کمرے

نیلم احمد بشیر

گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی۔ امجد چونک گیا، اس کا گھر آگیا تھا۔ بھائی جان اس کے وزنی سوٹ کیس اٹھا کر اندر چلنے لگے۔ وہ باہر نکل کر چاروں طرف بغور دیکھنے لگا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی سائنس فکشن فلم کا کردار ہو اور کسی ایلین فارن لینڈ سے اڑن طشتری میں سے آن اترا ہو۔ امریکا سے آنے کے بعد اپنا ملک کتنا مختلف اور عجیب عجیب سا لگ رہا تھا۔ سنت نگر جو اس کا پرانا محلہ تھا، اجنبی اور گھر میلا میلا، گندا، پرانا سا لگ رہا تھا۔ گلی میں چلتے پھرتے لوگ بھی کالے کالے اور پسینے سے بھیگے بھیگے دکھائی دے رہے تھے۔ حالانکہ ابھی صرف صبح کے نو ہی بجے تھے اور اپریل کا مہینہ خوبصورت بہاروں کا پیغام لیے اترایا اترایا، خوشبودار جھونکوں کی ناز برداریاں کر رہا تھا۔
’’ابو آگئے، ابو آگئے‘‘ کہہ کر بچوں نے اس کا بھرپور استقبال کیا۔ اس کی بیوی حسنہ بھی جلدی سے دوپٹہ سنبھالتی باہر گلی میں آگئی اور سب ایک دوسرے سے بھرپور انداز میں ملے۔ امجد دو سال بعد پہلی بار امریکا سے واپس ایک ماہ کی چھٹی پر آیا تھا، اس لیے اپنے بال بچوں سے مل کر اسے بہت خوشی ہو رہی تھی۔ یہ جدائی کے دن اس نے کتنے گن گن کر کاٹے تھے۔ پردیس میں تنہائی صرف کمائی کے لیے ہی تو برداشت کی تھی ورنہ اس کا بس چلتا تو کبھی اپنا ملک اور اپنے پیاروں کو چھوڑ کر نہ جاتا۔
امریکہ جانے سے پہلے وہ سنت نگر میں ہی دیوسماج روڈ کے بازار میں ایک چھوٹی سی فوٹوگرافی کی دکان سے گزر اوقات کرلیا کرتا تھا۔ اس کے دوست شکیل نے اسے اپنے ساتھ امریکا لے جا کر سیٹ کرنے کی حامی بھری تو اس سے انکار نہ ہوسکا اور ایک بہتر مستقبل کی خاطر اس نے وطن کو خیرباد کہہ دیا۔ شکیل نے اسے بھی نیویارک میں کوڈک فوٹو کمپنی میں اپنے سا تھ نوکری دلوا دی اور دونوں دوست ایک اپارٹمنٹ شیئر کرکے رہنے لگے۔ دونوں اپنے بال بچوں کے لیے پیسے بچانے کی سوچتے اور واپس جانے کی باتیں کرتے رہتے۔
امجد پہلی بار واپس آیا تھا اور حسبِ توقع اس کے سامان میں گھر کے لیے بجلی کے آلات مثلاً جوسر،بلینڈر، چوپر، استریاں، سب کچھ موجود تھا۔ اس کے بیوی بچے اپنے لیے لائی گئی چیزیں دیکھ دیکھ کر پھولے نہ سما رہے تھے۔ اس کا ۱۵ سالہ بیٹا ندیم جو ابھی ابھی میٹرک پاس کرکے کالج میں داخل ہوا تھا، اپنے لی وائیز برانڈ کی امریکن جینزاور ری باک برانڈ کے سنیکرز جوتے پہن کر باری باری سب کو دکھا رہا تھا۔
ابو کانوں میں سپیکرز لگا کر سننے والا سٹیریوواک مین بھی تو لائے تھے اور ساتھ ہی تازہ ترین امریکن ٹاپ کے میوزک کیسٹ۔ ’’ابو ! تھینک یو سو مچ۔ میرے سب دوستوں کے پاس واک مین ہیں، اب تو میں بھی ان سے کم نہیں رہا۔’’ ندیم کانوں میں لگے سٹیریو سے اٹھتی بیٹ پر چٹکیاں بجانے لگا۔ نادیہ اور شازیہ ابھی ٹین ایجرز ہی تھیں۔ دونوں میں سال بھر کا فرق تھا مگر نادیہ کا قد جو ایک سال شازیہ سے چھوٹی تھی، اپنی بہن سے لمبا تھا۔ ’’ارے تم دونوں کتنی بڑی ہو گئی ہو ماشاء اللہ۔ میں تو تمھیں بچیاں سمجھ کر تمھارے لیے کھلونے لایا تھا مگر اب تو لگتا ہے، تمھیں تمھاری امی کے حصے کی چیزیں ہی دینی پڑیں گی۔’’ امجد پیار سے بولا۔
’’کوئی بات نہیں ابو ہم اپنا بندوبست کرلیں گے۔ آپ فکر نہ کریں۔‘‘ انھوں نے نقلی جیولری، پرس، جوتوں اور میک اپ کے سامان کی چھانٹی کرتے ہوئے ہنس کر اسے تسلی دی۔ حسنہ بھی نئے نئے سویٹر اور سوٹوں کے کپڑے دیکھ دیکھ کر کھلی جا رہی تھی۔ سارے گھر میں نئی نئی چیزوں کا ایک سیلاب امڈ آیا تھا۔ ہر طرف خوشی اور ایکسائٹمنٹ کا راج تھا۔ محلے والے بھی آ آ کر چیزیں دیکھ رہے تھے، مبارک بادیں مل رہی تھیں۔ امجد لمبے سفر کی تھکان کی وجہ سے دوپہر کا کھانا کھا کر سو گیا۔ شام کو جاگا تو اس کے بیوی بچے پھر اس کے گرد جمع ہوگئے۔ ہر کوئی اس سے پیار سے لپٹ رہا تھا، باتیں کر رہا تھا۔ تحفوں پہ تبصرے ہو رہے تھے۔ بہن بھائی ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے۔ ندیم اور شازیہ کی آپس میں کبھی بنی نہ تھی۔ ندیم اسے نئی ہیل والی جوتی پہنے دیکھ کر چڑا رہا تھا۔
’’تم جتنی مرضی اونچی ہیل پہن لو شاذی تم رہو گی، گٹھّی کی، گٹھّی۔‘‘
’’اچھا ندیم کے بچے۔ اگر زیادہ بکواس کی تو رات سوتے میں پانی پھینک دوںگی، سونا تو تمہیں میرے ساتھ والی چارپائی پہ ہی ہے نا۔‘‘ شازی نے بھرپور جوابی حملہ کیا۔
شام کا سمے بہت سہانا تھا۔ حسنہ پانی کا پلاسٹک پائپ پکڑے شلوار کے پائنچے اوپر چڑھائے اینٹوں کے سرخ سرخ فرش پر چھڑکائو کر رہی تھی۔ اینٹیں اپنا منہ دُھلوا کر چمک رہی تھیں۔
