وقاص اپنے آفس میں مریض دیکھ رہے تھے۔ فون کی گھنٹی بجی۔ ’’ہیلو وقاص اسپیکنگ‘‘۔
’’ڈاکٹر صاحب میں …… میں عاشی بول رہی ہوں۔‘‘
’’جی کہیے! کیا بات ہے؟‘‘
توبہ کتنا خشک انداز ہوتا ہے ان کے بولنے کا۔ خون سکھا دیتے ہیں۔ پتھر کو جونک لگ سکتی ہے مگر …… وہ سوچ رہی تھی کہ وقاص بولے:
’’چپ کیوں ہوگئیں، کس لیے فون کیا ہے؟‘‘
’’دادا جان آپ کو یاد کررہے تھے۔‘‘
’’اس یاد کی وجہ آپ جانتی ہیں، میں آ تو جاؤں مگر بتاؤں گا کیا۔‘‘
’’کچھ بھی کہہ دیجیے گا مثلاً یہ کہ وہ فرید صاحب کچھ ایسے اچھے نہیں ہیں۔‘‘
’’تو گویا آپ مجھے جھوٹ بولنا سکھا رہی ہیں۔‘‘
’’تو پھر کہہ دیجیے گا عاشی نے منع کردیا تھا اور …‘‘
وقاص نے بات کاٹی۔ ’’اور یہ کہ عاشی کسی کو پسند کرتی ہے۔‘‘
’’ظاہر ہے جب آپ سچ بولنے پرمصر ہیں تویہی کہنا پڑے گا۔‘‘
’’تو گویا اگر میں سچ بول دوں تو آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔‘‘
’’کسی کی جان بچانے کے لیے اگر تھوڑا سا جھوٹ بول دیا جائے تو کیا وہ بھی گناہ ہوتا ہے۔‘‘
’’اس بات کا جواب تو کوئی مولوی یا مفتی ہی دے سکتا ہے، میں شام کو کسی وقت چکر لگاؤں گا۔‘‘
’’سچ بولنا ہو تو مت آئیے گا۔‘‘ عاشی نے جواب کا انتظار کیے بغیر کھٹاک سے فون بند کردیا۔
جیسے ہی وقاص نے غضنفر صاحب کے کمرے میں قدم رکھا وہ پھول کی طرح کھِل اٹھے۔ ’’آؤ میاں آؤ۔ آمدِ شما باعثِ آبادیٔ ما۔ میں تو سمجھا کہ تم بھول گئے کہ ایک ناکارہ بوڑھے نے کوئی کام تمہارے سپرد کیا تھا۔‘‘
’’ایسا لا پروا بھلا میں ہوسکتا تھا ایسے کاموں میں کچھ دیر تو لگ ہی جاتی ہے۔ دوسرے ان دنوں مصروفیت بھی بے پناہ تھی۔ بہار کے موسم میں آپریشن زیادہ ہوتے ہیں۔ فرید کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہوسکی۔ ایک تو ہمارے شعبے مختلف ہیں۔ دوسرے لوگ مجھ سے جلدی بے تکلف نہیں ہوتے یا یوں سمجھئے کہ میں جلد بے تکلف نہیں ہوپاتا۔‘‘ وقاص کو ہلکی سی آہٹ اور ایک نامعلوم سے سرسراہٹ کا احساس ہوا۔ انھوں نے لبوں پر زبان پھیری کچھ کھنکھارے۔
’’لڑکا اچھا ہے۔ شریف ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے کوئی بری لت بھی نہیں ہے۔ عنقریب باہر جارہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیوی ساتھ لے کر جائے گا۔ بس یہی ایک اڑچن ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ آپ اپنی بچی کو باہر نہیں بھیجنا چاہتے۔ ورنہ تو امریکہ میں اس سے بہتر رشتہ موجود تھا۔‘‘
غضنفر صاحب خاموش ہوگئے۔
’’باہر مستقل قیام کا ارادہ تو نہیں ہوگا نا۔‘‘
’’میں نے دریافت نہیں کیا۔ آپ کہیں تو پوچھ لوں؟‘‘
’’کتنے عرصے کی پڑھائی ہوتی ہے۔‘‘
