حسب معمول جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد مصلیان سے کھچا کھچ بھر گئی تھی جیسے بیشتر مسلمانوں پرہفتے میں صرف نماز جمعہ کی دو رکعت ہی فرض ہوں۔
مسجد میں مولوی صاحب کا وعظ شروع تھا۔ شادیوں کا سیزن ہونے کی وجہ سے وعظ کا موضوع نکاح تھا۔
’’اسلام فطری دین ہے۔ نکاح انسان کی زندگی کی اہم ضرورت ہے اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ کی سنت ہے۔ سنت کو سنت طریقے سے ادا کیجیے، منڈپ لگوانا، شامیانے سجانا، شادی بیاہ کی فضول رسومات میں پیسے یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے۔ نہیں ہے!! اسلامی طریقہ ہے نکاح میں شادگی…
نکاح پر مولوی ساحب کا وعظ جاری تھا۔ صفوں میں بیٹھے ہوئے مصلیان کچھ اونگھ رہے تھے، کچھ مولوی صاحب کو سر اٹھائے اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ان کی تقریر کا ہر لفظ وہ اپنے کانوں سے پی رہے ہوں۔ لیکن در حقیقت ان کے ذہن اپنے مسائل و اپنے کاروبار میں الجھے ہوئے تھے۔ وہ جسمانی طور پر نمازِ جمعہ ادا کرنے مسجد میں ضرور آئے تھے لیکن اپنے ذہنوں اور دلوں میں عاقبت کی فکر نہیں، دنیاوی زندگی سمیٹ لائے تھے۔
رحیمو بھی ان ہی میں سے ایک تھا جو اونگھ نہیں رہا تھا بلکہ مولوی صاحب کا وعظ ایسا سن رہا تھا جیسے مولوی صاحب اسی سے مخاطب ہیں۔
رحیمو کا پورا نام عبد الرحیم تھا۔ جس طرح عبد الرحیم کے باپ کا نام عبد الکریم تھا اور سماج میں وہ کریمو کے نام سے جانا جاتا تھا، اسی طرح عبد الرحیم بھی رحیمو کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کے ناموں کا یہ بگاڑ طبقاتی سماج کا ظلم تھا جسے رحیمو کے باپ اور رحیمو نے اس طرح قبول کرلیا تھا جیسے نام کا بگاڑ اُن کی وراثت ہے۔
کریمو مزدور تھا اور مزدور ہی مرا۔ دن رات کڑی محنت کر کے وہ اتنا بھی نہیں کما پاتا تھا کہ سماج میں صحیح نام سے اپنی شناخت کرو ا سکے۔ اس طرح اس کا بیٹا رحیمو حمالی کر کے آج تک عبد الرحیم نہیں بن پایا۔ ہاں ایک لڑکی کا باپ ضرور بن گیا تھا۔
وزنی بوجھ ڈھونے والے رحیمو پر سماج نے کبھی رحم نہیں کھایا تھا۔ اس نے بھی سماج کی اس بے حسی کی کبھی پرواہ نہیں کی تھی۔ شاید زندگی نے اسے اتنی مہلت ہی نہیں دی تھی کہ سماج کی اس بے حسی کے بارے میں سوچ سکے۔ سوچ بھی لیتا تو کیا کرلیتا۔وہ! بے چارہ روز صبح اٹھتا۔ کالی کسیلی چائے حلق میں اتارتا اور دو پہیوں کی گاڑی بیل کی طرح کھینچتے ہوئے بازار چلا جاتا۔
جب سورج اپنی کرنوں سے اس کے بدن کو خوب چھید کر غروب ہو جاتا تب وہ گھر آتا۔ دن بھر کی کمائی بیوی کے ہاتھ میں تھما دیتا۔ روکھا سوکھا جو پکا ہوتا اللہ کا شکر ادا کر کے کھاتا اور گھر میں نمازیں پڑھ کر بیوی کی بغل میں ایک لاش کی طرح پڑ جاتا۔ رات کیسے گزر گئی، اسے پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اس کی بیٹی چھوٹی تھی گڑیا جیسی۔
