رکن الدین نے جھک کر گھوڑے کی گردن سہلائی اور پھر آہستہ سے کہا:’’میرے رفیق، میں جانتا ہوں تو اب تھک چکا ہے۔ تجھے آرام کی ضرورت ہے۔ وہ سامنے ایک بستی دکھائی دے رہی ہے، ہم آج رات وہیں قیام کریں گے۔ اللہ، جو ساری دنیا کا رازق ہے، ہمیں بھی رزق عطا فرمائے گا۔‘‘
سفید گھوڑے نے جیسے اپنے مالک کی بات سمجھ لی۔ وہ دھیمی سی آواز میں ہنہنایا اور اس کی چال میں قدرے تیزی آگئی۔ رکن الدین کے لیے یہ دنیا بالکل نئی تھی، ماحول نیا تھا اور ہر چیز اجنبی تھی، لیکن اس سے رکن الدین کو خاص فرق نہ پڑا۔ وہ دنیا کے ایک ایسے حصے میں تھا جسے اسی کے رب العالمین نے بنایا تھا۔ اس نئی دنیا میں وہ خدا کی وحدانیت اور اسلام کی سچائی کا پیغام لے کر آیا تھا۔
فتوحات کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ ملتان کے قریب جو معرکہ ہوا اس میں وہ دشمن کے تعاقب میں دور تک نکل گیا۔ پھر وہ راستہ بھول بیٹھا۔ تمام رات صحرا میں بھٹکتا رہا۔ کسی آبادی کے نشان دکھائی نہ دیے اور نہ اسلامی لشکر ہی کا سراغ ملا۔ دوسرے دن جب صحرا تیز چمکیلی اور چبھنے والی دھوپ سے جگمگا اٹھا، تو رکن الدین کو پہلی بار سنجیدگی سے احساس ہوا کہ وہ تو راہ گم کرچکا ہے۔ اس کے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا تھا۔ پانی کے چند گھونٹ اس نے اپنے مشکیزے میں محفوظ کرلیے تھے جس سے وہ کبھی کبھی اپنے ہونٹ تر کرلیتا۔
شام ڈھلنے تک کئی بار رکن الدین کے دل میں وسوسے پیدا ہوئے۔ صحرا تھا کہ پھیلتا ہی چلا جارہا تھا۔ اب پانی اتنا بھی نہ رہا تھا کہ وہ اپنے ہونٹ ہی ترکر سکے۔ حلق میں کانٹے چبھنے لگے تھے۔ بھوک سے آنکھوں کے آگے تاریکی چھانے لگی۔ کئی بار اس کے دل میں خیال آیا کہ جب میرا یہ حال ہے، تو میرے رفیق، اس بے زبان گھوڑے کا حال کیا ہوگا۔ کئی بار اسے یوں محسوس ہوا کہ گھوڑا اب آگے جانے سے انکاری ہے، لیٹ جانا چاہتا ہے آخر جب شام، رات کی سیاہی میں ڈوب رہی تھی، تو اسے دور ایک گاؤں دکھائی دیا۔ گھوڑے کی چال میں بھی تیزی آگئی۔ وہ نتھنے پھڑپھڑا کر مسرت کا اظہار کرنے لگا۔ رکن الدین نے اسے تھپکی دی اور کہا ’’شاباش! میرے ساتھی! تم نے رفاقت کا حق ادا کردیا۔‘‘
یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ چند جھونپڑوں پر مشتمل جو گھاس پھونس اور گارے سے بنے تھے۔ جب رکن الدین گھوڑے کی باگ تھامے گاؤں میں داخل ہوا، تو اسے دیکھ کر بچے شور مچاتے گھروں کی طرف بھاگنے لگے۔ کچھ مرد گاؤں کے چوک میں جمع تھے۔ ایک گوشے میں چھوٹا سا مندر تھا جسے گیروی اور سفید مٹی کے امتزاج سے لیپا پوتا گیا تھا اور ارد گرد ایک چوکھنڈی بنی ہوئی تھی۔
مندر کے اندر دیپ جل رہے تھے اور چوکھنڈی کے باہر درخت کے ساتھ ایک مشعل فروزاں تھی۔ چاند نکل آیا تھا۔ یوں چاندنی اور مشعل کی روشنی اندھیروں کو چاٹ گئی تھی۔ رکن الدین رکا تو اس کے ساتھ ہی اس کا تھکا ماندہ گھوڑا بھی رک گیا۔ ’’السلام علیکم‘‘ رکن الدین نے اپنے خشک حلق سے آواز نکالی۔
کسی نے سلام کا جواب نہ دیا۔ وہ سب اس کا انوکھے، غیر مانوس وضع کا گرد آلود لباس دیکھ رہے تھے۔ بعض لوگ کچھ دلچسپی اور کچھ خوف سے اس کی کمر سے لٹکتی تلوار کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے ہوئے تھے۔
ان لوگوں کی خاموشی رکن الدین کے لیے باعثِ پریشانی تھی۔ وہ بولا: ’’میں آپ کے لیے سلامتی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ مسافر ہوں، کچھ وقت یہاں کاٹنا چاہتا ہوں۔ میرے گھوڑے کو گھاس اور دانے کی ضرورت ہے اور مجھے روٹی کی۔‘‘
رکن الدین کے ان جملوں سے لوگوں میں کچھ ہلچل پیدا ہوئی۔ ایک آدمی آگے بڑھا۔ وہ بڑی عمر کا تھا۔ ہاتھ جوڑ کر بولا: ’’مہاراج! میں اس گاؤں کا مکھیا ہوں۔‘‘ پھر اس نے ایک دوسرے شخص کی طرف اشارہ کیا جس کے ماتھے پر تلک تھا اور چٹیل سر پر ایک چوٹی ’’یہ ہمارے مندر کے پروہت ہیں۔‘‘
رکن الدین نے دونوں کو ایک نظر دیکھا اور وقار سے کہا: ’’میں بہت تھکا ہوا ہوں، میں کھانے کے عوض سکے ادا کروں گا۔‘‘
ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ مندر کا پروہت دو قدم آگے بڑھا اور ہاتھ جوڑ کر بولا: ’’مہاراج! آپ مسلمان ہیں، فوج کے سپاہی…‘‘
’’الحمدللہ ! میں مسلمان اور ایک سپاہی بھی ہوں۔ اس کے علاوہ ایک امن پسند انسان بھی ہوں۔‘‘
مکھیا اور پروہت نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پروہت ہاتھ جوڑ کر بولا: ’’مہاراج! یہ باہمنوں کا گاؤں ہے۔ ہمارا دھرم ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ کوئی ملیچھ ہمارے برتنوں کو چھوئے اور ہمارے گھروں میں آئے۔ ہم آپ کی سیوانہیں کرسکتے۔‘‘
رکن الدین نے حیرت سے ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور سوچا، یہ کیسے لوگ ہیں؟ مہمان نوازی کی روایت سے کورے اور سنگدل! اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، مکھیا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا:
’’مہاراج! ہمارے گاؤں میں پچھم کی طرف اچھوت رہتے ہیں۔ آپ اگر وہاں پدھاریں تو آپ کو ضرورت کی ہر چیز مل جائے گی۔‘‘
یہ کہہ کر مکھیا نے ایک آدمی کو آواز دی۔ ’’رگھونندن! رگھونندن!‘‘
ایک ہٹا کٹا آدمی آگے بڑھا۔ اس کی آنکھوں میں خباثت تھی۔ شکل ہی سے وہ ایک برا اور گھٹیا آدمی دکھائی دیتا تھا۔
’’مہاراج کو پچھم تک چھوڑ آؤ۔‘‘
رگھونندن نے دانت نکالتے ہوئے کہا: ’’مسافر چلو۔‘‘
رکن الدین نے سب پر اچٹتی سی نظر ڈالی۔ یہ کیسے انسان تھے! اس نے ان کے دھرم رسم ورواج کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا، لیکن اسے یہ مطلق اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ اتنے بے حس بھی ہوسکتے ہیں۔ وہ تھکے گھوڑے کے ساتھ تھکے تھکے قدم اٹھاتا رگھونندن کے پیچھے چلنے لگا جو تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا۔ گاؤں کے مغرب میں رگھونندن نے ہنس کر قدرے حقارت سے کہا: ’’وہ سامنے دیکھئے مہاراج! جھونپڑے ہیں، وہاں چلے جائیے…‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے قدم اٹھاتا لوٹ گیا۔
رکن الدین جب جھونپڑوں کے قریب پہنچا، تو کئی اچھوت اسے دیکھ کر جمع ہوگئے۔ ایک بوڑھے اچھوت نے کہا ’’مہاراج! میں سمجھ گیا آپ کس مشکل میں ہیں۔ آئیے، میرے جھونپڑے میں چلیں۔ آپ نے میرا مان بڑھایا ہے۔ ہمیں سیوا کا موقع دیں۔‘‘
رکن الدین اس بوڑھے کے اخلاق اور لہجے سے بہت متاثر ہوا۔ چند منٹ بعد اس کا گھوڑا گھاس کھا رہا تھا۔ رکن الدین کے سامنے گرم روٹی کے ساتھ گرم دودھ کا کٹورا رکھا تھا۔ جھونپڑے کے ایک کونے میں پیال بچھا کر اس کے لیے سونے کی جگہ بنادی گئی تھی۔ کھانا کھاتے ہی رکن الدین پیال پر لیٹا اور لیٹتے ہی سوگیا۔
عادت کے مطابق عین فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی۔ وہ اٹھا، ایک گھڑے سے پانی لے کر وضو کیا اور نمازِ فجر ادا کی۔ بوڑھا میزبان بھی جاگ اٹھا اور بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ جب رکن الدین نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر آنکھیں بند کیں، تو بوڑھے کی دلچسپی میں اضافہ ہوگیا۔ جب رکن الدین اٹھا، تو بوڑھے نے پوچھا: ’’مہاراج! آپ نے بھگوان سے کیا پرارتھنا کی ہے؟‘‘
’’میں نے رب ذوالجلال سے دعا کی ہے کہ وہ تمہیں ایمان کی روشنی عطا کرے! اس گھرانے کو اپنی برکتوں سے بھر دے جس نے مجھے مہمان بنایا۔‘‘
’’ایمان کی روشنی!‘‘ بوڑھے اچھوت نے حیرت سے کہا ’’میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’پھر سمجھاؤں گا بابا، ذرا میں سیر کرآؤں۔‘‘
رکن الدین پھر گاؤں سے دور نکل گیا۔ جب وہ لمبی سیر کے بعد واپس آرہا تھا، تو اس نے ایک گھنے کھیت کے قریب کچھ آوازیں سنیں۔
’’مان جاؤ!‘‘ کوئی ہنس کر کہہ رہا تھا ’’تمہارا پتی مررہا ہے۔ آج کل میں وہ نرک میں چلا جائے گا اور تمہیں ستی ہونا پڑے گا۔ میرا کہنا مان لو۔ مرنے سے پہلے یہ تو جان لو کہ مرد کی محبت کیا ہوتی ہے۔‘‘
’’دور ہوجا۔۔۔ بدمعاش!‘‘ کوئی عورت بولی ’’مجھے چھوا، تو میں چیخوں گی۔ سارا گاؤں جمع ہوجائے گا۔‘‘
