کسریٰ کے کنگن

مائل خیرآبادیؒ

’’کیاخیال ہے آپ کا؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ مریض کو سرسام ہوگیا ہے۔‘‘
’’سرسام!مجھے توسرسامی علامت کوئی بھی نظرنہ آئی!‘‘
’’اوریہ کیاہے کہ میںابھی نہیںمرسکتا،بس رٹ لگائے ہے اُسی کی،موت کا حال اُسے کیا معلوم؟‘‘
’’اچھا،اس بات سے اندازہ لگایاآپ نے؟ مگراس کے گھر والے کہتے ہیں کہ وہ جب بیمارپڑتاہے تویہی جملہ زبان پرہوتاہے اورلطف کی بات یہ ہے کہ مریض ہمیشہ اچھاہوگیا۔‘‘
’’شاید وہ موت سے ڈرتاہے۔ اسی لیے جب ذرابخارآیاکہ موت کے تصورنے اس کے دماغ کو بے کارکردیا اور وہ رٹنے لگا کہ ’میں ابھی نہیں مرسکتا۔‘ اس کا مطلب آپ سمجھے؟!‘‘
’’کیا؟‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی مرنانہیں چاہتا۔‘‘
’’لیکن یہ بھی ہوسکتاہے کہ اس کے پیچھے کوئی بات ہو!‘‘
’’تم جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں،میراقیاس ہے۔آخر وہ بیمارہونے کے بعد واقعی اچھابھی ہوجاتاہے۔کتنابوڑھا ہے،کس قدرنحیف ہے۔ہڈی اورکھال رہ گیا ہے۔لیکن وہ جس اعتماد کے ساتھ کہتاہے کہ میں ابھی مرنہیں سکتا‘وہ اعتماد ہرگزسرسام نہیںکہاجاسکتا۔‘‘
’’آپ نہ کہیں‘میرے خیال میںاس کی سب سے بڑی تیمارداری یہ ہے کہ لوگ بہ آوازِبلند اس کے سرھانے کلمہ پڑھیں تاکہ اس جملے کے بدلے کلمہ اس کی زبان پر بھی جاری ہو‘ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا یہی’’اعتماد‘‘اس کی آخرت بگاڑ کررکھ دے گا۔‘‘
’’لیکن اس جملے کے علاوہ اورکوئی بات ایسی دیکھی آپ نے جس کی بناپر کہاجاسکے کہ اسے سرسام ہوگیا؟‘‘
’’اس کے سوااورکوئی بات توایسی نہیں دیکھی۔‘‘
’’توپھرکوئی ایسی بات ضرور ہے جس پر اسے اتنابھروسہ ہے اوراسے یقین ہے کہ جب تک یہ بات پیش نہ آجائے وہ نہ مرے گا۔‘‘
’’توگویاآپ اسے نبوت کا درجہ دیناچاہتے ہیں؟‘‘
’’میںاسے نبی کب کہتاہوں؟لیکن ہوسکتا ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی بات اس سے کہہ دی ہو،اوروہ اسے یادہو،اوروہی بات اس جملے کی بنیاد بنی ہو۔‘‘
’’یہ ممکن ہے۔اس لیے کہ اس کے صحابی ہونے میںشک نہیں،اورپھرایساصحابی جو اپنے عالم کفر واِسلام،دونوں عہد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہر طور واقف رہا۔‘‘
’’توکیارائے ہے آپ کی اگروہ اچھاہوگیا تو اس سے پوچھنا چاہیے کہ وہ ہربیماری میںاس جملے کی رٹ کیوںلگاتاہے۔‘‘
’’ضرورپوچھناچاہیے تاکہ اس کے اس جملے کی صداقت لوگوں کے لیے آزمائش نہ بنے۔‘‘
٭٭
’’کاش کہ ایران اورعراق کے درمیان آگ کا پہاڑ ہوتا۔‘‘
’’امیرالمومنین!ااپ کا خیال صحیح ہے۔ اگر ایسا ہوتاتویہ سرحدی جھگڑے نہ ہوتے۔‘‘
’’لیکن میں کہتاہوں کہ جب ایرانیوں نے سرحد پارکرکے ہمارے علاقوں کو پامال کرڈالا تو اس صورت میں ہمارافرض کیاہوناچاہیے۔‘‘
’’بلکہ میں عرض کروںگاکہ امیرالمومنین کو اس صورت میںکیارویہ اختیارکرناچاہیے۔‘‘
’’بے شک امیرالمومنین کا اقدام ہی اسلامی نظریہ وافکار کا ثبوت پیش کرے گا۔‘‘