’’اس کا انحصار اپنی استعداد اور خواہش پر ہے۔ بعض لڑکے دو تین سالوں میں مکمل کرلیتے ہیں اور بعض کو سات آٹھ سال تک لگ جاتے ہیں اور پھر ڈاکٹروں کا ویسے بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ ایک بار ملک سے باہر چلے جائیں تو آسانی سے نہیں لوٹتے۔‘‘
’’تو پھر تم کیا کہتے ہو۔‘‘
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں یہ آپ کا معاملہ ہے۔ آپ کو ہی سوچنا اور فیصلہ کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ آپ عائشہ سے بھی پوچھ لیں کہ اس کی کیا مرضی ہے۔‘‘
’’عاشی کی مرضی؟ وہ تو شادی کا ذکر سنتے ہی رونا شروع کردیتی ہے۔ کسی صورت مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اسی لیے تو میں اس کو ایک دم اتنی دور بھیجنا نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ اسی شہر میں رہے تاکہ روزانہ ملاقات ہوتی رہے۔ یہ سب میری زندگی تک کی باتیں ہیں بیٹا۔ میں نہ رہا تو پھر خواہ ایران میں رہے یا توران میں۔‘‘ وقاص خاموش رہے۔
’’اتنا اچھا رشتہ چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘
’’تو پھر یوں کیجیے کہ فرید کے سامنے شرط رکھ دیجیے کہ پہلے تعلیم مکمل کرے اس کے بعد شادی کی بات چیت ہوگی۔ اس طرح وہ بہت جلد لوٹنے کی فکر کرے گا۔میری سمجھ میںنہیں آتا کہ آپ کواتنی جلدی اتنی گھبراہٹ کیوں ہے۔ عاشی جیسی لڑکی کو رشتوں کی کیا کمی ہوسکتی ہے۔ انتظار کریںاور کئی اچھے رشتے آجائیں گے۔‘‘
’’یہی تو بات ہے میاں انتظار کا وقت نہیں ہے۔ میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ جانے کب آنکھ بند ہوجائے، میری راتوں کی نیند اُڑگئی ہے۔ تم نہیں جانتے عاشی میرے لیے کتنا بھاری اور قیمتی بوجھ ہے۔ میں اسے نہ رکھ سکتا ہوں، نہ جلد بازی میں پٹخ سکتا ہوں۔ تم بھی فرید سے بات کرنا کہ کیا وہ کچھ عرصہ کے لیے اپنا باہر جانا ملتوی نہیں کرسکتا۔ اور اگر جانا ضروری ہے توپھر میںسوچوںگا کہ آیا اتنی لمبی منگنی مناسب ہے یا کہ نکاح کردیا جائے اور رخصتی واپسی تک کے لیے اٹھا رکھی جائے اور اگرواپسی سے پہلے ہی میرا چل چلاؤ ہوجائے تو پھر الیاس عاشی کو فرید کے پاس بھجوادے گا۔ آخر کو جگری یار ہے میرا اتنا کام تو کر ہی دے گا۔‘‘
’’چچا جان ایسی باتی نہ کیا کریں۔ آپ ماشاء اللہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ مجھے تو بظاہر اس جلدی کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہیںایسانہ ہو کہ جلد بازی میں آپ کوئی غلط فیصلہ کربیٹھیں۔‘‘
’’چلو چھوڑو ان باتوں کو، یہ میری پریشانیاں ہیں، تمہیں خواہ مخواہ اپنے ساتھ زیر بار کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کوئی راستہ نکال دیں گے۔ تم مصروف آدمی ہو۔ جو تھوڑا بہت فرصت کا وقت ملتا ہے اسے اس بوڑھے کی صحبت میں ضائع کردیتے ہو جاؤ میاں، کوئی اپنا ہم عمر ساتھی تلاش کرو۔‘‘
