آخراماں بی کوہار ماننی پڑی اور ان دونوں کو مینٹل ہاسپٹل میں داخل کرا دیاگیا۔ گھر جیسے بھائیں بھائیں کرنے لگا۔ اماں بی کو زندگی میں پہلی مرتبہ اتنافارغ وقت ملا کہ کٹنے میں نہ آتا تھا۔ وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں اور برآمدے سے صحن میں کھوئی ہوئی سی پھرتی رہتی تھیں۔ سب لوگ اپنے اپنے روٹین کے مطابق مصروف تھے۔ ان کی موجودگی کے عادی بھی نہیں تھے اور اماں بی یوں سمجھتی تھیں کہ شاید کسی کو ان کی ضرورت ہی نہیں ہے اور جنہیں ان کی ضرورت تھی وہ ان سے کوسوں دور کردیئے گئے تھے۔ابا میاں سے لڑنا تو ایک طرف رہا دنوں کوئی بات ہی نہیں ہوتی تھی۔ کوئی موضوع گفتگو ہی نہیں رہا۔ ہفتے میں ایک بار ملاقات کے لئے جایا کرتی تھیں بس وہ دن مصروفیت کا ہوتا تھا۔ اُن کے لئے کچھ پکاتیں ۔ کپڑے لتے رکھتیں۔
اماں بی کی حالت وقاص سے پوشیدہ نہیں تھی، مگر ان کی اپنی مصروفیات بے پناہ تھیں۔ جب بھی فرصت ملتی ان کے پاس جابیٹھتے تھے۔ دونوں اکثر خاموش بیٹھے رہتے ۔ ماں بیٹے کے درمیان جو یگانگت اور بے تکلفی ہونی چاہئے تھی وہ یہاں مفقود تھی۔ ایک حجاب ایک پردہ سا حائل تھا۔ اماں بی اولاد ہونے کے باوجود ان سے کسی حد تک ڈرتی تھیںیا شاید مرعوب تھیں۔ وقا ص کی باوقار شخصیت، قابلیت اور کم گوئی کی بنا پر ایک احترام کا جذبہ سا ان کے دل میں موجود تھا۔ وہ دونوں تو جوان ہونے کے باوجود اپنی ضرورتوں کے لئے اماں بی کی توجہ کے محتاج تھے۔ مگر وقاص کا معاملہ برعکس تھا وہ خود ان کی توجہ کی طلب گار تھیں اور اپنی ضروریات کے لئے ان پر انحصار کرتی تھیں۔
اس گھر کے تمام باسی اپنی اپنی مخصوص دنیا ئوں کے تنہا مسافر تھے کوئی کسی کا ساتھی نہ تھا۔ کھانے تک کے اوقات ایک نہ تھے۔ سب نے اپنے اپنے گرد حصار قائم کرلئے تھے تاکہ کوئی دوسرے کے اندر جھانک کر نہ دیکھ سکے کہ وہاں کیا حشر برپا ہے۔
وقاص ابھی ہسپتال سے لوٹے تھے۔ کھانا کھا رہے تھے ۔ ابا میاں نے کہا۔ میاں وہ غضنفر صاحب کا فون آیا تھا۔ کہہ رہے تھے کہ اگر تمہیں زحمت نہ ہوتو ذرا ان سے جاکر مل آنا‘‘۔
وہ چونک پڑے، واقعی جب سے غضنفر صاحب ہسپتال سے گھر گئے تھے وہ ان سے ملنے نہیں گئے حالانکہ تعلقات کا تقاضا یہ تھا کہ وہ جاتے حال احوال پوچھتے۔ کیا سوچتے ہوں گے وہ بھی۔ کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ سمن آباد کی طرف روانہ ہوگئے۔ غضنفر صاحب انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
’’تم تو صاحبزادے عید کا چاند ہوگئے۔ محاورتاً نہیںبلکہ سچ مچ ہی۔ اتنی بھی کیا بے مروتی کہ پلٹ کر اپنے مریض کو دیکھا ہی نہیں‘‘۔
