سرسبز پودے اس دنیا کی زیبائش کرتے ہیں۔ ہرے بھرے کھیت، گھنے جنگل، پھولوں سے مہکتے باغات اور دور تک بچھا ہوا گھاس کا مخملی فرش… گویا ہر روپ میں سبز پودے انسان کو تازگی اور انوکھی خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ پودے کھلی ہوا میں پروان چڑھتے ہیں جہاں سورج کی کرنیں، تازہ ہوا، کھلی فضا اور نرم مٹی دستیاب ہو۔ لیکن شہری زندگی میں زمینوں کی قلت اور فلیٹ کلچر میں یہ ہریالی ناممکن ہے۔ البتہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں اب شہری لوگوں کو بھی ہریالی فراہم کرنے لیے خاص طرح کے پودے بازار میں دستیاب ہیں جن کو گھروں میں اگایا جاسکتا ہے اور قدرتی حسن کا کچھ حصہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مگر ان کی دیکھ بھال آپ کی توجہ چاہتی ہے۔ اس لیے ان کے لگانے سے پہلے ان پودوں کی نگہداشت کے لیے ان کی ضروریات کے بارے میں جاننا بہتر ہے۔
روشنی: پودے سورج کی روشنی کے ہوتے ہوئے اپنی غذا خود تیار کرتے ہیں۔ یہ عمل ضیائی تالیف (Photosynthesis) کہلاتا ہے۔ کچھ پودوں کو کم روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً فرن یا سرخس جو قدرتی ماحول میں نم اور سایہ دار جگہوں پر پرورش پاتے ہیں جبکہ دیگر پودوں کو زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کمرے کی فضا میں دن کے وقت سورج کی روشنی مدھم ہوتی ہے اس لیے وہ پودے جن کو کم روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، کمرے میں بخوبی نشوونما پاسکتے ہیں۔ جن پودوں کو زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے انھیں کھڑکی کے قریب رکھنا چاہیے تاکہ کھلی کھڑکی کے ذریعے انھیں سو رج کی روشنی براہِ راست مل سکے۔
درجہ حرارت: ہر پودا ایک مخصوص درجہ حرارت کی حد تک اپنی نشو ونما برقرار رکھتا ہے۔ گھروں کے پودوں کے اندر رکھے جانے والے پودوں کے لیے ۵۸ فارن ہائٹ سے ۷۰ فارن ہائٹ تک درجہ حرارت مناسب رہتا ہے۔ شدیدسردی اور شدید گرمی کے دنوں میں پودوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے اس وقت انہیں بہتر جگہ پر منتقل کردینا چاہیے۔
ہوا کی فراہمی: پودے بھی تمام جانداروں کی طرح سانس لیتے ہیں۔ انھیں عمل تنفس کے لیے آکسیجن اور ضیائی تالیف کے لیے کاربن ڈائی آکسائڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ان پودوں کو ہوادار جگہوں پر رکھنا چاہیے تاکہ انھیں تازہ ہوا ملتی رہے۔ انھیں تیز گرم اور خشک ہوا کے تھپیڑوں سے بچانا بھی ضروری ہے۔
رطوبت: پودوں کی جڑیں زمین سے پانی جذب کرتی ہیں جو اوپر پتوں تک پہنچتا ہے۔ پانی نہ ملنے سے پودے مرجاتے ہیں۔ گھریلو پودوں کے لیے ان کے ارد گرد کی فضا میں نمی کا موجود ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ان پودوں کے ماحول میں خشکی ہوگی تو ان کے پتے بھورے ہونے لگیں گے۔ ان کی تازگی اور چمک ماند پڑنے لگے گی۔ موسمِ گرما میں ان گملوں کے قریب درمیانے سائز کے برتن میں پانی بھر کر رکھ دیا جائے تو عمل تبخیر کے ذریعے اس پانی سے بخارات بنتے رہتے ہیں اور ان پودوں کے اطراف کی فضا میں بھی نمی کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ مزید خوبصورتی کے لیے اس پانی کے برتن میں سنگ مر مر، رنگ برنگے کنکر اور پتھروں کی تہ بھی جمائی جاسکتی ہے۔ ان پودوں کو نمی فراہم کرنے کے لیے پچکاری یا اسپریئر کے ذریعے پتوں پر پانی کا چھڑکاؤ بھی کیا جاسکتا ہے۔
