اسلام نے انسانوں کو زندگی گزرانے کے لیے شاندار اور مثالی اصول و ضوابط دئے ہیں۔ اگر ایک مسلمان ان ضابطوں کو اپنی عملی زندگی میں جاری و نافذ کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ اللہ کی نظر میں محبوب بندہ بن جاتا ہے بلکہ وہ چلتا پھرتا اسلام بن جاتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر اسلام کا تعارف حاصل کرتے ہیں۔
اسلام اپنے ضابطہ حیات میں جو کلیدی نکتہ رکھتا ہے وہ اس کے ماننے والوں کا اخلاق و کردار ہے جو عام معاشرہ اور سماج میں اسے ممتاز اور نمایاں بنادیتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبوت کے بعد ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی اللہ کے رسول کا کردار ایسا نمایاں، ممتاز اور قابل اعتماد تھا کہ لوگ آپ کو صادق و امین کے لقب سے یاد کرتے اور اپنے فیصلے کرانے کے لیے آپ کے پاس آتے تھے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اسے قرار دیا۔ فرمایا:
بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔
’’میں اسی لیے بھیجا گیا ہوں کے حسن اخلاق کو درجہ کمال و تمام تک پہنچادوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ نے اسلام کی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کی تو پورے مکہ میں ایک زلزلہ آگیا۔ لوگوں نے مخالفت شروع کردی۔ مگر جو پیغام آپ پیش کررہے تھے وہ خود زندگی سے اس قدر بھرپور تھا کہ لوگوں کے دل اس کی طرف کھنچے آتے تھے۔ چنانچہ ہر شخص اپنے آباء و اجداد کے دین اور اپنے عقیدے کی حفاظت کے لیے بے چین نظر آنے لگا۔ ایک بڑھیا جسے اپنا دین و عقیدہ محبوب اور ’’محمد کا نیا دین مبغوض‘‘ تھا آخر مکہ چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کربیٹھی۔ اپنا سامان ایک گٹھری میں باندھا اور لے کر چل نکلی۔ ادھیڑ عمر کے ایک شخص نے دیکھا کہ بڑھیا سر پر بھاری گٹھری لیے جارہی ہے تو اس کے قریب گیا اور کہا ’’اماں میں آپ کا سامان اٹھالوں‘‘ اور پھر سر پر لاد کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔ چلتا رہا اور مکہ سے بہت دور نکل گیا۔ بڑھیا نے کہا بیٹا اب میں اتنی دور آچکی ہوں کہ نئے دین کی آواز سے میرے عقیدے کو اب کوئی خطرہ نہیں اور پھر ازراہ خلوص اس نے کہا کہ تم بہت شریف آدمی معلوم ہوتے ہو، دیکھو میں تمہیں ایک خطرے سے آگاہ کرنا چاہتی ہوں۔
پھر اس نے کہا کہ مکہ میں ایک محمد نامی شخص ہے جو سارے خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کی بات کرتا ہے۔ اور اس کی باتوں میں جادو کی تاثیر ہے۔ بیٹا تم اس کی بات کبھی نہ سننا — اور پھر — پھر ایک زلزلہ آیا۔ اور اس ادھیڑ عمر آدمی نے کہا وہ محمد میں ہی ہوں۔ آپ تصور کیجیے کہ اس کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی اس وقت۔ اور پھر وہی ہوا جس سے بچ کر وہ نکلی تھی۔
یہ واقعہ محض تاریخ کی کتابوں میں درج قصہ کے طور پر بیان کرنے کا نہیں ہے۔ بلکہ ہماری عملی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے اندر کے مسلمان کو تلاش کریں اور اس سے پوچھیں کہ تمہاری کیفیت کیا ہے۔
ہمارے اسلاف کس قدر عظیم تھے اورانھوں نے کس بلند کردار کے نمونے پیش کیے وہ ہم سب کو معلوم ہیں۔ حضرت علیؓ دشمن کے سینے پر سوار ہیں اور قریب ہیں کہ اس کو ختم کردیں۔ مگر اس چالاک نے بے بسی میں آپ کے منھ پر تھوک دیا۔ آپ اسے چھوڑ کر الگ ہوگئے۔ اور فرمایا کہ میں اب تک اس سے اللہ کے لیے لڑرہا تھا مگر جب اس نے تھوک دیا تو اس میں میرا ذاتی غصہ شامل ہوگیا جس پر قابو پانا ضروری تھا۔ اس لیے اسے چھوڑ دیا۔ پھر کیا ہوا ہوگا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں۔
اس دور کے مومنین معاشرتی اعتبار سے اخلاق و کردار کے کس بلند مقام پر تھے اسے دیکھنے کے لیے ’’مواخاۃ‘‘ کے اس واقعہ کو یاد کیجیے جس میں ایک مہاجر کو ایک انصار کا بھائی قرار دیا گیا۔ اور پھر اس نے اپنی ہر چیز سے اسے آدھا حصہ دے ڈالا۔ پڑوسی کے حقوق، حاجت مندوں کی حاجت روائی اور باہمی اخوت و محبت کا عالم دیکھئے کہ ایک شخص کے گھر ہدیہ میں بکری کا سر آتا ہے اور وہ یہ سوچ کر کہ میرا فلاں بھائی اس کا زیادہ ضرورت مند ہے دوسرے کے یہاں بھجوادیتا ہے اور پھر چلتے چلتے وہ اسی کے پاس پہنچ جاتا ہے جس کے یہاں سے گیا تھا۔ آپ تصور کیجیے جنگ کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ زخمی پڑے ہوئے ہیں چیخ و پکار اور کراہوں کی آواز ہے۔ ایک شخص پانی کی صدا لگاتا ہے۔ پانی پلانے والا اس کے پاس پہنچتا ہے تو دوسرے زخمی کی طرف سے پانی کی صدا آتی ہے اور پہلا زخمی کہہ دیتا ہے کہ پہلے اسے پلایا جائے۔
یہ ایثارو جذبۂ قربانی کس بلند اخلاق اور اعلیٰ کردار کا مظہر ہے ہم سوچ سکتے ہیں۔
یہ ہمارے اسلاف ہی کی تصویریں تو ہیں جنھیں ہم نے جانتے بوجھتے ہوئے دیکھنے سے انکار کررکھا ہے۔ یہ وہ آئینے ہیں جو ہمیں ہماری زندگی کا عکس دکھا سکتے ہیں اور ہم اس آئینے میں اپنی صورت اس لیے نہیں دیکھنا چاہتے کہ اس پر بے شمار داغ لگے ہیں۔
آج یہ بات قابل تشویش ہے کہ ہم اپنے اخلاق و کردار سے دنیا والوں کو اسلام سے قریب لانے کے بجائے اس کو دور کرنے اور بدظن کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں باوجود اس کے ہم نماز بھی پڑھتے ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں۔ اس وجہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنے اندر کے اس شیطان کو شکست نہیں دے پا رہے ہیں جو معاملات زندگی میں ہمیں گمراہ کردیا ہے۔