’’ان دنوں بس، مصروف ہی کچھ زیادہ رہا۔ اس تغافل پر شرمندہ ہوں۔ آپ کو بھولا ہرگز نہیں ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے اگر صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا کہتے بھی نہیں۔ بس اتنا یاد رکھنا چراغ سحری ہوں تیل ڈالتے رہے تو کچھ دن چل جائیں گے ورنہ دم بھر میں بھڑک کر خاموش ہوجائیں گے‘‘۔
’’اللہ آپ کی عمر دراز کرے۔ موت اور زندگی اسی کے ہاتھ میں ہے۔جس چراغ کو بھجنا ہو اس میں ہزار تیل ڈالو وہ بجھ کر رہتا ہے اور جسے جلنا ہووہ بغیر تیل کے بھی جلتا رہتا ہے‘‘۔
’’کہتے تو سچ ہو بس تم پر اعتقاد سا ہوگیا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ زکام بھی ہو تو تم سے ہی علاج کرائوں۔ تم سے بات کرکے ہی آدھی بیماری چلی جاتی ہے‘‘۔
’’یہ محض آپ کا حسن ظن ہے۔ آپ کو جب بھی چھینک آئے فون کردیاکیجئے۔ یہ ناچیز حاضر ہوجایا کرے گا‘‘۔
غضنفر صاحب ہنس دیئے۔
’’تمہاری مصروفیات اور قیمتی وقت کا خیال آجاتا ہے ورنہ دل تو یہ چاہتا ہے کہ تم ہر روز آیا کرو۔ تمہیں دیکھ کر چلوئوںخون بڑھ جاتا ہے‘‘۔
’’شکریہ چچا جان۔ آپ کا جب جی چاہے بلا لیا کریں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہسپتال اور مریضوں کے علاوہ اور تو کوئی ایسی خاص مصروفیت ہوتی نہیں‘‘۔
’’فی الحال جو رونہ جاتا اللہ میاں سے ناطہ والا معاملہ ہے ، کیوں میاں؟‘‘
وقاص مسکرا دیئے ’’جی ہاں اللہ میاں اور اس کے بندوں سے ناطہ ہے‘‘۔
’’تمہاری انکساری اور سعادت مندی سے جی بہت خوش ہوتا ہے۔ الیاس خوش نصیب ہے جسے تمہارے جیسا بیٹا ملا ہے‘‘۔
’’آپ غالباً بھول گئے ہیں ان کے دو بیٹے اور بھی ہیں‘‘۔ وقاص تلخی سے بولے۔
غضنفر صاحب نے آہ بھری ۔ ’’جانتا ہوں۔ مقدر کی اس تاریکی کو ہی تو دور کرنے کے لئے اللہ نے تم جیسا چراغ اس کے گھر میں روشن کردیا۔ تمہاری وجہ سے ہی تووہ اتنا بڑا صدمہ اتنے حوصلے سے سہہ رہا ہے۔ ‘‘
’’اچھا چھوڑیئے اس ذکر کو ۔ آپ یہ فرمائیے کہ مجھے کیوں یاد کیا ہے؟‘‘۔
غضنفر صاحب نے آپریشن کے بعد کی تکلیفیں ذرا تفصیل سے بتائیں۔ وقاص نے معائنہ کیا نسخۃ لکھا۔ ہدایات دیں اوراطمینان سے کرسی کی پشت پر ٹیک لگاکے بیٹھ گئے۔
’’چائے لے لیجئے‘‘۔ مدھ بھری آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔ یکبارگی ان کا دل دھڑک اٹھا۔ آواز میںافسردگی کا رچائو پہلے سے زیادہ تھا۔
’’بیٹا اندر آکر چائے رکھ دو۔ یہ تو اب اپنا ہی بیٹا ہے۔ میاں خواہ تم اسے تسلیم کرو یا نہیں اور الیاس چاہے اسے غاصبانہ قبضہ سمجھے مگر میں نے تو تمہیں واقعی اپنا بیٹا بنا لیا ہے۔ اعتقاد کے ساتھ ساتھ تم پر اعتماد کرنے کو بھی جی چاہتا ہے۔
