کروٹ

سلطان جمیل نسیم، کراچی

جب میری چہیتی بیٹی رخصت ہوگئی تو میرج ہال میں خالی میز کرسیوں کے درمیان اٹکھیلیاں کرتی تنہائی کو دیکھ کر بے رونقی میرے سینے میں اتر آئی اور میں قریب پڑی ہوئی ایک کرسی پر ڈھے جانے کے انداز میں بیٹھ گیا۔ مجھے اس طرح بیٹھے دیکھ کر میری بیوی نے آنچل سے اپنے آنسو صاف کیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی میرے قریب آئی۔ پہلے دلاسہ دینے کے لیے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا پھر برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی اور بہت ہی مطمئن، ٹھہرے ہوئے لہجہ میں کہنے لگی۔

’’کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ دونوں بڑی بیٹیوں کو رخصت کرتے وقت تو آپ نے دل اتنا چھوٹا نہیں کیا تھا۔‘‘

اس کے تسلی آمیز لہجے نے میری اس ہمت کو توڑ دیا جس کے سہارے ضبط کا بند باندھے بیٹھا تھا۔ ایک دم جی بھر آیا اور آنکھوں میں جمع ہوجانے والے آنسو بہہ نکلے۔ گھر کے تمام افراد کی چاہت سے دل آباد تھا اب گھر کی رونق کم ہوجانے کے خیال سے اتنا بے قابو ہوا کہ ہچکیوں کے ساتھ رونے لگا۔

میرا بڑا بیٹا میرج ہال والوں کا حساب کتاب کرنے گیا ہوا تھا۔ سب سے چھوٹا ہمیں گھر لے جانے کے لیے کار میں بیٹھا انتظار کررہا تھا۔ باقی دونوں ہمارے ساتھ تھے۔ مجھے اس طرح روتے دیکھ کر وہ دونوں بھی آبدیدہ ہوگئے۔ بیوی ہمت بندھانے کے لیے کرسی سے اٹھی۔ اور اپنے ضبط کا خود امتحان لینے کے لیے مجھ سے کہا:

’’آپ تو اس کے رشتے کے لیے اس وقت سے بے چین تھے جب اس نے میٹرک پاس کیا تھا۔ اب وہ اپنے گھر کی ہوگئی ہے تو آپ جی ہلکان کیے لے رہے ہیں۔‘‘

میرے پاس اس کی باتوں کا جواب تھا، میں کہنا چاہتا تھا کہ اس لڑکی کا وجود پورے گھر پر چھایا ہوا تھا۔ سارے کنبہ کی ایک ایک ضرورت جس کی نظر میں ہو، جو اپنی موجودگی سے گھر کو پناہ گاہ بنادے اس کو پرائے گھر، اجنبی ماحول اور بیگانے لوگوں کو سونپ دینے پر دل ٹھکانے کس طرح رہ سکتا ہے۔ میری چھوٹی چھوٹی ضرورتیں بے کہے اب کیسے پوری ہوں گی۔ تم جو گٹھیا کی مریض ہو، تمہاری دیکھ بھال کون کرے گا، بھائیوں کی خبر کون رکھے گا؟

مجھے اپنی بیٹی کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی۔ میں ہر بات بیان بھی کردینا چاہتاتھا۔مگر اس قدر نڈھال ہورہا تھا کہ الفاظ کا زبان تک آنا محال ہوگیا تھا۔ ایک اجنبی گھر کے لیے وداع کردینے کا ایک لمحہ میرے گھر میں اس کی موجودگی کے اٹھارہ برسوں پر چھا گیا تھا۔

’’بیٹی مہمان ہوتی ہے، ہمارے گھر کی خوشبو اب اپنے گھر کو مہکائے گی۔ ہمارے گھر کا چراغ اب اپنے گھر کو روشن کرے گا اور ……‘‘

اور ہزاروں بار دی گئی مثالیں۔ لاکھوں مرتبہ کہی گئی باتیں بیوی دہراتی رہی، میں سنتا رہا، مگر بیٹی کی محبت ایک دائرے کی صورت میرے ذہن میں گھومے جارہی تھی۔