چھڑکائو کے بعد گیلی مٹی میں سے اٹھنے والی سوندھی سوندھی خوشبو موتیے کی کلیوں کی کنواری کچی باس سے ہم آغوش ہونے لگی۔ امجد نے آنکھیں موندکر اس خاص مہک کو بھرپور انداز میں سونگھا اور اپنے اندر اتار لیا۔ اس خوشبو سے بھی تو وہ ۲ سال تک بچھڑا رہا تھا۔ دوری کے درد کے زہر کی ٹیسیں اسے اپنے دل میں محسوس ہونے لگیں۔ ’’ابو چائے پئیں گے!‘‘ شازیہ نے اس کے آگے پیالی بڑھادی۔ حسنہ اور ندیم بھی پاس آگئے۔ نادیہ نے صحن میں کھڑی چارپائی بچھا کر گدا ڈال دیا اور سب نے وہیں مجلس جما دی۔ ہر ایک اپنی اپنی ہانکنے لگا۔ دنیا جہان کی باتیں چھڑ گئیں، قصے بیان ہونے لگے۔ امجد انھیں امریکہ کے متعلق بتاتا رہا۔ وہ اس کو اس کے پیچھے گزرے وقت کی خبریں سناتے رہے۔ ٹی وی بھی صحن میں ہی تار بڑھا کر لگا لیا گیا تھا۔ سب مل کر ٹی دی ویکھتے رہے۔ حسنہ بیچ میں کبھی کبھار اٹھ کر کھانے کا بندوبست کرتی رہی۔ لڑکیاں بھی ابو کے لیے خاص پکوان پکا چکی تھیں۔
اس شام رات ہونے پہ سب نے وہیں ایک چارپائی پر پلاسٹک بچھا کر کھانا کھایا۔ بچوں کی آپس میں چھینا جھپٹی اور چھیڑ چھاڑ اور حسنہ کی میٹھی میٹھی نظروں کا مزا لیتے ہوئے امجد کو اپنے بے انتہا خوش قسمت اور دولت مند ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ ’’ اللہ نے مجھے کتنا پیار کرنے والا خاندان دیا ہے۔ صابروشاکر خوبصورت، ہمیشہ مسکراتی ہوئی بیوی اور فرمانبردار، خیال رکھنے والے بچے، اپنی قسمت پر میں جتنا ناز کروں اُتنا ہی کم ہے۔‘‘ امجد دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔ انسان کا اصل سرمایہ تو یہی ہے۔ اس دولت کو پانے کے لیے کسی غیر ملک کو جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ کھیتی اپنے ہی دیس میں اْگتی ہے، کتنا قرب ہے ہم سب میں۔ یہ تعلق، یہ ربط، یہ اپنائیت، یہ رشتے یہی توہمارے کلچر اور دیس کی سوغات ہیں۔ یہی کمی مغربی معاشرے میں ہے اور اسی لیے انسان انسان سے دور ہیں۔ دلوں کے درمیان فاصلے ہیں۔ ہاتھ بڑھائیں توہاتھ کوئی تھامتا نہیں، اجنبیت ہے۔ وہ اپنے بال بچوں کو یہی فلسفے سمجھاتا رہا۔
انھیں بتاتا رہا کہ مغرب میں لوگ مادی زندگی کے پیچھے دوڑتے دوڑتے انسانی، اخلاقی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بچے ماں باپ کو بوجھ سمجھتے ہیں اور ماں باپ بچوں کو۔ حسنہ کو تو حیرت سے زیادہ افسوس ہو رہا تھا اور وہ یقین نہ آنے کے انداز میں سر ہلا رہی تھی۔ ’’یہ بتائیںڈیڈی! کیا میں بھی آپ کے ساتھ امریکا جا سکوں گا؟‘‘ ندیم پوچھنے لگا۔ ’’دیکھتے ہیں بیٹا کہ آپ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کیا رجحان رکھتے ہیں، سوچیں گے۔‘‘ امجد نے اسے تسلی دی۔
رات کے بارہ، ایک بجے محفل برخاست ہوئی۔ وہ بھی اس لیے کہ صبح بچوں نے اسکول، کالج جانا تھا، ورنہ اٹھنے کو کسی کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ ’’چلو ندیم بیٹا! اپنی چارپائی بچھا لو اور بہنوں کے ساتھ چھیڑخانی نہیں کرنا۔ رات بہت ہو گئی ہے اور تمھارے ابو بھی تھکے ہوئے ہیں۔ سب سو جائیں اب سن لیا نا۔‘‘ حسنہ نے بچوں کو ان کے کمرے میں بھیجتے ہوئے فائنل ہدایات دیں۔ ندیم نے چارپائی اٹھا کر اندر ڈال لی اور آرام سے لیٹ گیا۔ شازیہ اور نادیہ کے پلنگ پہلے سے ہی کمرے میں بچھے رہتے تھے۔ اس لیے وہ بھی اپنے اپنے بستر پر دراز ہوگئیں۔ اس پرانے گھر میں دو ہی کمرے تھے۔ ایک میں حسنہ اور امجد سوتے تھے اور دوسرا تینوں بچوں کے زیرِاستعمال رہتا تھا۔ بچوں کے کمرے میں دونوں لڑکیوں کے پلنگ اور ایک کپڑوں کی الماری کے علاوہ کوئی خاص چیز نہیں تھی۔ رات کو سونے کے لیے ندیم ایک فالتو چارپائی بچھا لیتا اور صبح اسے اٹھا کر صحن میں کھڑا کر لیا کرتا تھا۔
بچوں کے کپڑے پرانے صندوقوں میں پلنگوں کے نیچے رکھے جاتے تھے البتہ الماری میں تینوں بچوں کو ایک ایک خانہ ضرور دے دیا گیا تھا۔ ندیم تو اپنے خانے میں بھی کپڑے ہی ٹھونس دیا کرتا تھا مگر شازیہ نے اپنا خانہ پْرانی گڑیوں، چند کھلونوں، گڑیوں کے کپڑوں، ننھے منے صوفہ سیٹ اور اَلابلا سے بھر رکھا تھا۔ نادیہ کا خانہ البتہ بہت ستھرا اور قرینے سے سجا سجایا تھا۔ کبھی کبھار ندیم اور شازیہ مل کر جان بوجھ کر اس کے خانے کی چیزیں اِدھر اْدھر کر دیتے تو وہ چیخ چیخ کر گھر سر پر اٹھا لیتی تھی۔
’’میرا خانہ خراب کس نے کیا؟‘‘ کس نے میری چیزیں چھیڑی ہیں؟
اس نے اپنے خانے میں اپنی ایک پرائیویٹ سی دنیا بسا رکھی تھی، محفل سجا رکھی تھی۔ رنگ برنگے کپڑوں کے ٹکڑے قالین کے طور پر بچھے ہوئے تھے جن پہ ننھی منی ڈیکوریشن کی چیزیں، کتابیں، ہار،موتی ٹانک رکھے تھے۔ جب کبھی وہ’’ فارفرام دی میڈنگ کرائوڈ‘‘ یعنی دنیا سے دور چلے جانا چاہتی، اپنی دنیا میں گم ہوجاتی۔ الماری کھول کر اپنا چہرہ اپنے خانے میں ٹکا کر چپ چاپ بیٹھے اسے تکے جاتی۔ ’’ایلس ان ونڈرلینڈ‘‘ کی طرح ننھی منی ہو کر الماری کے خانے کے اندر کے ماحول کا حصہ بن جاتی، مدغم ہو جاتی۔ کبھی کبھار تو اس کی ماں اْس کی اْس اپنی الماری کے خانے سے آبسیشن سے چڑ کر اسے ڈانٹ دیتی۔ ’’کہاں گم رہتی ہو؟ گھر کے کام کاج کی بھی تمھیں ہوش نہیں رہتی۔’’ ندیم اور شازیہ بھی مذاق اْڑانے لگتے۔