’’انشاء اللہ آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچے گی۔ میں آپ کو اپنے ابا سے کسی طور کم نہیں سمجھتا۔ مجھے خود بھی آپ میں ایک انوکھی سی کشش محسوس ہوتی ہے‘‘۔
’’کبوتر باکبوتر اور باز با باز کی طرح شاید ہم میں بھی کوئی صفت مشترک ہوگی۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ صفت شاہبازی ہے یا بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے کی‘‘۔ غضنفر صاحب ہنس کر بولے۔ عائشہ ٹرے اٹھائے اندر آگئی تھی۔ زرد دوپٹہ پیشانی پرآگے تک جھکا ہوا تھا۔ ٹرے آہستہ آہستہ لرز رہی تھی۔ وقاص نے پیالی اٹھالی۔ شفق رنگ چہرے پر دکھ کے سائے گہرے تھے۔ لمبی لمبی گھنیری بھیگی بھیگی تھیں۔ پتہ نہیں اسے کیا دکھ ہے ہر وقت روئی روئی سی لگتی ہے۔ اب تو غضنفر صاحب بھی پہلے سے بہتر ہیں۔ وقاص نے سوچا اور وہ بسکٹوں کی پلیٹ میز پر رکھ کر ہوا کے جھونکے کی طرح باہر نکل گئی۔
’’تم سے ایک مشورہ کرنا تھا‘‘۔ غضنفر صاحب چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولے۔
’’جی فرمائیے‘‘۔
’’تمہارے ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر فرید احمد ہیں‘‘؟
’’جی ہاں‘‘
’’کیسے آدمی ہیں ؟ ‘‘
’’اپنے پروفیشن میں؟‘‘
’’ نہیں بحیثیت ایک انسان کے‘‘۔
’’اچھے ہی ہیں بظاہر۔ میں زیادہ نہیں جانتا۔ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
’’عاشی کے لئے ان کا پیغام آیا ہے۔ معلوم نہیں انھوں نے عاشی کو کیسے دیکھ لیا۔ بس ہسپتال ہی میں ان کی والدہ اور بہنیں پہنچ گئیں۔ اور اب گھر کے بھی کئی چکر کاٹ چکی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی اور پیغامات ہیں۔ اس کی ایک پروفیسر بھی اپنے بھائی کے لئے خواہشمند ہیں۔ وہ امریکہ میں انجینئر ہے مگر میں بچی کو اتنی ور نہیں بھیجنا چاہتا۔ ورنہ وہ لڑکا بہت اچھا تھا۔ پرانے تعلقات بھی تھے۔ بہرحال میں جلد از جلد اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔ اس سلسلے میں کیا تم کچھ مدد کرسکوگے‘‘۔
’’میں بھلا کیا مدد کرسکوں گا‘‘۔ وہ بظاہر بڑے پرسکون بیٹھے تھے۔
’’تم ڈاکٹر فرید کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کرکے بتا دو کہ کیسا لڑکا ہے۔ عادت مزاج کیسا ہے۔ خا ص طور پر یہ کہ تیز مزاج تو نہیں ہے میری بچی بہت ہی حساس اور صابر ہے ، وہ اندر ہی اندر گھل جائے گی مگر منھ سے بھاپ تک نہ نکالے گی‘‘۔
’’مجھ پرآپ ایسے کام کی ذمہ داری ڈال رہے ہیں جس کا اہل میں خود کوہرگز نہیں پاتا۔ میں ایسے معاملات میں کورے کاغذ کی طرح ہوں۔ یقین جانئے گا۔ آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ میں بچناچاہتا ہوں۔ بلکہ بات یہ ہے کہ رشتے کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے اور میں …’’وہ گڑبڑاکر خاموش ہوگئے۔ قدرت کی اس ستم ظریفی پر ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہنسیں یا رنجیدہ ہوں۔