’’اے رسول اللہ کے اچھے ساتھیو!ایک ذمہ دار کی حیثیت سے تمام نشیب وفراز کو دیکھتاہوں۔مجھے معلوم ہے کہ یہ ایرانی شرارت پراُترآئے ہیں۔ اگرانہیں اس کی قرار واقعی سزانہ ملی تومسلمانوں کے ذہن وافکار متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکیں گے۔‘‘
’’یاامیرالمومنین!آہ ہمیں ہر وقت اپنامطیع وفرماںبردارپائیںگے۔‘‘
لیکن سوال یہ ہے کہ ایرانیوں سے مقابلہ کرنا آسان نہیں،جو لوگ ایرانیوں کی طاقت کا صحیح اندازہ کرسکتے ہیں وہ ضرور متفکر ہوںگے۔‘‘
’’توآپ صاحبان مجھے مشورہ دیںکہ میں کسے ذمہ داربنائوں اورلشکراِسلام کس کی سپردگی میں دوں؟‘‘
’’خداکی قسم ایران فتح ہوگااورمیری زِندگی میںفتح ہوگا۔امیرالمومنین آپ کسی کولشکراِسلام کاسپہ سالاربنائیں۔‘‘
’’آپ بزرگ صحابی ہیں،آپ ایسی بات نہ کہیں جس سے کفر کی بوآئے۔‘‘
’’بے شک،ان بزرگ کی زبان سے یہ بات صحیح نہیںنکلی۔‘‘
’’شاید سٹھیاگئے ہیں یہ!‘‘
’’جوانی میں بہادرآدمی تھے۔اب بڑھاپے میںصرف جوش رہ گیا،ہوش باقی نہیں رہے۔‘‘
’’خداکی قسم ایران فتح ہوگا اورمیری زِندگی میںفتح ہوگا۔‘‘
’’بزرگوار!آپ وہ بات کیوں کہتے ہیں جو نہیںجانتے؟‘‘
’’خدا کی قسم میں جانتاہوں۔‘‘
’’گواہ!گواہ!!گواہ توصرف ابوبکرؓ تھے، اور آج وہ ہم میں نہیں۔ لیکن خداکی قسم میںسچ کہتا ہوں۔‘‘
٭٭
’’امیرالمومنین!آپ؟اوراس دھوپ میں یہاں؟‘‘
’’ہاں میں،عمربن خطاب۔اللہ کا ایک ادنیٰ بندہ اورمسلمانوں کا خادم۔لیکن قبلہ!آپ فرمائیں کہ اس عمر میں آپ اس لوٗمیں یہاں کیسے؟‘‘
’’امیرالمومنین!میراخیال ہے کہ جس لیے آپ یہاں کھڑے ہیں،اسی لیے میں۔‘‘
’’دیکھئے مدینے میںعام چرچاہے کہ آپ بڑھاپے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو آپ کو نہ کرنی چاہئیں۔جب آپ بیمارہوتے ہیں توفرماتے ہیں کہ میںابھی مرنہیںسکتا۔پھر اس دن آپ نے بھرے مجمع میں کہہ دیا کہ ایران آپ کی زندگی میں فتح ہوگا، حالانکہ کوئی نہیں جانتاکہ لڑائی کتنے دنوں تک ہوگی۔ اب آپ اس وقت میرے دل کی بات جاننے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔خدا کی قسم اگرآپ جوان ہوتے تو میںآپ کی تادیب کرتا۔‘‘
’’امیر المومنین!کیاآپ مجھے جھوٹاسمجھتے ہیں؟‘‘
’’نہیں!واللہ!صحابی رسولؐ جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘
’’توفرمائیے کیاآپ کی نظریں اس وقت ایران کی طرف نہیںلگی ہیں؟‘‘
’’واللہ یہ بات توہے،مگرآپ نے کیسے جانا؟‘‘
’’واللہ!امیر المومنین کو ایسا ہی ہوناچاہیے۔ آپ کی، فکر آپ کے دل کی بات صاف بتارہی ہے۔‘‘
’’اے صحابی رسولؐ!ہم سب میںبزرگ! آپ مجھے معاف فرمائیں۔میں واقعی سعدبن ابی وقاصؓ کے قاصد کا اِنتظار کررہاہوں۔‘‘
’’واللہ اے امیر المومنین!مجھے بھی اسی کا اِنتظار ہے۔‘‘
’’کیاآپ بتاسکتے ہیں کہ آپ کے اِنتظار کے پیچھے کیاخاص بات ہے۔میراخیال ہے کہ آپ نے اللہ کے رسولؐ سے کوئی پیشین گوئی ضرورسنی ہے؟‘‘
’’واللہ!پالیاآپ نے۔آپ کا قیاس صحیح نکلا۔میںنے سوچاتھاکہ جب ایران فتح ہوگااوروہ بات مجھے حاصل ہوجائے گی تواس پیشین گوئی کو بتائوں گا۔لیکن میں امیرالمومنین کے حکم کوٹال نہیںسکتا۔‘‘
’’توپھربہتریہی ہے کہ آپ تمام مسلمانوں کے سامنے وہ پیشین گوئی بیان فرمائیں۔‘‘
’’طیب،طیب!‘‘
٭٭
