کرکٹ کے لیے بیٹ یا بلا اور گیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آج کرکٹ کا بیٹ جس شکل کا ہوتا ہے اس نے موجودہ شکل کب اور کیسے اختیار کی۔ جس طرح کوئی شکاری بڑی احتیاط سے اپنے ہتھیار کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح بیٹسمین اپنے لیے بیٹ منتخب کرتا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ قدیم فرانسیسی لفظ ’’بیٹے‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی ’’ضرب لگانا‘‘ یا مارنا ہیں۔ کیونکہ کرکٹ بیٹ گیند پر ضرب لگانے ہی کے کام آتا ہے۔ اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لفظ ’’بیٹے‘‘ بگڑ کر بیٹ بن گیا، ایک دوسرا خیال یہ ہے کہ قدیم انگریزی لفظ بیٹ (Batt) کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی ’’چھڑی‘‘ کے ہیں۔
شاید دوسرا خیال درست ہو کیونکہ کرکٹ کا پہلا بیٹ درخت کی ایک شاخ ہی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرکٹ بیٹ کی شباہت میں بھی تبدیلی ہوئی۔پہلے کرکٹ کی بیٹ ہاکی اسٹک سے مشابہ ہوتی تھی اس طرح کی ایک بیٹ امپریل کرکٹ میموریل گیلری لارڈز میں رکھی ہے جو دوپونڈ چار اونس وزنی ہے۔ اس بیٹ سے ۱۷۲۹ء کے لگ بھگ جان چیٹی نامی کھلاڑی بیٹنگ کرتا تھا۔ اٹھارویں صدی کے وسط تک کشی کے چپوسے ملتے جلتے بیٹ عام ہوگئے تھے۔
اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں موجودہ کرکٹ بیٹ سے کسی حد تک ملتے جلتے بیٹ استعمال ہونے لگے جو لکڑی کے ایسے ٹکڑے سے بنائے جاتے تھے جس کا ٹکڑا نیچے سے چوڑا اور اوپر سے پتلا ہوتا تھا۔ اوپری حصہ کو گول کرلیا جاتا تھا جو دستہ کا کام کرتا تھا۔ موجودہ شکل کا بیٹ ۱۷۷۳ء میں پیٹر فیلڈ ہمت مشائر کے جان اسمال نامی شخص نے بنایا۔ بیٹ میں پہلی مرتبہ علیحدہ دستہ ۱۸۴۵ کے لگ بھگ لگایا گیا۔ ۱۸۵۳ء سے پیڑ کے بنائے ہوئے دستے کا رواج ہوگیا۔ جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ۱۷۷۱ء میں ہمبلڈن کلب کی کمیٹی نے کرکٹ بیٹ کی چوڑائی سوا چار انچ اور ۱۹۳۵ء میں بیٹ کی لمبائی ۳۸ انچ مقرر کردی گئی۔ آج کل بیٹ سفید لکڑی کے بنائے جاتے ہیں جب کے قدیم زمانہ میں مجنوں نامی لکڑی اور صنوبر کی لکڑی استعمال کی جاتی تھی۔ بیٹ کا وزن عموماً دو پونڈ تین اونس ہوتا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا بیٹ ساٹھ فیٹ لمبا ہے جو ۱۹۷۱ء میں ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے خلاف بھارت کی فتوحات کی یاد میں کنکریٹ کا بناہے اور شہر اندور میں نصب کیا گیا ہے۔ اس پر فتحیاب ہندوستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام کندہ ہیں۔