کرنا کیا ہے…؟؟

غزالہ عزیز

ایک مجلس میں شب بیداری اور عبادتِ الٰہی کا ذکر ہورہا تھا۔ ایک اعرابی مجلس میں وارد ہوا۔ لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ تم بھی رات کو جاگتے ہو؟

اس نے جواب دیا: ہاں۔

اہلِ مجلس نے پوچھا: ’’توتم کیا کرتے ہو؟‘‘ (یعنی کون سا ذکر یا عبادت کرتے ہو؟)

اس نے جواب دیا: ’’کرنا کیا ہے؟پانی پی کر سوجاتا ہوں۔‘‘ آج اگر پوچھا جائے کہ کبھی اے نوجواںِ مسلم! کیا کیا جاگ کر تو نے ؟؟ تو جواب ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ کی سیر ہی کا ملے گا۔ کرتے کیا ہیں؟ اور کر کیا کچھ سکتے ہیں؟ ان دونوں سوالات پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے، اور کہا جانا چاہیے۔ لیکن کہنا اور کہتے جانا عمل کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔

ایک بہت چھوٹا پرندہ ہوتا ہے، شاید سب سے چھوٹا ’’ہیمنگ برڈ‘‘۔ یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ایک پنسل کے سرے پر اپنے پنجوں کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ ننھا منّا پرندہ اپنے منے سے پروں کے ساتھ دور دراز کا سفر کرتا ہے۔ اس سفر کے دوران اسے اپنے منے منے بازوؤں کو ڈھائی لاکھ مرتبہ لہرانا پڑتا ہے۔ اگر ہم اپنے بازو پچاس مرتبہ بھی لہرائیں گے تو اگلے دن ان میں درد ہوگا، جب کہ یہ ایک انگلی کے برابرکا پرندہ ڈھائی لاکھ مرتبہ ایک دن میں کرتا ہے اور اسے کچھ نہیں ہوتا۔ اگلے دن وہ دوبارہ ایسے ہی کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ یعنی اللہ نے اس کی ننھی سی جان میں یہ انتہائی مشکل کام کرنے کی صلاحیت رکھ دی ہے اور وہ ہنسی خوشی اپنا کام انجام دیتا رہتا ہے۔

اللہ نے انسان کو ’’احسنِ تقویم‘‘ بنایا، دنیا میں اسے اپنے نائب کے طور پر عزت بخشی، ساتھ ہی اسے بتادیا کہ یہ دنیا اور اس کے سارے لوازمات تمہارے لیے ہیں۔ تم ان کے لیے نہیں ہو۔ جو کام تمہیں سونپا گیا ہے، اس کی انجام دہی کے لیے ان سے مدد لو۔ خود ان میں گم نہ ہوجاؤ۔ اور دیکھو یہ کام یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی کا قانون نافذ کرنا، دین یعنی طریقہ زندگی کو پورا کا پورا اللہ کے حکم کے تابع بنانا مشکل ہے نہ ہی ناممکن۔ تمہیں اس کی مکمل صلاحیت دی گئی ہے۔ اس کے لیے جو چیز درکار ہے وہ تمہارا خلوصِ نیت، ارادہ اور عزمِ مصمم کی کیفیت ہے۔ وقت پر سستی اور کاہلی چھوڑ کر خلوصِ نیت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونا اور ہرگزرتے لمحے کو سچے موتیوں کی صورت میں اپنے عمل کے خزانے میں جمع کرلینا ہی کامیابی ہے۔ ورنہ ہر دن اس شعر کے مصداق محسوس ہوگا یہاں تک کہ کتابِ زندگی کا آخری باب آجائے گا کہ

سورج نکلا میں نے سوچا یہ دن کیسے بیتے گا؟
شام ڈھلی اور سوچ رہا ہوں یہ دن کیسے بیت گیا؟
اپنے روز مردہ کے کاموں کا جائزہ لے کر صبح یا شام میں کچھ لمحے ایسے نکال لیجیے جن میں آپ صرف اور صرف اپنی زندگی کے بارے میں سوچیے اور اپنے ارادے، نیت، خواہشات اور تمناؤں کا جائزہ لیجیے۔ ’’منہاج القاصدین‘‘ میں علامہ ابن جوزی تحریر کرتے ہیںکہ دو بزرگ صالح حضرت شبلیؒ اور حضرت ابوالحسنینؒ تھے۔ ایک دفعہ حضرت شبلیؒ ابوالحسنین کے پاس گئے تو دیکھا وہ بالکل ساکن و جامد بیٹھے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ حضرت آپ نے یہ مراقبہ اور سکون کس سے سیکھا؟ کہنے لگے: ہماری ایک بلی تھی، اس سے سیکھا۔ جب وہ شکار کا ارادہ کرتی تو اپنے آپ کو بالکل ساکن و جامد کرلیتی کہ اس کا ایک بال بھی حرکت نہ کرتا۔
سو وقت کے بہتے دریا سے اپنی ٹوکری کو نیکیوں کی مچھلیوں سے بھرنا ہے تو اس طرح صبح یا شام چند لمحات نکال کر اپنے آپ کا جائزہ لینا ہوگا۔ پھر اپنے اوقات کے حصے کرکے انہیں مختلف کاموں میں تقسیم کرنا ہوگا۔ پھر ان کے لیے وقت کی ایک حد بھی متعین کرنی ہوگی۔ پھر اگلے دن اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ مقررہ وقت کی حد کے اندر مقررہ کام ہوسکا یا نہیں۔ اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ اس میں کس حد تک اپنی سستی اور کاہلی کا دخل تھا؟ ناکامی کی صورت میں اپنے آپ کو حوصلہ دیں۔ اگر کام ہوگیا ہے تو خوشی منائیں اور اپنے آپ کو شاباشی دیں اور اپنے آپ سے کہیں کہ جو اخلاصِ نیت کے ساتھ محنت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی قدر کرتا ہے کیونکہ وہ سب سے بڑا قدردان ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146