نادیہ کہاں ہیں؟ بھئی اپنی خانہ آبادی کر رہی ہوگی۔ نادیہ دانت پیس کر رہ جاتی۔ امجد کو آئے دس پندرہ روز ہو چکے تھے۔ اس کا وقت بہت اچھی طرح اور تیزی سے گزر رہا تھا۔ ایک صبح چھٹی کے روزجب سب ناشتا کرکے کچن میں ہی بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے تو ندیم یکلخت بولا : ’’ڈیڈی! آپ اگلی بار ہمارے لیے کار لائیں گے نا؟ ’’ اب اس نے امجد کو ڈیڈی کہنا شروع کردیا تھا۔ ’’گاڑی۔ لو گاڑی بھلا اس سڑے ہوئے محلے میں کیا اچھی لگے گی۔ نہیں ابو پہلے تو ہم نیا گھر لیں گے، پھر گاڑی لیں گے۔ ہیں نا؟‘‘ شازیہ نے اپنی رائے ظاہر کی۔
حسنہ نے سوالیہ نظروں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور وہاں جواب پڑھ کر میز پر سے برتن اٹھاتے ہوئے بولی۔ ’’اچھا اچھا۔ زیادہ فرمایشیں کرنے کی ضرورت نہیں، اس گھر میں کیا برائی ہے؟ اچھا بھلا تو ہے اور گاڑی کے بغیر کیا ہمارا گزارا نہیں ہورہا۔ خدا کا شکر ادا کرو، اس نے ہمیں اتنا کچھ دیا ہے۔ تم لوگ تو منہ پھاڑ کر چیزیں ہی مانگتے چلے جاتے ہو۔’’ تمھارے ابو خیریت سے واپس آگئے ہیں، ہمیں اور کیا چاہیے۔
’’ویسے ابو!‘‘ نادیہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔ ’’ایک بڑا سا گھر تو ہونا چاہیے۔ یہ گھر بہت چھوٹا ہے۔ دیکھیں نا۔ ندیم کو بھی ہمارے ہی کمرے میں رہنا پڑتا ہے۔ ہمیں تنگ کرتا ہے، مجھے تو اپنا علحٰدہ کمرا پانے کی حسرت ہے۔‘‘ وہ خلائوں میں گھورنے لگی۔ ’’ اچھا تنگ میں کرتا ہوں یا تم دونوں مجھے تنگ کرتی ہو؟ مجھے کون سا تمہارے سڑے ہوئے لڑکیوں والے کمرے میں رہنا پسند ہے۔ کیا میرا دل نہیں چاہتا کہ میرا اپنا علحٰدہ کمرا ہو۔ لڑکوں والا کمرہ جہاں میرے دوست آ کر بیٹھ سکیں۔ یہاں تو میں کسی کو بلا بھی نہیں سکتا۔’’ میرے سب دوستوں کے اپنے اپنے کمرے ہیں۔
’’اور ان کے باپ اسمگلر بھی ہیں۔‘‘ حسنہ نے مادرانہ غصے سے کہا۔ ’’تمھارا باپ ایماندار ہے۔ تمھیں حلال کی کمائی کھلاتا ہے۔ کیا یہ کافی نہیں؟‘‘
’’ارے ارے حسنہ۔ جانے دو، غصہ نہ کرو، بچے ٹھیک کہتے ہیں، وہ اپنی جگہ سچے ہیں۔‘‘ امجد نے پیار سے بیوی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو بھئی میں سمجھتا ہوں۔ تم لوگ اب بڑے ہو گئے ہو۔ تمھارے دوست ہیں، سہیلیاں ہیں، دنیا کے ساتھ ساتھ تو چلنا ہی پڑتا ہے سب کو، ہم ان شاء اللہ بڑا سا گھر ضرور لیں گے۔ میں وعدہ کرتا ہوں مگر ابھی کچھ وقت لگے گا، تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔
’’کوئی بات نہیں ابو! آپ فکر نہ کریں۔ ہمیں جلدی نہیں، ہم انتظار کرلیں گے۔ بس آپ اگلی بار جب آئیں تو ہم نیا گھر لے لیں گے ٹھیک ہے نا؟‘‘ شازیہ نے پیار سے باپ کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
’’اور میں سکون سے اپنے کمرے میں پڑھائی کر سکوں گی۔ مجھے کوئی ڈسٹرب نہیں کرسکے گا، میری اپنی چیزیں ہوں گی، گانے سن سکوں گی۔‘‘ نادیہ خوابوں کی دنیا میں پہنچ گئی۔
’’سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ندیم کے میلے کپڑوں اور بدبودار جوتوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ ہائے… کتنا مزا آئے گا۔‘‘ شازیہ نے لقمہ دیا۔
حسنہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ قائل تو وہ بھی دل ہی دل میں ہو چکی تھی مگر وہ اپنے محبوب شوہر پر بلاوجہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ پہلے ہی اس پر اتنی ذمے داری تھی اور گھر سے دور رہ کر وہ خوش نہیں تھا تو پھر وہ اس سے کس طرح ایسے مطالبے کرسکتی تھی؟ حسنہ جب رات کو اپنے کمرے میں سونے کے لیے آئی تو امجد کا چہرا اُترا ہوا تھا۔ اس نے امجد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے ہولے ہولے سہلانے لگی۔
’’دل چاہتا ہے اپنے بچوں کی خواہش کھڑے کھڑے پوری کردوں لیکن ایک بڑا گھر جس میں سب کے اپنے اپنے کمرے ہوں ،نہ جانے میں کب انھیں دینے کے قابل ہوسکوں گا۔ کم از کم ۲۰لاکھ تو چاہیے، آج کل پراپرٹی کی قیمتیں بھی تو آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ پروگرام کے مطابق اگر ۲ سال تک واپس آگیا تو بمشکل پانچ چھ لاکھ ہی بچت کرسکوں گا۔ میں تو سوچ رہا تھا کسی اچھے علاقے میں فوٹوگرافی کی ہی ایک بہتر دکان کھول لوں گا۔ مگر اب‘‘
’’آپ بچوں کی فکر نہ کریں۔‘‘ حسنہ نے اس کی بات درمیان میں کاٹ دی۔‘‘ میں انھیں سمجھالوں گی۔ وہ تو ایسے ہی رِیس کرنے لگے ہیں لوگوں کی دیکھا دیکھی۔ اگر ممکن نہیں ہے تو انھیں ایسے ہی گزارا کرنا ہوگا۔ ٹھیک ہے۔ بس آپ کی خیروعافیت سے وطن واپسی ہو، ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ وہ ایک سلیقہ شعار بیوی کی طرح سمجھداری کا ثبوت دے رہی تھی۔
