کرشی پردھان دیش‘ ہندوستان کے کسان گزشتہ تقریباً دو مہینوں سے خون جمادینے والی سردی میں زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دہلی کے باہر سرحدی علاقوں میں سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ اس دوران 15؍جنوری کو نویں دور کی بات چیت بھی ناکام ہوگئ اور اب اگلی تاریخ 19؍ جنوری طے پائی ہے۔ اس طرح ’تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ‘ کی مثال اب عدالتی نظام کے علاوہ سیاسی نظام میں بھی پیش کی جارہی ہے۔
تینوں زرعی قوانین کے سلسلے میں ملک کے کسانوں کے جو خدشات اور اندیشے ہیں، انہیں لاکھ کوششوں کے باوجود حکومت ابھی تک دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور مستقبل میں اس کا امکان بھی بہت معمولی حد تک نظر آتا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ تینوں قوانین پر جو اعتراضات کسانوں کے ہیں ان ’اعتراضات‘ نے عوام کو بھی نئے خدشات میں مبتلا کردیا ہے اور سماج کا دوسرا طبقہ بھی ان کی حقیقتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچا ہے کہ یہ قوانین صرف کسانوں ہی کو متاثر نہیں کریں گے بلکہ عوام الناس کو بھی بری طرح، بلکہ کسانوں سے زیادہ متاثر کریں گے۔ جو لوگ ابھی تک اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیںانہیں چاہیے کہ وہ بڑی بڑی کمپنیوں کے اسٹورس میں جاکر کچھ دن سبزیاں اور زرعی مصنوعات خریدنے کی کوشش کریں۔ اگر انہیں بہت زیادہ مہنگی محسوس ہوں تو کم از کم چند روز جاکر ’’صرف ریٹ معلوم کریں۔ خریدیں نہیں، خریدیں چاہے جہاں سے‘‘۔ انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ وہ گوبھی جو کسان پانچ روپے کلو فروخت نہیں کرپارہا ہے اور مایوس ہوکر کھڑی فصل کو جوت کر خود اپنے ہی ہاتھ تباہ کرنے پرمجبور ہے، وہی ان اسٹورس میں سو روپے کلو سے زیادہ قیمت پر فروخت کی جارہی ہے۔ یہ ایک مثال ہے جو عام لوگوں کے لیے پیش کی گئی ہے۔ خصوصاً شہری ہندوستان کے عوام کے لیے جنہیں دیہی ہندوستان کے مقابلے زیادہ تعلیم یافتہ اور خوش حال تصور کیا جاتا ہے۔
سیاسی اعتبار سے کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے پیچھے کیا سیاسی حکمت عملی چل رہی ہے، اس کا اندازہ لگانا تو فی الحال بہت مشکل نہیں لیکن جو بات باوثوق طریقے سے کہی جاسکتی ہے وہ یہی ہے کہ حکومت کسانوں کی بات ماننے کے لیے کسی طور پر آمادہ نہیں ہے اور ایسا ہی معاملہ کسانوں کا ہے کہ وہ اپنے اندیشوں یا یوں کہیے کہ ’’یقین پر مبنی اندیشوں‘‘ کے سبب اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کے لیے رضا مند نہیں ہیں۔ ان کا احتجاج آگے چل کر کیا صورت حال اختیار کرے گا اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے ان کی حکمت عملی کیا ہوگی یہ کہنا قبل از وقت ہے مگر اتنا طے ہے کہ دہلی اور اس کے آس پاس کی ریاستوں کے کسان جس ثابت قدمی کے ساتھ سڑکوں پر جمے ہیں اسے دیکھتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں نظر آتا ہے کہ کسانوں کا یہ احتجاج قریبی وقت میں ختم ہوپائے گا۔ اسی طرح 26 جنوری کو ٹریکٹر پریڈ کی جو کال کسانوں نے دی ہے وہ بھی ذہن میں بے چینی پیدا کرسکتی ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ کسانوں کا احتجاج ملک کی تقریباً تمام ہی ریاستوں میں مقامی سطح پر بھی جارہی ہیں۔
