کرناٹک کے ایک کالج سے شروع ہوا حجاب کا مسئلہ اب بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔مسئلہ کئی کالجوں میں پھیل گیا۔ ریاست کے تمام ہائی اسکولز کوتین دنوں کی چھٹی دے دی گئی ہے۔ 22 ضلعوں میں امن وامان کی صورتحال کنٹرول کرنے کےلئے پولیس فوسرسیز بلائی گئی ہیں۔معاملہ اب ہائر بنچ کے سپرد کر دیا گیا ہے۔معاملے نے اس وقت شدت اختیار کرلی تھی جب اڈپی کے ایک کالج نے کچھ لڑکیوں کو حجاب کے ساتھ کالج کیمپس میں داخلے سے روک دیا تھا۔ کالج کی منیجنگ کمیٹی کے چیئرمین نے،جو بی جے پی کے ایم ایل اے بھی ہے، اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ یکسانیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی قانون کو نہیں توڑ رہی ہے۔ کالج کا ایسا کوئی قانون ہے ہی نہیں جس کی رو سے لڑکیاں حجاب پہن کر کالج میں نہیں آسکتی ہوں۔حجاب پہن کر کیمپس میں داخل ہونا ان لڑکیوں کا دستوری حق تھا۔ہندوستان کا دستور انھیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں۔جس طرح ایک ہندو لڑکی مانگ میں سندھور بھر کر یا منگل سوتر پہن کر اسکول میں آسکتی ہے بالکل اسی طرح مسلم لڑکی کو بھی برقعے کی آزادی ہے۔بالکل اسی طرح کے ایک کیس میں کیرلہ ہائی کورٹ نے اس بات کو واضح کردیا تھا کہ
ترجمہ: ’’اس بات پر اصرار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک خاص ڈریس اختیار کیا جائے جس کے نہ ہونے کے سبب طالب علم کو امتحان میں بیٹھنے سے روکا جائے۔‘‘
ظاہر ہے کیرلہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ملک کا قانون ہے۔ کوئی اتھارٹی اس پر سوال نہیں کر سکتی ہے۔۔ کالج کی اس دلیل میں کوئی دم نہیں ہے کہ لڑکیوں نے حجاب پاپولر فرنٹ یا کیمپس فرنٹ کے اکسانے پر پہنا ہے اگر برائے بحث اسے سچ مان بھی لیا جائےتب بھی اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہ ان کا دستوری حق ہے اور اسے استعمال کرنے کی انھیں اجازت ہونی چاہیے۔اسی طرح کالج کی اس دلیل میں بھی کچھ دم نہیں کہ صرف کچھ لڑکیاں ہی حجاب پہننا چاہتی ہیں۔ اگر صرف چھ یا آٹھ لڑکیاں بھی حجاب کرنا چاہ رہی ہیں تو یہ انکا دستوری حق ہے۔کالج کا یہ کہنا کہ وہ اسی وقت کالج اٹینڈ کرسکتی ہیں جب وہ حجاب اتاردیں، ان لڑکیوں کے دستوری حق کو چھیننے کا معاملہ ہے۔
ہندوستانی سیکولرازم، فرانس کے سیکولرازم سے اس معنوں میں مختلف ہے کہ یہاں عوامی مقامات پر مذہبی علامتوں کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ہندوستانی سیکولرازم اس معاملے میں نرم رویہ رکھتا ہے ۔ اس نے ہندوستانیوں کو اپنی روایات سے علیحدہ کیے بنا سیکولرازم کے جدید عمل کو شروع کرنے میں مدد کی ہے۔اس معاملے کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ واقعہ ریاست کرناٹک میں ہوا ہے ۔ کرناٹک کی امیج ترقی یافتہ پر امن ریاست کی ہے، جو اپنے ذہین دماغوں، بہتر تعلیمی معیارات اور startups کے لیے مشہور ہے لیکن جس طرح کے واقعات فی الوقت ہورہے ہیں، جیسے کیمپس سے ہندوستانی پرچم نکال کر بھگوا جھنڈا لہرانا، ہندوتوادی غنڈوں کا لڑکیوں کو گھیر کر جے شری رام کے نعرے لگانا، بھگوا رومالوں کی تقسیم ، طلباء کی نعرے بازی وغیرہ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ کرناٹک بدل رہا ہے ۔
پہلے صرف کوسٹل ایریا میں ہی کمیونل ٹیشن ریتا تھا اب سینٹرل کرناٹک تک چلا آیا ہے۔پچھلے کچھ عرصے میں یہ دوسرا موقع ہے جب کرناٹک کا ہندوتوادی چہرا کھل کر سامنے آیا ہے ۔ اس سے پہلے کووڈ کی پہلی لہر میں تبلیغی جماعت کے خلاف چلی مہم کے وقت بھی کرناٹک میں ایسی ہی مسلم مخالف لہر چلی تھی ۔ کرناٹک میں بڑے پیمانے پر ایک آڈیو وائرل ہوا تھا کہ مسلمان سبزی والے اور پھل بیچنے والوں کو اپنے محلوں اور سوسائٹیز میں آنے نہ دیا جائے۔آڈیو میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسلمان سبزی اور پھلوں کے بہانے کورونا پھیلا رہے ہیں۔مینگلور کے علاقوں میں پوسٹر لگائے گئے تھے کہ کورونا ختم ہونے تک مسلمانوں کا ان کے علاقے میں داخلہ ممنوع رہے گا۔انکانہالی گاؤں میں تو پنچایت کے سرپنچ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اگر کوئی ہندو کسی مسلمان سے معاملات کرتا ہوا پایا گیا تو اسے 500 سے 1000 روپے تک کا جرمانہ دینا ہوگا۔
کرناٹک میں بڑھتی مسلم دشمنی کو سمجھنے کے لیے Campaign Against Hate Speech کی 2020 میں کرناٹک پر شائع ہوئی خصوصی رپورٹ: The wages of hate: journalism in dark times کا مطالعہ ضروری ہے ۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کرناٹک میڈیا کس طرح کرناٹک کے عوام کو مسلم نسل کشی کے لیے تیار کر رہا ہے ۔رپورٹ میں مختلف اخبارات اور چینلز کا مطالعہ کیا گیا ہے کہ ان کا revenue pattern کیا ہے، ان کے مالک کون ہیں، میڈیا ہاؤسز کس آئیڈیالوجی سے جڑے ہیں اور سب سے اہم کہ پچھلے ایک سال میں کس طرح کی نیوز وہ پروموٹ کرتے رہیں ہیں ۔ کرناٹک میڈیا کس طرح کا ذہن تیار کر رہا ہے اس کا اندازہ رپورٹ کے پہلے صفحے پرمشہور سوشیالاجسٹ ، نسل کشی اور انسانی حقوق کے سبجیکٹ کی ماہر ہیلن فین کے درج ذیل quote سے ظاہر ہوتا ہے:
Genocide and other forms of mass violence occur neither spontaneously not abruptly. They follow a process of social conditioning to build up hatred and fear until those emotions become reflexive, and to place other human beings outside the “ universe of moral obligation”
اب تک یہ مانا جاتا رہا ہے کہ ہندوتوا کی آئیڈیالوجی صرف نارتھ میں ہی کامیاب ہوسکتی ہے، لیکن پچھلے کچھ عرصے میں بنگال اور کرناٹک میں بڑھتے ہندوتوا کے اثرات کے سبب یہ ماننا پڑے گا یہ زہر اب پورے ہندوستان میں تیزی سے پھیلنے لگا ہے ۔اس لیے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ گجرات اور اتر پردیش کے بعد کرناٹک سنگھ کی اگلی تجرباہ گاہ ہے ۔
ہندوستان کی موجودہ سیاست جس رخ پر جا رہی ہے اس میں اس طرح کے ایشوز اب بار بار آتے رہیں گے۔اس میں مسلمانوں کا اپروچ کیا ہونا چاہئے۔ یہ بڑا سوال ہے جس پر عام مسلمانوں کے علاوہ لیڈر شپ کو خاص طور پر غوروفکر کرنا چاہیے۔ فی الوقت جو گروہ ہمارے مدمقابل ہے اس کی تاریخ استحصال کی تاریخ ہے ۔ اگر آج ہم اپنے ایک حق سے دستبردار ہوجائیں گے یا ایک ظلم کو خاموشی سے سہہ لیں گے تو اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ گروہ اس پر رک جائے گا۔ اس استحصالی گروہ کا مزاج یہ ہے کہ اس کے ظلم کی انتہا کسی نکتے پر جاکر ختم نہیں ہوتی ہے ۔ اگر آج ہم ایک معاملے کو رفع کرنے کے لیے ایک ظلم سہہ لینگے یا ایک حق سے دستبردار ہوں گے تو کچھ دنوں بعد یہ دوسرا حق چھیننے کے درپے رہیں گے۔ یہ بات کسی جذباتی رو یا مذہبی تعصب میں کہی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی تاریخ اس پر گواہ ہے ۔ شودروں اور بدھسٹوں کے ساتھ یہاں جو کچھ ہوا ہے اس کا پورا ڈاٹا اور ہسٹری موجود ہے ۔ اس لیے کسی بھی معاملے کو یہ کہہ کر compromise نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وسیع تر مفاد کے لیے چھوٹے ظلم کو نظر انداز کر دیا جائے،لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہر ایشو کو ہنگامی بنیادوں پر اٹھا کر ملکی سطح کا مسئلہ بنا دیا جائے۔ سوشل میڈیا کے زمانے میں کوئی بھی مسئلہ ملکی سطح کا بننے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ ہر احتجاج کے کچھ نہ کچھ فائدے اور کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں اس لیے ہر مسئلے کو اٹھانے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مجموعی طور پر اس سے فائدہ کتنا ہوگا اور نقصان کتنا ہوگا ،کیونکہ ایک بار ایشو پبلک ڈومین میں آجائے اس کے بعد ہر فریق اس کا اپنے طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ فی الوقت ہندوستان کا eco system جس قسم کا بن چکا ہے یعنی میڈیا ، پارلیمنٹ، سماج ، ٹیلی ویژن، سرکاری ادارے، تعلیمی ادارے اور اقتدار سبھی کچھ ہندوتوا دیوں کے فیور میں ہیں اور ہر مسئلے سے زیادہ سے زیادہ فائدے سمیٹنے کے وسائل اور امکانات ان ہی کے پاس موجود ہیں۔ اس لیے یہ نہ ہوجائے کہ شارٹ ٹرم میں تو ہمارا تھوڑا فائدہ ہوجائے، لیکن لانگ ٹرم میں یہ ایشو ہمارے لیے عذاب بن ہوجائے۔ ایسی سچویشن میں علامہ اقبال کی اس نصیحت پر عمل کرنا ہی بہتر ہے کہ
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی
اس پورے ایپی سوڈ سے جو بات نکل کر سامنے آرہی وہ یہ ہے کہ ساورکر نے ہندو مذہب کے سیاسی کرن کا جو تصور ہندوتوا کے نام سے دیا تھا، آج وہ کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہندو مذہب کے تعلق سے کہا جاتا تھا کہ یہ روحانیات،بھائی چارے اور محبت کا مذہب ہے ۔ ہندو کے اندر برداشت اور تحمل کی قوت دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے ۔ ہندو نے کبھی ہندوستان سے باہر نکل کر کسی پر حملہ نہیں کیا کیونکہ وہ توسیع پسند نہیں ہے۔ ممکن ہے ماضی میں یہ باتیں درست بھی ہوں، لیکن موجودہ ہندوازم یہ نہیں ہے۔ ہندو نوجوان بہت زیادہ جارح، انتہا پسند اور متشدد ہوچکا ہے۔ مذہبی روحانیت کی جگہ وطنی اور سیاسی انتہا پسندی نے لے لی ہے۔ روحانی طور پر ہندو ازم کھوکھلا ہوچکاہے۔مودی کے زمانے میں ہی مراری باپو، آسا رام باپو،رام دیو بابا، اور سد گرو جگی جیسے ’سیاسی مذہبی‘ افراد کو بڑھاوا ملا۔ موجودہ زمانے میں یہی لوگ ہندوؤں کے مذہبی رہنما ہے اور سب کے سب سنگھ کے کلچرل نیشنلزم ازم کو پروموٹ کرتے ہیں۔ وشوہندو پریشد ایک سیاسی ہندو دہشت گرد تنظیم ہے لیکن یہ ہندو مذہبی تنظیم تسلیم کی جاتی ہے اور تمام سادھو سنت اس کے ممبر ہے ۔سنتوں کا کام دھرم اور محبت کی تعلیم دینا تھا لیکن یہاں تو سنت گائے کی حفاظت کے نام پر پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر رہے ہیں،مسلمانوں کے خلاف اور بی جے پی کے لیے تحریکیں چلا رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے وی ایچ پی ،بجرنگ دل اور سنگھ جیسی سیاسی تنظیمیں ہندو مذہب اور کلچر پر مکمل طور سے قابض ہوگئی ہیں۔
https://hijabislami.in/2719/
https://hijabislami.in/7028/
https://hijabislami.in/7106/