’’مگر میاں پھر میں اور کس سے کہوں۔ تمہارے سوا مجھے کوئی مناسب شخص نظر نہیں آتا۔ میں خود بھی ایسے معاملات میں ناتجربہ کار ہوں۔ اصل میں یہ باتیں عورتوں کے کرنے سننے کی ہوتی ہیں۔ اب بھلا عورت کہاں سے مہیا کریں۔ تمہارے ہسپتال میں ڈاکٹر ہے روزکا اٹھنا بیٹھنا ہوگا کچھ نہ کچھ تو معلومات لے ہی سکوگے۔ باقی جو کچھ کاتبِ تقدیر نے لکھا ہے وہی ہوگا۔ اس کی ذمہ داری نہ تم پر ہ نہ مجھ پر‘‘۔
وقاص لاجواب ہوگئے۔
’’بہت بہتر جیسے آپ کاحکم۔ جو کچھ میرے بس میں ہوگا اس سے دریغ نہ کروں گا۔ اب اجازت دیں‘‘۔
نظریں جھکائے وہ باہر برآمدے میں نکل آئے۔ اپنے خیالات میں غرق سیڑھیاں اتر رہے تھے کہ ایک دھیمی سی آواز نے پکارا۔
’’سنیئے ‘‘ وہ اپنا واہمہ سمجھ کر چلتے رہے۔
’’ذرا ایک منٹ کو رک جائیے پلیز‘‘۔
وہ چونک کر پلٹے۔ رات کی رانی کے جھاڑ کے پاس وہ کھڑی تھی۔
’’فرمائیے‘‘ انھوں نے عاشی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے کٹورے شبنم سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔ بس چھلکنے کی دیر تھی۔ رخسار انگاروں کی طرح دہک رہے تھے۔ وہ خاموش تھی۔
’’کیا آپ نے مجھے پکارا تھا؟ ‘‘
’’جی … جی ہاں‘‘۔
’’تو پھر کہئے کیا بات ہے۔ دادا جان آپ کے ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں‘‘۔
’’سمجھ میں نہیںآتا کہ میں آپ سے کس طرح کہوں‘‘۔ عاشی نے رخ پھیر لیا۔ وقاص خاموش کھڑے رہے ۔ وہ ان سے کتنا قریب تھی مگر اس کے باوجود ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ حائل تھا اور یہ فاصلے پاٹنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔
’’دادا جان نے میر ے بارے میں کوئی بات کی ہے؟‘‘
’’جی ہاں میرے سپرد ایک کام کیا ہے‘‘
’’آپ وہ کام نہ کیجئے گا‘‘۔
’’یہ بھلا کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے کوئی کام کہیں اور میں نہ کروں ۔ اور پھر وہ کام آپ کی بھلائی کے لئے تو ہے‘‘۔
’’میری بھلائی ؟ مگر میں اپنی بھلائی نہیں چاہتی۔ مجھے اپنے دادا جان کی بھلائی چاہئے۔ آپ خود سوچئے کہ اگر میں یہاں سے چلی گئی تو پھر ان کا دھیان کون رکھے گا۔ کیا وہ اکیلاچھوڑے جانے کے قابل ہیں‘‘۔ عائشہ وقاص کے بالکل سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں ایک اضطراب تھا‘‘۔ ہاں یہ بات تو قابل غور ہے کوئی ملازم رکھنا پڑے گا‘‘۔