مردکی ہنسی تیز ہوگئی۔ رکن الدین آگے بڑھا۔ سامنے رگھونندن کھڑا ایک لڑکی کا بازو پکڑے ہوئے تھا۔
’’اس کا بازو چھوڑدو۔‘‘ رکن الدین نے کہا۔
’’دیکھو، تم ہمارے معاملے میں نہ بولو۔‘‘ رگھونندن نفرت سے بولا: ’’یہ ہمارا اپنا معاملہ ہے۔‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا۔ تم اس کا بازو چھوڑدو۔ تمہیں کسی عورت کا بازو پکڑتے شرم نہیں آتی؟‘‘
’’شرم!‘‘ رگھونندن نے رکن الدین کے تیور دیکھ کر لڑکی کا بازو چھوڑ دیا اور ہنس کر بولا: ’’شرم! وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘
رکن الدین کو غصہ تو بہت آیا، لیکن اس نے مناسب یہی سمجھا کہ اسے ابھی ایسے بدمعاش سے الجھنا نہ چاہیے۔ اس نے رگھونندن سے کہا ’’دنیا کی ہر عورت ہمارے لیے قابلِ احترام ہے۔ اگر تم نے پھر اسے تنگ کیا، تو میں تمہیں سیدھا کردوں گا۔‘‘
رگھونندن نے گھور کر رکن الدین کی طرف دیکھا اور پھر زور سے تھوک کر وہاں سے چل دیا۔ وہ پندرہ سال کی لڑکی ہوگی۔ رکن الدین نے نگاہیں نیچی کرلیں۔
’’یہ پاپی ہمیشہ مجھے چھیڑتا رہتا ہے۔‘‘ وہ بولی ’’آپ بہت اچھے ہیں۔‘‘
رکن الدین نگاہیں جھکائے کھڑا رہا۔
’’میرا نام چمپا ہے۔ میں اسی گاؤں میں رہتی ہوں۔‘‘
’’کیا تمہارا خاوند بیمار ہے؟‘‘ رکن الدین نے اسی طرح آنکھیں جھکائے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا تمہارے گاؤں میں کوئی طبیب ہے؟ میں بھی تھوڑی بہت طب جانتا ہوں۔ اگر کہو تو میں اسے دیکھ کر دوا دے دوں؟‘‘
چمپا شرماگئی، جیسے پھولوں بھری ڈالی لچکاتی ہے، بولی: ’’میں اپنے سوامی کے پاس کیسے لے کے جاسکتی ہوں آپ کو؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ رکن الدین کی آواز میں تعجب تھا۔ ’’وہ تمہارا شوہر ہے۔‘‘
چمپا بڑے گمبھیر اور اداس لہجے میں کہنے لگی ’’مہاراج! میری شادی اس وقت ہوئی جب میں بہت چھوٹی تھی۔ میں اس کے گھر میں نہیں گئی۔ سارا گاؤں کہتا ہے وہ بہت بیمار ہے، مگر میں اسے دیکھنے نہیں جاسکتی۔ میری ماتا جی کہتی ہیں کہ میں ابھاگن ہوں، اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں اس کے ساتھ زندہ جلادی جاؤں گی۔‘‘
بے سوچے سمجھے رکن الدین نے اچانک اس کی طرف دیکھا، چمپا کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے پھر بولا ’’مگر…مگر‘‘ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا۔ ’’تمہاری رخصتی بھی نہیں ہوئی۔ تم … تم کیوں جلادی جاؤگی؟‘‘
’’مہاراج! ہمارا دھرم یہی کہتا ہے۔‘‘
’’دھرم!‘‘ رکن الدین نے خلا میں حیرت سے گھورا اور پھر آہستہ سے بولا: ’’سنو! یہ زندگی خدا کی نعمت ہے۔ اسے کوئی ضائع نہیں کرسکتا۔ یہ گناہ ہے، بہت بڑا گناہ۔ تمہیں زندہ رہنے اور دوسرا بیاہ کرنے کا پورا حق ہے۔‘‘
چمپا نے حیرت سے اس اجنبی کی طرف دیکھا، پھر آہستہ سے کہا: ’’مہاراج! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
رکن الدین خاموش رہا۔ چمپا خود ہی کچھ سوچتی ہوئی وہاں سے چل دی۔ وہ مڑ مڑ کر رکن الدین کو دیکھتی رہی جو کتنی ہی دیر وہاں کھڑا کچھ سوچتا رہا۔
رکن الدین واپس اچھوتوں کے گاؤں پہنچا، تو راہ میں ملنے والے ہر شخص نے اسے ادب سے ہاتھ جوڑ کر سلام کیا۔ وہ سب کے سلام کا جواب دیتا بوڑھے کے جھونپڑے میں پہنچا۔ بوڑھا اسے دیکھ کر بولا: ’’مہاراج! بہت دیر لگادی آپ نے۔‘‘
’’ہاں، لمبی سیر کو نکل گیا تھا۔ بابا! ایک بات پوچھوں۔‘‘
’’پوچھیں مہاراج۔‘‘
’’آپ سب لوگوں کے ہاتھ پاؤں اتنے میلے کیوں ہیں؟ نہاتے کیوں نہیں آپ لوگ؟‘‘
بوڑھا ہنسنے لگا۔ پھر دکھی سی آواز میں بولا: ’’مہاراج! ساتھ ہی باہمن پور ہے جہاں سے آپ ادھر آئے ہیں۔ وہاں ایک میٹھے پانی کا کنوا ں ہے، لیکن ہم اچھوت وہاں سے پانی بھر نہیں سکتے۔ یہاں پانی کی بڑی کمی ہے۔ صرف ایک نالا ہے جس میں موسم گرما میں پانی سوکھنے لگتا ہے۔ برسات ہوجائے تو ہم بارش میں نہالیتے ہیں۔ ہمیں تو پینے کے لیے بھی پورا پانی نہیں ملتا، نہانے کے لیے پانی کہاں سے لائیں؟‘‘
