فیصلہ کا وقت قریب آرہا ہے۔ آپ کے تعلقات اگر وسیع ہیں تو بھی اور اگر نہیں ہیں تو بھی آپ کے کئی دوست اور عزیز آپ کی نظروں کے سامنے کوچ کرچکے ہوںگے۔ کیسے کیسے توانا و تندرست جوان، کیسے کیسے ورزشی کسرتی پہلوان، کیسے کیسے نوعمر ونازک اندام نونہال اور ایسے ہنستے کھیلتے بچے جن کی موت کا تصور کبھی آپ کے وہم و گمان میں نہ آیا ہوگا۔ دیکھتے دیکھتے چل بسے۔ نامور علماء جن کے علم و فضل کی شہرت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی، ممتاز مصنفین جن کے قلم کی نوک سے نکلی ایک ایک سطر کے لیے شوق و عقیدت کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں، مشہور سردارانِ قوم اور لیڈران جن کے نقش قدم کو آنکھوں سے لگانے کے لیے لاکھوں عقیدت مند منتظر رہتے تھے، مقدس بزرگانِ دین جن کے زہدو تقویٰ پر انسانیت کو ناز تھا، محبت کرنے والے شوہر، جاں نثار کرنے والی بیوی، مامتا کی ماری ماں، سعادت مند فرزند، خدمت گزار بیٹی اور جگری دوست، ان سب کے بے سروسامان اور یک بیک اٹھ جانے کی درد ناک اور جگر خراش مثالیں کثرت سے آپ کی نظروں سے گزر چکی ہوںگی۔ پھر کیا بات ہے سب کچھ جاننے سب کچھ سمجھنے اور سب کچھ دیکھنے کے باجود ہم بدستور اس طرح غفلت، بے فکری اور بے حسی میںپڑے ہوئے ہیں، ہم زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہر جگہ ہر وقت ہر لمحہ ہر گھڑی ہر انسان کو موت کا نہ ٹلنے والا پیام پہنچ سکتا ہے لیکن ہم اپنے دل میں اپنی موت کو کبھی اپنے قریب نہیں پاتے، موت جب قریب آپہنچتی ہے تو نہ جوان کو چھوڑتی ہے، نہ بوڑھے کو اور نہ بچے کو۔ نہ نیک اور بد کے درمیان فرق کرتی ہے اور نہ ہی کمزور اورطاقتور کو بخشتی ہے۔ ان تمام چیزوں کو دیکھ دیکھ کر موت کے اٹل حقیقت ہونے کا اقرار کرنا پڑتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عملاً ہم اس سے آپ اپنی ذات اپنے وجود اور اپنی جان کو ہمیشہ مستثنیٰ کرکے سوچتے ہیں اور منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ فلاں امتحان، فلاں سال پاس کریں گے، فلاں سال تک اتنا روپیہ جمع کرلیں گے، فلاں سال لڑکے کی شادی کریں گے، فلاں سال آپ سفر کریں گے، فلاں سال فلاں عہدے سے پنشن لیں گے، فلاں سال اس قدر جائیداد خریدیں گے، فلاں سال تک کاروبار سے اتنا نفع حاصل کرلیں گے۔ ہم موت اور ناگہانی موت کی گرم بازاری ہر وقت دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی ذہن ہر وقت اس قسم کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ آخر کیو ںہے ایسا؟ یاد رکھئے وہ وقت قریب ہی ہے جب آپ دوسروں کے مکان پر نہیں ، دوسرے آپ کے مکان پر آپ کی تعزیت کے لیے جمع ہوں گے، آپ کا بے حس و حرکت ٹھنڈا جسم تختۂ پر غسل کے لیے پڑا ہوگا، جب آپ اس درجہ بے بس ہوجائیں گے کہ خود بے بسی اور بے کسی کو بھی آپ پر رحم نہیں آئے گا، جب آپ کے بچے بلبلا کر پکاریں گے اور آپ اشارہ تک نہ کرسکیں گے۔ جب آپ کی پیاری بیوی روتے روتے دیوانی ہوجائے گی، اور آپ اس کا ایک آنسو تک خشک نہ کرسکیں گے، جب آپ کے بوڑھے ماں باپ پچھاڑیں کھا کھا کر گریں گے اور آپ ان کو مطلق تسلی نہ دے سکیں گے۔ جب آپ کا جسم چارپائی پر ڈال کر اٹھایا جائے گا، جب دوسرے آپ کی نماز پڑھیں گے، جب آپ ایک تنگ و تاریک گڑھے میں ڈال دیے جائیں گے، جب آپ منوں مٹی کے نیچے دبے ہوں گے، قریب آرہا ہے، وہ وقت بہت قریب آگئی ہے وہ گھڑی او رنہ ٹلنے والی ساعت!
تو کیا آپ اپنی دلچسپ و شگفتہ مجلسوں میں رنگین و پرلطف جلسوں میں کبھی اس وقت کو یاد کرلیتے ہیں او راپنے عمل پر محاسبے کی ایک نظر ڈال لینا گوارا کرتے ہیں؟
قرآن کریم ہمیں دنیا کی سب سے واضح حقیقت موت کی طرف توجہ دلاتا ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ۔
’’ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘
اور اپنی زندگی کے ہر ہرلمحے اور ہر ہرپل کا خدا کے سامنے جواب دینا ہے۔ اس حقیقت کو واضح کردینے کے بعد اللہ تعالیٰ لوگوں کو متوجہ کرتا ہے:
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر آدمی یہ سوچے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان تیار کیا ہے۔‘‘
کل سے مطلب آخرت ہے۔ پھر دوبارہ اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اس لیے کہ اس کو معلوم ہے جو تم کرتے ہو، کررہے ہو اس سے تمہاری کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وہ فرماتا ہے:
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْ کُمُ اللّٰہُ۔
اللہ زمین اور آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے جو کچھ تمہارے دل میں ہے اسے خواہ تم ظاہر کروخواہ چھپاؤ اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ کرے گا۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ انسانوں کو اس دن کی ہولناکی سے آگاہ کرتا ہے جب انسانوں کی زندگیوں کا حساب کتاب ہوگا اور اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ دنیا میں مستی اور بے فکری کی زندگی گزارنے والے اور عیش سامانیوں میں گم رہنے والے افراد کی حالت کیا ہوگی۔ رشتہ دار، بہن بھائی، ماں باپ جیسے محبت کے رشتے جو آج ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں قیامت کے دن بے کار ہوجائیں گے اور کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ اس دن انسان تنہا اور محض اپنے اعمال کی بنیاد پر کامیاب یا ناکام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہٖ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہٖ لِکُلِّ امْرَئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُّغْنِیْہِ۔
’’اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اپنے ماں باپ سے اور اپنی بیوی بچوں سے بھی بھاگے گا۔ اس دن ہر آدمی اپنے آپ میں پریشان ہوکر دوسروں سے بے نیاز ہوجائے گا۔‘‘
لوگو! اس دنیا کی زندگی کو غنیمت جانو اور نیک عمل کرو کہ زندگی نہ جانے کب ختم ہوجائے اور اسی کے ساتھ عمل کی مہلت بھی۔ اللہ کے رسول نے آگاہ کیا تھا کہ زادِ راہ تیار کرلو، سفر طویل اور دشوار گزار ہے۔ واقعی آخرت کا سفر طویل اور دشوار گزار ہے اور نیک اعمال کا زادِ راہ ہی منزل تک پہنچاسکتا ہے۔ کاش ہم آگاہ ہوں!!