جب اس کی بیٹی بڑی ہوگئی، اتنی بڑی کہ سینے کو ڈو پٹے سے ڈھانپنے لگی تب اس کی راتیں بے چینی کی کروٹوں سے بھر گئی تھیں۔ وزنی بوجھ ڈھونے والے رحیمو کو اپنی بیٹی پہاڑ جیسا بوجھ لگنے لگی تھی۔
’’میری بیٹی کی منزل کا مجھے پتہ نہیں، کہاں ہے اس کا ٹھکانہ۔ کہاں ہے اس کا گھر۔ نہیں ہے مجھے خبر۔ میری بیٹی پرائے گھر کی امانت! ایک ٹیس سی اس کے دل میں اٹھتی اور وہ میلے کچیلے بستر پر کروٹیں بدلنے لگتا۔ میری بیٹی پرائے گھر کی امانت! وہ کون ہوگا؟ کیسا ہوگا؟ کب آئے گا؟ نہ حل ہونے والے سوالات سے اس کے سر میں ایک تکلیف دہ تناؤ پیدا ہو جاتا۔ وہ اپنے ہاتھوں کی کھردری انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر کے ہاتھوں کو سر کے پچھلے حصے کی طرف لے جاتا اور پھر کلائیوں سے کنپٹیاں دبا کر سرکو بساندی بو، بھرے تکیے میں ٹھونس لیتا۔
’’میری بیٹی میری ہونے کے باوجود میری نہیں ہے۔ پرائے گھر کی امانت!‘‘ وہ خود کلامی کرتے ہوئے اپنا سر اٹھا کر بیوی کے بازو سوئی ہوئی اپنی بیٹی کو دیکھتا۔ اور پھر تکیے میں اپنا سر ٹھونس کر سونے کی کوشش میں کروٹیں بدلنے لگتا۔ ’’یا اللہ! میری بیٹی کی قسمت اچھی کرنا! ‘‘یہ کہتے ہوئے اسے کچھ سکون ملتا۔ کروٹوں کی شدت میں کچھ کمی واقع ہو جاتی۔
رحیمو کی کروٹوں میں شدت اس لیے آگئی تھی کہ ابھی چند روز قبل اس نے جھٹکے سے وزنی بوجھ اٹھایا تھا جس کی وجہ سے اس کی کمر میں جھٹکا آگیا تھا۔ کمر درد شدید ہونے کی وجہ سے وہ قبل از وقت ہی گھر لوٹ آیا تھا۔
اس نے دیکھا کہ اس کی بیٹی روکھے سوکھے بال سنوار کر گھر کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ گھر سے کچھ دور الیکٹرک پول سے لگے آہنی بنچ پر کچھ آوارہ لڑکے بیٹھے اس کی بیٹی کو تک رہے ہیں، ہنس رہے ہیں، قہقہے لگا رہے ہیں… جب اس کی نگاہیں اپنی بیٹی کی طرف اٹھیں اور اس نے بیٹی کے لبوں پر بھی مسکراہٹ دیکھی تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ مارے طیش کے اس کا خون کھول اٹھا۔ جبڑے کی ہڈیاں پھڑکنے لگیں۔ سانس اس قدر تیز ہوگئی کہ اس کے نتھنے تتلی کے پروں کی طرح کپکپانے لگے۔ وہ تیز قدموں سے گھر کی طرف بڑھا۔ بیٹی اسے آتا دیکھ کر فوراً اندر چلی گئی۔ ’’رضیہ!‘‘ دہلیز میں قدم رکھتے ہی اس نے تقریباً چیختے ہوئے اپنی بیوی کو پکارا۔
رضیہ شوہر کی چیختی آواز سن کر چھت والے کمرے سے نکل کر آنگن میں آگئی۔ بیٹی اس کے کولھے سے سمٹی کھڑی تھی۔
’’کیوں جی، کیا ہوا، جلدی آگئے؟!‘‘ بیوی کے لہجے میں استعجاب تھا۔