پانی: یہ زندگی کی اولین ضرورت ہے۔ پودے اس لحاظ سے ہمارے محتاج ہیں کہ وہ خود اپنی ضرورت کے مطابق پانی حاصل نہیں کرسکتے۔ جب ہم اپنے گھروں کو سجانے کی غرض سے ان پودوں کو قدرتی ماحول سے نکال کر اپنے گھروںمیں اٹھا لاتے ہیں تو ان کو مناسب وقت پر مناسب مقدار میں پانی مہیا کرنا بھی ہماری ہی ذمے داری ہے۔ ورنہ پانی کی کمی ان معصوم پودوں کو خراب کرے گی اور یہ مرجھا جائیں گے۔ ان پودوں کو روزانہ پانی دینا ضروری نہیں۔ آپ خود پودے کی مٹی دیکھ کر اندازہ لگا لیجیے۔ اگر مٹی خشک ہے تو اسے پانی دیجیے۔ اگر مٹی گیلی نظر آرہی ہو تو اسے پانی مت دیجیے۔ ہر گملے کے نیچے سوراخ اسی مقصد سے رکھا جاتا ہے کہ فالتو پانی باہر نکل جائے۔ پانی کی زیادتی اور مسلسل موجودگی سے جڑوں کو ہوا کی فراہمی رک جاتی ہے اور یہ صورت حال پودے کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ ایک بات اور ہے کہ گملے سے پانی نکل کر کہاں جائے؟ اس کے لیے بہتر ہوگا کہ ہر گملے کے نیچے مٹی کا کونڈا رکھ دیا جائے تاکہ فالتو پانی گملے سے نکل کر کونڈے میںپہنچ جائے۔
کھاد: مناسب وقت گزرنے کے بعد گملے کی مٹی میں کھاد شامل کرنے سے پودوں کی نشوونما بہتر ہوتی ہے۔ پودے سرسبز و شاداب رہتے ہیں اور پھول بھی خوب آتے ہیں۔
پودوں کی صفائی: گھریلو جھاڑ پونچھ کی وجہ سے گھریلو پودوں پر گرد و غبار جمع ہوجاتا ہے۔ کسی ملائم کپڑے یا اسفنج کے ٹکڑے کے ذریعے آہستگی اور احتیاط سے پتوں کو صاف کردینا چاہیے۔ روزانہ صفائی مشکل ہو تو ہفتے میں دو دفعہ ضرور ان پودوں کی صفائی کا اہتمام ہونا چاہیے۔
گملے کی تبدیلی: جب پودا گملے میں اتنا بڑا ہو جائے کہ اس کی جڑیں پورے گملے میں پھیل جائیں تو اسے دوسرے بڑے سائز کے گملے میں منتقل کردینا چاہیے اور کھاد کا اضافہ بھی کردینا چاہیے۔
رنگ و روغن: مٹی کے گملے مسلسل استعمال سے پرانے ہوجاتے ہیں۔ ان کی سطح پر مٹی یا کائی جم جاتی ہے اور یہ دیکھنے میں بھدے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ سال دو سال بعد ان پر پینٹ کرلیا جائے تو یہ اچھے لگتے ہیں۔ سرخ رنگ کا پینٹ زیادہ مقبول ہے۔ یہی پینٹ گملے کے نیچے رکھے جانے والے کونڈے پر بھی ہونا چاہیے۔ گملے خواہ لان میں رکھے ہوں یا گھروں کے اندر، چمکدار پینٹ کی وجہ سے پورا ماحول خوبصورت ہوجاتا ہے۔
گھریلو پودوں کے دو سیٹ: اگر آپ طویل مدت تک ایک پودے کو کمرے کی فضا میں رکھ کر چھوڑ دیں تو اس کی شکل بگڑنی شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے پتوں کا رنگ خراب ہونے لگتا ہے۔ شاخیں سوکھنے لگتی ہیں۔ مرجھائے ہوئے پودے دیکھ کر طبیعت ترو تازہ ہونے کے بجائے اور بھی بیزار ہوجاتی ہے۔ اس لیے ایک پودے کو عام حالات میں ایک ہفتہ اندر رکھیے پھر اسے کمرے سے باہر لان میں نسبتاً سایہ دار جگہ پر رکھ دیجیے اور اس کی جگہ دوسرا گملا کمرے کے اندر لے آئیے۔ ایک ہفتہ بعد پھر گملوں کی جگہ تبدیل کردیجیے۔ اس طرح پودوں کی صحت اور شکل برقرار رہتی ہے۔ اگر آپ کمرے کے اندر چار گملے رکھنا چاہیں تو آٹھ گملے تیار کیجیے۔ ایک ہفتہ چار گملے اندر رکھیے اور دوسرے چار گملے کمرے سے باہر۔ دوسرے ہفتے ان گملوں کی جگہ تبدیل کردیجیے۔ اس طرح گھریلو پودوں کے دو سیٹ موجود ہونے چاہئیں۔
کاٹ چھانٹ: سوکھے پتوں اور شاخوں کو احتیاط سے کاٹ کر الگ کردیجیے تاکہ پودے اچھی شکل میں نظر آئیں۔ اب چند گھریلو پودوں کے نام آپ کو بتاتے ہیں:
ربر کا پودا: سبز چمکدار پتوں والا خوشنما پودا ہے، جو کمرے کی فضا میں اچھا لگتا ہے۔
اسپیراگس (Asparagus): کچھ لوگ اسے فرن کہتے ہیں اور غلط کہتے ہیں۔ یہ ایک پھولدار پودا ہے، جس میں سفید چھوٹے چھوٹے پھول آتے ہیں۔ اس کے پتے باریک اور نوکدار ہوتے ہیں۔ اس کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ Asparagusplumosisکے پتے زیادہ باریک اور نازک ہوتے ہیں اور پروں کا سا تاثر دیتے ہیں۔
مونس ٹیرا (Monstera): کمرے کی اندرونی سجاوٹ کے لیے نہایت مقبول پودا ہے۔ اس کے پتے گہرے سبز، خوب بڑے بڑے گول یا بیضوی تراش کے ہوتے ہیں جس کی درمیانی رگ کے دونوں جانب سوراخ ہوتے ہیں۔ اس کے کنارے دھاریوں کی شکل میں کٹے ہوتے ہیں۔ پتوں کے اس کٹاؤ کی وجہ سے یہ پودا ایک خصوصی انفرادیت کا حامل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اس کا نیا پتا نکلتا ہے تو یہ سبز رنگ کا اور لپٹا ہوتا ہے۔ بعدمیں یہ گہرے رنگ کا ہوکر کھلتا اور پھیل جاتا ہے۔ یہ بیل کی شکل میں بھی دستیاب ہے۔
ایروکیریا (Araucaria): ایک شاندار پودا ہے۔ اس کا تنا سیدھا اور مضبوط ہوتا ہے جس پر حلقے کی شکل میں شاخیں نکلتی ہیں۔ شاخوں پر انتہائی باریک نوکدار سوئی نما پتے نکلتے ہیں۔ یہ پودا ٹھنڈی جگہوں پر خوب نشو ونما پاتا ہے۔
Aspidistra: اس کے پتے چوڑے ہوتے ہیں جن پر متوازی نسیں ہوتی ہیں۔
Hepta Pleurum: اس کی گہری سبز پتیاں ایک خاص انداز سے نکلتی ہیں۔کچھ اس طرح کہ ایک لمبے ڈنٹھل کے سرے پر عموماً سات پتیاں ایک حلقے کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں۔ گویا ایک مرکز سے یہ پتیاں باہر کی جانب نکلتی نظر آتی ہیں۔
چھتری پودا (Umbrella Plant): اس کے پتے بھی ڈنٹھل کے سرے سے کرنوں کی طرح چاروں طرف کو نکلتے ہیں۔ پتیاں باریک ہوتی ہیں۔
ایڈی اینٹم (Adiantum): سیاہ شاخوں اور چھوٹے پتوں والا نرم و نازک فرن کمرے کے اندر رکھا جاتا ہے۔
ڈرائی آپیٹرس (Dryopteris): اس کے پتے کافی بڑے ہوتے ہیں۔ ٹھنڈی اور سایہ دار جگہ پر یہ پودا خوب نشو ونما پاتا ہے۔
Nephrolepis: اس کے پتے لمبے اور کٹاؤ دار ہوتے ہیں۔ اس فرن کے پودے سدا بہار ہوتے ہیں۔ ان میں پھول نہیں آتے۔ دیکھنے میں یہ نرم و نازک پودے بھلے لگتے ہیں۔
ان کے علاوہ فلوڈینڈرون ، پیپی رومیا، یوکا، میرینٹابھی گھریلو پودوں کے طور پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