کریلا موسم گرما کی ترکاری ہے۔ مگر اس کی کاشت نسبتاً ٹھنڈے علاقوں میں بھی کی جاتی ہے۔ میدانوں میں اسے وسط مارچ سے آخر اپریل تک کاشت کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بیلدار نبات کا مشہور پھل ہے جس کے اوپر ابھار ہوتے ہیں۔ خام ہونے کی حالت میں سبز اور پختہ ہونے پر سرخ یا زرد ہوجاتا ہے۔ اس کے بیج کدو یا توری کے بیجوں سے مشابہ اور کھردرے ہوتے ہیں اس کے تمام اجزا کا مزہ تلخ ہوتا ہے۔ کریلے کی ایک قسم سفید ہوتی ہے۔ یہ نصف گز تک لمبا ہوتا ہے۔
بعض لوگوں کا وہم ہے کہ کریلا گرم ہوتا ہے۔ دراصل کریلے کو گرم بنادیا جاتا ہے۔ یعنی اسے گرم مصالحوں سے بھر کر اور تیل میں تل کر اس کی تاثیر بدل دی جاتی ہے۔ ورنہ حقیقتاً یہ گرم نہیں ہے۔ طبی حیثیت سے گرم اسے اس وقت مانا جاتا، جب اس کے کھانے سے صفرائیت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کریلا پت کر بڑھاتا نہیں بلکہ کم کرتا ہے۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی کو گرمی کے سبب پیاس لگ رہی ہو تو کریلے کے رس کے دو چمچے دینے سے اسے تسکین ہوجاتی ہے۔
کریلا زیادہ تر پکا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ معدے کو قوت پہنچاتا ہے۔ قبض کو دور کرتا ہے۔ بلغم کو چھانٹتا ہے۔ پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہے اور ورموں کو تحلیل کرتا ہے۔ بلغی مزاج والوں کے لیے مفید ہے اور بلغمی امراض مثلاً وجع المفاصل، گٹھیا، نقرس بارو، ٹخنوں اور ایڑی کا درد جو سرد مادے سے ہو، استسقاء، جلندھر، ورم طحال، تلی کا ورم، پیٹ کے کیڑے اور کھانسی و دمے میں کھلانے سے فائدہ بخشتا ہے۔
— بچوں کے نمونیہ میں ڈبے میں اگر اس کے پتوں کا پانی نچوڑ کر پلایا جائے، تو فائدہ دیتا ہے اور دست لاتا ہے۔
— سرکے کے ہمراہ کریلے کو پیس کر لگانا گلے کے ورم کو تحلیل کرتا ہے۔
— کریلے کا رس ایک سے ۲ تولے تک پینے سے اجابت بافراغت ہوجاتی ہے۔ اس لیے یہ بواسیر کو بھی نافع ہے۔ علاوہ ازیں کریلے کا رس بہتے ہوئے خون کو بند کرتا ہے اور خونی بواسیر میں بھی سود مند ہے۔کریلے سے جو اجاجتیں آتی ہیں،ان میں صفراء اور خام بلغم خارج ہوتا ہے۔
— اگر کریلے کو سرسوں کے تیل میں جلا کرکوئلا کرلیں اور پھر صاف کرکے تیل کان میں ڈالتے رہیں تو کان کے درد کو آرام دیتا ہے۔
کریلا دماغ کو بھی فاسد رطوبتوں سے پاک کرتا ہے اور زیادہ پیشاب لاکر آلات بول کی صفائی میں بھی معین ہوتا ہے۔
وید حضرات اسے فالج، لقوہ، استرخاء، یرقان اور پتھری میں بھی استعمال کراتے ہیں۔
اطبائے قدیم نے کریلے کو مقوی ٔ اعصاب بھی لکھا ہے۔ جس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کریلا خون کو فاسد رطوبتوں سے پاک کردیتا ہے اور یہ صاف خون اعصاب کی غذا بن کر انھیں قوت بخشتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر کریلے کا رس ایک سے دو تولے تک، تھوڑا سا نمک ملاکر پیا جائے، تو ذیابیطس، پیشاب میں شکر آنے کے لیے مفید ہے۔
کریلے میں نقص یہ ہے کہ وہ خشکی بڑھادیتا ہے اور بعض مزاجوں میں اس کے استعمال سے پیچش کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