رحیمو غصے میں کمر درد بھول گیا تھا۔ طیش بھرے لہجے میں بیوی سے مخاطب ہوا ’’میں جب کام پر جاتا ہوں تب تمہارا فرض ہے کہ بیٹی کا خیال رکھو۔‘‘
’’کیوں، ہوا کیا؟!‘‘
’’لاڈلی دروازہ میں کھڑی تھی اور سامنے بینچ پر محلے کے اوباش لڑکے بیٹھے تھے۔ اسے سکھاؤ کہ اب یہ بڑی ہوگئی ہے اسے غیر مردوں سے پردہ کرنا چاہیے۔ یہ اسلامی طریقہ ہے۔‘‘
’’ابا! مرغیاں دانے چگتے چگتے باہر نکل گئی تھیں میں انھیں دیکھنے کے لیے کھڑی تھی، بیٹی منمنائی۔ ’’مرغیاں گئیں بھاڑ میں۔ آئندہ دروازہ میں نظر نہیں آنا سمجھی!‘‘ زندگی میں پہلی بار اس نے اپنی بیٹی کو اتنے تلخ لہجے میں ڈانتا تھا کہ بیٹی کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے۔ بیٹی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسے افسوس بھی ہوا لیکن تربیت کی خاطر اس نے اپنی کیفیت کا اظہار نہیں کیا تھا۔
اس واقعے کے بعد اس کی راتیں بے قراری سے بھر گئی تھیں۔ رہ رہ کر اسے بنچ پر بیٹھے ہوئے لڑکے یاد آجاتے۔ ان کے قہقہے اس کے ذہن میں وزنی ہتھوڑے کی طرح برسنے لگتے تھے اور اس کی بیٹی کو تکتی ہوئی نگاہیں تیر کی طرح اس کے دل میں کھپ جاتی تھیں۔ بیٹی کے مسکراتے لبوں کو چاہ کربھی وہ فراموش نہیں کر پاتا تھا۔
ایک رات اس کے ذہن میں بنچ پر بیٹھے لڑکوں کے چہروں کے ساتھ ایک خیال آیا، کیا ان لڑکوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو میری بیٹی کو اپنی شریک حیات بنالے ’’ہشت، میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں! ’’خیال کو اس نے کراہیت سے کچل دیا تھا ’’نہیں، مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ میری بیٹی کے لیے کوئی پیام ضرور آئے گا۔ وہ خوب صورت ہے۔ گورا رنگ، دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو لڑکی کی چمڑی دیکھتے ہیں اس کے باپ کی دمڑی نہیں!‘‘
’’ہشت …! میں ایسا بھی کیوں سوچ رہا ہوں۔ یا اللہ میری مدد فرما۔ میری بیٹی کے لیے کوئی اچھا سا رشتہ بھیج دے، میں نے اس کے مسکراتے لبوں کا مطلب سمجھ لیا ہے، وہ تکیے میں اپنا سر ٹھونس کر دعا کرتا۔اس طرح بے قراری میں اکثر اس کی راتیں گزر جاتیں۔
آج مولوی صاحب کا وعظ سن کر رحیمو کے دل میں امید کے دیے ٹمٹمانے لگے تھے۔ وہ سوچنے لگا تھا کوئی تو ہوگا جو مولوی صاحب کا وعظ میری طرح سمجھ رہا ہوگا۔ بنچ پر بیٹھے ہوئے لڑکے اس مسجد میں آتے ہیں، ہشت…! میں ان لڑکوں کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں۔ میری بیٹی کے مسکراتے لب مجھے کیوں یاد آرہے ہیں۔ خطبہ سنتے ہوئے اس نے اپنا ذہن جھٹکا۔ ایک نوجوان اس کے ذہن میں آگیا۔
چہرے پر داڑھی، سر میں جالی دار سفید گول ٹوپی، گھٹنوں تک لانبی قمیص اور چھوٹی موری کا پاجامہ…