’’کیا کیا جائے قبلہ کے مجھے بوڑھوں ہی کی صحبت راس آتی ہے۔‘‘
’’کیا کسی بڑھیا ہپ ہپ سے تو بیاہ کرانے کا ارادہ نہیں؟‘‘
’’بیاہ کون کافر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘
’’کیوں کیا بات ہے کیا کسی نازنین نے دھوکہ دیا ہے۔‘‘
’’جی ہاں ایک نازنین ہی ہے شاید آپ نے نام سنا بھی ہو محترمہ کو قسمت کہتے ہیں۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔ یہ محترمہ تو تمہارے قدموںکی باندی ہے۔‘‘
’’جی نہیں اس نازنین کے ہاتھوںمیں کٹھ پتلی ہوں۔ وہ ڈوری ہلا ہلا کر میرا تماشہ دیکھتی ہے۔‘‘
’’میاں تمہارے تو شہزادوں جیسے بخت ہیں۔ آخر کس چیز کی کمی ہے۔ جس لڑکی کی طرف اشارہ کرو کچے دھاگے سے بندھی چلی آئے گی۔‘‘
’’کچا دھاگا ہی ہے نا اگر بیچ میں ٹوٹ گیا تو؟‘‘
’’اس عمر میں ایسی مایوسی کی باتیں ذرا بھلی نہیں لگتیں۔ آخر بات کیا ہے۔ تمہارے والد بھی بڑے پریشان رہتے ہیں۔ تم ہی تو ان کے نام لیوا ہو۔ تم ہی سے تو ان کی نسل آگے چلے گی۔‘‘
’’ان کی نسل یا پاگلوں کی نسل؟ نہیں جناب مجھے پاگلوں کی آبادی میں اضافے کا کوئی شوق نہیں ہے۔‘‘
’’غیب سے کوئی صحیفہ اترا ہے کہ تمہارے ہاں صرف پاگل جنم لیں گے۔‘‘
یہ تو سیدھا سادھا جینیٹک پروبلم ہے۔ مینٹل ڈیفی شینسی موروثی ہوتی ہے۔ باہر شادی کرنے سے امکان کچھ کم ہوجاتا ہے مگر ہوتا تو ہے اور پھر اگر ایک نسل محفوظ بھی ہوجائے تو اگلی نسل میں ایسے کینسر ہوجاتے ہیں۔ جانتے بوجھتے ایسا غلط قدم اٹھا کر میں اپنی ماں کی طرح کسی اور لڑکی کو جیتے جی دوزخ میں نہیں دھکیل سکتا اور خود میں بھی کون سا سکھی رہ سکوں گا۔ ابا میاں کی زندگی آپ کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے۔‘‘
’’اس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں؟‘‘ غضنفر صاحب نے افسردگی سے پوچھا۔ ان کا دل اس لمبے چوڑے گورے چٹے ذہین اور قابل جوان کی محرومی پر عجیب سے غم سے بھر گیا تھا۔
’’جب بیج ہی خراب ہوتو فصل کہاں سے اچھی ہوگی۔ ایسے درخت جن کے پھل میں کیڑا لگ جاتا ہے بالآخر کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ اور ان کو آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ میں نے بھی خود کو آگ میں جھونک دیا ہے۔ تنہائی کی آگ میں۔ جب تک جلتا سلگتا رہوں گا۔ شاید خلقِ خدا کو کچھ فیض پہنچتا رہے اور جس دن راکھ ہوگیا اس دن فضا میں ریزہ ریزہ ہوکر تحلیل ہوجاؤں گا۔ راکھ کا نہ کوئی گھر ہوتا ہے نہ کوئی در اور نہ کوئی نام و نشان سمجھ گئے آپ۔ لیجیے اب میں چلتا ہوں۔‘‘
’’ابھی سے کہاں چل دئیے۔ کھانا کھاکر جانا۔ عاشی دوپہر سے اہتمام میں لگی ہوئی ہے۔ تمہاری باتوں نے مجھے بڑا دکھی کردیا ہے وقاص بیٹے۔‘‘