اس دوران سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں مداخلت کی ہے۔ ابتدائی مراحل میں تو کسان اور عوام اس کے تبصروں سے اس بات کی امیدیں لگا رہے تھے کہ وہ کسانوں کے حق میں اہم رول ادا کرسکتی ہے، مگر حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے کسانوں سے گفتگو کے لیے جو کمیٹی تجویز کی اسے دیکھ کر نہ صرف کسانوں کو مایوسی ہوئی بلکہ ان تمام لوگوں کو بھی حیرت ہوئی جو سپریم کورٹ سے اس معاملے میں کسانوں کی حمایت پر مبنی تبصروں اور فیصلوں کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ اس کمیٹی میں تجویز کردہ ممبران کو دیکھ کر ہر شخص حیرت زدہ ہوگیا کہ اس کمیٹی میں وہی افراد ممبر نام زد کیے گئےتھے جو پہلے سے ان زرعی قوانین کی حمایت میں آن ریکارڈ مضامین لکھ چکے تھے یا ان کی حمایت میں عوامی سطح پر بول چکے تھے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں کسانوں کے لیے ان پر اعتماد کرنا دشوار کام ہے اور اپوزیشن سیاسی پارٹیوں نے بھی اس پر تنقید کی ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کی تجویز کردہ اس کمیٹی کے ایک رکن نے خود کو اس سے الگ کرتے ہوئے کسانوں کے حق میں بیان دیا ہے۔ ابتدائی مراحل میں عدالت عظمیٰ نے ایک بار پہلے بھی کمیٹی کا ذکر کیا تھا اور اپنے تبصرے میں ایک دو نام ایسے بھی سامنے آئے تھےجو غیر سیاسی شناخت رکھنے والے اور زرعی سیکٹر کے ارتقاء میں اہم رول رکھنے والے تھے مگر اس کی کمیٹی میں ایسا کوئی نام نظر نہیں آیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کسانوں کی جو صورت حال ہے اور جس طرح بڑھتی مہنگائی اور زرعی پیداوار کی قیمتوں میں غیر متوازن اور غیر حقیقت پسندانہ اضافے کے سبب کسانوں کے لیے کھیتی باڑی کرنا دن بہ دن مشکل ہوتا جارہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتیں کوئی بھی رہی ہوں وہ کسانوں کے ارتقاء اور ان کی خوشحالی کے سلسلے میں پختہ اقدامات کے بجائے محض لبھاؤنے وعدوں سے کام چلانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسانوں کے استعمال میں آنےو الے زرعی آلات پر GSTكکی شرح18% فیصد ہے جبکہ ٹریکٹر اور آٹو موٹیو زرعی آلات پر یہ شرح 18 فیصد سے 28 فیصد کے درمیان ہے۔ دوسری طرف گولڈ اور ڈائمنڈ کی مصنوعات پر GSTکی شرح 3 فیصد ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ گولڈ اور ڈائمنڈ سے بنے زیورات کون خریدتا ہے اور کون بیچتا ہے اور انسانی زندگی میں ان کی ضرورت و اہمیت کتنی ہے۔ جبکہ زرعی آلات کی خریداری کے بارے میں اتنا طے ہے کہ اسے صرف کسان ہی خریدتا ہے اور کسان کے لیے ان کی حیثیت اور ضرورت کیا ہے۔
ہندوستان میں کسان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ وہ حکومتوں کے لیے محض ووٹ بینک کے طور پر دیکھا اور استعمال کیا جاتا رہا ہے اور حکومتیں ہمیشہ سرمایہ داروں کے حق میں فیصلے اور عمل دونوں کرتی رہی ہیں۔ ایک کسان ٹریکٹر پر لون لے کر ادا نہ کرپانے کی صورت میں برباد ہوجاتا ہے اور پشتینی زمین سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جو اس کی زندگی کا واحد سہارا تھی، دوسری طرف بڑے بڑے سرمایہ دارہزاروں کروڑ کا قرض لے کر ڈکار جاتے ہیںاور حکومت ان سے واپس لینے کے بجائے ان کے قرضوں کو معاف کردیتی ہے۔
اگر کسان واقعی ’اَن داتا‘ ہے، جیسا کہ تمام حکومتیں دعوے کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی یہی دعویٰ کرتی ہے، تو اس دعوے کی سچائی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے چاہیے کہ وہ اِن ’اَن داتاؤں‘ کی بات کو دھیان اور محبت سے سنے، ان کی خوشحالی کے لیے ایسی منصوبہ بند کوشش کرے جن پر ان کو اعتماد ہو۔ اسی طرح کسانوں کے لیے سستی قیمت پر آلات اور پیٹرول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی فصل کی مناسب ترین قیمتیں متعین کرنے اور انہیں یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کرے اور پورے ملک میں اسے نافذ کرے۔