’’یاایہاالمسلمون!میں سب سنتارہتاہوں، میرے متعلق لوگ اپنی جگہ جو کچھ کہتے ہیں،خدا کی قسم! میںاس وقت تک صبرکرتاجب تک حقیقت حال سامنے نہ آجاتی۔لیکن امیرالمومنین نے مجھے حکم دیاہے کہ میں اب وہ بات بتادوں جوآپ کے درمیان(میرے نزدیک نہیں،آپ کے نزدیک)عوام الناس کے لیے فتنہ بن سکتی ہے۔
یاایہاالناس!گواہ رہو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم،اللہ کے سچے نبی ہیں۔حضورؐ نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کہی۔یہ میراایمان ہے،یہ آپ کا ایمان ہے،یہی تمام مسلمانوں کا ایمان ہے۔اوردنیا نے تجربہ کرلیاکہ جب حضورؐ نے کوئی پیشین گوئی کی وہ اللہ کی تائید واشارے پر کی اوروہ پوری اُتری۔
واللہ!اے لوگو!سچ جانو کہ ایک وقت وہ تھا جب میں سوسرخ اونٹوں کے لالچ میں روحی فداہ کا سرلینے چلا۔وہ،وہ دن تھاجب حضور ابوبکر صدیق (ان سے اللہ راضی ہوا)کے ساتھ مکے سے مدینے ہجرت فرمارہے تھے۔ہاں واقعی میں اس وقت کافر تھا۔ اور کافر کو حرص ہی وہ قوت بخشتی ہے جس کی بدولت وہ دوسروں کا سر اُتارنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ تو اے لوگو! سن لو،میںاب جب کہ بوڑھا ہوگیا ہوں، میرے تمام قویٰ نے جواب دے دیاہے لیکن وہ دن اوروہ واقعہ اس طرح یاد ہے جیسے میں اسے اب بھی دیکھ رہا ہوں۔‘‘
کفارمکہ نے اعلان کیاتھاکہ جو محمد(آہ!اب کیسے وہ جملہ کہوں؟مگرخیراس میںبھی بڑی عبرت ہے سننے والے کے لیے)جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کا سرلائے ،اسے سوسرخ اونٹ اِنعام میںملیںگے۔ میں سو اونٹوں کے لالچ میںنکل کھڑاہوا۔واللہ میں نے سراغ پالیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، صدیق اکبرؓ کے ساتھ کس راستے سے گزرے ہیں۔ میںنے گھوڑے کو ایڑلگائی، اور آناًفاناًسرپرپہنچ گیا۔
واللہ!حضو ربالکل مطمئن تھے۔لیکن ابوبکرؓ مجھے دیکھ کر گھبراگئے اوربولے’’وہ آگیا۔‘‘اورہاں واقعی میرا نیزہ اپناکام کرچکاہوتااگرمیرے گھوڑے کے پائوں زمین میںنہ دھنس جاتے۔
میںگھوڑے سے اُترا،دہانہ پکڑکرگھوڑے کو کھینچا۔گھوڑاریت سے اوپر آگیا۔میںپھر سوارہوا، دو قدم چلاتھاکہ گھوڑاپھر گھٹنوںتک دھنس گیا، میں بڑا پریشان ہوا۔پھراُترا،اورگھوڑے کو پھرنکالا۔ اور پھر چلا توگھوڑے کی یہی کیفیت ہوئی۔
مسلمانو!میںحرف بہ حرف صحیح کہہ رہاہوں۔ افسوس کہ اس کے گواہ للہ کے دوبندے تھے۔ایک اللہ کا آخری رسول، اور دوسرے آخری رسول کے پہلے خلیفہ۔تیسری بار جب گھوڑے کے پائوں دھنسے تو میں کھٹکا۔سوچنے لگا کہ براپھنسا،حضورؐ کی طرف دیکھا۔ وہاں وہی اطمینان تھا۔میرے دل نے مجھ سے کہاکہ اب معافی مانگنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔میرے دل نے یہ بھی کہاکہ ایک نہ ایک دن یہ رسول کامیاب ہوگا۔
میرے دل کی یہ بات میرے یقین کی حد تک پہنچ گئی اورمیں نے حضورؐ سے درخواست کی کہ مجھے معاف فرمادیں۔قربان جائیے اس نبی کے جس نے اپنی ذات کے لیے کبھی دُشمنوں سے اِنتقام نہیں لیا۔ آپ نے مجھے معاف کردیا۔میں نے عرض کیا۔مجھے تحریر دے دیجیے۔حضورؐ نے ابوبکرؓ کو اِشارہ کیااورمجھے معافی نامہ مل گیا۔
لیکن!