میں بظاہر میز پر کہنیاں ٹکائے، ہتھیلیوں میں سر تھامے بیٹھا تھا، بیوی مجھے سمجھائے جارہی تھی، پھر یہ ہوا کہ اس کاایک ایک لفظ میرے خیال کو نہ جانے کہاں کہاں لے جانے لگا۔

بے اختیار مجھے اپنے چچازاد بھائی برہان الدین کا خیال آیا۔ انہیں جوئے کی ایسی لت پڑی تھی کہ گھر کے برتن بھانڈے تک ان کی دستبرد سے محفوظ نہ رہے۔ بیوی نے ان سے چوری چھپے جوان بیٹی کی رخصتی کے لیے کچھ کپڑا اور چند زیور بنا کے پڑوسی کے ہاں رکھوادئے۔ نکاح کے ایک دن پہلے ساری چیزیں منگائیں۔ برہان الدین نظر بچا کے سب لے اڑے، ان کی اس حرکت کا اثر بیٹی پر اتنا ہوا کہ اس نے خود کشی کرلی۔ بیوی نیم پاگل ہوگئی، مگر وہ اپنے کیے پر نہ شرمندہ تھے نہ پشیمان۔

اس کے ساتھ ہی میرا دھیان اپنے پڑوسی نجیب خاں کی طرف گیا۔ جنھوں نے صرف اس بات پر اپنی جوان جہان بیٹی کو چار چوٹ کی مار ماری کی وہ کالج میں داخلہ لینے کی ضد پر اڑی ہوئی تھی۔ خدا جانے کیسی بے ڈھب چوٹ لگی کہ ہفتہ بھر میں بچی چٹ پٹ ہوکر رہ گئی۔

مجھے وہ شاہ صاحب بھی یاد آئے جنھوں نے سید گھرانے میں ہم پلہ رشتہ نہ ملنے کے باعث اپنی بیٹی کو بوڑھا کردیا تھا۔ یادوں کے البم کے ورق آپ ہی آپ پلٹ رہے تھے۔ کہ ملک صاحب کی تصویر نظروں میں پھرنے لگی۔ انھوں نے اپنی بہن کی محبت کے جذبے کو زمین و زر کی چار دیواری میں محبوس کردیا تھا کہ کہیں جاگیر و جائداد کے حصے بخرے نہ ہوجائیں۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں آئی کہ ہماری آج کی دنیا میں بھی ایسے لوگ اور ایسے علاقے موجود ہیں جہاں بیٹیوں کو بیچ دینے کے ارادے سے پالا پوسا جاتا ہے۔

ایسے دیکھے بھالے لوگ اور سنے سنائے واقعات یاد آنے پر سوالوں کا تانتا ایسا بندھا کہ چند لمحوں کے لیے اپنے ماحول سے غافل ہوگیا۔

کیا دل ایسے بھی بنجر ہوسکتے ہیں کہ اپنے ہی جگر گوشوں کے لیے بھی محبت اور چاہت کی ایک کونپل نہ پھوٹے؟ کیا آنکھوں تک اتنی بھی روشنی نہیں پہنچتی ہے کہ معصومیت کی چھٹکی ہوئی چاندنی ہی دیکھ سکیں؟

کیا ایسے لوگوں تک روشنی پہنچی ہی نہیں کہ اب تک ان کے دل اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں؟

روشنی کے اور ان کے درمیان کون حائل ہے؟

کیا ان کا رشتہ اپنی تہذیب، اپنے تمدن سے جڑا ہی نہیں ہے؟

کیا انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ ماضی سے رشتہ ٹوٹنا ایسا ہی ہے جیسے آدمی اپنی یادداشت کھو بیٹھے۔ اپنی پہچان بھول جائے۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ گزرا وقت آنکھوں سے اوجھل رہے تو موجود سے مستقبل کا راستہ بھی کٹ جاتا ہے۔

کیا انہیں اپنی تاریخ، اپنے ماضی سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے؟

ماضی —!