آہستہ آہستہ رکن الدین کی سمجھ میں ساری باتیں آرہی تھیں۔ انسانوں کے درمیان جو نفرت کی دیوار دھرم نے کھڑی کردی تھی، اس کا وجود رکن الدین کے لیے بھی قابلِ نفرت بن گیا۔
ہر بار جب وہ نماز پڑھتا، تو اچھوت اسے غور سے دیکھتے۔ اس کی عبادت کا انداز انہیں انوکھا بھی لگا اور پسند بھی آیا۔ رکن الدین نے پوچھنے پر بوڑھے کو اسلام کے بنیادی اصول، اسلامی اخوت اور مساوات کے ضابطے بتائے، تو اسے یقین ہی نہ آیا۔
’’بابا، یہ سچ ہے۔‘‘ رکن الدین بولا’’تم خود ہی دیکھ رہے ہوکہ تمہارے برتنوں میں تمہارا پکایا ہوا کھانا کھا رہا ہوں اور مجھے کراہت محسوس نہیں ہوتی۔‘‘
بوڑھا اچھوت اب واقعی قائل ہوگیا تھا، وہ بولا: ’’مگر مہاراج!سب آپ جیسے تو نہیں ہوسکتے!‘‘
رکن الدین نے آہستہ سے جواب دیا: ’’بابا! میں تو بہت معمولی انسان ہوں۔ میرے بھائی اور میرے بزرگ تو دینداری اور تقویٰ میں مجھ سے بھی بہت آگے ہیں۔‘‘
بوڑھا یہ سن کر خوشی اور بے یقینی کے عجیب و غریب جذبات سے مغلوب ہوگیا تھا۔
٭٭
رکن الدین گہری نیند سورہا تھا کہ اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے اپنے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنی تھی۔ وہ تیزی سے باہر کی طرف دوڑا۔ چھٹکی ہوئی چاندنی میں دیکھا کوئی اس کا گھوڑا بھگائے لے جارہا ہے۔ رکن الدین اس کے پیچھے تیزی سے بھاگا۔ گھڑسوار یقینا گھڑ سواری پر عبور رکھتا تھا۔ ایک گھوڑے پر وہ خود سوار تھا اور دوسرا گھوڑا ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا۔ چوری کے گھوڑے کو قابو میں رکھنے کی یہ اچھی ترکیب تھی۔ رکن الدین چیخا اور پوری قوت سے چور کے پیچھے بھاگا، مگر جلد تھک گیا۔ چاندنی میں اس نے گھوڑا چرانے والے کو پہچان لیا تھا۔ وہ رگھونندن کے سوا اور کوئی نہ تھا۔
رات کا آخری پہر تھا۔ رکن الدین نے فجر کی نماز پڑھی اور پھر باہمن پور کا رخ کیا۔ مندر میں پوجا ہورہی تھی۔ گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ وہ مندر کی چوکھنڈی کے باہر کھڑا رہا۔ جب پوجا ختم ہوئی، تو مندر سے کئی عورتیں اور مرد نکلے۔ عورتوں میں چمپا بھی تھی جو رکن الدین کو وہاں کھڑا دیکھ کر چونکی، پھر ایک طرف کھڑی ہوگئی۔
باہمن پور کا مکھیا اجنبی اور ملیچھ مسافر کو دیکھ کر ٹھہر گیا۔ اس کے چہرے پر نفرت کے آثار پیدا ہوئے۔ اس نے قدرے بلند آواز میں کہا: ’’مہاراج! آپ صبح صبح یہاں؟ میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کا باہمنوں کے گاؤں میں آنا مناسب نہیں۔ ہم نے تو یہی سن رکھا ہے کہ مسلمان دوسرے کے دھرم کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ مکھیا کا لہجہ کٹیلا تھا۔ رکن الدین نے اس کی کاٹ محسوس کی، لیکن ردِ عمل ظاہر نہ کیا اور بڑے دھیمے لہجے میں کہا:
’’میرا گھوڑا چوری ہوگیا ہے، اسے…‘‘
اس سے پہلے کہ رکن الدین اپنی بات پوری کرتا، بڈھا کائیاں مکھیا ہاتھ نچا نچا کر بولنے لگا: ’’یہ سب نیچ اچھوتوں کا کام ہے، چور ، بدمعاش…‘‘
’’میرا گھوڑا کسی اچھوت نے چوری نہیں کیا۔ جانے بوجھے بغیر کسی کو برا بھلا کہنا گناہ ہے۔ چور رگھونندن ہے۔‘‘
’’رگھونندن! میرا بیٹا… ‘‘مکھیا چیخا ’’جھوٹ۔‘‘
رکن الدین پر تب یہ انکشاف ہوا کہ رگھونندن، گاؤں کے مکھیا کا بیٹا ہے۔
’’یہ جھوٹ نہیں، وہی چور ہے۔ میں اسے اپنی آنکھو ںسے دیکھ چکا ہوں۔‘‘
چمپا وہیں سے رکن الدین کو دیکھ رہی تھی۔ گاؤں کے کچھ اور مرد اورعورتیں بھی وہاں مجمع لگا کر کھڑے ہوگئے۔ مندر کا پروہت بھی آگیا اور رگھونندن کی حمایت کرنے لگا۔
’’میں اپنا گھوڑا لے کر جاؤں گا۔‘‘ رکن الدین نے بھی آہنی عزم کے ساتھ کہا۔
مکھیا اندر سے کانپ اٹھا۔ وہ اپنے بیٹے کے برے کرتوت اچھی طرح جانتا تھا، لیکن ایک ملیچھ مسافر کے سامنے بھلا وہ کس طرح اپنے بیٹے کی حقیقت کھول دیتا؟
’’رگھونندن کو بلاؤ… ‘‘ مکھیا نے حکم دیا۔
کچھ آدمی رگھونندن کی تلاش میں چل دیے۔ رکن الدین بڑے وقار اور تحمل سے وہیں کھڑا رہا۔ چمپا کے دل پر اس کا یہ انداز نقش ہوتا جارہا تھا۔ تھوڑی دیر میں رگھونندن غرور سے چلتا وہاں پہنچ گیا۔
