کفن کہانی

محمد حمید شاہد

… ہاں میری معصوم بچی! میں اپنے دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں کہ یہ کہانی اس کا کفن نہ بن سکی … تو تمہارا کفن ضرور بنے… اب جبکہ تم زندگی کی سانسیں ہارچکی ہو تو میں تمہاری نعش کے سرہانے کاغذ قلم تھامے اسی کہانی کو لفظ دینے کا دکھ سہہ رہا ہوں۔
جب وہ آخری سانسیں لے رہی تھی — تو کہانی لکھنے کی یہی خواہش میرے اندر یوں سر پٹخ رہی تھی جیسے چودہویں کی راتمیں سمندر کی بپھرتی لہریں ساحل پر سر پٹختی ہیں۔ مگر اس کی ٹھہر ٹھہر کر آتی ہوئی سانسوں کے سنگ، ہونٹوں پر سرسراتے نرم گرم لفظوں کی مہک نے میرے قلم کو ایک لفظ تک تخلیق نہ کرنے دیا … جب اس کے ہونٹوں پر سارے کے سارے لفظ غروب ہوگئے اور وہاں چپ اندھیرے نے جالا بن دیا تو یوں لگا میں نے یہ کہانی لکھ ڈالی تو میرا سینہ پھٹ جائے گا، مگر قلم چپ تھا اور لفظ اس سے پرے کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے … اور آج جبکہ اس ان کہی کانی میں تمہاری کہانی بھی شامل ہوچکی ہے وہی خواہش میرے اندر پھر انگڑائیاں لے رہی ہے … اور تم ہو جو ابھی ابھی میٹھی باتوں کا امرت رس میری سماعتوں میں گھول کر ابدی نیند سوگئی ہو۔ مجھے یقین ہے تم آنکھیں کھول دو گی اور مجھ سے ایک بار پھر پوچھوگی :’’بابا — کہانی مکمل ہوگئی ہے؟‘‘
میں جواب نفی میں دو ں گا۔ تو تم وہ کہانی مجھے تھمادو گی جو دو روز قبل مکمل کرکے تم نے میرے لیے تکیے کے نیچے رکھ چھوڑی تھی … اور یوں وہ کہانی — جو میرے سینے کے پنجرے میں پھڑپھڑا رہی ہے ان کہی رہ جائے گی۔
میں جو اتنے وثوق سے یہ کہہ رہا ہوں تو اس لیے کہ چودہ برس قبل انہی دنوں اور انہی لمحوں میں جب اس نے سانس کی بازی ہاری تھی … اور …گھر میں مفلسی ننگا ناچ ناچ رہی تھی تو میں نے چاہا تھا اس کی اپنی کہانی سے اس کا کفن بناؤں گا، مگر تم نے میرے بانجھ قلم کو دیکھا تھا … اوراس کاغذ کو دیکھا تھا جس پر ایک لفظ کا بھی احسان نہ تھا۔ میرے بھنچے ہونٹوں کو دیکھا تھا … اور میری آنکھوں میں جھانکا تھا جن سے سارے بدن کا کرب قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا … یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی تم نے سہمے لفظوں سے کہا تھا:
’’بابا … کہانی مکمل ہوگئی — ؟‘‘
میں ایک لفظ بھی منہ سے نہ کہہ سکا تھا۔ کچھ سینے سے اٹھا تھا … او رحلق میں آ پھنسا تھا، مگر تم پر تو جیسے میرا جواب کہیں گزرے لمحوں میں اتر چکا تھا … اور تم نے یقین کی فضا سے نفی والے جواب کی سرگوشی سن لی تھی۔ تبھی تو تم لمحۂ موجود کی حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے اپنے قدموں سے چل کر میرے قدموں میں آبیٹھی تھی اور بھیگے لفظوں میں التجا کی تھی۔
’’بابا … میرے پاس بھی اک کہانی ہے … اسے دے دیجیے۔ مگر اپنے نام سے … اور اس طرح یہ ماں کا کفن بن سکتی ہے—‘‘
مجھے معلوم تھا بیٹی یہ تمہاری پہلی کہانی ہے۔ میں نے اسے پڑھا تھااور اس کی چوٹ دل پر محسوس کی تھی۔ بے شک وہ فن کا شاہکار تھی۔ مگر دنیا فن کو نہیں نام کو تولتی ہے اور نام کو منڈی میں لانے کے لیے طویل مسافت کی گرد پھانکنا پڑتی ہے۔اس طویل مسافت پر جانے کے لیے تمہارے پاس وقت نہ تھا۔ سامنے اس کی نعش پڑی تھی اور گھر میں مفلسی ننگا ناچ رہی تھی۔ لفظ قلم سے پرے کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے اور کاغذ کورے کا کورا تھا۔ آنکھوں سے بدن کا کرب بہہ رہا تھا اور تم بھیگے لفظوں سے کہہ رہی تھیں: ’’بابا… یہ کہانی ماں کا کفن بن سکتی ہے۔‘‘
میں چاہتا تھا جو کہانی تخلیق کرنے کا دکھ تم نے برداشت کیا ہے تم ہی سے منسوب ہو، مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ جب اسے تمہارے نام سے اشاعت کے لیے دوں گا تو شاید ’’شکریہ‘‘ کے بے ثمر لفظوں کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو … شاید شکریہ کا لفظ کفن نہیں بن سکتا۔ پھر میری بیٹی… میں نے مجبوراً تمہاری کہانی پر اپنا نام لکھا اور اس کا کفن بنا ڈالا۔
آج جب کہ تم چپ کے لامحدود گہرے پانیوں میں اتر گئی ہو اور لفظ میرے قلم سے پرے تھر تھر کانپ رہے ہیں … مجھے یقین ہے تم کہہ دو گی: ’’بابا میرے کفن کے لیے کہانی سرہانے پڑی ہے۔‘‘
مگر میری بچی ! میں نے آج فیصلہ کرلیا ہے کہ لفظ چاہے قلم اور زبان کی گرفت میں بھلے ہی نہ آئیں، میں چپ مفہوم کے سہارے ساری کہانی تمہارے ٹھنڈے وجود پر اتار دو ںگا اور تمہارے سرہانے بیٹھا گزرے لمحوں کی ایک ایک اکائی سے گزروں گا جن کے تانے بانے سے یہ کہانی تشکیل پاکر میرے سینے میں پھڑپھڑا رہی ہے۔
سنو میری بچی… غور سے سنو! جب میں نے اس کہانی کے پہلے مرحلے میں اسے آخری بار دیکھا تھا اس وقت عورتیں اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں انڈیلنے لگتی تھیں۔ حیرت کی انگلیاں دانتوں تلے دبالیتیں اور آنکھوں کی پتلیاں یوں کھل جاتیں جیسے آنکھوں میں ادھر ادھر تیزی سے پھدکنے والا کالا سا موتی ابھی باہر گرپڑے گا۔ پنگھٹ پر مٹیاریں اس کا ذکر کرتی تھیں تو کبھی کھنکتے قہقہوں کے ساتھ، کبھی بھیگے لفظوں اور کبھی تعجب سے، کوئی سن رہا ہو یا نہیں … بس آواز مدھم ہوجاتی اور لفظ دھیرے دھیرے دوسری کے کانوں میں پھسل پھسل کر گرتے ۔جن کی سماعتوں کی جھولی میں یہ لفظ گرتے ان کے سینے کے اندر مقید پرندہ کبھی گہری فضا میں غوطہ لگاتا اور کبھی اوپر کو اٹھتا۔ جب وہ گہری فضا میں غوطہ لگاتا تو سکوت کا چولا پہنے ہوتا اور جب اوپر اٹھتا تو اس کے پروں سے کھنک دار پھڑپھڑاہٹ اٹھتی جو حلق سے نکلتی تو فضا مترنم ہوجاتی۔
سرداراں کا تنور تو جیسے اس کی باتوں کے لیے ہی گرم ہوتا تھا۔ جتنی روٹیاں پکتیں ان میں اس کے لذت اور کرب بھرے ذکر کے پھول ضرور ڈالے جاتے۔ تنور پر اس کے ذکر سے ہونے والی کانا پھوسی اور پنگھٹ پر اس کے نام سے اٹھنے والی سرگوشیوں کی عمر ایک سی تھی۔ اس کے سرو جیسے قد، نیلی جھلی جیسی گہری آنکھوں، سر اٹھاتی ستواں ناک، لمبے بالوں یا پھر شفق سے تھوڑی سی سرخی چراتی شفاف رنگت کا تذکرہ ہوتا تو چند دنوں بعد خود بخود دم توڑ دیتا کہ جب نو عمر لڑکیوں میں اس کے حسن کا ذکر چھڑتا تو دوچار لفظوں سے بات آگے نہ بڑھتی اور ہر ایک اپنے سراپے میں حسن تلاش کرنے لگتی۔ کوئی بوڑھی جو اس کی من موہنی صورت کا مصرعہ اٹھاتی تو دوسری گزرے وقتوں کی کتاب سے اپنے حسن کی غزل نکال لاتی مگر جس روز سے مہر اللہ بخش گم حواس کے ساتھ گھر واپس آیا تھا تو پنگھٹ اور تنور پر اس کا ذکر تواتر کے ساتھ ہونے لگا تھا۔
مہر اللہ بخش اس کا باپ تھا اور یوں چلتا تھا جیسے زمین کے ایک ایک ذرّے کو کھنگال رہا ہو۔ اس کا جھریوں بھرا ایک ہاتھ پر تو دوسرا لاٹھی پر ہوتا۔ وہ لاٹھی کو مضبوطی سے زمین پر جماتا تب قدم آگے بڑھاتا تھا۔ وقت نے اس کی کمر پر اونٹ کی طرح کوہان بناڈالا تھا اور وہ گردن سدھائے ہوئے بیل کی طرح جھکائے رکھتا تھا۔ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا وہ یوں چلتا تھا جیسے زمین آہستہ آہستہ پیچھے سرک رہی ہے… مگر جس روز وہ واقعی اپنے قدموں سے چلا تھا زمین ساکت تھی اور وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک ہاتھ لاٹھی پر تھا جو تھر تھر کانپ رہا تھا اور دوسرا ہاتھ کمر پر ۔تیز ہوا کی زد میں آئے ہوئے خشک پتے کی صورت وہ فضا میں ڈول رہا تھا اور وہ لاٹھی جو کانپتے ہاتھ میں تھی زمین پر پڑنے کے بجائے رگڑ کھاکر ایک نشان چھوڑ رہی تھی جیسے کوئی سانپ چھوڑ دیا کرتا ہے … اور اسی لکیر سے سرگوشیوں نے اپنا پھن اٹھایا تھا۔
پنگھٹ پر اس کا ذکر ہوتا تو سینے زور زور سے دھڑک اٹھتے، یوں لگتا اندر ایسا پرندہ ہے جو اپنی پھڑپھڑاہٹ سے سینے کا قفس توڑ دے گا … اور فضا میں تیرنے لگے گا۔ حیرت سے کھلی آنکھیں اک ادا سے شرم و حیا کا بوجھ اٹھا کر جھک جاتیں اور عجب معنی خیز مسکراہٹ چہروں پر ناچنے لگتی مگر سرداراں کے تنور پر تو جیسے ایسے چہروں کا داخلہ بند تھا جن پر اس کے ذکر سے حیا کی چمک دوڑ جایا کرتی تھی۔
عین گاؤں کے وسط میں سرداراں کا تنور تھا، وہ ایسا مرکز تھا جہاں سے سارے راستے پھوٹتے تھے۔ جتنی باتیں گاؤں کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچتی تھیں ان پر سرداراں کے تنور پر بیٹھنے والیوں کی مہریں ضرور لگتی تھیں … اور سرداراں کیا تھی۔ بس ہڈیوں کا ڈھانچہ – سر پر میل سے اٹے ہوئے سفید بال – یوں جیسے پہلے آٹے کو گوندھا گیا ہو پھر اس سے موٹی موٹی سویاں بنائی گئیں ہوں … اور پھر انہیں گرد آلود کرکے سرداراں کے سرپر چپکا دیا گیا ہو ۔ اس کے ہاتھ اتنے بڑے تھے جتنی اس کی زبان۔ اس کی آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی تھیں اور گال اندر کو دھنسے ہوئے تھے۔ ہونٹ اس قدر اندر کو دھنسے ہوئے تھے جیسے سارے تنور کی راکھ ان پر جم گئی ہو۔ جب وہ تنور پر بیٹھتی تو سر پر آٹے اور مٹی سے لتھڑا کپڑا باندھ لیتی … اور ایسا ہی ایک کپڑا ہاتھ پر بھی لپٹا رہتا … جب شعلے خوب مچل اٹھتے اور واپس اپنے منبع میں پلٹ جاتے تو وہ تنور پر جھکتی اور ہاتھ میں لپٹے کپڑے سے تنور کی اندرونی سطح کو صاف کرتی، پھر ہاتھ کو پہلی کے چاند کی صورت خم دیتی اور سب سے پہلے آنے والی ہم مجلس کی پرات میں موجود گندھے آٹے کو اس چاند میں بھرتی اور اسے دوسرے ہاتھ کی مدد سے اپنی ہتھیلی میں یوں گھماتی جیسے زمین اپنے محور پر گھوم رہی ہو اور پھر اسے زور زور سے کبھی ایک ہاتھ پر پٹختی کبھی دوسرے پر۔ مگر اس ہوشیاری کے ساتھ کہ وہ چودہویں کے چاند کی صورت میں گول ہوجاتی … اور جب اسے یقین ہوجاتا کہ اس میں مزید پھیلنے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر اسے دائیں ہاتھ پر دھرتی اور تنور میں جھک کر مہارت سے ایک جانب تھپک دیتی — اس سارے عرصے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہ آتا جب اس کی زبان رک جاتی ہو۔ ہاتھ اپنے محور پر حرکت کرتے۔ مینڈک کی طرح باہر کو امڈتی آنکھیں اپنے زاویے پر پھدکتی رہتیں اور زبان لفظوں کے پیڑے بنابناکر ادھر ادھر تھپکتی رہتی۔
عین شاہراہ کے وسط میں پھونس کے چھپر تلے جتنی بھی عورتیں بیٹھتیں وہ سرداراں کی ہم عمر ہوتیں — فرق ہوتا بھی تو یہی انیس بیس کا — گاؤں کا چوراہا ہونے کی وجہ سے مرد آتے جاتے تھے۔ یہ معقول بہانہ تھا جس کے ذریعے بوڑھیوں نے لڑکیوں کو اپنی محفل سے نکال رکھا تھا… جیسے ان کے ذکر ہی سے سرداراں کے تنور سے شعلے اٹھتے تھے۔ وہ آنے لگیں تو ان کی باتیں نہ ہوں گی… آگ نہ بھڑکے گی … روٹی نہ پکے گی… اور بوڑھیاں چاہتی تھیں آگ جلتی رہے، روٹیاں پکتی رہیں۔ معاملہ اگر بڑی بوڑھیوں تک محدود ہوتا تو لڑکیاں کب کا جیت چکی ہوتیں مگر مقابل سرداراں بھی تھی جس کے زبان لفظوں کے شعلے اگلتی تھی… اور وہ سپر پاور کی طرح ڈٹی ہوئی تھی … اور کسی لڑکی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ بے رحم طوفانی لفظوں کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی ٹھہر سکے۔
میں نے جب اسے اس کہانی کے پہلے مرحلے میں آخری بار دیکھا تھا تو میں پنگھٹ پر بھی جایا کرتا تھا اور تنور پر بھی … مگر شاید میں کچھ بڑا ہوگیا تھا۔ تبھی تو لڑکیوں کے کھنکتے قہقہوں میں مفہوم تلاش کرنے لگتی تھی اور بوڑھیوں کے اشاروں سے تصویریں بنانے لگتا تھا… اور جب میں یوں کرتا تھا تو میرے چہرے پر سنجیدگی لکھی جاتی تھی جسیلڑکیاں پڑھتیں تو قہقہوں کی کھنک یکایک رک جاتی جیسے چلتے ریکارڈ سے سوئی اچانک اتر گئی ہو… اور بوڑھیاں میرے چہرے کی اس کیفیت کو دیکھتیں تو تنور کے شعلے آنکھوں میں بھرلیتیں… اور میری جانب برسادیتیں۔ میں ٹھہرا رہتا تو آگ کے انگارے منہ میں بھر کر میری جانب اچھال دیتی اور مجھے وہاں سے کھسکتے ہی بنتی۔
پھر وہ لمحہ بھی آیا جب میں لڑکیوں کے قہقہوں اور بوڑھیوں کی حیرت زدہ پیشانیوں کا مفہوم سمجھنے لگا اور اس کے ذکر سے عجب اسی الجھن محسوس کرنے لگا۔ اس کا ذکر ہورہا ہوتا تو جی چاہتا اٹھ کر چل دوں مگر جیسے زمین قدم پکڑلیتی۔ بس سینے کے اندر ہی اندر کچھ ہونے لگتا۔ کان لپک کر سرگوشیوں کو پکڑنے کی سعی کرتے۔
میں نے جب پانچ جماعتیں گاؤں کے اسکول میں پڑھ لیں تو میرے ابّا نے کہا تھا۔ ’’تمہیں ساتھ والے گاؤں کے اسکول میں داخل ہونا ہوگا۔‘‘ جب میں نے ابّا کی یہ بات سنی تھی تو میں نے اس کے چہرے کو بڑے غور سے دیکھا تھا— مجھے یوں لگا تھا اس کا چہرہ اس کھیت کی طرح ہے جس پر ابھی ابھی ہل چلا دیا گیا ہوجس میں نمی محفوظ ہوچکی ہواور بیج اس میں دفن ہوچکا ہو اور اپنی جھریوں سے آسمان کی جانب دعا کی طرح اٹھی ہتھیلیوں کی صورت اوک بنائے ساز گار موسموں کی آس لگائے بیٹھا ہو اس یقین کے ساتھ کہ رتیں ساتھ دیں گی تو بیج سے کونپل پھوٹے گی— کونپل تنا بنے گی۔ تنوں سے شاخیں اُگیں گی اور ان پر پھول لگیں گے جن سے مہک اٹھے گی اور پھل لگے گا۔ یہ پھل دکھ کی کوکھ سے سکھ کا سورج اگائے گا۔ اس لمحے میں نے تشویش کی لمبی انگلیوں سے اپنے ماتھے کی لکیروں کو ٹٹولا تھااور اس خوبصورت لکیر کو محسوس کرنے کی کوششیں کی تھی جو میرے باپ نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے بھی میرے ماتھے پر دیکھ لی تھی۔
جب روز میں ساتھ والے گالیاں کے مڈل اسکول میں جانے لگا تھا پنگھٹ،تنور اور اس کے ذکر کی عمر ایک سال سے بھی بڑھ چکی تھی۔ مہر اللہ بخش کبھی کبھار گھر سے نکلا کرتا تھا۔ اس نے تو جیسے باہر نہ نکلنے کی قسم کھالی تھی ۔جب میں آٹھ جماعتیں پاس کر چکا تو اس کے تذکرے اسی طرح جوان تھے۔ میرا داخلہ پنگھٹ اور تنور پر اگرچہ بند ہوچکا تھا مگر اس سارے عرصے میں، میں نے اس کا ذکر سننے کے لیے سرداراں کے تنور کے عقب میں کچی دیوار کے عقب میں خود کو کئی کئی گھنٹے چھپایا تھا … اس روز جب میرے ابّا نے مجھے شہر بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہاں میں چچا کی ورکشاپ میں کام بھی کروں اور اپنا مقدر بھی چمکاؤں تو اس روز میں نے محسوس کیا تھا محض مجھ سے گاؤں کے درودیوار ہی نہیں بلکہ اس کا ذکر بھی چھوٹ رہا ہے۔ میں نے جب یہ سوچا تو خلوصِ دل سے دکھ کی جھیل میں اتر گیا تھا۔
پھر وہ گاؤں جو اس کے ذکر سے لبالب بھرا ہوا تھا مجھ سے چھوٹ گیا۔ ابھی میں نے پانچ ماہ ہی شہر میں گزارے تھے کہ میرے ماتھے پر خوش قسمتی کی لکیر تلاش کرنے والی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔ ابا کے سرہانے میں خوب رویا۔ میرے اعصاب شل تھے اور مجھے یوں لگتا تھا کہ وہ بادل جو مجھ پر ٹھنڈی چھاؤں کرتا تھا چھٹ گیا ۔ وہ ہاتھ جو میرے لیے دعا کو اٹھتے تھے، نہ رہے۔ بس میں تھا اور دکھ تھا۔جب کوئی ہمدردی کے لیے دو کلمات کہتا، مجھے یوں لگتا جیسے میرے من کی دھرتی پر کرب کے دو اور بیج بودئیے گئے ہوں ۔ جو بھی آتا تھا میرے سینے پر یہی فصل اگاتا تھا۔ بس ایک مہر اللہ بخش تھا جو چپ کا چولا پہنے آیا خاموش نگاہوں سے میرے چہرے کو دیکھا اور زمین کی قبر میں اپنی نظریں دفن کردیں۔ وہ جتنی دیر رہا چپ چاپ زمین کو تکتا رہا۔ میں جتنے روز رہا وہ اتنے دن آیا مگر ایک لفظ بھی نہ کہا … اور مجھے یوں لگا بس یہی ایک شخص ہے جس نے دکھ کے مفہوم کو سمجھا ہے۔ میں اس سانحے سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ مجھے کسی اور کا ہوش نہ رہا۔ ہاں جب کبھی محض ایک ساعت کے لیے مہر اللہ بخش آتے ہوئے یا پھر جاتے وقت میری جانب دیکھتاتھا تو مجھے یوں لگتا تھا اس کی آنکھوں میں سمندر جتنا پانی ہے جس میں اس کی بیٹی ڈوب رہی ہے اور پھر میں شہر لوٹ آیا۔ وقت پر ندے کی طرح پَر لگا کر اڑتا رہا اوریوں دس سال گزر گئے۔ میری بچی … دس سال کیسے گزرے … یہ ایک الگ کہانی ہے۔ جسے لفظوں کا پیرہن پہنادوں تو شاید اتنا وقت درکار ہوگا کہ تمہارے بے روح اور بے کفن وجود سے میری کہانی کے اس حصے کی طرف تعفن اٹھنے لگے گا۔ اس لیے اے میری بچی! اس حصے سے یوں گزرجاؤ جیسے کوئی اجنبی ایسے اجنبی شہر سے گزرتا ہے جس میں اسے روکنے والی کوئی زنجیر نہیں ہوتی۔ ہاں بس اتنا یاد رکھو کہ میں اس کے بعد گاؤں واپس کبھی نہ ہوا کہ وہ بادل نہ رہا تھا جو مجھ پر برستا تھا اور تشنگی میں جس کی جانب پیاس بجھانے کو لپکتا تھا۔
شہر میں میرا ٹھکانہ چچا کے پاس تھا۔ صبح کو میں اسکول اور بعد ازاں کالج جایا کرتا تو شام کو چچا کی ورکشاپ میں کبھی پیچ کس اور کبھی پلاس بنا کسی گاڑی کے انجن پر جھکا ہوتا تو کبھی اسٹپنی بنا گاڑی کے نیچے ہوتا۔ وقت اور ماحول نے میرے چہرے پر کالک مل دی تھی جو رفتہ رفتہ موٹی ہورہی تھی وہ لکیر جو میرے ابا نے بڑی محنت، صبر اور امید سے میرے ماتھے پر کھودی تھی وہ اسی کالک میں کہیں گم ہوگئی تھی۔
جب میں نے محسوس کیا کہ ورکشاپ کا کام اب میرے لیے بوجھ بن رہا ہے تو میں نے ورکشاپ اور چچا دونوں کو چھوڑ دیا… اور ایک پرائیویٹ اسکول میں ملازمت کرلی … شام ہوتی تو کبھی احباب کے ساتھ لفظوں کی بازی گری کرتا … اور کبھی لائبریریوں میں اوراق کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا اور یہ کیفیت سال بھر رہی۔ اس عرصے میں میرا نام لکھنے والوں کی صف میں کچھ اور اوپر جاپہنچا … مگر اندر ایک طوفان تھا جو یہاں بھی نہ تھما… اور مجھ سے کہانیاں مانگنے والے کہانیاں مانگ مانگ کر تھک گئے… اور میں چپکے سے تاریک راہوں پر چل دیا … میرے نزدیک زندگی کا مفہوم کچھ بھی نہ تھا … زندگی کیا تھی محض ایک دھوکہ تھا، ایک جھوٹا ڈرامہ جو اسٹیج پر ہورہا تھا … اور ڈرامہ بھی ایسا، جس میں کوئی تماشائی نہ تھا۔ جو ہنس رہا تھا اور وہ اپنا رول ادا کررہا تھا جو رو رہا تھا اس کے اسکرپٹ میں رونا لکھا تھا … اور میں جو تاریک راہوں پر چل پڑا تھا سمجھ رہا تھا مجھے یہی کردار ادا کرنا ہے۔
مگر اے میری بچی … اب جبکہ تمہاری مقدس نعش میرے سامنے پڑی ہے… تمہارا کفن ابھی بننا ہے اور لفظ میرے قلم سے پر ے کھڑے ہیں ۔ اس لمحے مجھے یوں لگ رہا ہے میری سوچ باطل تھی۔ زندگی کا مقصد تو بہت عظیم ہے، ہمیں روحوں میں تعفن اٹھنے سے پہلے – بے داغ اور بے عیب – سفید کفن بنانا ہوگا۔
ہاں تو میری بچی – میرے دل کے ٹکڑے – میں سوچتا ہوں کتنا وقت جاچکا۔ میرے پاس اختیار کی وہ زنجیر بھی نہیں ہے جو جاچکے لمحوں کے ساتھ بندھی ہوتی … اور میں اس زنجیر کو کھینچتا… اور لمحے پلٹ آتے – اب جبکہ تم اور وہ دونوں اپنے سینے کی سانس چنگیر میں پڑی روٹیوں کا ایک ایک ذرہ عدم کے پرندوں کو کھلا چکی ہو تو مجھے یوں لگا ہے جیسے میرے اندھے قدموں نے جتنی بھی مسافت طے کی وہ عموداً تھی … اوپرسے نیچے … ایسے ہی جیسے میں نے قدم دلدل میں رکھے تھے… اور وہ میرے سینے پر چڑھ دوڑی تھی۔
مگر اس سب کو چھوڑو میری معصوم … کہ یہ سب کچھ میری زندگی کااثاثہ نہیں ہے۔ یہ تو وہ کالک ہے جو میں اپنے ماتھے سے دھونا چاہتا ہوں … مگر میری بچی … کیا کروں کہ یہ کہانی انہی کالی گلیوں سے ہوکر گزرتی ہے۔ ان سے کترا کر نکلنا چاہوں تو بھی نہیں نکل پاؤں گا۔ اور انہی دنوں میں جبکہ میں تاریک گلیوں میں گھوما کرتا تھا میں اس روز اس گلی کے وسط میں کھڑا تھا جس کے اوپرگھنگھرو بول رہے تھے… اور چلمنوں سے روشنی جھانک رہی تھی۔ باہر گلی میں تاریکی اتر آئی تھی جو میرے چاروں طرف کمبل کی طرح لپٹی ہوئی تھی… مگر پھر بھی … گزرنے والے کافی تعداد میں موجود تھے۔ دائیں جانب بجلی کا کھمباتھا… اور زرد روشنی بلب سے پھوٹ کر اس ریڑھی والے کے چہرے پر پڑ رہی تھی جس کی ریڑھی میں چند آموں کے سوا کچھ نہ تھا اس کے سر پر گنتی کے بال تھے … ہونٹ موٹے اور بھدے تھے … ٹھوڑی نیچے تک لٹکی ہوئی تھی … اور مونچھیں داڑھی میں گم ہورہی تھیں۔ وہ جھولتے بیل کی طرح آگے بڑھ رہا تھا … اور ریڑھی بھی اس کے جسم کے ساتھ کبھی دائیں جانب کھسک رہی تھی کبھی بائیں جانب … وہ میرے قریب پہنچا تو میں نے اس کی بڑبڑاہٹ سنی… میں نے اندازہ لگایا وہ اپنی قسمت کو کوس رہا تھا … اور جونہی وہ مجھ سے چند قدم آگے بڑھا اوپرسے ایک جسم نعش کی صورت میں آیا اور دھپ سے اس کی ریڑھی پر جاپڑا۔ اس سے پہلے کہ جسم ریڑھی تک پہنچتا ایک چیخ فلک کو پرواز کرگئی تھی… اور اس کی بازگشت میرے کانوں میں گونج رہی تھی … میں ڈرا بھی۔ جھجکا بھی … مگر یہ کیفیت چند لمحوں میں میرے ذہن سے یوں پھسل گئی جیسے بہتے پانی میں ریت مٹھی سے نکل جاتی ہے۔ لوگوں کا جم غفیر پل بھر میں جمع ہوگیا۔ میں راستہ بناتا اس نازل ہوتے وجود تک پہنچا … وہ کوئی عورت تھی … اور ریڑھی پر الٹی پڑی تھی۔ اس کے بازو دائیں بائیں جھول رہے تھے اور ماتھا اس جگہ تھا جہاں ریڑھی والے نے ابھی ابھی اپنے بوڑھے ہاتھوں کو رکھا ہوا تھا، ریڑھی والے کے ہاتھ اس کے اپنے چہرے پر جمے تھے اور چہرہ دونوں ہاتھوں میں بھنچا ہوا تھا اور آنکھیں پوری طرح کھل گئی تھیں … اور ان کھلی آنکھوں سے تشویش جھانک کر ریڑھی پر پڑے جسم پر پھسل رہی تھی۔
یہ جسم ریڑھی پر نعش کی صورت پڑا تھا۔ بال بوڑھے برگد کی طرح پھیلے ہوئے تھے … اور لٹیں زمین تک دفن ہونے کو لپک رہی تھیں … جہاں بال زمین کو چھور ہے تھے وہاں خون کی ایک جھیل بنتی جارہی تھی… اور وہ لوگ جو اوپر معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے ان میں سے چند قدموں کی ان چاپوں کے پیچھے بھاگے جو سیڑھیوں سے اتر کر بغلی گلی میں گم ہو رہی تھیں… اور دل ڈوب رہا تھا۔
میں نے آگے بڑھ کر کانپتے ہاتھوں سے اس کا بدن سیدھا کردیا۔ اب اس کی ٹانگیں ریڑھی کے دائیں جانب جھول رہی تھیں اور پاؤں جوتوں سے بے نیاز تھے… اس کے بدن پر سبز پھولدار کپڑے تھے اور عین پیٹ پر پچکے آک اپنا نشان چھوڑ گئے تھے۔ اس کا سر اب ریڑھی کی ہتھیلی سے پھسل کر نیچے جھول رہا تھا اور ماتھے سے پھوٹتا لہو بالوں کو سیڑھی بناکر زمین پر پڑرہا تھا… اور ادھر میرے چہرے پر حیرت نے قدم جمالیے تھے … ہوا ساکت تھی … اور بجلی کے کھمبے سے اترتی زرد روشنی وہیں ٹھٹھرگئی تھی… اور وہ جو اس کے گرد تھے، وہ بھی شاید نہ تھے … اور میں نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا تو میرے سینے سے ایک چیخ اچھل کر نکلی تھی… اور لبوں کا حصار توڑ کر فضا میں تیر گئی تھی … اور پھر زبان نے ’’نہیں‘‘ کا لفظ تین بار اگلا تھا۔ پھر جب میرے ہی کانوں میں میرے لفظ پلٹ کر گونجے تھے تو دل سے درد کا ایک اور بادل اٹھا تھا … اور آنکھوں سے برس پڑا تھا…پھر میں بے اختیار اس پر جھک گیا تھا … اور جب دوبارہ اٹھا تھامیرے بازوؤں میں اس کا جسم نعش کی صورت میں جھول رہا تھا۔ سارا مجمع دم بخود تھا۔ اور سبھوں کے چہرے لٹھے کی مانند سفید تھے… اور اس لٹھے پر سوالیہ نشان تھر تھر ا رہا تھا … اور ان کے قدم زمین پر یوں جم گئے جیسے وہ اسی جگہ سے اگے ہوں۔
میری پیاری بچی … شاید یہی وہ لمحہ تھا … جب میرے قدم دلدل سے نکلے تھے … اور میں نے پہلی مرتبہ زمین کی سختی کو محسوس کیا تھا۔ اس لمحے میرے سینے سے جو درد کی لہر اٹھی تھی اس کی لذت ہی انوکھی تھی۔ تبھی تو اس درد نے صدا بن کر فضا کو چیرا تھا۔ میرے سر میں ایک جنون تھا… اور میرے قدم ہسپتال کی جانب تیزی سے بھاگ رہے تھے … اور جب اس کے سینے سے زندگی کی سانس پھسل کر ہونٹوں تک آئی … اور پتلیاں تھرتھرا کر اوپراٹھیں … اور نیلگوں عدسے حیرت سے میرے جسم پر پڑنے لگے … تو میںنے سکھ کا سانس لیا۔
… اور پھر میری بچی! میں ہسپتال سے سیدھا اسے اپنے گھر لایا۔ وہ مجھ سے عمر میں دس سال بڑی تھی اور اس وقت سے بہت مختلف ہوچکی تھی جب میں نے شہر آنے سے قبل سائیں اللہ رکھا کی منڈیر سے اسے آخری بار دیکھا تھا … اس روز اگرچہ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں مگر ان میں بلا کی کشش تھی۔ اس کے سر پر موٹا سا کھڑا جھول رہا تھا۔ پاؤں میں کھلے سلیپر تھے … اور وہ اس دیوار سے ٹیک لگائے سامنے آسمان کو گھور رہی تھی جس سے ابھی ابھی سایہ اتر کر اس کے قدموں میں جالیٹا تھا۔ ہوا ہولے ہولے چل رہی تھی اور اس کی قمیض کا پلّو ہوا کے سنگ اڑ رہا تھا… مگر اس کی نگاہیں ساکت تھیں … اور اس کے چہرے پر خون کی پھوار پر پڑرہی تھی۔
آج وہ میرے مقابل تھی۔ وقت کے تیشے نے اس پر بہت طبع آزمائی کی تھی… مگر نہ جانے کیوں میرے من میں آیا کہ اس کا ہاتھ تھام لوں… اس نے مجھے دلدل سے نکالا تھا … اور میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے پاؤں سخت زمین پر ہیں… میرے سینے سے دلدل کا بوجھ اتر گیا تھا … اور سچے جذبوں نے وہاں پھول کھلائے تھے۔ اور جب میں نے اس کا ہاتھ تھاما… تو اس نے مجھے اپنا سائبان بنایا … اور ہم نے زندگی کو ایک نئی ڈگر پر ڈالا۔
…اور پھر میری بچی… تم ہمارے آنگن میں اتریں۔ میرے من میں پیار کی ایک نئی جوت جاگ اٹھی… ایک اور برکھا برسی… میں نہال ہوتا چلا گیا، پہلے پہل تم نے زندگی کا رس اس کے بدن سے چوسا… اور تمہارے نتھنے زندگی کی ہمک سے پھڑ پھڑانے لگے تو مجھے پتہ چلا … زندگی تو یہی ہے… میں نے اس خدا کو پہلی مرتبہ جانا جو تخلیق بھی کرتا ہے اور رزق بھی دیتا ہے … اور جس کے کرم کی پھوار مجھ پر مسلسل پڑ رہی تھی… اور جب تم کلکاریاں بھرتیں تو میں عجیب احساس سے مسحور ہوجاتا… جیسے ہوا تھم گئی ہو … اور بادل میرے قدموں تلے ہو … آنکھوں میں سمندر اتر آیا ہو … اور دل میں کبوتر پھڑپھڑا رہے ہوں… اور میں آج تک اس کیفیت کو کوئی نام نہ دے سکا… بہت پہلے جب میںنے اپنے گاؤں سے پانچ جماعتیں پاس کرلی تھیں اور ساتھ والے مڈل اسکول میں پڑھ رہا تھا… اور پنگھٹ کے اس طرف اور جھاڑیوں میں چھپ کر نوعمر لڑکیوں کی باتیں سنا کرتا تھا… یا سرداراں کے تنور کے عقب میں سینے تک اٹھی کچی دیوار کے پیچھے جایا کرتا تھا … اور اس کا ذکر چھڑتا تھا تو میرے بدن پر ایسے ہی لمحے گزرتے تھے۔ مگر میں اسے کس جذبے کا نام دوں؟ میں آج تک نہ جان سکا۔ کیا وہ محبت تھی؟ … اور تمہارے ننھے منے کلکاریاں بھرتے وجود کو دیکھتا ہوں اور کچھ اس سے ملی جلی کیفیت سے گزرتا ہوں … کیا یہ محبت ہے؟ مگر نہ میرا دل یہ بات مانتا ہے نہ ذہن تسلیم کرتا ہے۔ سچ پوچھو تو بیٹی… محبت کا لفظ فرسودہ ہوچکا ہے … لکھنے والوں نے اسے اتنا بدنام کیا ہے کہ میں اس لفظ کو ادا کرنے سے قبل ارد گرد دیکھتا ہوں۔ کہیں کوئی سن تو نہیں رہا … میرا ایمان ہے ہر لفظ باعصمت ہوتا ہے مگر شاید محبت ایسا لفظ ہے جسے لکھنے اور بولنے والوں نے سب سے زیادہ بے آبرو کیا … اور میرے دل میں اس کے لیے … اور شاید تمہارے لیے جو بھی جذبات ہیں ان کی تشریح میں محبت جیسے پامال لفظ سے نہیں کرسکتا۔ ان جذبات کے لیے تو ایسا اچھوتا لفظ ہونا چاہیے جو ادائیگی میں ملائم ہو، ایسے کہ ادا کرتے وقت ہونٹ باہم یوں ملیں جیسے پھول پر شبنم کا قطرہ پڑتا ہے… اور وہ اپنے اندر کائنات کی وسعت جتنا اپنائیت اور خلوص کا مفہوم رکھتا ہو۔ سچ جانو تو میرا تعلق تم سے یا اس سے ایسے ہی تھا جیسے میرے بدن کا آنکھ سے ہے۔ میرے بدن کو آنکھ سب سے زیادہ عزیز ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آنکھ نہ رہی تواندھے وجود کو خود سے متنفر ہونا پڑے گا… یا پھر ہم تو دونوں کا تعلق کہیں میرے اندر ہے، وہیں جہاں سے دھک دھک ہوتی ہے۔ تو جسم کا ایک ایک خلیہ حیات کی خوشبو میں مخمور رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میری آنکھوں کے کینوس پر روز بروز بڑھتے تمہارے وجود کا پورٹریٹ بنتا تو میرے اندر ایک روحانی کیفیت کے لہجے میں خوشی کے پر پھڑپھڑانے لگتے … اور اس کے دن بدن زرد ہوتے وجود کو دیکھتا تو دکھ کا بدن میرے اندر کلبلاتا… اور ان دونوں کیفیتوں پر میری آنکھوں کے کٹورے آنسوؤں سے لبالب بھر جاتے۔
… پھر میری بچی! جب تم اٹھارہ برس کی ہوگئیں تو اس کے ہاتھوں پر رعشہ اتر آیا۔ میں تمہاری جانب دیکھتا تو لگتا کہ تم فطرت کا ایک مسحور کن اور روح پرور نقش ہو… اور اسے دیکھتا تو محسوس ہوتا، وہ اس قمیض کی مانند ہے جسے نچوڑ دیا گیا ہو۔
میری پیاری بچی! یہ انہی دنوں میں سے ایک دن تھا جب اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی تھی… اور مجھ پر انکشاف ہوا تھا، دکھ کے تپتے صحرا سے گزرنے کے بعد سکھ کی ٹھنڈی چھاؤں ملے تب بھی سانسیں برابر نہیں ہوتیں… بظاہر پرسکون نظر آنے والے سمندر میں ان گنت طوفان تھے۔ اس کے قدموں کے سارے آبلے اس کے باطن میں جاچھپے تھے اور وہ ان آبلوں کو پھوڑ رہی تھی۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں ابھی چھوٹا تھا… اور اس کا ذکر پنگھٹ اور سرداراں کے تنور پر نہیں چھڑا تھا۔اور اس نے تمہاری طرح اٹھارویں سال میں قدم رکھا تھا … اور کچھ لمحے پہلے اس کا باپ مہر اللہ بخش اپنے قدموں سے چلتا ہوا گھر واپس آیا تھا… اور اس کے ہاتھ میں موجود لاٹھی زمین پر گھسٹ رہی تھی… اور پیچھے ایسا نشان چھوڑ رہی تھی جیسے سانپ چھوڑ تا ہے۔ اسی لمحے مہر اللہ بخش نے ایک ایک لفظ اپنی بیٹی کو بتایا تھا۔ کہ کیسے سانول نظامانی نے اس کا راستہ روکا … اور کیسے وہ اسے اپنے گھر لے گیا … اور کس طرح اس نے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا … اور یہ سب بتاتے ہوئے مہر اللہ بخش کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ بڑھ گئی تھی کمر کچھ اور خمیدہ ہوگئی تھی۔ اور آنکھوں سے پانی پھوٹ بہا تھا۔ اس نے اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھا تھا اور شاید پھر کچھ سوچا تھا۔ اس کو تھاما تھا اور پیار سے بٹھایا تھا … اور ایک ایک لفظ سنا تھا … اور انہیںاپنی سماعتوں پر محسوس کیا تھا… پھر اسے تسلی ہوئی تھی کہ باپ کہہ رہا تھا … ’’میری زندگی میں سانول کو اس گھر سے کچھ نہ ملے گا۔‘‘
اسے پوچھنے کی ضرور ت نہ تھی … کہ سانول نظامانی کون ہے … وہ جو ارد گرد کے سات گاؤں میں لڑکیاں غائب ہوجایا کرتی تھیں… اونٹوں پر لدا سامان سرحد پار اتر جاتا تھا۔ اور مہینے میں ایک آدھ بار کوئی نہ کوئی لہو کا چولا پہن لیتاتھا… اس سب کے ساتھ اس کا ذکر ضرور ہوتا تھا۔ جیسے یہ واقعات اگر پتنگ ہیں تو ڈور اس کی انگلی پر ناچ رہی تھی، ادھر ایک پتنگ کٹتی ادھر دوسری ڈور سے بندھی فضا میں ہلکورے کھا رہی تھی کہ سانول دھن کا پکا تھا … اور اس کی عمر بھی پکی تھی ۔
وہ انسان نہ تھا وحشی تھا۔ وہ گزرتا تو گلیاں ویران ہوجاتیں پنگھٹ خامشی کا کفن پہن لیتی۔ تنور چپ کی پرات سے ڈھک جاتا اور بچے سہم کر کونوں میں چھپ جاتے … اور وہ جس نے ابھی کچے قدموں سے بچپنے کی منزل کو چھوڑ اتھا، غمزدہ باپ کے سامنے بیٹھی اس کا دکھ اپنی آنکھوں میں چبھتا محسوس کررہی تھی۔ اسے بھی سانپ نے سونگھ لیا تھا… اور جب مہر اللہ بخش کی بات فضا کے سنگ سنگ گلیوں میں سرسرائی، تنور کے شعلوں پر ناچی… اور پنگھٹ کے پانیوں کے ساتھ یہی تو خوف اور تجسس نے جالا بن دیا… آگے کیا ہوگا؟ یہی سوال پنگھٹ پر بھی تھا اور تنور پر بھی … لوگ حیران تھے … وقت گزر رہا تھا… اور اس کی چاپ سبھی سن رہے تھے … بظاہر سانول خاموش تھا۔ مگر اس نے سنا تھا جب کبھی وہ مہر اللہ بخش کو ملتا تھا تو اپنا فیصلہ ضرور سناتا تھا… کہ ایک دن وہی ہونا ہے جو میں چاہتا ہوں اور پھر چار سال پل ہل ہو کے گزرے تھے اور کسی اور نے ان کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا تھا … اور کس میں ہمت تھی کہ سانول سے دشمنی مول لیتا؟ مہر اللہ بخش نے سوچا تھا … خود سوچا تھا کہ یہ سوچ خود بخود اس کے وجود میں سرایت کرگئی تھی کہ وہ اب مزید نہ رہ سکے گا… اور زندہ نہ رہا تو اس کی بیٹی ننگے آسمان تلے ہوگی… اس کی بیٹی کو چھت چاہیے تھی… اور کوئی نہ تھی جس نے دروازے پر دستک دی ہو… اور اسی لمحے جب اس کے ذہین میں یہ سوچ رینگی تھی اسے سانول اچھا لگنے لگا تھا… اس کا نکلتا قد، بھرا بھرا جسم، گھنی مونچھیں اور نام جیسا سانولا رنگ… اسے کچھ بھی بڑا نہ لگا تھا… اور پھر جب میں نے اس کہانی کے دوسرے مرحلے میں اسے پہلی بار ریڑھی پر نعش کی صورت گرتے دیکھا تھا … تو اس درمیانی وقت کی ایک ایک ساعت نے اس سے حساب لیا تھا۔
میری بچی … اس نے مجھے بتایا تھا … کہ اس نے ملائمت کا چولا پہن لیا تھا … اور سانول کا ہر جبر اپنے من میں چھپایا… اس کے قدموں کو اپنے جسم پر برداشت کیا اور پھر بھی اس کے پاؤں کی گرد صاف کی… اور پھر لوگوں نے دیکھا سانول اور کومل پھول لگنے لگے تھے… اور ارد گرد کے گاؤں سے لڑکیوں کا اغوا بند ہوگیا تھا… اب کے کوئی قتل کی وارادت نہ ہوئی تھی… اور لدے ہوئے اونٹ سرحد پار نہیں اترا کرتے تھے۔ گلیوں، پنگھٹ اور تنور سے خوف نے چادر سمیٹ لی تھی… اور زندگی کی چہکار جیسے اس کے ساتھ سفر کررہی تھی … سرداراں کے تنور پر اب اس کے ذکر کے پھول ہر روٹی پر ڈالے جاتے اور ان پھولوں کو کنواریوں نے بہتے پانی پر تیرتے دیکھا… اور ان رنگوں کو اپنی نگاہوں میں بھرا … اور خوشبو سے مشامِ جاں معطر کیے۔
…پھر میری بچی… ایک روز غضب کی آندھی چلی … وہ تمام دئیے بجھ گئے جو گھروں میں جل رہے تھے۔ لوگوں نے کواڑ بھینچ ڈالے۔ بجلی اس زور سے کڑکی کہ بچے سہم کر ماؤں کی گودوں میں جاسمٹے اور مائیں سمٹ کر اپنے مردوں کے گھٹنوں سے جالگیں … جب سب لوگ آندھی کی پھنکار اور بجلی کی کڑک سے خوب دہل چکے تھے تو بارش کی ایسی باڑھ چلی تھی کہ مکانوں کی چھتیں تک رونے لگی تھیں… ایسے میں وہ آواز لوگوں تک پہنچتی تو کیوں کر… جو شعلے اگلتی بندوقوں کے دہانوں سے نکلی تھی… اور سانول کے وجود کو چیر گئی تھی… لوگ تو وہ دلدوز چیخیں بھی نہ سن سکے تھے جو اس کے حلق سے نکلی تھیں جس کا شوہر اس کی آنکھوں کے سامنے قتل ہوا تھا۔ وہ چیخ رہی تھی… اور آسمان رو رہا تھا۔ اور آنے والے بے رحم ہاتھ اس آگ کو ٹھنڈا کررہے تھے جو سانول نے ان کی راہ سے جدا ہوکر بھڑکائی تھی … پھر جب بارش رکی تھی… اور لوگوں کی سانسیں بحال ہوئیں تو لوگ گھروں سے باہر نکلے تھے … اور سائیں اللہ رکھا کی بہو مٹن نے یوں ہی احوال لینے کو اس کے آنگن میں جھانکا تھا… تو ایسی دہشت کی چیخ ماری تھی جس نے سارے گاؤں کو باندھ کر اس کے آنگن میں لاکھڑا کیا تھا۔ سب گم سم تھے اور سانول کی بھیگی ہوئی نعش ان کے درمیان پڑی تھی … اور خون کب کا گدلے پانی کے ساتھ بہہ کر اپنا رنگ کھوچکا تھا… اور … وہ وہاں نہیں تھی۔
لوگوں نے حزن کی چادر لپیٹ لی تھی… اور زبانوں نے حیرت کے لفظ جنے تھے… اور کنواریوں نے چوڑیاں توڑی تھیں … اور جوانوں نے غصے سے لہو کے جام لنڈھائے تھے … اور بوڑھوں نے کہنہ سال فلک کو دیکھا تھا۔
… اور پھر میری بچی … وہ جو اسے لے گئے تھے…انھوں نے اسے ان تاریک گلیوں میں بیچ ڈالا تھا، جن سے کبھی میں نہیں گزرا تھا… اور پھر ایک دن جب میں اس کالی گلی سے گزر رہا تھا … اور پرے کھڑے کھمبے سے زرد روشنی اتر کر اس ریڑھی والے کے چہرے پر پڑرہی تھی جس کے سر پر محض چند بال تھے … اور … اور …
… اور جب وہ میرے گھر آگئی تھی تو اس نے میرے ساتھ فاقے کاٹے تھے … اور جب تم اٹھارہ برس کی ہو گئیں تو اس نے اپنی کہانی سنائی تھی… اور جب کہانی سنا چکی تو اس نے ہوش کی رسی ڈھیلی چھوڑ دی تھی… اور جب جب اس کے حوال بحال ہو ئے تھے تو میرے ہوش گم تھے … اور ڈاکٹر کہہ رہا تھا یہ بہت خطرناک آپریشن ہے۔ دماغ میں ایک پھوڑا ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اور جوں جوں وہ بڑھ رہا ہے مریض کی سانسیں گھٹ رہی رہیں۔ اور ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ آپریشن بہت ضروری ہے۔ مگر میرے پاس کیاتھا۔ جب سے وہ ہسپتال سے آئی تھی نوکری چھوٹ چکی تھی، گھر کا اثاثہ بک چکا تھا اور قلم بانجھ تھا… اور وہ سارے دوست جو مجھ سے ملا کرتے تھے میری پھیلی ہتھیلی پر ان سب نے کچھ نہ دھرا تھا مگر اب راہیں بدلنے لگے تھے… انہیں اندیشہ تھا، مڈ بھیڑ ہوگئی تو ہاتھ پھیلے گا… وہ بھی سچے تھے بھلا کب تک کسی کی پھیلی ہتھیلی کو بھرا جاسکتا ہے۔
میری ہتھیلی خالی تھی… اور لفظ قلم سے پرے کھڑے تھے… اور وہ آخری سانسیں گن رہی تھی تو اس نے اشارے سے مجھے پاس بلایا تھا … اور کچھ کہا تھا جسے نہ میں سن سکا تھا نہ سمجھ سکا تھا… پھر اس نے بجھتی آنکھوں سے تمہاری جانب دیکھا تھا تو نہ سمجھ آنے والے لفظوں کا مفہوم خود بخود میرے باطن میں جااترا تھا … اور جب میں نے اس کا بے روح بدن اپنے آنگن میں اتارا تھا… اور قلم تھاما تھا تو ایک لفظ بھی قلم پر نازل نہ ہوا تھا تو تم نے کہا تھا۔
’’بابا — میں نے ایک کہانی لکھی ہے…‘‘
… اور اب جبکہ ایک لمبے دکھ نے تمہیں چاٹ لیا ہے۔ زندگی کی بتیس خزاں زدہ بہاریں اس گھر میں گزار کر تم عدم کی راہ پر جاچکی ہو … اور میرے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے … جس گھر میں قرض خواہ دستک دیتے ہوں … اور ہر بار انہیں مفلسی اپنا چہرہ دکھاتی ہو تو ایسے گھر کے دروازے پر تمہیں سکھ کا سندیسہ دینے کون آتا … دسمبر کی ٹھٹھرتی چاندنی دیکھنے کا حوصلہ کس میں تھا؟ … اور تم نے یہ سب کچھ دیکھا تھا اور اپنے اندر محسوس کیا تھا۔ پھر چپکے سے ایک کہانی لکھ کر میرے سرہانے رکھ دی تھی۔ تم جب چپ کی کشتی پر پہلے ہی سوار تھی اب موت کے گہرے پانیوں میں جا اتریں… اور اب جبکہ میری پیاری بچی … تاریکی زینہ زینہ اتر رہی ہے…مجھے تمہارا کفن لانا ہے… اور میرا قلم بانجھ ہے… اور کاغذ پر ایک لفظ کا بھی احسان نہیں … دیکھو میں قلم رکھ رہا ہوں اور اپنے سرہانے تلے رکھی کہانی نکال رہا ہوں… اور دیکھو سرنامے پر میں نے اپنا نام بھی لکھ دیا ہے … میں کہانی بیچنے جارہا ہوں … تم گھبرانا مت … میں جب واپس لوٹوں گا تو تمہارے لیے سفید بے داغ کفن میرے ہاتھوں میں ہوگا۔ اسے میں اپنے سینے سے بھینچوں گا توتمہاری ماں کی کہانی خوشبو بن کر کفن میں سما جائے گی۔ تو کفن پہنے گی تو میرے سینے سے بوجھ کے قدم اتر جائیں گے … لیکن اسی لمحے ایک اور بوجھ قدم بہ قدم میرے سینے پر بڑھ رہا ہے کہ جب میں اس مرحلے میں داخل ہوں گاجس میں اب تم ہو یا کبھی تمہاری ماں تھی … تو میرے لیے کفن کہانی کون لکھے گا؟

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146