امجد اس کی گود میں سر رکھے ہی سوگیا۔ چھٹی سے واپس امریکا آنے کے بعد امجد پر بس ایک ہی دْھن سوار ہوگئی۔ وہ دن رات پیسا کمانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اب تو ایک بڑا سا خوبصورت گھر اسے بھی خیالوں میں آ کر رِجھانے لگا تھا۔ اس نے مون لائٹنگ شروع کردی تھی۔ یعنی پارٹ ٹائم چھوٹے موٹے دوسرے کام بھی پکڑ لیا کرتا تھا۔ راچسٹر جسے فلاورسٹی بھی کہا جاتا ہے، اپنی لائی لیگ کی کاسنی پھولوںکی جھاڑیوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ مڈٹائون پلازا نامی شاپنگ سنٹر میں نائٹ واچ مین کی جاب خالی تھی۔ امجد نے شکیل کے منع کرنے کے باوجود یہ کام لے لیا۔ حالانکہ شکیل کہتا رہا کہ یہ بہت مشکل جاب ہے۔ ایک تو کرائم کی وجہ سے خطرہ بہت ہوتا ہے۔ دوسرے موسم سرما میں جب سیکورٹی گارڈ کو رات رات بھر پیدل چوکیداری کرنی پڑتی ہے تو جان پر بن جاتی ہے۔
’’مگر یار اس کی اُجرت ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے اتنی زیادہ ہے کہ میں اس کو مس نہیں کرسکتا۔‘‘ امجد بولا۔
’’اور یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ امریکی لوگ یہ جاب نہیں پکڑتے کیونکہ اس میں تکلیف اتنی ہے، سارے ایشیائی اور ہسپانوی ہی یہ نوکریاں کرتے ہیں۔‘‘ شکیل نے یاد دلایا۔
مگر امجد نہ مانا۔ رات جاگنے میں تو امجد کو کوئی خاص دِقت نہیں ہوئی مگر سردی نے واقعی اس کے حوصلے پست کردیے۔ سردی ستمبر سے شروع ہو کر اپریل تک جاری رہتی۔ بیچ بیچ میں کبھی کبھار ایسے شدید برف کے طوفان آجاتے کہ زندگی معطل ہو کر رہ جاتی۔
رات کو برف باری کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ مڈٹائون پلازا کے اردگرد چکر لگاتا رہتا۔ موٹے موٹے کوٹ، دستانے، مفلر ٹوپی پہنے روبوٹ کی طرح چلتا رہتا۔اس کے ہاتھ جیبوں میں ٹھنڈے رہتے مگر دل کو بیوی بچوں کی یاد گرمائے رکھتی۔ وہ تازہ دم ہونے کے لیے کافی کا تھرماس کھولتا اور صبح ہونے پر واپس چلا جاتا۔ اس کے بعد اسے اپنی ریگولر جاب پر بھی جانا ہوتا تھا۔
ایک سال گزرنے کو تھا۔
گھر سے آنے والے خطوں میں محبتیں اور فرمائشیں دونوں ہوتیں۔ نئے گھر کے خواب کا ذکر پہلے سے کچھ زیادہ ہونے لگا تھا۔ امجد بے چین ہو ہو جاتا۔ دو دو نوکریاں، رات دن کرنے کے باوجود وہ زیادہ پیسا نہ بچا سکا تھا۔ گھر بھی باقاعدگی سے پیسے بھیجنا ہوتے تھے آخر۔ نیاگھر صحرا میں دکھائی دینے والا سراب تھا۔ آگے ہی آگے بھاگتا نظر آتا تھا۔ ’’یار دل چاہتا ہے اپنی بھی لاٹری نکل آئے۔ وارے نیارے ہوجائیں پھر تو۔‘‘ امجد کا دوست شکیل اسے ایک دن لنچ بریک میں بتانے لگا کہ ان کے ایک ساتھی کی جو کیوبا سے آیا ہوا تھا، نیویارک سٹیٹ لاٹری نکل آئی تھی۔ اب اس نے ملین ڈالر کا انعام پانے کے بعد کوڈک فوٹو کمپنی میں ٹرک ڈرائیور کی نوکری چھوڑدی تھی۔
’’چھوڑ یار لاٹری پانے والوں کی قسمت اور ہی ہوتی ہے۔ اپنی قسمت میں تو مشقت ہی لکھی ہے۔ یہ بتائو وہ مسٹرجان سن آج کل نظر نہیں آرہا۔ وہ بڈھا لفٹ آپریٹر تو بہت پرانا ملازم تھا یہاں، کیا کوئی نیا رکھ لیا گیا ہے۔‘‘ امجد نے اِدھر اُدھر کی گپ شپ کرتے شکیل سے اس مسٹرجان کے بارے میں پوچھا جو اسے بڑے تپاک سے روزانہ ہیلو ایم جیڈ کہہ کر بلایا کرتا تھا۔ ’’ارے تم نے خبر نہیں سنی؟ سمجھو اس کی بھی لاٹری نکل آئی۔‘‘ شکیل نے اطلاع دی۔ ’’کیوں کیا ہوا اسے؟‘‘ ’’یار پچھلے منڈے کی ہی تو بات ہے تمھیں شاید پتا نہیں لفٹ اچانک خراب ہوگئی۔ ایلیویٹر سسٹم تو ایک رسی نما چیز پر ہی سفر کرتا ہے نا، اوپر نیچے بہرحال کوئی نقص پڑ گیا اور لفٹ ایک جھٹکے سے جو نیچے آخری منزل سے ٹکرائی تو مسٹرجان سن زخمی ہوگیا۔
’’اوہ یار یہ تو بہت برا ہوا، بابا بہت سویٹ تھا۔‘‘ امجد افسوس کرنے لگا۔ ’’ہاں یار۔ ہسپتال میں پڑا ہے۔ دو آپریشن ہو چکے ہیں مگر چلنے کے قابل نہیں ہوسکا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘ ’’اف کیا بدقسمتی ہے یار نوکری بھی تو گئی نا۔‘‘ امجد بجھ سا گیا۔ ’’چھوڑ یار اب اس کو بھی نوکری کرنے کی ضرورت ہی کہاں ہے۔ کمپنی نے ڈس ایبلٹی انشورنس تو کروا رکھی ہوتی ہے نا۔ معاوضہ کی وجہ سے خرچہ تو ساری عمر ملے گا کیونکہ آن دی جاب چوٹ لگی تھی۔ بابے کو یہ فکر تو نہیں رہی نا۔‘‘ امجد چپ ہوگیا۔ ’’یار میں تو کہتا ہوں مجھے کسی کا کتا ہی کاٹ لے تاکہ میں اس کے مالک پر مقدمہ کردوں اور کچھ نہیں تو ایک دو مہینے کے خرچ کے پیسے تو مل ہی جائیں گے نا۔‘‘ شکیل اور امجد ہنسنے لگے۔