وہ نوجوان کوئی اور نہیں مولوی صاحب کا فرزند تھا۔ گھڑی سازی کا کام کرتا تھا۔ رحیمو نے لوگوں سے سنا تھا کہ مولوی صاحب اپنے فرزند کے لیے اچھی لڑکی کی تلاش میں ہیں۔
رحیمو کو مولوی صاحب کی اس وقت کی بات یا دآگئی جب مولوی صاحب اس کی بچی کو مدرسے میں قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے روک کر رحیمو سے کہا تھا: ’’رحیمو بہت قسمت والے ہو تم، اللہ نے تمھیں باادب، نیک بچی دی ہے۔ قرآن تجوید سے پڑھتی ہے میاں! اللہ نے اسے اتنی ذہانت دی کہ اس نے تین پارہ حفظ کرلیا ہے۔‘‘ مولوی صاحب کی بات یاد آتے ہی اس نے خود سے سوال کیا۔
’’کیا میں اپنی بیٹی کا تذکرہ مولوی صاحب سے کروں؟!‘‘
’’نہیں… تم لڑکی کے باپ ہو تمہارے لیے ٹھیک نہیں! اس کے خود نے اسے سمجھایا۔ ’’تاہم ان کا منشا جاننے کے لیے اشاروں میں اپنی بات کہہ دوں تو کیا ہرج ہے۔‘‘ وہ خود کو بہلانے لگا۔
خطبہ ختم ہوچکا تھا۔ نماز کے لیے اقامت پڑھی جا رہی تھی۔ ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر۔‘‘
وہ مصلیان کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ جمعہ کی دو رکعت فرض نماز ادا کی، جمعہ کے جمعہ نماز پڑھنے والے دیگر مصلیان کی طرح وہ نماز جمعہ پڑھ کر مسجد سے نہیں نکلا بلکہ نہایت خشوع و خضوع سے چار سنتیں، پھر دو سنتیں اور دو نفل نمازیں پڑھیں اور پھر سجدے میں اپنی بیٹی کے نکاح کے لیے اللہ سے دعا کی۔
دیر تک دعا کرنے کے بعد جب رحیمو نے سجدے سے سر اٹھایا تب اس کی نظر مولوی صاحب پر پڑی جو جوتے پہن کر مسجد سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے۔
رحیمو فوراً اٹھا تیزی سے مسجد کا صحن پار کیا، مسجد کے گیٹ میں اپنے پھٹے ہوئے جوتے پہن کر مولوی صاحب کی طرف بڑھا۔ مولوی صاحب گیٹ سے باہر نکل چکے تھے۔
’’مولوی صاحب! آج آپ کا بیان سن کر مجھے بے حد خوشی ہوئی!‘‘
’’ہوں! ’’مولوی صاحب کی گردن تن گئی۔ وہ لمحہ بھر رکے پھر آہستہ آہستہ چل پڑے۔ رحیمو بھی ان کے ساتھ ہولیا۔
’’مولوی صاحب! ہمت جٹا کر وہ بولا: ’’میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے فرزند کے لیے دین دار لڑکی کی تلاش میں ہیں۔‘‘
’’ہوں!‘‘ مولوی صاحب نے بے توجہی برتی اور اپنے قدم تیز کرلیے۔ وہ بھی ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے لگا۔
’’مولوی صاحب! انشاء اللہ میں اپنی بیٹی کانکاح بالکل اسی طرح کروں گا جیسا آپ نے فرمایا۔ بس اچھے رشتے کا انتظار ہے۔‘‘
مولوی صاحب اس کی بات سن کر کچھ نہ بولے انھوں نے اپنی رفتار اتنی تیز کرلی تھی کہ رحیمو پیچھے رہ گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ مولوی صاحب اس سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہ رہے ہیں۔ وہ کچھ نہ بولا۔ اپنی رفتار دھیمی کرلی اور سر جھکائے گھر کی طرف چل پڑا۔