’’باپو! کیا بات ہے؟‘‘
’’تم نے ان مہاراج کا گھوڑا چوری کیا؟‘‘ مکھیا نے اپنے بیٹے سے پوچھا۔
رگھونندن نے فوراً اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا: ’’بابو! یہ جھوٹ ہے۔ میں بھلا اس کا گھوڑا کیوں چوری کرتا؟ میرے پاس میرا اپنا گھوڑا ہے۔‘‘
’’مہاراج، آپ کو غلط فہمی ہوئی، کبھی کبھی آنکھیں دھوکا بھی کھا جاتی ہیں۔‘‘ پروہت بولا۔
اس صریح جھوٹ پر رکن الدین تلملا اٹھا اور گونجدار، بارعب لہجے میں بولا: ’’رگھونندن! کان کھول کر سن لو۔ تم جھوٹے ہو۔ میں اس سرزمین پر کسی سے جھگڑا مول لینا نہیں چاہتا جہاں میں خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ آج سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے میرا گھوڑا وہیں پہنچ جانا چاہیے جہاں سے اسے چرایا گیا۔ اگر میرا گھوڑا مجھے واپس نہ ملا، تو پھر انجام کے تم خود ذمے دار ہوگے۔‘‘
یہ کہہ کر بڑے وقار سے چلتے ہوئے رکن الدین نے سارے ہجوم پر ایک نگاہ ڈالی اور محکم لہجے میں کہا: ’’تم سب گواہ رہنا کہ میں نے رگھونندن کو مہلت دی ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ چمپا اسے دیکھتی رہ گئی۔
رگھونندن نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور درشت آواز میں کہا: دیکھ لیں گے، کیا کرتا ہے۔ اگر یہ علاقہ فتح کرلیا ہے، تو کیا ہوا، اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا؟ اس کی فوج تو بہت دور نکل چکی۔‘‘
٭٭
اچھوتوں کے پاس جاکر اس نے بابا سے کہا: ’’ساری زمین خدا کی ہے۔ اس کے ایک ایک انچ کے نیچے خدا نے پانی کے ذخیرے جمع کیے ہیں۔ تم اپنا کنواں کیوں نہیں کھودلیتے؟‘‘
’’باہمن پور کے باہمنوں کو یہ منظور نہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو وہ ہمارے جھونپڑے جلادیں گے۔ ہماری عورتیں اور بچے قتل کردیں گے۔‘‘
’’بابا، میری بات غور سے سنو۔ خدا ایک ہے، ایک … اور اس سے بڑھ کر طاقتور اور کوئی نہیں۔ وہ کمزوروں اور مظلوموں کا محافظ ہے۔تم ہمت تو کرو، اپنے لوگوں کو جمع کرو۔ میں کنواں کھودنا چاہتا ہوں۔ میں خود ان کے ساتھ مل کر کنواں کھودوں گا۔ تمہاری جان اور آبرو کی حفاظت کروں گا۔‘‘
’’مہاراج! آپ اکیلے کس طرح ہماری حفاظت کریں گے۔‘‘
’’بابا! میں اکیلا نہیں، خدا کی عظیم ترین ذات میرے ساتھ ہے۔‘‘
اسی روز کنوئیں کی کھدائی کا کام شروع ہوگیا۔ اچھوت سہمے سہمے اور خوفزدہ سے تھے۔ رکن الدین ان کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ وہ خود سب سے بڑھ چڑھ کر کام کررہا تھا۔ ظہر کے وقت جب وہ نماز پڑھنے لگا، تو سب اسے حیرت اور دلچسپی سے دیکھنے لگے۔ کچھ بچے معصومیت اور بھولپن میں اس کی نقل بھی اتار رہے تھے۔ عصر کی نماز کے بعد وہ پھر کنوئیں کی کھدائی میں جٹ گیا۔
اسی وقت باہمن پور سے رونے اور ماتم کی آوازیں آنے لگیں۔ بوڑھا اچھوت بولا: ’’اوہ! کوئی مرگیا ہے۔‘‘
ایک عورت بولی: ’’چمپا دیوی کا پتی ہوگا۔ بے چاری بیوہ ہوگئی اس عمر میں۔ ہائے! ہائے! وہ تو ایک دن بھی اپنے پتی کے گھر نہ گئی تھی۔ اب وہ ستی ہوجائے گی۔‘‘
رکن الدین نے یوں محسوس کیا جیسے چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ اسی سناٹے میں چمپا کی نرم سہمی سہمی آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آواز گونج رہی ہو۔ ’’میں ابھاگن ہوں۔ اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں اس کے ساتھ زندہ جلادی جاؤں گی۔‘‘
رکن الدین کی آنکھوں کے سامنے چمپا کا چہرہ آگیا۔ سرخ گلاب کا سا چہرہ جس پر آنسوؤں کی شبنم چمک رہی تھی۔
’’میرے خدا! میری مدد کر!‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا ’’رب دو جہاں! مجھے اس کمزور اور بے بس لڑکی کو زندہ بچالینے کی ہمت عطا فرما۔‘‘
مغرب کا وقت ہوگیا۔ رگھونندن گھوڑے کو لے کر واپس نہ آیا۔ رکن الدین کے دل میںالاؤ جل رہا تھا۔ اپنے ارادوں اور جذبوں پر قابو پانا اس کے لیے مشکل ہورہا تھا۔ اس نے سوچا، اب اپنا عہد پورا کرنے کا وقت آگیا۔