حسنہ تار ہاتھ میں پکڑے حیران کھڑی تھی۔ امجد نے اپنے اگلے روز آنے کی اطلاع دی تھی۔ خوشی تو اسے بہت ہو رہی تھی مگر حیرت کا جذبہ اس خوشی پہ غالب آرہا تھا۔ امجد صبح ۱۱ بجے کی فلائیٹ سے پہنچ رہا تھا اور صرف ایک شام باقی تھی مگر یہ اچانک پروگرام کیسے بن گیا۔ کہیں اداسی اور تنہائی کی وجہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وقت سے پہلے تو نہیں آرہے؟ ابھی تو حساب سے ان کے آنے میں چھ ماہ باقی تھے۔ پیسہ بھی کوئی خاص جمع نہ ہو سکا ہوگا، وہ فکرمند ہوگئی مگر بچوں کو پْرجوش دیکھتے ہوئے اس نے ذہن سے سارے بدخیالات کو نوچ ڈالا اور منفی سوچوں کو جھٹک دیا۔ ’’اگر ابو پہلے سے اطلاع دیتے تو میں ان سے اور جینز اور جوتے منگوالیتا۔ خیر کچھ نہ کچھ تو لا ہی رہے ہوں گے نا۔‘‘ ندیم قیاس آرائیاں کرنے لگا۔
اس بار امجد کے بھائی جان نے دو گاڑیوں کا انتظام کر رکھا تھا تاکہ سب لوگ لینے کے لیے ایئرپورٹ جا سکیں۔ جہاز کچھ لیٹ آیا تھا۔ اس لیے حسنہ اور بچے انتظار کرکر کے تھک گئے۔ مسافر آنا شروع ہوگئے مگر امجد کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ نہ جانے اسے اتنی دیر کیوں لگ رہی تھی۔ ’’شاید سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ بھائی جان کہنے لگے۔ بالآخر امجد انھیں نظر آگیا، وہ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے ہوئے تھا اور اس کا ہینڈبیگ اس وہیل چیئر کی سائیڈ پر لٹک رہا تھا جس میں وہ بیٹھا اس کو اپنے ہاتھوں سے دھکیلتا چلا آرہا تھا۔ سب کے پائوں میں میخیں گڑ گئیں۔ کسی میں اتنی ہمت نہ پیدا ہوئی کہ وہ آگے بڑھتا۔ ان کے چہروں پہ حیرت اور شاک کے تاثرات دیکھ کر امجد خوش دلی سے ہاتھ ہلاتا خود ہی پاس آگیا تھا۔
’’کیا بات ہے بھئی؟ کوئی گلے نہیں ملے گا ہمیں؟‘‘ اس نے لپک کر بھائی جان کے آگے بازو پھیلا دیے۔ باری باری سب بغل گیر ہوئے۔ حسنہ کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو ڈھلک کئے۔ سامان رکھوا کر گاڑی گھر کو چل دی۔ راستہ خاموشی سے کٹا۔ سب کے ذہن سوالات سے بھرے ہوئے تھے لیکن جواب کے خوفناک ہونے کے ڈر سے کوئی بات نہیں چھیڑ رہا تھا۔ کبھی کبھی حقیقت کے نہ جاننے میں بھی راحت ہوتی ہے، گھر پہنچ کر خود ہی امجد نے بات شروع کی۔
اس نے بتایا کہ ایک روز وہ حسبِ معمول نیچے کے کمپائونڈ میں کھڑا خام مال کی ڈلیوری ،ٹرک سے اوپر کو بھجوا رہا تھا کہ وہ رسی جو پُلی کے ذریعے اوپر سامان کھینچتی ہے، ٹوٹ گئی۔ ایک بہت بھاری ڈبوں کا ڈھیر اس پہ آن گرا اور وہ زخمی ہوگیا۔ ایک ماہ ہسپتال میں رہنے کے بعد اسے اس افسوس ناک حقیقت کی خبر کے ساتھ چھٹی دے دی گئی کہ وہ اب اپنی ٹانگوں کے استعمال سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا ہے۔ ’’ایک ماہ آپ زخمی اور اکیلے ہسپتال میں پڑے رہے اور ہمیں خبر تک نہ دی۔‘‘ حسنہ رونے لگی۔ بچے بھی اْداس چہرے لیے باپ کے اور قریب آگئے تھے۔ بھائی جان غصے ہونے لگے۔
’’آخر ہم سب مر گئے تھے کیا؟ دکھ سکھ میں ہی ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تم نے خبر کیوں نہ دی۔‘‘ ’’آپ سب لوگوں کو پریشان کرکے مجھے کیا ملتا؟ آخر آپ وہاں آ تو نہیں سکتے تھے نا؟ ویسے بھی میری بہترین میڈیکل کیئر تو ہوتی ہی رہی تھی۔ کمپنی نے سارا ہسپتال کا خرچہ اٹھایا اور پھر شکیل نے بہت خیال رکھا میرا۔‘‘ امجد نے تسلی دینے کی کوشش کی۔ ’’چلیں کچھ بھی ہوا۔ اب تو آپ ہمارے پاس ہیں ابو۔ اب ہم آپ کو کہیں نہ جانے دیں گے۔‘‘ نادیہ نے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ ’’ارے بھئی آپ سب لوگ فکر نہ کریں۔ میں زندہ سلامت ہوں ٹھیک ٹھاک ہوں اور اس وہیل چیئر پر اچھی طرح گھوم پھر سکتا ہوں۔ سب سے ماڈرن لیٹسٹ ماڈل ہے یہ۔ دیکھو اس میں کتنے گیئرز ہیں، کسی کار سے کم نہیں یہ سواری۔‘‘
امجد نے آگے پیچھے وہیل چیئر کو گھما پھرا کر بچوں کو الٹے سیدھے کرتب دکھا کر محظوظ کرنا شروع کردیا۔ ان کے چہروں پہ دھیمی دھیمی مسکراہٹ کھلنے لگی۔ وہ ہمیشہ انھیں مسکرانے پہ مجبور کردیا کرتا تھا، یہ اس کی خوبی تھی۔ ’’اور چاہو تو تم لوگوں کو ایک ایک کرکے اس ’’میجک کار‘‘ پر سواری بھی کروادیا کروں گا۔‘‘ اب بچے ہنسنے لگے تھے۔ رات کو آنگن میں چارپائیاں بچھا کر سب ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کر حسبِ معمول گپ شپ کرنے لگے۔ امجد جو تحفے ان کے لیے پھر لایا تھا، ان کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ اس عظیم حادثے کے باوجود امجد کی موجودگی کی وجہ سے ان کے دل مسرت کی دولت سے مالا مال تھے۔ امجد کی ذات ہی خوشی کا باعث بن جاتی تھی۔ وہ سب کے ساتھ اتنی خوش دلی اور دوستی سے پیش آتا تھا کہ اس کی بیوی بچے اس کی کمپنی میں ہر دکھ بھول جایا کرتے تھے۔
جون کا آخری ہفتہ تھا۔ گرمی زوروں پہ تھی۔ حسنہ نے آم منگوا کر ٹھنڈے پانی کی بالٹی میں بھگو رکھے تھے اور سب انھیں مزے لے لے کر چوس رہے تھے۔ چاندنی رات تاروں کے زیورات پہنے سجی سجائی لگتی تھی۔ بڑے سے پیڈسٹل فین کی ہوا کے سہارے رات کی رانی کی خوشبو نے بھی سفر کرنا شروع کردیا۔ حسنہ خاموشی سے برتن اٹھا کر کچن کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ امجد کے حادثے سے ان کی زندگی میں نہ جانے کیا کیا تبدیلیاں آجائیں گی۔ سب سے زیادہ اسے جو بات پزل کر رہی تھی، وہ امجد کا بے فکری کا انداز اور ’’کیوول‘‘ قسم کا رویہ تھا۔ امجد بے کار ہو کر گھر آگیا تھا۔ اسے ہول آ رہے تھے مگر وہ مطمئن پرسکون نظر آتا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
’’سب لوگ ایک اعلان سن لیں۔‘‘ امجد نے کھانے کے بعد اونچی آواز میں کہا۔ ’’میں ایک دو روز آرام کرلوں پھر ہم سب نیا گھر تلاش کرنے نکل جائیں گے۔‘‘
سب حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ’’نہیں ابو ہمیں نیا گھر نہیں چاہیے۔ ہم یہیں پر خوش ہیں۔‘‘ دونوں لڑکیوں نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا۔ ’’کیا کہا؟ یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ بھئی کیا آپ اپنے اپنے کمرے نہیں چاہتے ہیں؟‘‘ ’’ مگر اب کیسے ممکن ہے یہ سب؟‘‘ حسنہ بول اٹھی۔ ’’بھئی امریکا میں زخمی ہوئے ہیں کوئی اپنے غریب ملک میں تو نہیں۔ وہاں تو ہر ایک کی انشورنس ہوتی ہے۔ میں نے معذوری کی انشورنس ایک تو پرائیویٹ طور پہ بھی کروا رکھی تھی دوسرے کمپنی کی طرف سے بھی اچھی خاصی رقم مل گئی اور ڈالر تو اب ۲۲ روپے کا ہے۔ اس لیے اللہ کی مہربانی سے ہم اب اپنے سارے خواب پورے کرسکیں گے۔ ’’ڈونٹ وری، بی ہیپی، سوبی ہیپی۔‘‘ چاند بادل کے ایک چھوٹے سے آوارہ ٹکڑے کے پیچھے گیا اور تھوڑی دیر کے لیے اندھیرا گہرا ہوگیا۔
امجد اتنا پیسا لے آیا تھا کہ اس کی زندگی اچھی طرح سیٹ ہو سکے۔ انھوں نے گلبرگ میں ایک خوبصورت ۵ بیڈرومز کی کوٹھی خریدنے کے بعد گاڑی، ایئرکنڈیشنڈ، فریج اور گھر کا ضروری سامان بھی خرید لیا تھا۔ کوٹھی کے باہر کے ملحقہ حصے کو امجد نے اپنے لیے فوٹو گرافی اسٹوڈیو میں تبدیل کرلیا اور وہیں کام شروع کردیا۔ یہ سٹوڈیو سنت نگر کی اس چھوٹی سی دکان سے بہت مختلف تھا جہاں وہ سارا سارا دن کھڑا گاہکوں کا انتظار کیا کرتا تھا۔ اب وہ آفس ڈیسک پر بیٹھا بیگمات کے عمدہ پوز بنوانے کے نت نئے طریقے سوچتا رہتا اور اپنے اسسٹنٹ کو باقاعدہ اپوائنٹمنٹس بک کرنے کی تلقین کرتا رہتا۔ اب زندگی کتنی سہل ہو گئی تھی۔ ایفلواینس کی دیوی نے کتنی آسانیاں مہیا کر دی تھیں۔
ہر بچے کاعلیحدہ علیحدہ کمرا تھا۔ سب اپنے اپنے کمروں میں خوش، اپنی اپنی پسند کی دنیائیں بسا کر ان میں رہنے لگے تھے۔ اوپر کے تینوں بیڈروم بچوں کو مل گئے تھے اور نچلے حصے میں حسنہ اور امجد رہنے لگے تھے۔ پانچواں گیسٹ روم بنا دیا تھا۔ ندیم کے کمرے میں خوبصورت فرنیچرموجود تھا۔ اسے امریکن موسیقی بہت پسند تھی اس لیے کمرے میں متعدد میوزک کیسٹیں قرینے سے سجی رکھی تھیں۔ دیواروں پر کھلاڑیوں اور امریکن سنگرز کے مختلف سٹائل کے پوسٹرز اس کے پوری طرح نیوجنریشن کے ساتھ اِن ہونے کا ثبوت دیتے نظر آتے تھے۔ اب اس نے اپنے کالج کے دوستوں کو بڑے آرام سے گھر پر بلانا شروع کردیا تھا۔
اس کے کمرے میں اکثر دوستوں کی منڈلی جمتی رہتی اور قہقہوں کی آوازیں نیچے آتی رہتیں۔ امجد یہ دیکھ کر خوش ہوتا تھا کہ اس کے بیٹے نے خوداعتمادی سے گلبرگ میں رہنے والے دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ سنت نگر کے دوست اب بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ ان کے لیے گلبرگ تک آنا مشکل ہوگیا تھا اور ندیم کے لیے سنت نگر جانا۔ شازیہ نے اپنے کمرے کو ہلکا پنک رنگ کرایا تھا اور جھالروں والے پردے لٹکا لیے تھے۔ اس کی ڈریسنگ ٹیبل پر طرح طرح کا میک اپ کا سامان تھا اور بک شیلف فلمی رسالوں اور رومانوی ناولوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے پاس بھی اپنا ایک الگ ٹیپ ریکارڈر تھا جس پر وہ سارا دن فلمی گانے سنتی رہتی تھی۔
یوں تو نادیہ کا کمرہ بھی تقریباً ایسا ہی تھا مگر اس کا خیال تھا کہ اس کا کمرا سب سے اچھا ہے۔ اس لیے وہ ہر وقت اپنے کمرے کی صفائی اور سجاوٹ میں لگی رہتی تھی۔ دیواروں پر پینٹنگز اور ڈیکوریشن کی عمدہ چیزیں سجائے وہ اس عجائب گھر سے عشق کرنے لگی تھی۔ اسے ایسا لگتا تھا گویا اللہ میاں نے اس کی دعا سن لی ہو اور اسے ’’ایلس ان ونڈر لینڈ‘‘ بنا دینے کے لیے اس کی سنت نگر کے گھر کی الماری کے خانے کو اتنا بڑا کر دیا ہو کہ وہ اس میں آسانی سے چل پھر سکے، آجا سکے، رہ سکے۔ اس کا بس چلتا تو وہ اپنے کمرے سے باہر قدم نہ رکھتی۔ اپنی دنیا میں ہی ہر وقت رہتی سب اپنے اپنے کمروں میں واقعی بڑے سیٹ ہوگئے تھے۔ امجد اور حسنہ اپنے بچوں کی خوشی دیکھ کر پھولے نہ سماتے تھے۔