وہ بات ابھی تک راز ہی ہے جو آپ جاننا چاہتے ہیں،اے ایمان والو!سنو،اللہ کے رسول نے معاف کرتے ہوئے یہ بھی فرمایاتھاکہ اے سراقہ!وہ دن بھی خوب ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھ میں ہوںگے۔توپھر میںجو یہ کہتاہوں کہ میں ابھی مر نہیں سکتااورایران میری ہی زِندگی میں فتح ہوگا۔ تو کیا غلط کہتا ہوں؟ اوراب جب کہ میں نے حضورؐ کی یہ پیشین گوئی کہہ دی تووہ کون مسلمان ہے جو اسے غلط کہہ سکتا ہے؟‘‘
’’نہیں، نہیں، اے سراقہ! اے ہمارے بزرگ! ایران ضرورفتح ہوگااورکسریٰ کے کنگن آپ پہنیںگے۔‘‘
’’اِن شاء اللہ!‘‘
٭٭
’’اے شترسوار!تجھے اس خدا کی قسم!جس کے قبضے میںتیری جان ہے،سچ بتا،کہاں سے آرہا ہے؟‘‘
’’میں ایران سے آرہاہوں۔‘‘
’’واللہ!توضرورتجھے سعد بن ابی وقاص نے بھیجاہوگا۔‘‘
واللہ!لاریب!!‘‘
’’تویقیناامیرالمومنین کے لیے کوئی پیغام ضرور ہوگا۔‘‘
’’واللہ! امیر المومنین کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔تم نے میرے اونٹ کی نکیل کیوں پکڑلی؟‘‘
’’میں چاہتا ہوں اب ذرا رفتار مدھم کردو۔ دورسے آرہے ہو اس گرمی میںتمہارا ایک دم رُکنا صحیح نہ ہوگا۔‘‘
’’اے شخص!تونہایت زیرک معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے،اے شتر سوار میں بھی اللہ کا ایک ادنیٰ بندہ ہوں اورمسلمان ہوں، تووہ خوش خبری مجھے بھی سنا!‘‘
’’اچھاتو آ،اونٹ پرپیچھے بیٹھ جا۔میں تجھے بتائوں۔توخوش ہوجائے گا۔‘‘
’’نہیں،تجھے خداکی قسم!تواسی طرح بیٹھا رہ،اورمجھے ساربان سمجھ اوروقت ضایع مت کر۔‘‘
’’تو،تواتنابے چین ہے کہ اتنا بے چین امیرالمومنین کوہوناچاہیے۔‘‘
’’خداکے واسطے اے ناقہ سوار!اب دیرنہ کر۔بتاسعد بن ابی وقاص نے کیاپیغام دیاہے؟‘‘
السلام علیکم یاامیرالمومنین!یہ شترسوار کون ہے؟جس کے اونٹ کی نکیل آپ پکڑے ہوئے ہیں۔‘‘
’’یاسراقہ!یہ ہے سعدبن ابی وقاص کا قاصد۔مسلمانوں کے لیے خوش خبری لایاہے۔‘‘
’’حاشاوکلا!امیرالمومنین!آپ نے مجھے کیوں نہ بتایاکہ آپ ہی مسلمانوں کے خلیفہ ہیں؟ میری بے ادبی معاف کیجیے۔نکیل چھوڑئیے اورمجھے اُترنے دیجیے۔‘‘
’’نہیں!واللہ!!اے سعد کے قاصد!تجھے اسی طرح مسجدنبوی تک چلناہوگا،اورہاں وہ خبرسنانا جس سے مسلمانوں کے دلوں کو خوشی ہو۔‘‘
’’یاامیرالمومنین!اللہ نے ہم پر فضل فرمایا، ایران فتح ہوگیا۔
سپہ سالارِاِسلام نے خمس آپ کی خدمت میں بھیجاہے۔اوروہ شام تک مدینے آجائے گا۔‘‘
’’الحمدللہ!اچھایہ توبتاکہ مالِ غنیمت کے خمس میںکسریٰ کاکنگن بھی ہے؟‘‘
’’واللہ!امیرالمومنین!آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ کسریٰ کا کنگن واقعی خمس میںموجودہے۔یہ لیجیے مجھ سے مالِ غنیمت کی فہرست۔‘‘
’’لومبارک ہویاسراقہ!اللہ کے آخری رسول کی پیشین گوئی پوری ہوئی۔‘‘
’’الحمدللہ!سبحان اللہ!‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146