یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے جوڈو کراٹے اور مارشل آرٹ کی مشق چھوڑے ہوئے ایک عرصہ بیت چکا تھا۔ مگر دماغ میں اس کے وائرس موجود تھے۔
مسجد میں ستون سے ٹیک لگائے سکون سا محسوس کیا۔ سرسے تاج اتارا اور پچھلے دو دنوں کے معمول کے مطابق، چھت کو تکنے لگا۔ خیال ہی خیال میں کچھ دیر پہلے مانگی ہوئی دعاؤں کو یاد کرکے سنجیدہ ہونے لگا۔ ایک ایک کرکے کافی مصلّی جاچکے تھے، کچھ اب بھی باقی تھے۔ پانچ پانچ دس دس منٹ کے وقفے سے اکّے دُکّے مصلّیوں کی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری تھا۔
معاً میری نظر، نسبتاً کم روشنی والے ایک گوشے کی جانب اٹھ گئی۔ نظر کا اٹھنا یوں بھی ہوا تھا کہ بہت دیر سے میرا لاشعور نوٹ کررہا تھا کہ آس پاس کہیں، کوئی غیر معمولی واقعہ وقوع پذیر ہورہا ہے۔ اب جو ذرا فرصت ہوئی تو انتشارِ خیال کا بڑا سا دائرہ بتدریج سمٹنے لگا تھا، یہاں تک کہ ایک متحرک نکتے پر آکر مرکوز ہوگیا۔ پچھلی دائیں جانب، ایک کافی مالدار صاحب، عمر میں مجھ سے دوگنے ہی رہے ہوں گے، جن کو میں اچھی طرح جانتا تھا، کافی پریشان سے دکھائی دئیے۔ میں نے انہیں ذرا اور غور سے دیکھا تو ہلکا سا اندازہ ہوا کہ موصوف جلدی میں ذاتی طور پر کوئی ’’عمل‘‘ انجام دے رہے ہیں۔ اب میں ان کی جانب سیدھا ہو بیٹھا۔ میں نے انہیں دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
باقی رہے نہ پھر کوئی دیدارِ آرزو
موصوف اٹھے، کھڑے ہوئے، جھکے، بیٹھے ایک سے زیادہ مرتبہ سر بھی زمین سے لگادیا اور پچھلی جانب پیروں کو کبھی ایک فٹ کبھی کچھ کم آسمان کی جانب اٹھا دیا
بڑھا اور اس سے میرا اضطراب
میں سوچ رہا تھا کہ اتنی ہائی اسپیڈ سے اور تنہاتنہا کیا کارخیر انجام دیا جارہا ہوگا۔ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی، کہ شیطان نے رہنمائی کی۔ ذہن کے منجھلے گوشے میں ایک خیال محفوظ ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں موصوف اپنے شتابی عمل سے فارغ ہوئے، اور اٹھ کر باہر چلے گئے۔ اولاً اتنی تیزی سے وہ مسجد کے باہرنکلے تھے کہ اندر آنے والے ایک دوسرے مصلّی سے ٹکرا گئے۔ نو وارد شائد کراٹے کے فن سے واقف نہ تھا، مارے ہیبت کے، بے ڈھنگے پن سے، اپنا بیچ بچاؤ کرتے ہوئے الگ ہوگیا۔ ثانیاً: سیڑھیوں پر پہنچ کر وہ جب اپنی چپلیں تلاش کررہے تھے، پتہ نہیں کیا ہوا کہ اچانک دو ایک قدم آگے کو نکل گئے۔ چونکہ کافی پھرتی میں تھے، توازن برقرار نہ رکھ سکے، زمین ناپ گئے۔ (حالاںکہ کچھ دیر پہلے کے گیم میں ایک خاص تسلسل کے ساتھ کبھی ناک، کبھی داڑھی اور کبھی پیشانی وغیرہ نَپوا چکے تھے) اس موقع پر، سیٹھ صاحب کی ناقابل دید حالت پر مجھے ننھے ذی شان کا آٹومیٹک کھلونا یاد آگیا۔ جس کا سسٹم خراب ہوجانے سے عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگا تھا۔ خیر میں جو ان سے ملاقات کا آرزو مند تھا، موقع غنیمت جان کر فوراً اپنی جگہ سے اٹھا، دوڑا، موصوف کو آن کی آن میں جالیا۔ سہارا دے کر اٹھایا۔ بے چارے کئی جگہ سے زخمی لگتے تھے۔ میرا شکریہ ادا کرنے لگے۔ میں نے کہا: ’’نہیں سیٹھ صاحب! کوئی بات نہیں، البتہ شکریہ کے بدلے میں ایک بات آپ سے دریافت طلب ہے، کوئی خیال نہ فرمائیں۔‘‘
’’ہاں ہاں کہیے۔‘‘ انھوں نے اچھی طرح سنبھلنے سے پہلے، جھینپتے ہوئے کہا، اور کپڑے جھاڑنے لگے۔ سانسیں پھول اور پچک رہی تھیں۔ اسی عالم میں کچھ دیر تک وہ ناکافی روشنی، سیڑھیوں اور زمین کو ’’ٹیڑھا‘‘ ثابت کرتے رہے۔ اس اثناء میں انہیں ان کی چپلیں مل گئیں۔ وہ چپل یاب ہوکر میری جانب ترحّم آمیز نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ میں نے کہا: ’’جہاں ہم کھڑے ہیں، یہ مسجد ہی ہے نا؟‘‘
’’ہاں یہ مسجد ہی ہے۔‘‘
’’یعنی اللہ کا گھر؟‘‘
’’ہاں ہاں اللہ ہی کا گھر۔‘‘
’’میں یہاں تین روز سے نمازوں کے لیے آرہا ہوں۔‘‘ میں لجاجت سے بولا۔
’’الحمدللہ۔‘‘ انھوں نے بڑی فراخدلی سے کہا: ’’بڑی خوشی کی بات ہے، پابندی سے آتے رہیے گا۔‘‘
’’جی ہاں—‘‘ میں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’اب انشاء اللہ پابندی کروں گا۔ مگر خدارا یہ بتائیے مسجد میں نماز ہی پڑھنی چاہیے نا؟‘‘
’’ہاں برخوردار! نماز ہی پڑھنی چاہیے، دنیا کی باتیں، دنیا کا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ وہ واعظانہ انداز میں بولتے رہے، ذرا رکے اور بولے: ’’مگر تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’مسجد کے ادب آداب کو برقرار رکھنا چاہیے نا؟‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے اگل دیا۔
’’بلاشبہ برقرار رکھنا چاہیے۔‘‘ انھوں نے آنکھیں بند کرکے پرسکون انداز میں سر کو خفیف سا جھکا دیا۔ بالآخر میں اپنے مدعا کو پہنچ ہی گیا اور گویا ہوا:
’’یہاں ابھی ابھی آپ نے کیا حرکتیں کیں؟‘‘
’’میں نے حرکتیں کیں؟ کیا حرکتیں کیں؟‘‘ انھوں نے حیرت و استعجاب سے منہ کھول دیا۔
’’ہاں آپ نے۔‘‘ میں نے سہمتے ہوئے مختصراً کہا۔
’’کب —‘‘ وہ ڈپٹ کر بولے۔
’’ابھی ابھی۔‘‘
’’ابھی ابھی کب؟‘‘ وہ تجاہل عارفانہ سے بولے۔
’’اس گوشے میں دائیں جانب والی پچھلی کمان کے قدرے آگے۔‘‘ میں جغرافیہ پر اتر آیا۔
’’وہاں؟ — وہاں تو میں نے کوئی حرکت نہیں کی، البتہ (عشاء کی) نماز پڑھی۔‘‘
’’اللہ کی پناہ—‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: ’’آپ نے وہاں نماز پڑھی؟ … وہ نماز تھی؟‘‘ میں بھی انجان بنتا ہوا تصنع پر اتر آیا۔
’’ پھر تم نے کیا سمجھا؟‘‘ سیٹھ صاحب آنکھیں نکال کر ایک فٹ میرے قریب آگئے۔
