ہوکر ٹوٹنے کے کگار پر پہنچ گیا تھا اور بعد میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوہی گئے۔
کسی کانفرنس میں محترمہ تھیچر، گوربا چوف اور سابق وزیر خارجہ ہند نٹور سنگھ موجود تھے۔ غیر رسمی گفتگو کے دوران اس وقت کےسوویت روس کے اندرونی خلفشار کا ذکر چھڑ گیا تو محترمہ تھیچر نے سوویتی سربراہ سےکہا:
’’آپ کو ہندوستان سے سیکھنا چاہیے جو دنیا کے سامنے کثرت میں وحدت کی بہترین مثال ہے۔‘‘
یہ ایک مثالی ہندوستان کا تذکرہ ہے جو شاید اب ماضی بنتا جارہا ہے۔ ہمارے ملک میں نفرت کی فصل کی کاشت جس بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے اسے دیکھتے ہوئے شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دنیا کے سامنے ’کثرت میں وحدت‘ کی یہ مثال کہیں گزرے زمانے کی بات نہ بن جائے۔
نفرت کی فصل اگانے اور اسے کاٹنے کی کوشش کرنے والے کون لوگ ہیں اور اس فصل کو کھاد پانی دینے اور اس کی نرائی گڑائی کے لیے وہ کیا طریقے اختیار کررہے ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔ اس وقت ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ نفرت کس طرح افراد، خاندانوں، گروہوں اور قوموں تک کو قصۂ پارینہ بنادیتی ہے اور تباہ کرکے چھوڑتی ہے۔ نفرت دراصل تشدد کی بنیاد ہے اور تشدد بڑے بڑے مضبوط معاشروں اور قوموں کو نگل جاتا ہے۔ نفرت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے تشدد کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی حد بندی اور محاصرہ یا تحدید ممکن نہیں ہوپاتی کیونکہ یہ افراد سماج کے اندر گھس کر ان کی نفسیات اور طرزِ فکر وعمل بن جاتا ہے۔ پہلے یہ ان کے خلاف کارگر ہوتا ہے جن سے نفرت کرنا سکھایا جائے اور پھر یہ انسانی نفسیات بن کر دوسری اکائیوں کو بھی اپنی زد میں لینا شروع کردیتا ہے اور جب کچھ باقی نہیں رہتا تو اس کے خلاف بھی پھوٹ پڑتا ہے جو اسے نفرت سکھا کر پروان چڑھاتا ہے۔ اس کی شروعات کہیں سے بھی ہو لیکن اس کا مکڑجال ایسا پھیلتا ہے کہ سماج کے جسم کا کوئی بھی حصہ اس کے انفیکشن سے محفوظ نہیں رہ پاتا۔
اس وقت ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر نفرت کا کاروبار زوروں پر ہے۔ اکثریتی مذہب کے لوگوں کو اقلیتوں کے خلاف اکسایا جارہا ہے اور صورتِ حال یہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے لیڈر بننے کی خواہش ہو اور سستی شہرت حاصل کرنا چاہتا ہو وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ،اتنی ہی شہرت حاصل کرلیتا ہے، جتنی وہ نفرت پھیلا سکتا ہے۔ گویا اب لیڈروں کا قد ناپنے کا پیمانہ نفرتی کاروبار ہوتا جارہا ہے۔ یہ تشویشناک بات ہے۔
اس تشویش کا سب سے بڑا پہلو اس کے ملک و سماج پر پڑنے والے اثرات ہیں جو اس کے مستقبل کو اندھیرے کی طرف لے جانے والے ہیں۔ کیونکہ ایک ترقی یافتہ قوم وہی ہوسکتی ہے جہاں پررہنے اور بسنے والے لوگ احساس امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوں۔ ایسے معاشروںمیں ہر سماج و اکائی سے تعلق رکھنے والا انسان ملکی و قومی ترقی میں اپنا خاموش کردار بہ آسانی پیدا کرتا اور ادا کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں ملکی و قومی ترقی ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف جہاں نفرت و تشدد کا ماحول پیدا کیا جائے گا وہاں امن و امان کی فضا قائم نہ رہ سکے گی اور اس سے نہ صرف اقلیتی طبقہ میں عدمِ تحفظ کا احساس پیدا ہوگا بلکہ خود اکثریتی طبقہ، جو نفرت کی آگ میں تپ رہا ہوتا ہے، وہ بھی اپنا سکون اور چین گنواکر ہمہ وقت عدم تحفظ کا شکار رہنے لگتا ہے۔ ایسے میں ملک و قوم کی ترقی محض لبھاؤنا وعدہ بن کر رہ جاتی ہے اور ہمہ جہت ارتقاء کے بجائے کمزوری اور زوال کا دور شروع ہوجاتا ہے۔
ہمیں بہ حیثیت قوم جس میں ملک کے تمام طبقات و اکائیاں شامل ہیں ،نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس کو سمجھنا چاہیے اور نفرت کی سیات کرنے والوں کے ذریعہ ملک و قوم کو پہنچنے والے نقصان کو عوام کے سامنےواضح کرنا چاہیے۔
امن و آزادی کا خواب
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے یعنی 2/ ستمبر1945 کے بعد دنیا میں استعماری طاقتوں کا سورج غروب ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کے زیر تسلط ممالک آزاد ہونے شروع ہوگئے۔اس وقت دنیا یہ امید کر رہی تھی کہ اب امن اور آزادی کا نیا دور شروع ہوگا۔یہ امید اس وقت اور زیادہ مضبوط ہوتی نظر آئی جب جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے محض دو ماہ کے اندر اندر اقوام متحدہ تشکیل پا گئی۔یہ دہائی اس حیثیت سے اہم ہے کہ اس کے نصف اوّل میں پوری دنیا نے جنگ کی ہولناکی کا مشاہدہ کیا۔دوسری بات یہ ہے کہ اسی دہائی میں استعماری طاقتوں کے چنگل سے دنیا کو آزادی ملنی شروع ہوئی اور تیسری اہم بات یہ ہے کہ اسی زمانے میں ملکوں کے حصے بخرے کرکے استعماری طاقتوں نے نئی جغرافیائی حد بندیاں قائم کیں۔ بر صغیر کی تقسیم کے علاوہ عرب دنیا میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا وجود اس کی مثالیں ہیں۔
عرب دنیا کے ساتھ بھی عجب معاملہ ہوا۔ایک طرف تو اسے چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ کر سیاسی اعتبار سے بے وزن کردیا گیا۔ دوسری طرف عین اس کے قلب میں عربوں کی سر زمین پر ایک ایسی یہودی ریاست کی بنیاد رکھی گئی جس کے شہری وہاں کے باشندے ہونے کے بجائے دنیا کے دیگر مختلف خطوں اور ملکوں سے آکر جمع ہوئے تھے۔اس طرح بڑی طاقتوں کی سازش نے اس خطے کو ایک طویل مدتی بد امنی اور کشمکش کی بھٹی میں جھونک دیا اور یہ خطہ آج بھی اس میں تپ رہا ہے۔ بھلا امن کا قیام کیسے ممکن ہوسکتا تھا جبکہ ایک طرف باہر سے آنے والے وہ لوگ تھے جنھوں نے مقامی لوگوں کی زمینوں اور ملکیتوں پر طاقت کے ذریعہ قبضے کئے تھے اور دوسری طرف وہ مجبور اور کمزور لوگ تھے جن کی زمینوں ، گھروں اور ملکیتوں پر قبضے کئے جارہے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
امن اور آزادی کے نگاڑے بجتے رہے۔قومیں استعمار کے تسلط سے آزاد ،اپنی جغرافیائی حدود میں آزاد حکومتیں قائم کرتی رہیں مگر حقیقت میں امن اور آزادی کا وہ خواب جو1945 کے عوام نے دیکھا تھا، ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ کمزور اقوام آج بھی طاقتور قوموں کے غیر مرئی ہاتھوں کی گرفت میں ہیں، طاقتور قومیں آج بھی کمزوروں کا استحصال کرتے ہوئے ان کے وسائل کو چوس رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نہ صرف قائم ہے بلکہ اس کے ممالک کی تعداد بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے اور اس کا دائرہ اثر بھی بڑھا ہے مگر دنیا میں امن قائم کرنے کی خاطر تشکیل پانے والے اس ادارے کا بھی بڑی طاقتوں کے ذریعہ استحصال ہی ہوا ہے،چنانچہ ہم دیکھتے کے امن کے نقیب اس ادارے کی ایما پر جنگیں بھی ہوئیں اور عراق کی تباہی تو پوری طرح اسی اقوام متحدہ کے زیر نگرانی عمل میں آئی اور یہ سب امن کے نام پر ہوا۔افغانستان کو بارود سے ڈھک دیا گیا اور اکیسویں صدی میں سیریا اور یمن بے مثال تباہی کا شکار ہوتے رہے اور اقوام متحدہ تماشائی بنا رہا۔
اقوام متحدہ کی بے چارگی اور بڑی طاقتوں کی کھلی دہشت گردی اور ظلم و جبر کی نئی مثال یوکرین پر روسی جارحیت ہے جس پر وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے مگر کوئی نجات دہندہ نظر نہیں آتا اور اس وقت نہ صرف یوکرین بلکہ پوری دنیا ایک عجیب بے بسی کے عالم میں ہے۔ایسا اس وجہ سے ہے کہ موجودہ دور میں طاقت بے لگام ہے۔ جس کے پاس طاقت ہے اس پر دنیا کا کوئی قانون، اصول یا ضابطہ اخلاق نافذ نہیں ہوتا۔روس بھی انہی میں سے ایک ہے۔اس وقت طاقت کے ظلم کا شکار فلسطین یا عرب دنیا کا کوئی خطہ نہیں بلکہ ایک یوروپی ملک ہے،مگر بے بسی دیکھئے کہ پورا یوروپ محض تماشائی بنے رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔یہ عالمی طاقتوں کے سامنے کمزور اقوام کی بے بسی و لاچارگی کی عبرت ناک مثال ہے جس سے دنیا کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔
شمشاد حسین فلاحی