فی الحال میرا ذہن اتنے سوالوں کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں تھا۔ اس لیے ماضی کی تہہ میں اس طرح بیٹھنے لگا جیسے کسی کشتی میں گنجائش سے زیادہ مسافر بھرے جائیں تو وہ آہستہ آہستہ دریا کی تہہ میں بیٹھتی چلی جاتی ہے۔ جب رفتہ رفتہ ڈوبنے کی رفتار بڑھنے لگی تو مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں نے ہوائی جہاز سے چھلانگ لگا دی ہے اور مجھے زمین اپنی طرف پوری کشش سے کھینچ رہی ہے۔ پھر ایسا معلوم ہوا جیسے میں کسی ٹائم مشین میں بیٹھا ہوں۔ خیال اور اس کی رفتار انسان کے قابو میں کہاں۔ صدیوں کا سفر پل بھر میں طے ہوجاتا ہے۔

میرا تیز رفتار رخشِ خیال بھی مجھے ایک ریگستان میں پہنچا کر ہٹ گیا۔

وقت اور مقام کیا بدلا میری کایا ہی پلٹ گئی۔ اب میں مصنف بھی ہوں اور کردار بھی — نگاہ بھی ہوں اور نظارہ بھی۔

جلی ہوئی سیاہ پوش پہاڑیوں کے سلسلے میں گھرے ہوئے ریگستان کے ایک حصہ میں بستی بسی ہوئی ہے۔ جس میں میرا گھر ہے۔ بستی سے دور۔ ریگستان کے ایک ویران حصہ میں چھوٹے سے خیمے کے باہر میری بیوی ریت پر گم صم بیٹھی خالی خالی نظروں سے نجانے کس طرف دیکھے جارہی ہے۔

ولادت کے دن قریب آنے پر اس کی آیا کے ساتھ میں نے بستی سے لاکر اسے چھوٹے سے خیمے میں ٹھہرادیا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ نرینہ اولاد کی پیدائش پر عزت و احترام کے ساتھ بستی میں لے جائی جائے گی۔ اونٹ اور دنبے ذبح ہوں گے۔ جشن منایا جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو قبیلے کے سرکردہ لوگوں کی موجودگی میں اس کی جنی ہوئی نحوست یہیں دفن کردی جائے گی اور کچھ عرصے بعد ریگستان کی ہوا اس نشانی کو بھی مٹا دے گی۔

میں پندرہ دن سے اس کے ساتھ ہوں اور دلاسے دے رہا ہوں کہ انہونی باتوں کے خیال سے پریشان نہ ہو۔ ہم اپنے بیٹے کو لے کر بہت شان و شوکت کے ساتھ دف و چنگ بجاتے ہوئے بستی کو اپنے گھر جائیں گے مگر وہ استقرارِ حمل سے آج تک جس پریشانی میں مبتلا ہے اس میں ذرا کمی نہیں آئی ہے۔

میں خیمے کے باہر نہایت بے چینی سے ٹہل رہا ہوں۔ اندر سے آنے والی کرآہیں میرے اضطراب میں اضافہ کررہی ہیں۔ ایک ایک ساعت مجھ پر بھاری ہے۔

بچے کے رونے کی آواز سے میرے ہیجان میں کمی ہوتی ہے۔ اب میں منتظر ہوں کہ آیا باہر نکلے اور مجھے خوشخبری سنائے۔ آخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ میں چیخ پڑتا ہوں۔ کم بخت باہر نہیں آتی تو کیا مجھے آواز دے کر بھی تسلی نہیں دے سکتی۔ فربہ اندام، کریہہ صورت، سہمی ہوئی آیا خیمے سے نکل کر مجھے دیکھتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر میرے غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ میں زمین پر ٹھوکر مار کر اس کی طرف ریت اچھال دیتا ہوں۔ وہ ایک لفظ ادا کیے بغیر گردن جھکا کر واپس اندر چلی جاتی ہے جہاں اپنی قسمت پر ایک نوزائیدہ روئے جارہی ہے۔

میں نے غیظ و غضب کے عالم میں ایک لحد اتنی جلدی تیار کرلی جتنی دیر میں پستہ قد عورت نے خیمے سے باہر آکر اپنی منحوس نظروں سے مجھے دیکھا تھا۔

میں اونٹنی پر سوار ہوتے وقت خیمے کی جانب غصیلی نظر ڈالتا ہوں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ آیا خیمے کی طناب سے لگی کھڑی ہے اور مجھے بستی کی طرف جاتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔

ایک معلوم حادثے کے وقوع پذیر ہونے کے تصور نے میری بیوی کے وجود میں صدمے کا دھواں بھر دیا ہے۔ اس کی سانس ہی نہیں گھٹ رہی ہے بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی گم ہوگئی ہے۔ ایک بار پھر زندگی کو غم کی دھند میں لپیٹ دیے جانے کے خیال نے اس کے ہوش و حواس ہی نہیں چھین لیے ہیں، اس کا خون بھی خشک کردیا ہے۔ ممتا کے دھارے بھی سکھا دئیے ہیں۔ آیا کے بار بار احساس دلانے کے باوجود اس بات سے بے نیاز بیٹھی ہے کہ اس کی گود میں پڑی ہوئی نوزائیدہ زندگی کی رمق چوسنے کے لیے کلبلائے جارہی ہے۔

وہ اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ اس کے دل کی دھڑکن پر قدم رکھ کر گزرنے والی ایک ایک ساعت، اپنے دوش پر صحرا کے ذروں کو اٹھا کر چلنے والی ہوا، غروب ہوتے ہوئے آفتاب کو سر اٹھا کر دیکھنے والے کھجور کے درخت اور جلے ہوئے پتھروں کی پہاڑیوں سے آہستہ آہستہ سمٹنے والی دھوپ، سب اسے بتانا چاہتے ہیں کہ وقت کم رہ گیا ہے۔

وہ بے حس و حرکت بیٹھی ہوئی عورت جس کی چھاتی سے لگی ہوئی بچی کے حلق میں دودھ کی ایک بوند بھی نہیں پہنچی ہے، اس وقت چونک کر میری طرف دیکھتی ہے جب قبیلے کے کچھ لوگوں کے ہمراہ وہاں پہنچتا ہوں۔

مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ بیتابی کے ساتھ بچی کو سینے سے لگا کر پیٹھ موڑ لیتی ہے اور مامتا کی دھار بچی کے حلق میں اترنے لگتی ہے اس لیے وہ کلبلانا اور مہین آواز میں رونا بند کردیتی ہے۔

آیا میری جانب دوڑتی ہوئی آتی ہے، میری اونٹنی کی نکیل پکڑ کر کے التجا کرتی ہے۔

آقا: ذرا دیر ٹھہر جائیے۔ آپ منہ اندھیرے گئے تھے، چراغ جلے آئے ہیں، اس دوران میں بی بی نے بچی کو نظر بھر کے نہیں دیکھا ہے۔ اب مرنے کے لیے اس میں تھوڑی سی جان آجانے دیجیے۔

آیا کی بات کو اہمیت دئے بغیر میں ناقہ سے اترتا ہوں۔

بیوی پہلے تو گردن گھما کر میری جانب ایسی نگاہوں سے دیکھتی ہے جیسے وہ بھی آیا کی طرح زندگی کی بھیگ مانگ رہی ہو۔ میں جب اس کی سوالی نظروں کو کچلتا ہوا دو قدم آگے بڑھتا ہوں تو اس کی آنکھیں بدلنے لگتی ہیں۔ ذرا اور قریب پہنچنے پر اس کی نظریں کسی ناگن کی طرح میرے قدموں کو ڈس لینا چاہتی ہیں۔ میں نہیں رکتا ہوں تو اس کی زبان زہر اگلنے لگتی ہے۔ جب مسلسل اپنی طرف آتے دیکھتی ہے تو بچی کو اپنے ساتھ اور بھینچ لیتی ہے اور دیوانہ وار چیختی ہے۔

ہرگز نہیں، میں اپنا جگر گوشہ تمہیں ہرگز نہیں دوں گی۔

جب میں بالکل قریب پہنچ جاتا ہوں تو اس کی دیوانگی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔ ملتجی اور مجبور نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگتی ہے، ہاتھ پیر شل پڑجاتے ہیں، مزاحمت کی قوت بالکل زائل ہوجاتی ہے اور میں اس کی آغوش میں لیٹی ہوئی بچی کو اٹھا لیتا ہوں۔

میرے ساتھ آنے والوں نے مشعلین روشن کردی ہیں۔ صحرا میں پھیلتا ہوا اندھیرا ٹکڑے ٹکڑے ہوکر سایوں میں بٹ گیا ہے۔ بچی کو نہایت احتیاط کے ساتھ اٹھائے سایوں سے بچتا اور روشنی میں چلتا ہوا میں اس لحد کے نزدیک پہنچتا ہوں جس کو جانے سے پہلے تیار کرگیا تھا۔

میں ایک نظر آسمان کی طرف اٹھا کر دوسری بچی کے چہرے پر ڈالتا ہوں، میرے وجود میں سنسناہٹ سی پھیل جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے صحرائی ہوا کے تیز جھونکے بھر بھری ریت کو قدموں سے کھینچے لیے جارہے ہیں۔ میں سنبھل جاتا ہوں۔ پھر بچی کے چہرے کو دیکھتا ہوں جو مشعلوں کی روشنی میں آسمان پر جھلملاتے ستارے کی طرح دمک رہا ہے۔ میں لمحہ بھر ستارہ چہرے کو دیکھتا رہتا ہوں اور اپنے لرزتے ہونٹ اس کی نرم ملائم اور جھلملاتی پیشانی پر رکھ دیتا ہوں۔

نیم دائرے میں خاموش تماشائی بنے میرے ساتھ آنے والے قبیلے کے لوگ دف بجانے اور رقص کرنے لگتے ہیں۔ یہ موت کی آمد کا اشارہ ہے یا زندگی کی رخصت کا نظارہ؟

میری بیوی کی دیوانگی پوچھتی ہے مگر اس میں اتنی جرأت ، اتنی ہمت پیدا نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور بچی کو میرے ہاتھوں سے چھین لے۔

کیا میری وہ دونوں بیٹیاں بھی ایسی ہی ستارہ جبین اور خوش جمال ہوں گی جنھیں میں نے صورت دیکھے بغیر زندہ دفن کردیا تھا؟ اس خیال کے آتے ہی ستاروں بھرا آسمان دھندلا ہوجاتا ہے۔ صحرا کے ذروں کی چمک بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ میں دف بجاتے ہوئے لوگوں کا حلقہ توڑ کے اپنی بیوی کے پاس پہنچتا ہوں اور اس کی خالی گود کو بچی سے بھر دیتا ہوں۔

جب میں اس کی حیرت زدہ صورت اور سوال بھری نگاہوں کو نظر انداز کرکے پسپائی اور شرمندگی کے ساتھ نظریں جھکا لیتا ہوں تو قبیلے کا معتبر شخص آگے بڑھ کے کہتا ہے:

ہمارے قبیلے میں بھی انقلاب آگیا ہے، اندھیرے لپیٹ دئے گئے ہیں، نور پھیلادیا گیا ہے۔

’’چلئے – یا ساری رات یہیں گزارنی ہے۔‘‘

میری بیوی نے آہستہ سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔

میں اس کی آواز سن کر چونکا اور صدیوں کا سفر طے کرکے اپنے وجود میں سمٹ آیا۔ میرے بیٹوں نے سہارا دے کر اٹھانا چاہا تو میں نے ان کے ہاتھ بڑی محبت اور نرمی کے ساتھ اپنے بازوؤں سے ہٹائے۔ خود اٹھا اور کہا:

’’بیٹی نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ امانت بھی ہوتی ہے۔ آج ایک بڑے فرض سے سبکدوش ہوا ہوں۔ اب مجھے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

اور میرج ہال کے باہر کھڑی ہوئی کار میں جاکر بیٹھ گیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146