شام کو امجد اپنے سٹوڈیو میں کام ختم کرنے کے بعد جب اپنی وہیل چیئر چلاتا ہوا گھر میں آتا تو نیچے ٹی وی لائونج میں سے ہی بچوں کو آوازیں دیتا۔ وہ بھی ابھی آئے ابو! ابھی آئے امی کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے نیچے آجاتے مگر پھر کسی نہ کسی کو کوئی نہ کوئی ضروری کام اپنے کمرے میں یاد آجاتا۔ کبھی ندیم کا دوست سہیل اوپر کمرے میں بیٹھا اس کا انتظار کررہا ہوتا تو کبھی شازیہ کیسٹ پلیئر چلتا چھوڑ آئی ہوتی۔ نادیہ کی سہیلیوں کے فون آجاتے اور وہ ٹیلیفون کی تار سنبھالتے ٹیلیفون کو اپنے کمرے میں ہی لے جاتی۔
حسنہ لڑکیوں کو گھر کے کام کاج میں پہلے سے کم دلچسپی لینے پہ ٹوکتی رہتی مگر نوکر کے آ جانے کی وجہ سے وہ کچھ سہل پسند ہو گئی تھیں۔ ندیم نوکر کے ہاتھ کھانا بھی اکثر اوپر کمرے میں ہی منگوا لیتا۔ ’’بھئی بچو! ہمارے پاس بھی آ کر بیٹھو کبھی۔‘‘ امجد نے ایک بار انھیں پیار سے سرزنش کی۔ حسنہ بھی بڑبڑا رہی تھی۔ ٹی وی پر ڈراما چلنے لگا۔ اس لیے بچے دو گھڑی پاس آ کر بیٹھ گئے مگر جونہی ڈراما ختم ہوا اپنے اپنے بلوں میں جا گھسے۔ ’’دیکھا آپ نے ان کو؟ اپنے کمروں کے ہی ہو کر رہ گئے ہیں۔ کسی سے غرض نہیں رہی۔‘‘ حسنہ نے شکایت کی۔
’’بھئی صبر کرو۔ ابھی نیا نیا کمروں کا شوق ہے، پورا کرلینے دو۔ ہمارے پاس ہی ہیں نا بچے کہیں باہر تو نہیں گئے ہوئے۔ ہمیں موجودہ زمانے کے والدین کی طرح ایک نئی انڈراسٹینڈنگ ڈویلپ کرنا ہوگی۔‘‘ ’’نیا شوق کیا ہے۔ اب تو سال ہونے کو آیا ہے۔ ان کے طور طریقے ہی بدل گئے ہیں۔‘‘ حسنہ ماں تھی مگر اپنے بچوں میں آنے والی تبدیلی سے شاکی تھی۔ امجد سوچنے لگا۔ یہ سال ان سب کی زندگیوں میں کتنی تبدیلیاں لے آیا تھا۔ وہ سنت نگر سے گلبرگ تک آگئے تھے۔ ان کے پاس پیسا تھا اور اب پیسے کے ساتھ آنے والا ’’پیسا کلچر‘‘ بھی دھکے زوری ان کے گھر آن گھسا تھا۔ ہر ایک کے پاس ضرورت کی ہر چیز تھی۔
زندگی سہل تر ہو گئی تھی۔گھر میں پیڈسٹل فین کی جگہ ایئرکنڈیشنڈ لگے ہوئے تھے ، مگر گرمی اب نہ جانے زیادہ کیوں محسوس ہوتی تھی۔ کمرے دلوں میں تعمیر ہوچکے تھے اور ان کی دیواریں سائونڈپروف تھیں، محبت کے سبزہ زار پر اجنبیت اور غیریت کی دیواریں کھڑی نظر آنے لگی تھیں۔ تعلق، ربط، انوالومنٹ شیئرنگ جو اکٹھے رہنے سے پیدا ہوتی ہے، غائب ہوتی جا رہی تھی۔ ایک خاموش سی بے نام سی نفسا نفسی کا عالم تھا۔ ایک نظر نہ آنے والی مصروفیت ہر ایک کو پیدا ہو گئی تھی۔
پیسہ کلچر اپنے ساتھ مادہ پرستی کے فلسفے کے ساتھ یہ نظریہ بھی امپورٹ کرتا ہے کہ اپنی ذات سب سے اہم ہے۔ اپنی زندگی سب سے اہم ہے۔ اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور اپنی دنیا میں خود کو خوش رکھنا چاہیے۔ بند کمرے میں رہنے والے شخص کو اپروچ کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ بند کمرے کا دروازہ ایک اِن وزیبل ’’ڈوناٹ ڈسٹرب‘‘ کی تختی ماتھے پر سجائے ہوتا ہے۔ کمرے کے مکینوں نے اپنی ضرورت کی ہر چیز چونکہ کمرے کے اندر ہی مہیا کرلی ہوتی ہے، اس لیے انھیں کمرے سے باہر قدم رکھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ گھر کے دیگر مکینوں سے تعلق رکھنا درکار نہیں ہوتا۔
کبھی کبھار حسنہ جب بچوں کے اسکول کالج جانے کے بعد ان کے کمروں کی صفائی کرواتی تو ندیم کے کمرے سے سگریٹ کے ٹکڑے بھی مل جاتے۔ وہ امجد سے شکایت کرتی۔ ندیم سے پوچھتے تو وہ کسی دوست کے سگریٹ پینے کا بہانہ کردیتا۔ حسنہ سوچتی نہ جانے کمرے میں گھسے یہ لڑکے کیا کچھ کرتے رہتے ہیں۔ باہر سب کے سامنے ہوتے تھے تو ہر بات کا پتا چل جایا کرتا تھا کہ کوئی کیا کر رہا ہے۔ وہ پریشان ہوجاتی مگر جوان بیٹے پر سختی کرنے کے خیال سے خود کو روک لیتی۔ ایک شام حسنہ اپنی بہن ثریا کے ساتھ شاپنگ کرنے جا رہی تھی۔ جانے سے پہلے لڑکیوں کو اچھی طرح ہدایات دی تھیں کہ ابو جب شام کو سٹوڈیو سے آئیں تو انھیں کھانا وغیرہ کھلا دیں اور کوئی چیز چاہیے ہو تو دے دیں کیونکہ نوکر چھٹی پر گیا ہوا تھا۔
امجد حسب معمول اپنی وہیل چیئر پر ڈھلوان کے ذریعے گھر میں داخل ہوا۔ ایسی ایک دو چھوٹی چھوٹی ڈھلوانیں انھوں نے سیڑھیوں کی جگہ بنوا رکھی تھیں تاکہ امجد آسانی سے گھر کے اندر آجاسکے۔ امجد نے نادیہ کو بتادیا کہ وہ فی الحال صرف چائے ہی پئے گا اور کھانا حسب معمول حسنہ کے آنے پہ ہی کھائے گا۔ لڑکیاں کچھ دیر کچن میں کھانے کا انتظام چیک کرتی رہیں۔ ندیم کے دوست حسب معمول آئے ہوئے تھے۔ اس لیے وہ تو اپنے کمرے سے نکلا ہی نہیں تھا۔ اس کے کمرے سے سٹیریو ڈیک کی تیز موسیقی کی آواز بخوبی سنائی دے رہی تھی۔
امجد نے ٹی وی آن کردیا۔ شازیہ کی دوست کا فون آگیا اور وہ حسب معمول اسے لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ نادیہ کو بھی ہوم ورک ختم کرنا تھا، اس لیے وہ اپنے کمرے میں جا گھسی۔ اس کے کمرے سے بھی انڈین گانوں کی آواز آنے لگی کیونکہ وہ میوزک کے بغیر پڑھائی نہیںکر سکتی تھی۔ امجد نے ٹی وی بند کردیا اور چاروں طرف نظر دوڑائی۔ ان کا گھر کتنا بڑا اور خوبصورت تھا۔ ڈیکوریشن پیسوں سے بھرا ہوا مگر خالی اور سونا سونا دکھائی دیتا تھا۔ اس کا دل چاہا، حسنہ جلدی سے واپس آجائے۔ اس کے بغیر وہ خود کو کتنا ادھورا محسوس کرتا تھا، گھر میں اور لوگ تھے مگر ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بھی نہیں ہے۔
