کریمہ برنس (Karima Burnis)

؟؟؟؟

میں اسپین کی سیاحت میں مصروف تھی اور اس وقت غرناطہ کے قصر الحمراء کی مسجد میں بیٹھی ہوئی دیواروں پر منقش خطاطی کو دیکھے ہی جارہی تھی۔ میری نظریں اس اجنبی زبان کی کیلی گرافی سے ہٹتی ہی نہ تھیں۔ میں نے کسی زبان کا اس قدر خوبصورت خط دیکھا ہی نہیں تھا۔ الفاظ آنکھوں کے راستے میرے دل میں اترتے جارہے تھے۔
’’بھلا یہ کس زبان کے الفاظ ہیں؟‘‘ میں نے ایک گائیڈ سیاح سے دریافت کیا۔
’’عربی کے‘‘ اس نے جواب دیا۔
اور دوسرے روز جب ’’ٹوراٹنڈنٹ‘‘ یعنی محکمہ سیاحت کی متعلقہ ملازمہ نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس زبان کی ٹوربک لینا چاہوں گی تو میں نے جواب دیا ’’عربی میں‘‘ ۔
’’عربی میں…‘‘ اس نے حیران ہوکر پوچھا: ’’کیا تم عربی پڑھنا جانتی ہو؟‘‘
’’نہیں … لیکن عربی مجھے پسند ہے۔ چلئے اس کے ساتھ انگریزی کا لٹریچر بھی دے دیجیے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
اور اب تو یہ صورت بنی کہ میں اسپین میں جہاں بھی گئی میں نے وہاں سے سیاحت سے متعلق عربی کتب ضرور حاصل کیں۔ چنانچہ میرا بیگ عربی کتابوں سے اس قدر بھرگیا کہ مجھے اس میں سے اپنے کچھ کپڑے نکالنے پڑے۔ مجھے یہ کتابیں سونے چاندی سے بڑھ کر قیمتی محسوس ہورہی تھیں۔ حیرت انگیز طور پر میں ہر رات سونے سے پہلے ان کتابوں کو بیگ سے نکالتی اور دیر تک ان کے الفاظ کو دیکھتی رہتی۔ دل میں بے پناہ خواہش پیدا ہوتی کہ کاش میں اس رسم الخط کو سیکھ لوں اور اسی انداز میں لکھنے پر قادر ہوجاؤں۔ اکثر سوچتی کہ جس زبان کا رسم الخط اتنا خوبصورت، دل آویز اور جمالیاتی ہے اس کا کلچر کیسا ہوگا؟ پختہ ارادہ کرلیا کہ کالج میں داخلہ لیا تو اس زبان کی تعلیم ضرور حاصل کروں گی۔
میرے والدین آئیوا میں مقیم تھے اور دوماہ قبل میٹرک کا امتحان دیتے ہی میں سولہ سال کی عمر میں ہی اکیلی یورپ کی سیاحت پر چل نکلی تھی۔ خیال تھا کہ نتیجے کے بعد تو مجھے نارتھ ویرسٹن یونیورسٹی میں داخلہ لے لینا ہے، پھر اس سے قبل کیوں نہ کچھ سیر سپاٹا کرلیا جائے۔ یہ معاملے کی ایک ظاہری صورت تھی اور اپنے والدین اور دوستوں میں میں نے سیاحت کا یہی سبب بتایا تھا، لیکن اصل بات کچھ اور تھی۔ درحقیقت میں نے چند ماہ قبل چرچ سے اپنا ناتا توڑ لیا تھا اور اتوار کو بھی میں عبادت کے لیے نہیں جاتی تھی، جب کہ مڈویسٹ میں جہاں میں رہتی تھی، یہ رویہ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ چنانچہ میں انتہائی باقاعدگی سے چرچ میں جایا کرتی، لیکن چونکہ اللہ نے مجھے ذہانت عطا کی تھی اور میں غوروفکر کی عادی تھی اس لیے عیسائیت کے عقائد کے بارے میں جتنا سوچتی تھی، ذہن اتنا ہی الجھتا جاتا تھا۔
میرا وجدان کہتا تھا کہ معبود ایک ہے، وہی ہر جگہ جاری و ساری ہے، لیکن چرچ میں خدا کی بجائے صرف حضرت مسیح کی عبادت ہوتی تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ ان کے وسیلے سے ہم خدا تک پہنچیں گے۔ تاہم میں نے چپکے چپکے صرف خدا ہی سے تعلق استوار کرلیا تھا اور اس میں جہاں اطمینان محسوس کرتی تھی، وہاں اس تضاد پر سخت پریشان بھی تھی۔ میرا ذہن بچپن ہی سے مذہبی واقع ہوا تھا۔ میں بڑے ہی ذوق شوق کے ساتھ اتوار کو چرچ جایا کرتی۔ بڑی ہی توجہ سے امانت و دیانت، رحمت ورافت اور مہرووفا کی باتیں سنتی، لیکن چرچ میں پابندی سے حاضری دینے والوں کو جب میں معاشرتی زندگی میں ان تعلیمات کے بالکل برعکس رویہ اختیار کرتے ہوئے دیکھتی تو بہت پریشان ہوتی۔ کیا ہمارا مذہب ہفتے میں صرف ایک دن اور وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے کارآمد ہے؟ کیا وہ صرف اتوار تک محدود ہے؟ اکثر سوچتی کہ ہفتے کے باقی دن مجھے کس طرح گزارنے چاہئیں؟ کیا اس کے لیے ہمارے مذہب کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے؟ کبھی کبھی احکامِ عشرہ (Ten Commandments) کا چرچا بھی سننے میں آتا تھا، جن کے تحت قتل، چوری، جھوٹ، شراب نوشی، زنا وغیرہ گناہ قرار پاتے تھے، لیکن عملی صورت میں معاشرے میں ان کا کہیں گزر نہ تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ دیر کے لیے چرچ کی حاضری کے دوران منی اسکرٹ ناپسندیدہ ہوجاتا تھا مگر باقی دنوں یہ نوجوان لڑکیوں کا محبوب ترین لباس رہتا تھا اور مرد اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ عیسائیت اخلاقی حوالے سے معاشرے پر کیوں اثر انداز نہیں ہوسکی؟
اس طرح کے بہت سے سوالات تھے جو ذہن میں پیدا ہوتے تھے، لیکن کہیں سے ان کا جواب نہیں ملتا تھا۔ پادریوں اور مذہبی رہنماؤں سے بات کرتی تو وہ ڈانٹ دیتے کہ عقل اور مذہب کاآپس میں کوئی تعلق نہیں، اس لیے ان باتوں پر سوچے سمجھے بغیر ایمان لانا ہوگا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں اپنے ایک ٹیچر کے گھر گئی۔ دیکھا کہ شیلف بائبل کے مختلف نسخوں سے بھرا ہوا ہے۔ مگر ہر ایک دوسرے سے جدا تھا۔ میں پریشان ہوگئی۔ پوچھا تو انھوں نے بے اعتنائی سے کہا: ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ حالانکہ میں نے بعد میں مطالعہ اور تجزیہ کیا تو ان نسخوں کی عبارات میں باہم بے شمار تضادات بھی تھے بلکہ بعض ابواب ان میں سے خارج کردیے گئے تھے۔ تب غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے؟ میں چکرا کے رہ گئی!
اور حالیہ سیاحت کا سب سے بڑا مقصد ان سوالات کا جواب حاصل کرنا تھا۔ خیال تھا کہ سفر کے دوران مختلف لوگوں سے استفسار کرکے ذہنی انتشار سے نجات پانے کی کوشش کروں گی، لیکن افسوس کہ عیسائیت اور چرچ سے وابستہ میرے کسی اعتراض یا الجھن کا مجھے کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا، بلکہ اس سفر نے میری ذہنی پریشانی میں مزید اضافہ کردیا۔
واپس امریکہ آکر میں نے کالج میں داخلہ لیا تو اختیاری مضمون کی حیثیت سے عربی کا انتخاب کیا۔ اس ’’ناپسندیدہ‘‘ مضمون کاانتخاب مجھ سمیت صرف تین طلبہ نے کیا تھا۔ اس حوالے سے میرے ذوق و شوق کو دیکھ کر میرے ٹیچر پریشان (Confused) ہوگئے۔ میں عربی ہوم ورک خطاطی (Calligraphy) قلم سے کیا کرتی۔ اس مقصد کے لیے میں ایک بار شکاگو کے مسلم علاقے میں بھی چلی گئی تاکہ کوکا کولا بوتل پر عربی میں لکھے ہوئے ان الفاظ کو دیکھ سکوں۔میں نے اپنے استاد سے بھی عربی کتابیں عاریتاً لیں تاکہ عربی رسم الخط سے خوب خوب شناسا ہوسکوں۔ ساتھ ہی یہ اشتیاق بھی فزوں ہوگیا تھا کہ کسی طرح عربوں کے کلچر اور روایات سے بھی آگاہی حاصل کی جائے۔ چنانچہ کالج کے دوسرے سال میں پہنچی تو میں نے ’’مڈل ایسٹرن اسٹڈیز‘‘ (مطالعۂ مشرقِ وسطیٰ) پر خصوصی توجہ مرکوز کردی اور بعض ایسی کلاسوں میں جانے لگی جہاں مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے خاص لیکچر ہوتے تھے۔ ایک کلاس میں تو قرآن کا خصوصی مطالعہ بھی شامل تھا۔
ہوم ورک کرنے کے لیے ایک رات میں نے قرآن کھولا اور اسے پڑھنے بیٹھی تو پڑھتی ہی چلی گئی۔ میں نے اسے اتنی دلچسپی سے پڑھا جیسے کوئی ناول پڑھتا ہے اور مطالعے کے دوران میرے دل سے بے اختیار آوازیں نکلتی رہیں ’’واہ! یہ ہوئی نا بات، خوب! کتنی عظیم حقیقت ہے یہ ! میں تو پہلے ہی ان عقائد پر یقین رکھتی ہوں۔ واہ! یہ کتاب تو میرے ان سارے سوالات کا جواب دے رہی ہے جنھوں نے خاصی دیر سے مجھے پریشان کررکھا ہے۔ خوب! مجھے پتہ چل گیا کہ اتوار کے علاوہ باقی ہفتہ مجھے کیسے گزارنا ہے اور معبودِ واحد کا تصور تو میرے دل کی آواز ہے۔ خوب! بہت خوب!‘‘