’’میں ذرا باہمن پور تک جارہا ہوں۔‘‘ اس نے اچھوت بابا کو اطلاع دی۔
’’مہاراج! آپ اس وقت نہ جائیں، وہ برا مانیں گے۔ چمپا کے پتی کی لاش بھی رات کو جلائی جائے گی۔ ساتھ ہی چمپا بھی ستی ہوجائے گی۔‘‘
رکن الدین نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے قدموں کی رفتار تیز ہوگئی۔ بوڑھے اچھوت نے اسے تاریکی میں گھلتے ملتے دیکھا اور پھر جس طرح رکن الدین نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتا تھا، اسی طرح زمین پر دو زانو ہوکر ہاتھ اٹھا کر کہنا شروع کیا: ’’اس نیک انسان کے رب! اے مظلوموں کے رب! تو اپنے اس نیک بندے کی حفاظت کر! اس کی مدد کر!‘‘
بڈھے اچھوت کی چندھی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ رہی تھیں۔
٭٭
چمپا کا شوہر جس کے گھر وہ کبھی نہیں آئی تھی، جس کے ساتھ بچپن میں اس کی شادی کردی گئی تھی، مرگیا تھا۔ اس کے انتم سنسکار کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ ادھر چمپا کو اپنے گھر میں دلہن بنایا جارہا تھا۔ رسم کے مطابق مرنے والے کی بیوی کو دلہن بناکر ستی کیا جاتا تھا۔ وہ سکتے کے عالم میں تھی۔ اس کا روپ دیکھنے کے قابل تھا۔ پھر اچانک وہ سکتے کے عالم سے نکلی۔ عورتوں کے ہاتھوں کا لمس اسے بچھوؤں کی طرح ڈنک مارنے لگا۔اس کی نگاہوں کے سامنے رکن الدین کا سراپا آگیا۔ عزم و شان سے کھڑا بانکا، خوبصورت جوان، باحیا، آنکھیں نیچی کیے ہوئے۔ پھر اس کے کانوں میں رکن الدین کی آواز گونجنے لگی:
’’یہ زندگی خدا کی نعمت ہے۔ تمہیں زندہ رہنے اور دوسرا بیاہ کرنے کا پورا حق ہے۔‘‘
’’زندگی… میرا حق…‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ نیم جان ہوچکی تھی۔ عورتیں اسے سہارا دیے اس کے پتی کی ارتھی کے پیچھے پیچھے لے کر چل رہی تھیں۔ جب ارتھی کا جلوس شمشان کے قریب پہنچا، تو ارتھی میں شامل لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ شمشان کے اندر جانے والے راستے پر رکن الدین اپنی تلوار نیام سے باہر نکالے کھڑا تھا۔ ارتھی کا جلوس رک گیا۔ پروہت کی آنکھیں انگارے کی طرح چمکنے لگیں۔
رکن الدین نے گرجدار آواز میں کہا ’’باہمن پور کے لوگو! غور سے میری بات سنو۔ میں تمہارے ساتھ کوئی جھگڑا کرنا اور تمہارے مذہبی معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتا۔ میرا دین جبر سے منع کرتا ہے۔ اپنا مردہ اپنی رسم کے مطابق جلاؤ، لیکن دو باتیں غور سے سن لو۔‘‘
وہ چند ساعتوں کے لیے رکا، پھر اسی گرجدار آواز میں بولا: ’’آج صبح میں نے تمہیں گواہ بنایا اور رگھونندن سے کہا تھا کہ وہ میرا گھوڑا سورج غروب ہونے سے پہلے واپس کرجائے۔ گاؤں میں مرگ ہونے کی وجہ سے میں اسے پھر چھوٹ دیتا ہوں۔ مردے کو جلانے کے بعد وہ میرے ساتھ چلے گا اور میرا گھوڑا میرے حوالے کردے گا۔‘‘
وہ پھر چند ساعتوں کے لیے رکا اور پھر حزن و یقین کے ملے جلے جذبات سے معمورہوکر بولا:
’’زندگی خدا کی امانت ہے۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی جان لے۔ صرف چمپاکے شوہر کو جلایا جائے گا۔ چمپا اس کے ساتھ زندہ نہیں جلائی جائے گی۔‘‘
مجمع کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ کچھ دیر بعد ہجوم میں سرسراہٹ ہوئی اور پھر لوگ اونچی آواز میں بولنے لگے۔ پروہت اورمکھیا آگے بڑھے۔ ان کے چہرے نفرت سے مسخ ہورہے تھے۔
’’مہاراج! ہم نے آپ کا بہت لحاظ کیا۔ آپ ہمارے دھرم میں دخل نہ دیں اور یہاں سے چلے جائیں۔‘‘
’’اگر میں یہاں سے نہ جاؤںتو…‘‘ رکن الدین نے بڑے ٹھنڈے اوردھیمے لہجے میں پوچھا۔
مکھیا نے اس لہجے کی تاثیر پوری شدت سے محسوس کی اور دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ مگر پروہت وہیں کھڑا رہا اور مضبوط آواز میں بولا: ’’ہم اپنی جانیں لٹا دیں گے اور مہاراج بھی کٹ جائیں گے۔‘‘
رکن الدین نے اپنی تلوار لہرائی، تو پروہت ڈر کر پیچھے ہٹا۔ رکن الدین نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’میں تیار ہوکر آیا ہوں۔‘‘
وہ پھر یک دم لہجہ بدل کر بولا: ’’اگر چمپا خود جل مرنے کے لیے تیار ہے تو میں یہاں سے ہٹ جاتا ہوں۔‘‘
کئی آوازیں گونجنے لگیں: ’’چمپا چمپا!… دھرم کی لاج رکھنا … چمپا چمپا…‘‘
چمپا، جو گھر سے شمشان تک نیم بے ہوشی کی حالت میں خود کو گھسیٹتی آئی تھی، اب پوری طرح ہوش میں آچکی تھی۔ اس نے رکن الدین کی آواز سن کر اپنے آپ سے کہا: ’’چمپا چمپا، دیکھ! دیوتا تیری حفاظت کو آگئے۔‘‘
ماحول میں آوازیں گونج رہی تھیں’’چمپا! چمپا! دھرم کی لاج رکھنا۔ تو ستی ہوکر دیوی بن جائے گی۔ تیرے سارے پاپ دھل جائیں گے۔‘‘
چمپا نے دل میںکہا: ’’میں نے کون سا پاپ کیا ہے جو دھل جائے گا؟‘‘
پھر اس نے ٹھہری ہوئی محبت بھری درد میں ڈوبی اور حوصلہ دلانے والی آواز سنی: ’’چمپا! کیا تم زندہ جل کر مرنا چاہتی ہو؟ جواب دو چمپا! زندگی اللہ کی دین ہے۔ اسے چھیننے کا حق کسی کو نہیں۔ وہ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، اس پر بھروسا کرو۔ وہ تمہیں زندہ رکھے گا۔ تم زندگی کی خوشیاں دیکھو گی۔ کوئی تمہیں نقصان پہنچا نہ سکے گا۔ میں اللہ کا بندہ، اللہ کے نام پر تمہاری حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں۔‘‘ چمپا کے دل اور دماغ میں شدید کشمکش ہورہی تھی۔ اس کی ماں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی: ’’چمپا! دھرم کا پالن کرنا۔‘‘
رکن الدین نے آخری بار فیصلہ کن اور بارعب آواز میں پوچھا: ’’چمپا! جواب دو۔ کیا تم زندہ جل کر مرنا چاہتی ہو؟‘‘
’’نہیں… نہیں…‘‘ وہ چیخی’’نہیں نہیں … میں زندہ رہنا چاہتی ہوں۔ مجھے بچالو، میرے دیوتا! میری رکھشا کرو۔‘‘
لوگ چیخنے اور چمپا کو گالیاں دینے لگے۔ جب شور کچھ تھما، تو پروہت نے کہا: ’’مہاراج! آپ چلے جائیں، یہ کنیا نادان ہے۔ ہم اپنے دھرم کی ریت نبھائیں گے، یہ ستی ہوگی۔‘‘
’’یہ زندہ نہیں جلے گی۔‘‘ رکن الدین نے کہا: ’’جاؤ مردے کو جلاؤ۔‘‘
اب رگھونندن اپنے جیسے دس پندرہ ہٹے کٹے لوگوں کے ساتھ آگے بڑھا اور بولا: مترو! لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔‘‘
رکن الدین مسکرایا۔ ارتھی کا جلوس رکتے دیکھ کر رگھونندن کچھ لوگوں کے ساتھ گاؤں میں چلا گیا تھا۔ اب وہ تیار ہوکر آئے تھے۔ کسی کے ہاتھ میں نیزہ تھا، کسی کے پاس تلوار اور کسی کے ہاتھ میں چمکدار خنجر۔ رکن الدین نے مستقل مزاجی سے کہا:
’’تم مقابلے پر آنا چاہتے ہو، تو آج اپنی بہادری کا شوق بھی پورا کرلو۔ یاد رکھو! میری تلوار بڑی چیز ہے اور میں اکیلا نہیں۔ میرے ساتھ میرا اللہ ہے۔ اسی جگہ تمہارا خون بہے گا۔ مگر رگھونندن! تم میرے ہاتھ سے اس وقت تک نہیں مروگے جب تک مجھے میرا گھوڑا واپس نہ کروگے۔ آگے بڑھو اور وار کرو۔‘‘
ہجوم اب خاموش ہوگیا۔ دس پندرہ لوگ رگھونندن کے ساتھ آگے بڑھے۔ رکن الدین کی طرف وہ حقارت سے دیکھ رہے تھے۔ جونہی ایک شخص نے رکن الدین کی جانب نیزہ تانا، رکن الدین کی تلوار حرکت میں آگئی۔ چند منٹ میں لوگوں نے دیکھا کہ ان کے سورما زخمی ہوکر گرے ہوئے کراہ رہے ہیں۔ لوگوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اجنبی کی تلوار بجلی کی طرح چمک رہی ہے۔ اور وہ جان بوجھ کر کسی کو ہلاک نہیں کررہا ۔
کچھ لوگ گاؤں کی طرف بھاگ گئے تھے۔ جنھوں نے ارتھی اٹھا رکھی تھی، انھوں نے اسے زمین پر رکھ دیا۔ مکھیا اور پروہت سب سے پیچھے دبکے کھڑے تھے۔ رگھونندن کا شانہ زخمی تھا اور ایک انگلی بھی کٹ گئی تھی۔
رکن الدین نے سب کو بیک نظر دیکھا۔ پھر خون آلود تلوار لہراتے ہوئے کہا: ’’اپنے مردے کو اپنی رسم کے مطابق جلاؤ۔‘‘
پھر وہ تلوار کی نوک رگھونندن کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا: ’’اٹھو میرے ساتھ چلو۔‘‘
پھر اچانک اسے کچھ خیال آیا: ’’اور چمپا تم بھی۔‘‘
وہ تینوں عجیب انداز میں وہاں سے چلے۔ آگے آگے رگھونندن تھا، اس کے پیچھے بے نیازی اور وقار سے رکن الدین چل رہا تھا اور اس کے پیچھے چمپا جو دلہن بنی تھی اور زندہ بچ جانے اور اپنے دیوتا کے ساتھ جانے کی خوشی میں گلاب کے مانند کھل رہی تھی۔
رگھونندن نے ایک رکھ میں گھوڑا باندھ رکھا تھا۔ رکن الدین نے اپنے گھوڑے کو تھپکی دیتے ہوئے کہا: رگھونندن! اپنے گاؤں چلے جاؤ اور آرام سے زندگی بسر کرو۔ دوسروں پر ظلم کرنا چھوڑدو۔‘‘
رگھونندن نے پھر ایک اور چونکا دینے والا منظر دیکھا۔ چمپا گھوڑے پر سوار تھی۔ وہ اجنبی، گھوڑے کی باگ پکڑے آگے آگے جارہا تھا… چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔
٭٭
اس رات جب اچھوتوں کے گاؤں میں سب لوگ سو رہے تھے، جھونپڑوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ لیکن کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ رکن الدین نے سب کے ساتھ مل کر آگ بجھادی اور جب صبح ہوئی تو اس نے اچھوتوں سے کہا: ’’کنوئیں کی کھدائی کا کام شروع کرو۔‘‘
وہ سب کنواں کھودنے لگے۔ چمپا، جو پہلے کبھی کسی اچھوت سے چھو بھی جاتی، تو اس کا جی گھبرانے لگتا تھا، اب ان کے ساتھ مل کر کام کررہی تھی۔ وہ سارا دن ہنستے کھیلتے کنواں کھودتے رہے۔
اس شام اچھوتوں کے جھونپڑوں سے کچھ فاصلے پر دو آدمی کھڑے ہوگئے۔ وہ اچھوتوں کے چودھری، بوڑھے کو آوازیں دے رہے تھے۔ بوڑھا اٹھا، تو رکن الدین بھی اس کے ساتھ چل دیا۔ رکن الدین نے دیکھا کہ پروہت اور گاؤں کا مکھیا وہاں کھڑے ہیں۔
’’آئیے مکھیا جی! پروہت صاحب! آگے آجائیے۔‘‘ رکن الدین نے کہا۔
’’ہم آگے نہیں آسکتے۔ اس حد سے آگے ہمارا دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے۔‘‘ پروہت نے جواب دیا۔
’’اچھا! تو فرمائیے اب کیا حکم ہے؟ غریبوں کے جھونپڑے جلاکر کیا ملا آپ کو؟
’’ہم آپ سے نہیں، اچھوتوں کے اس چودھری سے بات کرنے آئے ہیں۔‘‘
’’میں بھی اسی بستی میں رہتا ہوں۔ چودھری نے مجھے بات کرنے کا اختیار دیا ہے۔‘‘
’’کیوں بابا جی؟‘‘
’’ہاں، مہاراج! میری طرف سے اب یہی بات کریں گے۔‘‘ بوڑھے اچھوت نے کہا۔
’’چودھری پچھتاؤ گے! سنا ہے تم کنواں کھود رہے ہو۔‘‘
’’ہاں، میں کنواں کھدوا رہا ہوں۔‘‘
’’ہم چمپا کو واپس لینے آئے ہیں۔‘‘ مکھیا بولا
’’چمپا نے اب یہیں رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘ رکن الدین نے کہا’’وہ موت کی طرف نہیں جانا چاہتی۔‘‘
’’اور کنواں؟… ہمارا دھرم کسی اچھوت کو اپنا کنواں کھودنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
رکن الدین کو جلال آگیا۔ ’’بات کرنے سے پہلے سوچ لیا کرو کیا کہہ رہے ہو۔ اس حد بندی سے آگے آنے پر تمہارا دھرم، بھرشٹ، ہوجاتا ہے۔ یہ جگہ کس کی ہے جہاں یہ جھونپڑے بنے ہیں؟‘‘
’’اچھوتوں کی۔‘‘ پروہت بولا۔
’’تو وہ اپنی زمین میں کنواں نکال رہے ہیں۔ تم روکنے والے کون؟‘‘ یک دم رکن الدین کی آواز سخت ہوگئی: ’’یہاں سے چلے جاؤ۔ اگر تم اچھے ہمسایوں کی طرح نہیں رہ سکتے، تو ہم سے کوئی سروکار نہ رکھو۔ اگر اب تمہاری طرف سے کوئی زیادتی ہوئی تو ہم سب مل کر باہمن پور کو خاک میں ملا دیں گے۔‘‘
بات ختم کرکے رکن الدین نے بوڑھے اچھوت کو اشارہ کیا اور وہ دونوں وہاں سے چل دیے۔ پروہت اور مکھیا دیر تک ہکا بکا کھڑے رہے۔
٭٭
کنواں نکل آیا، اس کا پانی میٹھا اور ٹھنڈا تھا۔ اچھوت نئے جھونپڑے بنانے لگے… اور رکن الدین مسجد تعمیر کرنے لگا۔ چند روز تک وہ اکیلا ہی اس کام میں لگا رہا۔ پھر چمپا اس کا ہاتھ بٹانے لگی۔ پھر گاؤں کا چودھری بوڑھا، پھر جوان، سب رکن الدین کے دین پر ایمان لے آئے تھے اور اس کی طرح خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہتے تھے۔
مسجد بن گئی اور رکن الدین نے وہاں پہلی اذان دی، تو اس وقت باہمن پور پر ہو کا عالم طاری تھا۔ مسجد کی تعمیر اور پہلی اذان سے قبل کئی باہمن بھی اچھوتوں کے گاؤں میں آکررکن الدین کے ہاتھوں مسلمان ہوچکے تھے۔ باہمن پور کے پروہت اور مکھیا نے بچے کھچے لوگوں کو وہاں سے نکال لے جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
اور رکن آباد میں نومسلموں کے گاؤں کے لوگ اپنے کنویں کے ٹھنڈے میٹھے پانی سے وضو کرکے نماز کی تیاری کررہے تھے۔ ——