جب رحیمو گھر پہنچا تو بیوی اس کا پژمردہ چہرہ دیکھ کر بولی ’’کیوں جی! کیا ہوا تمھیں، تم مسجد سے ایسا چہرہ لے کر تو کبھی نہیں آئے۔‘‘
’’نہیں، کچھ نہیں، آج میں نے مولوی صاحب کے بیان کا اثر کچھ زیادہ ہی لے لیا، لاپانی دے، سینے میں جلن سی ہو رہی ہے۔‘‘
رحیمو کی بیوی گلاس میں پانی لے آئی۔ ابھی اس نے دو گھونٹ پانی بھی حلق سے نہیں اتارا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
رحیمو فوراً دروازے کی طر ف بڑھا جیسے ہی دروازہ کھولا۔ دہلیز کے باہر تقریباً ساڑھے پانچ فٹ اونچا ایک نوجوان کھڑا دکھائی دیا۔ گندمی رنگ، تھوڑا لمبوترا چہرہ، چہرے پر تراشی ہوئی خشخشی داڑھی، گول ناک نہ زیادہ لمبی نہ چھوٹی۔ آنکھیں مناسب سر میں سفید گول ٹوپی، صحت مند بدن، سرمئی قمیص اور سفید پاجامے میں ملبوس۔
رحیمو نے پہچان لیا، وہ نوجوان کوئی اور نہیں ان لڑکوں میں سے ایک تھا جو اس کے گھر کے سامنے الکٹرک پول کے پاس رکھے بنچ پر بیٹھا کرتے تھے۔ ’’السلام علیکم!‘‘ نوجوان نے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ رحیمو نے جواب دیا۔ پھر مختصر سی خاموشی کے بعد نوجوان سینے پر ہاتھ باندھ کر سہمے ہوئے انداز میں بولا ’’میرا نام عبد الرفیق ہے، سرکاری گودام پر چوکیداری کرتا ہوں۔ آپ کے گھر سے کچھ دوری پر ہی میرا چھوٹا سا گھر ہے۔ وہیں اکیلا رہتا ہوں، ابا کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ ابھی کچھ دن ہوئے اماں بھی اس دنیا سے چل بسی۔ اب جو بھی کرنا ہے مجھے ہی کرنا ہے اس لیے آج مولوی صاحب کا وعظ سن کر بڑی ہمت جٹا کر آپ کے پاس چلا آیا مگر … کیسے کہوں…‘‘ رفیق سر جھکا کر خاموش ہوگیا۔ سینے پر اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور نگاہیں دہلیز کے سامنے کی اوبڑ کھابڑ زمین پر ٹکی ہوئی تھیں۔
رحیمو رفیق کی کیفیت بھانپ گیا۔ کچھ توقف کے بعد بولا: ’’بے جھجک کہو میاں! میں سماج کا عام آدمی ہوں۔‘‘
رفیق نے تھوڑا سر اٹھا کر ایک نظر رحیمو کو دیکھا پھر اپنی نگاہیں جھکا لیں۔ جھجکتے ہوئے اس کے لب کانپے ’’میں آپ کی لڑکی سے … رفیق کی آواز حلق میں پھنس گئی تھی۔
رحیمو سمجھ گیا تھا کہ رفیق کہنا کیا چاہ رہا ہے۔ بے اختیار اس نے رفیق کے شانے پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ دیا پھر نہایت شفقت آمیز انداز میں بولا: ’’بیٹا! ایسی باتیں دہلیز کے باہر نہیں گھر کے اندر کی جاتی ہیں… آؤ … اندر آؤ۔‘‘
رحیمو رفیق کو گھر میں لے آیا اور اس کی بیٹی شبو کے احساسات کی دنیا میں کلیاں کھل اٹھیں، چہرہ حیا سے سرخ ہوگیا۔lll