میں تو خوشی سے نہال ہوگئی۔ یوں لگاجیسے اب تک اندھیروں میں بھٹک رہی تھی، لیکن اب منزل کا سراغ مل گیا ہے۔ ذہن سوالات سے بھرا ہوا تھا اور ان کا کہیں سے جواب نہیں ملتا تھا، لیکن اس کتاب کے مطالعے سے ذہن مکمل طور پر مطمئن ہوگیا۔ روح کا سارا غبار چھٹ گیا۔
دوسرے روز کلاس میں گئی تو میں نے اپنے ٹیچر سے دریافت کیا کہ مجھے اس مصنف کی دوسری کتابیں بھی درکار ہیں۔ میں ان کا مطالعہ کرنا چاہتی ہوں، لیکن ٹیچر نے بتاکر مجھے حیران کردیا کہ یہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے گویا اس کتاب کا مصنف خود خدا ہے اور یہ جس کتاب کا تم نے مطالعہ کیا ہے یہ قرآن کا انگریزی ترجمہ ہے اور جس شخص کو تم اس کا مصنف سمجھ رہی ہو یہ دراصل اس کا مترجم ہے۔
ٹیچر نے بتایا کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق یہ کتاب ان کے پیغمبر محمد (ﷺ) پر نازل ہوئی تھی اور اس وقت سے اب تک اس میں معمولی سی بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ یہ اپنی اصل صورت میں اب تک موجود ہے، دنیا بھر کے مسلمان اس کی تلاوت کرتے ہیں اور اس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ یہ معلومات میرے لیے بالکل نئی تھیں۔ کچھ نہ پوچھئے جذبات کا کیا عالم ہوا؟ مسرتوں اور حیرتوں نے دل و دماغ کا عجیب طرح سے احاطہ کرلیا۔ اب میری دلچسپی محض عربی تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ جی چاہنے لگا کہ اسلام کے بارے میں سب کچھ پڑھ لیا جائے اور مرکزِ اسلام یعنی مشرقِ وسطیٰ کو بہ چشمِ سر دیکھا جائے۔
کالج کی آخری کلاس میں تھی جب میں نے اپنے محبوب مضمون کی تکمیل کے لیے مصر کا سفر اختیار کیا۔ قاہرہ میں میرا پسندیدہ مشغلہ مسجدوں کو دیکھتے رہنا، ان کی دیواروں او رمحرابوں پر عربی خطاطی کا خوب توجہ سے مطالعہ اور مشاہدہ کرنا اور مسلمانوں سے اسلام کے بارے میں گفتگو کرتے رہنا تھا۔
ایک روز ایک مصری مسلمان نے مجھ سے پوچھ لیا: ’’جب آپ اسلام اور عربی زبان سے اس قدر گہری دلچسپی رکھتی ہیں تو مسلمان کیوں نہیں ہوجاتیں؟‘‘
’’میں پہلے ہی مسلمان ہوں۔‘‘ میں نے فی البدیہ جواب دیا، لیکن میرے اس جواب نے خود مجھے بھی پریشان کردیا۔ تب میں نے وضاحت کی کہ ’’اسلام فطرت اور کامن سنس کے عین مطابق ہے۔ اس کی کوئی بات عقل کے خلاف نہیں۔ اس لیے میں اس سے بہت متاثر ہوں اور اپنے آپ کو مسلمان ہی سمجھتی ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’یقینا ضرورت ہے۔‘‘ مصری شخص نے جواب دیا: ’’اگر آپ کسی مسجد میں جاکر دو گواہوں کی موجودگی میں کلمۂ شہادت پڑھ لیں اور مسلمان ہونے کی تصدیق کردیں تو آپ قانونی طور پر بھی مسلمان شمار ہوں گی۔‘‘ چنانچہ میں نے مشورہ قبول کرلیا اور مسجد میں جاکر اپنے آپ کو ایک مسلمان کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرالیا اور جب مسجد کے امام کی طرف سے مجھے سرٹیفیکٹ دیا گیا تو میں نے اسے بغیر جذباتی ہوئے، بڑے سکون کے ساتھ اپنے فائل میں رکھ لیا۔ یہ تو محض ایک قانونی کارروائی تھی ورنہ میں تو بہت پہلے اسلام کی عظمتوں کی اسیر ہوگئی تھی۔ عربی نے اور قرآن نے مجھے برسوں پہلے مسخر کرلیا تھا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں