کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ایمان کی بنیاد اور کفر اور ایمان کے درمیان حدِ فاصل ہے۔ دنیا کے تمام مسلمان اس کلمہ کو پڑھتے ہیں۔ مگر کیوں؟ اور اس کلمہ کو پڑھ لینے سے پڑھنے والے کی زندگی میں کیا فرق ہوتا ہے یہ قابلِ غور وفکر ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہماری زندگی میں اور ان لوگوں کی زندگی میں جو یہ کلمہ نہیں پڑھتے یا اس کا انکار کرتے ہیں کیا فرق ہے؟
جو انسان اس کلمہ کا اقرار کرلے وہ مومن بن جاتا ہے اور جو اس کا انکار کردے وہ کافر ہے۔ اور پھر دونوں کی زندگیاں بھی الگ راستوں اور الگ الگ طریقوں پر ہوتی ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ دونوں کے انجام میں بھی کتنا فرق ہوگا۔
کافر کا انجام یہ ہے کہ آخرت میں وہ خدا کی رحمت سے محروم ہوجائے اور ناکام و نامراد رہے اور مسلمان کا انجام یہ ہے کہ خدا کی خوشنودی اسے حاصل ہو اور آخرت میں وہ کامیاب اور بامراد رہے۔ اب سوال سامنے آتا ہے کہ آخرت کیا چیز ہے؟ آخرت کی ناکامی و نامرادی سے کیا مطلب ہے؟ اور وہاں کامیاب اور بامراد ہونے کا کیا مطلب ہے؟
اس کا جواب پہلے ہی دیا جاچکا ہے الدنیا مزرعۃ الآخرۃ۔ یعنی دنیا اور آخرت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی سلسلہ ہے جس کی ابتدا دنیا ہے اور انتہا آخرت! ان دونوں میں وہی تعلق ہے جو کھیتی اور فصل میں ہوتا ہے۔ ہل چلانے، بیج بونے، پانی دینے اور کھیتی کی رکھوالی کرنے میں جو جو غلطیاں اور کوتاہیاں آپ سے ہوں گی ان سب کا برا اثر فصل حاصل کرنے کے موقع پر معلوم ہوگا۔ اور اگر آپ نے یہ سب کام اچھی طرح کیے ہیں تو ان کا فائدہ بھی اچھی فصل کی صورت میں دیکھیں گے۔ بالکل یہی حال دنیا اور آخرت کا ہے۔ دنیا ایک کھیتی ہے۔ جہاں آدمی اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اپنی محنت اور اپنی کوشش سے اپنے لیے اچھی فصل تیا رکرے، پیدائش سے لے کر موت تک کے لیے انسان کو اس کام کی مہلت دی گئی ہے۔ اس مہلت میں جیسی فصل آدمی نے تیار کی ہے ویسی ہی فصل وہ موت کے بعد دوسری زندگی میں کاٹے گا۔ اور پھر جو فصل وہ کاٹے گا اسی پر آخرت کی زندگی میں اس کی گزر بسر ہوگی۔ اگر کسی نے عمر بھر دنیا کی کھیتی میں اچھے پھل بوئے ہیں، اور ان کو خوب پانی دیا ہے، اور ان کی خوب رکھوالی کی ہے تو آخرت کی زندگی میں جب وہ قدم رکھے گا تو اپنی محنت کی کمائی ایک سرسبز و شاداب باغ کی صورت میں تیار پائے گا۔
یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں ایک شخص کا علم اور عمل وہی ہو جو کافر کا علم اور عمل ہے، اور پھر آخرت میں وہ اس انجام سے بچ جائے جو کافر کا انجام ہوتا ہے۔
کلمہ پڑھنے کا مقصد دنیا میں انسان کے علم اور عمل کو درست کرنا ہے تاکہ آخرت میں اس کا انجام درست ہو۔ یہ کلمہ انسان کو دنیا میں وہ باغ لگانا سکھاتا ہے۔ جس کے پھل آخرت میں اس کو توڑنے ہیں۔ اور اگر انسان اس کلمہ کو زبان سے پڑھ لیتا ہے مگر اس کا عمل ویسا ہی رہتا ہے جیسا کافر کا عمل تھا، تو آپ کی عقل خود کہہ دے گی کہ ایسا کلمہ پڑھنے سے کچھ حاصل نہیں۔
جس دوا کو پینے کے بعد بھی بیمار کا وہی حال رہے جو پینے سے پہلے تھا، وہ دوا حقیقت میں اس کی دوا ہی نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کلمہ پڑھنے والے آدمی کا عمل وہی کا وہی رہے جو کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا یا کلمہ نہ پڑھنے والے کا ہے تو ایسا کلمہ پڑھنا بے معنی اور بے فائدہ ہے۔ جب دنیا میں کافر اور مسلم کی زندگی میں فرق نہ ہوا تو آخرت میں ان کے انجام میں فرق کیسے ہوسکتا ہے؟
——