’’کیا ملازم میری طرح ان کی دیکھ بھال کرسکے گا۔ ملازم ملازم ہی ہوتا ہے اور پھر میرے ہوتے ہوئے وہ ملازموں کے محتاج ہوجائیں میں یہ کیسے گوارا کرسکتی ہوں‘‘۔
’’یہ نکتہ بھی آپ کا ٹھیک ہے مگر وہ آپ کے ساتھ بھی تو رہ سکتے ہیں‘‘۔
’’میرے ساتھ، کیسی باتیں کرتے ہیں آپ، ہمارے معاشرے میں ایسی بات کب اچھی نظروں سے دیکھی جاتی ہے۔ اول تو دادا جان ہی ایسی تجویز مسترد کردیں گے اور پھر دوسرے ہی کب یہ گوارا کریں گے کہ جہیز میں ایک بوڑھا لاچار اور بیما ر شخص چلا آرہا ہے ‘‘۔
’’میں تو ذاتی طور پر اس میںکوئی حرج نہیں سمجھتا…‘‘
عاشی نے تیزی سے بات کاٹ دی ’’معاف کیجئے گا یہ معاملہ آپ کانہیں، ڈاکٹر فرید کا ہے آپ کی ذاتی پسند یا ناپسند کا سوال کہاں سے آگیا‘‘۔
وقاص بھونچکے سے ہوگئے۔ انھوں نے ایک گہری نظر عاشی پر ڈالی جو خود بھی اپنی جرأت پر دم بخود سی رہ گئی تھی اس نے نظریں جھکالی تھیں اور اپنے دوپٹے کاپلو انگلی پر لپیٹ رہی تھی۔ چند لمحے خاموشی سی چھائی رہی۔ آخر پھر وہ ذرا ہمت کرکے آہستگی سے بولی۔
’’میں اصل میں شادی کرناہی نہیں چاہتی‘‘۔
’’قربانی دینا چاہتی ہیں دادا جان کی خاطر‘‘۔
’’قربانی تو تب ہوتی جب مجھے شادی سے دلچسپی ہوتی۔ جس چیز کی خواہش ہی نہ ہو اسے چھوڑنا کوئی قربانی نہیں‘‘۔
’’عور ت بھی عجیب شئے ہے۔ ساری زندگی دوسروں کے بارے میں ہی سوچتے کاٹ دیتی ہے۔ جن کی خاطر خود کو لٹاتی رہتی ہے انہیں اکثر نہ اس کی خبر ہوتی ہے نہ قدر۔ واقعی عورت ایک معمہ ہے، کیوں۔ ’’وقاص نے مسکراکر سوالیہ انداز میں عائشہ کی طرف دیھا لمحے بھر کو دونوں کی نگاہیں ٹکرائیں۔ عائشہ نے فوراً نگاہیں نیچی کرلیں‘‘۔ عورت تو ایک سیدھی سادی ہستی ہے کوئی معماوعما نہیں ہے۔ دراصل بات یوں ہے کہ آپ مرد لوگ اسے جاننا یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ اگر جان جائیں تو پھر اس کی یوں بے قدری نہیں کرسکتے‘‘۔
’’اچھی واقعی ‘‘ انھوں نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔
’’کمال ہے آپ تو اچھا خاصا بولنا جانتی ہیں، میں تو آپ کو اب تک بے زبان ہی مخلوق سمجھتا آرہا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ غضنفر صاحب کی یہ خواہش کہ وہ اپنی زندگی میں آپ کے فرض سے سبکدوش ہوناچاہتے ہیں۔ کوئی ایسی غلط خواہش نہیں ہے۔ان کے لئے بھی کوئی حل ڈھونڈ لیں گے‘‘۔ انھوں نے جانے لئے قدم بڑھایا ہی تھا کہ عائشہ بول پڑی۔ ’’آپ کا بے حد شکریہ ان کو کسی بوڑھوں کے گھر بھیجنے کا مشورہ نہ دے بیٹھئے گا جیسے اپنی امی جان کو…‘‘