پچیس فٹ بلندی پر لگے ہوئے زیرو کے میلے بلب کی دھندلی سی روشنی میں بھی مجھے ان کی آنکھوں میں پیدا ہوئے سرخ ڈورے صاف نظر آگئے۔ میں ذرا سہم گیا اور پورے دو فٹ پیچھے ہٹ گیا۔ میری زبان گنگ ہوگئی، مجھے اچھی طرح یاد ہے، اس وقت میں نے جس قدر جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں شائد کوئی کمپیوٹر ہی اس تعداد کو دریافت کرسکے۔
’’کیا حرکت کی میں نے؟‘‘ وہ تقریباً چیخ پڑے۔ ایک لمحے کے لیے انھوں نے بھلا دیا تھا کہ زمین ناپتے وقت ابھی ابھی ان کی حالت کس قدر قابلِ رحم تھی۔ وہ پھر گرج اٹھے: ’’کیا دیکھا آپ نے؟‘‘
’’ذرا— ذرا ٹھہرئیے — برہم نہ ہوئیے۔‘‘ میں نے اپنی دو ایک قوتیں جمع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، کہ تمام اندرونی طاقتیں اس وقت شدید بحران کا شکار تھیں۔ وہ ذرا رکے، ذرا مجھے ہمت ہوئی۔ کہا: ’’معاف کرنا، آپ کے اس الکٹرانک اسٹائل سے مجھے لگا جیسے آپ اللہ کے گھر میں نماز نہیں پڑھ رہے تھے، مارشل آرٹ کا کوئی مظاہرہ کررہے تھے۔‘‘
حالاں کہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ جو کچھ اضطرابی عمل ان کا تھا وہ کراٹے کا کارٹون تو ہوسکتاتھا مگر اسے کسی طرح کراٹے بھی تو نہیں کہا جاسکتا تھا۔ مگر میں نے اسے کراٹے یا مارشل آرٹ کہہ کر حسنِ فن ہی سے کام لیا تھا۔ یہ ایک اعزاز تھا ان کے لیے، لیکن وہ بھڑک اٹھے۔
’’نہایت مردود ہو تم، مسخرے کہیں کے — نماز کو کراٹے کہتے ہو؟ بے ادب، بدتمیز — لا حول ولا قوت، تھو ہے تم نوجوانوں پر۔‘‘ اس کے بعد ممدوح نے نئی نسل کے تمام ’’اوصافِ خمیدہ‘‘ کی ایک طویل فہرست پیش فرمادی۔ پھر اس سے قربِ قیامت کا تعلق ثابت کرتے ہوئے ایسی ایسی پیشین گویاں فرمانے لگے کہ علمائے حق اگر سن لیں تو ان کی معلومات میں قیمتی اضافہ ہوجائے۔ کم از کم ’’آثارِ قیامت‘‘ کے مصنف اگر زندہ ہوتے تو اپنے خیالات سے ہاتھ دھولیتے۔ انھوں نے چند ہی سانسوں میں اتنی کچھ تنقید داغ دی کہ مجھے ان پر ٹیپ ریکارڈر کا دھوکا ہونے لگا۔ سیٹھ صاحب کی اس ’’غیر جدیدیت‘‘ پر مجھے بیحدافسوس ہوا کہ اس عمر کو پہنچ کر، اور اتنی عمدہ زبان کے ماہر ہوکر بھی وہ جدید نقاد نہ بن سکے۔ ترقی پسند کے ترقی پسند ہی رہے۔ ان کی نماز اس کی گواہ ہے۔
دریافتِ حال کے لیے دیگر مصلّیان کرام بشوق متوجہ ہونے لگے۔ میں بھونچکا رہ گیا۔ میری حالت اس چور کی سی ہوگئی تھی جو کسی کی گاڑی چرا کر بھاگا ہو اور ایکسیڈنٹ کرکے پکڑا گیا ہو۔ مجھے یاد نہیں کہ میں وہاں سے کس طرح جان بچا کر بھاگا ہوں۔ ہاں بعد میں اتنا یاد آیا کہ ایک ہفتہ قبل خریدی ہوئی کافی مہنگی چپل وہیں رہ گئی تھی۔
وہ دن ہے آج کا دن، جب کبھی اس واقعہ کی یاد آتی ہے نماز میں سیٹھ صاحب کی چوری پر افسوس کم اور اپنی حماقت پر شرمندگی زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ شیطانِ لعین نے ایک مسلمان بھائی کے بارے میں کیسی بدگمانی ذہن میں ڈال دی تھی۔ اصلاح کا کہیں ایسابھی طریقہ ہوتا ہے وہ بھی بزرگوں کی اصلاح کا۔ خدا خیر کرے۔