’’میری وجہ سے آپ اگر دکھی ہوگئے ہیں تو مجھے افسوس ہے۔ اسی لیے میں اپنے بارے میں زیادہ بات وات نہیں کرتا۔ بہر حال یہ کوئی ایسی غم زدہ ہونے والی بات نہیں ہے یونہی بہک سا گیا تھا۔ میں نے بہت پہلے حالات سے سمجھوتہ کرلیا تھا اور زندگی کے بارے میں فیصلہ کرلیا تھا لہٰذا میں ہر طرح مطمئن اور خوش ہوں۔ اتنا مصروف رہتا ہوں کہ اپنے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور پھر مریضوں کو صحت یاب ہوتے دیکھ کر ایک بھر پور تسکین کا احساس ہوتا ہے۔ یہی احساس میرے لیے کافی ہے۔‘‘
’’میں سوچتا ہوں بیٹے کہ کیا شادی کے ساتھ اولاد بھی ہونا ضروری ہے۔‘‘
وہ چونک اٹھے ’’کیا مطلب آپ کا میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’میرا مطلب تم شادی کرلو اولاد نہ ہونے دینا۔ میری اس بے تکلفی پر برا نہ مان جانا۔ تم میرے بچوں کی طرح ہو مگر آخر ایک ڈاکٹر بھی تو ہو۔ مانا کہ اولاد ایک نعمت ہے مگر شادی بھی تو ایک نعمت ہے۔ دکھ سکھ کے ایک ساتھ کی خواہش ایک فطری سی بات ہے۔ آدمی دو میں سے ایک نعمت تو حاصل کرسکتا ہے۔‘‘
’’درست فرمایا آپ نے مگر تنہا میرے سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔ ایک عورت کے لیے ماںبننے کی خواہش سے بڑھ کر اور کوئی خواہش نہیں ہوتی وہ بچے کے حصول کی خاطر جان تک کی بازی لگادیتی ہے اس کی پرورش میں اپنی ساری جوانی کھپا دیتی ہے۔ اس کو اپنی فطرت کی تکمیل سے روکنا صریحاً ظلم اور نا انصافی ہے۔‘‘
’’سب ہی عورتیں تو ماں نہیں بن جاتیں بے شمار ایسی ہیں جو اس نعمت سے ہمیشہ محروم رہتی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے قدرت کی طرف سے کوئی محرومی ہو تو اس پر انسان کو صبرآجاتا ہے جس چیز کی صلاحیت نہ ہو اس سے سمجھوتہ کرنا آسان ہوتا ہے مگر زبردستی کسی کو محروم کرنا مختلف بات ہے۔‘‘
’’محروم کرنا۔ کیا مطلب۔ ہوسکتا ہے کوئی لڑکی ایسی بھی تمہاری زندگی میں آجائے جو تمہاری خاطر اپنے اس جذبے کی قربانی دے دے۔ تمہیں وہ اتنا ٹوٹ کر چاہے کہ کسی اور چاہت کی تمنا ہی نہ رہے۔‘‘
وقاص بے ساختہ ہنس پڑے۔ ’’آپ بہت آئیڈیلسٹک ہیں۔ زندگی ایک ٹھوس حقیقت ہے، کوئی افسانہ یا ناول نہیں کہ جو چاہا دکھادیا۔ اور نہ مفروضوں پر زندگی گزرسکتی ہے۔ آپ خواہ مخواہ خود کو اتنا پریشان کررہے ہیں۔ آپ ذہن میں رکھیں کہ میری زندگی میں ایسی کوئی عورت نہیں آئے گی جو میری خاطر اپنی فطرت کو کچل دینے کی طاقت رکھتی ہو، اور نہ میں ایسی کوئی توقع رکھنا یا مطالبہ کرنا پسند کروں گا۔‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ ایسی عورت کبھی نہ کبھی زندگی کے کسی موڑ پر تم سے ضرور ٹکرائے گی۔ تم اس کی دل شکنی نہ کرنا اور زیادہ بے غرض زاہد خشک اور ناصح بننے کی کوشش بھی نہ کرنا۔ یہ صفات اولیاء اللہ کو زیب دیتی ہیں، ہم تم جیسے عام انسانوں کو نہیں۔ تم عورت کو نہیں جانتے۔ جب یہ محبت کرتی ہے تو اپنے راستے کی ہر دیوار ڈھا دیتی ہے۔ ہر چٹان پاش پاش کردیتی ہے۔ اس کی محبت میں اگر بادِ نسیم کی سی سبک روی اور نرمی ہے تو دوسری طرف طوفان کی سی تیزی اور تندی بھی ہے۔ وہ چاہے تو سمندروں کا سینہ چیر دے اور پہاڑوں کا جگر چاک کردے، میاں بڑی سخت جان چیز ہے یہ ، تم کیا سمجھتے ہو اسے۔‘‘
وقاص ہنس رہے تھے ’’آپ تو بڑے عورت شناس نکلے، لگتا ہے ساری عمر اسی دشت کی سیاحی کی ہے۔ میں تو عورت کا قطعی کوئی تجربہ نہیں رکھتا۔ اپنی ماں بہنوں کو دیکھا ہے مگر جاننے کی نوبت نہیں آسکی۔‘‘
’’یہ تم نے کیا کہا کہ ساری عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے تم میرے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجانا۔ میری زندگی میں صرف ایک ہی عورت آئی تھی اور وہ بھی عاشی کی دادی تھی۔ وہ ایک مکمل عورت تھی اس کے بعد کسی اور عورت کی تمنا ہی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس نے صحیح معنوں میں خدا کے بعد میری پرستش کی تھی۔ اس نے ناز اٹھوانے کی بجائے میری نیاز مندی کی۔ خود مطالبے کرنے کی بجائے میرے مطالبات پورے کرنے کا طریق اپنایا۔ میں نے اگر دن کو رات کہا تو اس نے بے چون و چرا تسلیم کرلیا۔ میں اگر بیمار پڑا تو اس نے میرے پلنگ کی پٹی اس وقت تک نہ چھوڑی جب تک میں نے غسلِ صحت نہ کرلیا۔ میرے لیے اتنی قربانیاں دیں کہ ہمیشہ کے لیے میرے دل میں امر ہوگئی۔ اپنے بچوں کی جواں مرگی کا صدمہ اس طرح برداشت کیا کہ ایک آنسو آنکھ سے نہ ٹپکایا کہ کہیں میں حوصلہ نہ ہار بیٹھوں۔ اس کے بعد میرے لیے دنیا میں کوئی کشش باقی نہ رہی، بس بیٹا جو سانس مقدر میں لکھ دئے گئے ہیں وہ تو پورے کرنے ہی ہیں۔‘‘
’’کمال کی خاتون تھیں، حیرت ہے۔‘‘
’’اکثر عورتیں ایسی ہی باکمال ہوتی ہیں مگراپنے اپنے مردوں کے لیے۔‘‘
’’بہرحال مجھ سے ایسی کوئی باکمال عورت ناطہ نہیں جوڑے گی۔‘‘
’’کیوں نہیں جوڑے گی۔ خدا کی قسم اگر میں عورت ہوتا تو ایک لمحے کی بھی دیر نہ لگاتا اور تمہارے پوچھنے سے پہلے ہی ہاں کہہ دیتا۔‘‘
وقاص ہنستے ہوئے بولا: ’’آپ عورت ہوتے تو خدا کی قسم میں بھی ذرا دیر نہ لگاتا اور آپ کو اس عمر میں بھی قبو ل کرلیتا۔‘‘
غضنفر صاحب بھی ہنس پڑے۔ تھوڑی دیر بعد میز پر عاشی نے کھانا چُن دیا۔ کھانے سے فارغ ہوکر وہ گھر جانے کے لیے نکلے بے اختیار ان کی نگاہ رات کی رانی کے گنج کی طرف اٹھ گئی مگر آج وہاں کوئی نہ تھا۔ ان کے اٹھتے قدموں کو روکنے کے لیے کوئی جل ترنگ نہ بجا۔