’’براہ کرم خاموش رہئے‘‘۔ وہ تڑپ کر بولے۔ رنج اور غصے سے ان کی آواز کا نپ اٹھی۔ عاشی بھی لرز کر رہ گئی۔ مگر آج تو شاید وہ سر پہ کفن باندھ کر نکلی تھی۔ پتہ نہیں اتنی ہمت اور حوصلہ کہاں سے آگیا تھا‘‘۔ مجھے بے حد افسوس ہے اگر آپ کو میری یہ بات ناگوار گزری ہے ۔ اصل میں میں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ میں ہوں یا آپ کی والدہ ہم لوگ اپنی خوشی سے محبتوں کی خاطرقربانی دیتے ہیں کسی زبرستی کی وجہ سے نہیں۔ یہ جذبہ ہماری فطرت میں ازل سے موجود ہے اور ہم اپنے پہلے سانس سے آخری سانس تک اس جذبے کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں، کسی پر احسان نہیںکرتے۔ ہمیں قربانی دے کر کوئی پچھتاوا یا دکھ نہیں ہوتا بلکہ راحت اور تسکین ملتی ہے۔ بے غرض قربانی جزا اور قدر کی خواہش نہیں رکھتی۔ یقین کیجئے یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے ‘‘۔ اتنی لمبی بات کرکے عاشی ہانپنے لگی تھی۔اس کا حلق خشک ہوگیا تھا اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
’’آپ کیا چاہتی ہیں‘‘۔ وقاص نے خشک لہجے میں پوچھا۔
’’میں داداجان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی‘‘۔
’’میںڈاکٹر فرید سے بات کروں گا‘‘۔
’’نہیں نہیں۔ ایساغضب نہ کیجئے گا۔ یہ بہت معیوب بات ہوگی۔‘‘
’’عجب مخمصے میں ڈال دیا ہے مجھے آپ نے ۔ آخر بھئی پھر میں کیا کروں‘‘۔
’’اتنے بڑے اتنے قابل ڈاکٹر ہیں کوئی حل ڈھونڈ نکالئے‘‘۔
’’میڈیکل کی کتابوں میں ایسے حل نہیں پڑھائے جاتے۔ سمجھیں آپ۔ خیر یوں ہوسکتا ہے کہ چچاجان کو میں اپنے گھر لے جائوں۔ ابا میاں کے دوست تو ہیں ہی۔ مجھے بھی اپنا بیٹا ہی سمجھتے ہیں۔ ان جیسی باغ وبہار شخصیت کے دم سے ہمارے سنسان گھر میں بھی رونق ہوجائے گی‘‘۔
’’آپ نے غالباً یہ تہیہ کرلیا ہے کہ مجھے بن باس دلاکر چھوڑیں گے‘‘۔
’’میں دلاکر چھوڑوں گا‘‘۔ وقاص نے تعجب سے پوچھا۔ ’’آپ شادی کو بن باس سمجھتی ہیں‘‘۔
’’بن باس ہی ہوگی نا، تب ہی تو آپ نے بھی نہیں کی شادی اب تک‘‘۔ بے سوچے سمھے عاشی کے منھ سے فقرہ پھسل گیا۔ اپنی جرأت اور بے باکی پر وہ پسینہ پسینہ ہوگئی۔ منھ کی کمان سے نکلا ہوا تیر بھی کبھی واپس ہوا ہے۔
’’میں ‘‘۔ انھوں نے حیرت سے عاشی کی طرف دیکھا۔ دوپٹے کے زرد ہالے میں اس کا چہرہ شعلوں کی طرح سرخ ہوگیاتھا اور پیشانی پر پسینہ پھوٹ آیا تھا۔ کچھ دیر تو ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ اس کمسن اور نادان لڑکی کو کیا جواب دیں ۔ پھر ذرا ٹھہر کر نرمی سے بولے۔ ’’میری بات اور ہے میری شادی نہ کرنے کی کچھ مجبوریاں ہیں جنہیں آپ نہیں سمجھ سکتیں‘‘۔
’’مگر میری مجبوری تو آپ سمجھ رہے ہیںنا‘‘۔
’’جی ہاں تب ہی تو کہہ رہا ہوں کہ فرید سے بات کروں گا‘‘۔
’’للہ ایسا نہ کیجئے گا۔ مجھ پر رحم کیجئے‘‘۔ وہ مضطر ب ہوکر بولی۔ وہ ٹھٹھک کر رہ گئے، اس لڑکی نے شاید آج انہیں حیران کردینے کی قسم کھالی تھی۔ اس کی ملتجیانہ نظریں ان کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ آنسو رخساروں پر بہہ نکلے تھے جن سے وہ قطعی بے خبر نظر آرہی تھی۔ آخر ایسی کیا بات ہے غضنفر صاحب کے خیال سے بڑھ کر ضرور کوئی اور بات ہے ورنہ آخر اتنی بے قراری اور گھبراہٹ کیوں ہے۔ یہ تو کوئی اور جذبہ ہے۔ زیادہ طاقتور، پرشور اور گہرا۔
’’کیا آپ کسی اور کو پسند کرتی ہیں‘‘۔ انھوں نے ملائمت سے پوچھا۔ ایک لمحے کو وہ سن سی ہوکر رہ گئی، کیا انکشاف کا لمحہ آن پہنچا۔ نہیں نہیں، تم ایک لڑکی ہو، سیپ میں بند موتی کی طرح کھل کر اپنی آب مت گنوائو۔ تمہارے اندر سمندر کی سی گہرائی ہے ، وسعت ہے۔تم اعتراف کرکے تنگنائے میں نہ سمٹ جانا۔ تم سب کی اور اپنی نگاہوں میں بہت بلند ہو، عظیم ہو۔ پہل کرکے خود کو گرانا نہیں۔ اپنی انا، اپنی خودی کو کھونا نہیں اس نے ایک طویل سانس لی۔
’’یوںہی سمجھ لیجئے‘‘۔
’’انھوں نے غور سے عاشی کو دیکھا۔ آنسوئوں سے بھیگے ہوئے رخساروں کے گلاب سیاہ خمدار پلکوں میں اٹکے ہوئے ستارے، ہونٹوں کی لرزتی ہوئی پنکھڑیاں لمبی لمبی صندلی انگلیوں پر لپٹا ہوا دوپٹہ۔ ’’پھر اب کیا ہوگا؟ ‘‘ وقاص نے نرمی سے پوچھا۔
’’کچھ بھی نہیں‘‘۔
’’اس معاملے میں کچھ مدد کرسکتا ہوں‘‘۔
’’مثلاً ایک افسردہ سی مسکراہٹت عاشی کے لبوں پر پھیل گئی۔
’’فی الحال آپ اس معاملے کو ختم کرا دیں اور مجھے یہیں اپنے دادا جان کے قدموں میں رہنے دیں۔‘‘
وقاص کچھ کہے بغیر اپنی گاڑی کی طرف بڑھے ۔ مجھ سے یوں بات کررہی تھی جیسے میں ہی تو اس کی شادی کرانے کے درپے ہوں اور اسے اس کے دادا جان کے قدموں سے گھسیٹ رہا ہوں۔ مجھے نہ جانے کیوں اتنا بااختیار سمجھ بیٹھی ہے۔ اس کے دادا نے مجھ پر اعتماد ہی تو کیا ہے، اختیار تو نہیں دے دیا اور یہ عاشی کیاسمجھ کر مجھے اپنا ہمراز بنا رہی ہے، میرا اس کا کیا تعلق ہے۔ میری بجائے اپنے دادا سے کہے جو کہنا چاہتی ہے۔ یہ کییس باتیں کر رہے ہوڈاکٹر وقاص۔ ایک بے چاری ، مجبور اور معصوم لڑکی نے تم سے مدد کی درخواست کی ہے۔ حالانکہ تم اس کے لئے ایک اجنبی اورغیر آدمی ہو۔ اس نے تم پہ یہ اعتماد کیا ہے۔ اپنی شرم وحیا کے باوجود اپنے راز میں شریک کیا ہے۔ کچھ تو پاس کرو اس کے اس اعتماد ، اس بھروسے کا ، تمہارے دل میں یقینا اس کا کچھ نہ کچھ احترام اورخیال ہے۔ اسی کے ناطے اس کا ساتھ دو ۔ بھئی اگر تم اپنے لئے خوشیاں حاصل نہیں کرسکتے تو دوسروں کو تودے سکتے ہو ۔ اب ایسے بھی خودغرض اور بے حس تم نہیں ہو۔ قربانی اور ایثار پر کیا صرف عورتوں کی اجارہ داری ہے۔ مرد بھی تو اس صفت سے متصف ہوسکتے ہیں۔