سنت نگر کے چھوٹے سے تنگ گلیوں میں پھنسے مکان کے صحن کی اینٹیں دھل کر کتنی لال لال نکھری نکھری لگتی تھیں۔ اس صحن میں بچھی چارپائیوں کی محفلیں نہ جانے کن اجنبی دیسوں کو سدھار گئی تھیں۔ امجد نے باہر چمن میں جانے کی سوچی۔ ٹی وی لائونج سے باہر جانے کے لیے اس نے جالی کا اسپرنگ والا دروازہ ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور دوسرے سے وہیل چیئر کو ہولے ہولے نیچے ریڑھنے لگا۔ باہر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، لان میں پھول مہک رہے تھے، ہری ہری گھاس بہت خوشنما محسوس ہو رہی تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ پوری طرح نیچے اترجاتا، اس کی فینسی گیئروں والی وہیل چیئر کا فارورڈ گیئر جام ہوگیا اور وہ ایک جھٹکے سے ایک سائیڈ پر آدھی اْلٹ گئی۔ امجد نے خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مارے تو پہلو میں لگی سرخ جنگلی گلابوں کی جھاڑی کے کانٹوں نے غرا کر اسے اپنے سے دور کردیا۔ اسپرنگ والا جالی کا دروازہ بند ہوگیا۔ امجد آدھا زمین پر اور آدھا وہیل چیئر میں پھنسا ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے کہ اسے حسنہ گاڑی اندر لاتی ڈرائیو وے میں نظر آگئی۔
حسنہ نے یہ خوفناک نظارہ دیکھا تو اچھل کر باہر نکلی اور جلدی جلدی امجد کی مدد کو دوڑی۔ امجد بھاری بھر کم تھا اور وہ ہلکی پھلکی۔ اس کے لیے امجد کو اٹھانا بہت مشکل تھا۔ اس نے جالی والا دروازہ دھکیل کر زور زور سے بچوں کو آوازیں دیں تاکہ کوئی آکر ہاتھ بٹائے اور باپ کو دوبارہ وہیل چیئر پر بٹھا دے مگر کمرے بند ہونے کی وجہ سے آوازیں ان تک پہنچ نہ پا رہی تھیں۔ ان کے کمروں سے موسیقی کی آواز البتہ نیچے لان تک بخوبی آ رہی تھی۔ اس نے بے بسی سے گھر کے اندر جھانکا۔ امجد کو یوں آدھا گرا ہوا بھی نہیں چھوڑ سکتی تھیں، اسے غصہ آنے لگا مگر وہ یکدم ساکت ہوگئی۔ اس کی دی ہوئی آوازیں فضا میں چاروں طرف اڑ رہی تھیں۔ ندیم، شازیہ، نادیہ۔ وہ لپک لپک کر انھیں پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔
آوازیں بند کمروں کے دروازوں سے ٹکرا کر واپس آرہی تھیں اور یوں چکنا چور ہوتی نظر آ رہی تھیں جس طرح ٹوٹ کر ان بریک ایبل گلاس کے لاتعداد ذرات فرش پر بکھر جاتے ہیں۔ حسنہ ہوا میں معلق ہوگئی۔ تیرتی تیرتی باری باری ہر ایک کمرے کے آگے جا پہنچی۔ دروازے زور زور سے کھٹکھٹانے پر بھی نہیں کھلے تو ان سے کلہاڑیوں کے پے درپے وار کرکے انھیں چیر ڈالا۔ اب ٹوٹے ہوئے دروازوں میں سے وہ اندر کے مناظر دیکھ سکتی تھی۔ ندیم اپنے دوستوں کے ساتھ سگریٹ پی رہا اور تاش کھیل رہا تھا۔ شازیہ کانوں میں واک مین سٹیریو فون لگائے بستر پر الٹی لیٹی اپنا ہوم ورک کر رہی تھی اور نادیہ ٹیلی فون پر شائستہ سے کوئی مزیدار قصہ سن کر قہقہے لگا رہی تھی۔
’’ارے حسنہ جانی! ایسے کیوںسن ہو کر کھڑی ہو گئی ہو۔ کیا مجھے اٹھائو گی نہیں۔‘‘ امجد کی کھسیانی ہنسی اسے ایک دم حقیقت کی دنیا میں لے آئی۔ وہ یوں بے جان ہو گئی جیسے ہاٹ ایئربیلون گرم ہوا نکل جانے کے بعد ہوجاتا ہے۔
شکر ہے اسی لمحے مالی بابا لان میں پانی لگانے آگیا۔ حسنہ اور مالی بابا نے مل کر امجد کو دوبارہ وہیل چیئر پر بٹھا دیا۔ ’’آپ کو کہیں چوٹ تونہیں آئی؟‘‘ حسنہ بار بار پیار سے پوچھتی رہی اور امجد اسے تسلیاں دیتا رہا۔ ’’چلو مجھے پھولوں کے پاس لے چلو۔ چڑیوں سے ملاقات کرائو اور فکر کرنا بند کردو۔‘‘ امجد نے اسے مسکرا کر آرڈر کیا اور وہ اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے اسے لان میں لے گئی۔ رات کھانے پر حسنہ نے تینوں بچوں کو ڈائننگ ٹیبل پر سارا واقعہ سنایا۔
’’میں اور مالی بابا نہ ہوتے تو نہ جانے تمہارے ابو کتنی دیر اس تکلیف میں پڑے رہتے۔‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے معنی خیز انداز میں بچوں کی طرف دیکھا۔ ’’آپ نے ہم میں سے کسی کو آواز دے دی ہوتی۔ ہمیں کیا خبر تھی، ہمیں بلاتیں تو ہم آتے نا۔‘‘ ندیم نے بڑے آرام سے چکن روسٹ اپنی پلیٹ میں ڈال کر اپنا کھانا اپنے کمرے کی طرف لے جاتے ہوئے جواب دیا۔ لڑکیاں سر جھکائے خاموشی سے کھانا کھاتی رہیں۔ حسنہ اور امجد نے اوپر کمروں کی طرف جاتی سیڑھیوں کی طرف دیکھا۔ وہ سیڑھیاں بہت لمبی اور کبھی نہ ختم ہونے والی سیڑھیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اور جہاں ختم ہو رہی تھیں وہاں اندھیرے اور دھند کے سوا کچھ نہ تھا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں