کمرے میں بند آدمی

محمد انورکمال، وانم باڑی

’’تم پھر سے آگئے؟‘‘
’’میں گیا ہی کب تھا۔‘‘
’’یعنی!‘‘
’’میں تو تمہارے ساتھ ہی ہوں۔‘‘
’’کبھی کبھی تمہارا احساس ہی نہیں ہوتا۔‘‘
’’میں خاموش رہتا ہوں۔‘‘
’’ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘
’’میں دیکھتا رہتا ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہی کہ تم کیا کرتے رہتے ہو۔‘‘
’’تم مجھے غصہ دلا رہے ہو۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’میں تو راستہ دکھاتا ہوں۔‘‘
’’لیکن!‘‘
’’ہاں بولو۔‘‘
’’راستے میں پورا ساتھ نہیں دیتے۔‘‘
’’تم ڈرپوک ہو۔‘‘
’’ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘
’’تمہیں یاد ہے‘‘
’’کیا!‘‘
’’برسوں پہلے کی بات ہے۔‘‘
’’کونسی؟‘‘
’’تمہارے پاس ایک لڑکی آیا کرتی تھی۔‘‘
’’تم دل کے دروازے پر دستک دے رہے ہو۔‘‘
’’کیا تم اسکول بھول گئے؟‘‘
’’یہ سب تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’وہ خوبصورت تھی!‘‘
’’تو!‘‘
’’وہ چنچل اور شریر بھی تھی۔‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تھیں۔‘‘
’’تم راکھ کرید رہے ہو۔‘‘
’’وہ میٹھی میٹھی باتیں کیا کرتی تھی۔‘‘
’’تم میرے احساس کو جگا رہے ہو۔‘‘
’’تم گھنٹوں اسے دیکھا کرتے تھے۔‘‘
’’تم کیوں میرے پیچھے پڑگئے ہو؟‘‘
’’تم اپنی بات زبان پر نہیں لاتے۔‘‘
’’ہاں یہ کمزوری مجھ میں ہے۔‘‘
’’یہ خود ساختہ کمزوری ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’تم نے تو اپنے آپ کو ایک خانے میں ڈھال لیا ہے۔‘‘
’’تو‘‘
’’خود ہی اپنے حصار کے قیدی بن گئے۔‘‘
’’قیدی؟‘‘
’’ہاں اور تم اس لڑکی کو بھی بھول گئے۔‘‘
’’کس لڑکی کو؟‘‘
’’جو تمہیں کچّی املیاں دیا کرتی تھی۔‘‘
’’شاید تمہیں راکھ میں کوئی چنگاری نظر آگئی ہے۔‘‘
’’وہ سانولی لیکن خوبصورت تھی۔‘‘
’’دل کی کتاب میں سوکھے پھول تلاش کررہے ہو تم۔‘‘
’’اس کے بال لامبے اور گھنے تھے۔‘‘
’’ٹوٹے تار جوڑ رہے ہو تم۔‘‘
’’کیا تم نے کبھی کچی املی پر نمک لگایا ہے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس کا مزہ تم کیا جانو؟‘‘
’’نمک سے زخم ہرے ہوتے ہیں۔‘‘
’’ایک میٹھی سی کسک بھی تو ہوتی ہے۔‘‘
’’اس سے درد بڑھتا ہے۔‘‘
’’سوز کہو۔‘‘
’’وہ کیوں بھلا؟‘‘
’’اس میں کسی کے لیے تڑپ ہوا کرتی ہے۔‘‘
’’اس سے کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’کسی کے لیے جینے مرنے کا نام ہی زندگی ہے۔‘‘
’’چھچھورا پن ہے یہ۔‘‘
’’کبھی دل لگا کر دیکھو۔‘‘
’’کیوں بچوں جیسی باتیں کررہے ہو۔‘‘
’’تمہیں مختلف رنگ نظر آئیں گے۔‘‘
’’شوخ چشم‘‘
’’رنگندھے ہو تم۔‘‘
’’طعنہ دے رہے ہو تم۔‘‘
’’زندگی ایک ہی رخ اور ایک ہی رنگ کا نام نہیں ہے۔‘‘
’’سیدھا پن بھی تو کوئی چیز ہے؟‘‘
’’تم پھر سے قید کے اندر چلے گئے؟‘‘
’’ایسا کیوں کہتے ہو؟‘‘
’’کیا تمہیں وہ ساحل یاد نہیں؟‘‘
’’کونسا؟‘‘
’’جہاں ایک لڑکی تمہارے پاس تھی۔‘‘
’’تو!‘‘
’’وہ سروقد اور نازک اندام بھی تھی۔‘‘
’’گرد آلود آئینہ میں کیا دیکھتے ہو؟‘‘
’’ستواں ناک اور کتابی چہرہ تھا اس کا۔‘‘
’’جالے کیوں توڑتے ہو۔‘‘
’’خواب آلود لہجہ تھا اس کا۔‘‘
’’چنگاری کو ہوا دے رہے ہو۔‘‘
’’جب وہ چلتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے دل کے آنگن میں آہستہ آہستہ قدم رکھ رہی ہو۔‘‘
’’شاید تم مجھے بے بس کررہے ہو۔‘‘
’’وہ تمہارے ساتھ ٹھنڈی ریت پر بہت دور ننگے پیر چلا کرتی تھی۔‘‘
’’راستے میں کئی موڑ بھی تو آتے ہیں۔‘‘
’’تم تو آدھے راستے ہی سے لوٹ آتے ہو۔‘‘
’’آگے کانٹے بھی تو ہوسکتے ہیں۔‘‘
’’لہو لہو وجود پر وہ مرہم تو رکھتی۔‘‘
’’میں کسی کا احسان لینا نہیں چاہتا۔‘‘
’’یہاں لین دین کی بات کیوں کرتے ہو؟‘‘
’’کیونکہ ہر ایک کو اپنے حصہ کا فائدہ حاصل کرنے کی فکر ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ تو ایک عام بات ہے۔‘‘
’’آدمی کو بلند ہونا چاہیے۔‘‘
’’تم پھر سے اپنے آپ کو خانے میں بانٹ رہے ہو۔‘‘
’’تم مجھے سمجھ نہیں پارہے ہو۔‘‘
’’تم نے ایک موقع ہاتھ سے جانے دیا۔‘‘
’’کونسا؟‘‘
’’جب ایک لڑکی تمہارے کمرے میں آئی تھی۔‘‘
’’ہاں تو!‘‘
’’پتلی کمر اور صراحی دار گردن تھی اس کی۔‘‘
’’بند صندوق کیوں کھولنا چاہتے ہو۔‘‘
’’جب وہ مسکراتی تھی تو اس کے گالوں پر گڑھے پڑتے تھے۔‘‘
’’تم چنگاری کو شعلہ بنانا چاہتے ہو۔‘‘
’’اس کی آنکھوں میں شفق کی لالی اتر آئی تھی۔‘‘
’’پرسکون پانی پر کنکر کیوں مارتے ہو؟‘‘
’’اس کی سانسوں سے مہک آرہی تھی۔‘‘
’’تم شعلے کو بھڑکانا چاہتے ہو۔‘‘
’’کیا تم نے اس مہک کو محسوس نہیں کیا۔‘‘
’’میں کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔‘‘
’’تم نے ایسا کیوں کیا تھا؟‘‘
’’میں اپنے قدم پستی کی طرف نہیں لے جاسکتا۔‘‘
’’تم ایسا کیوں سوچتے ہو؟‘‘
’’میں اپنے کردار کو بلند کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اپنے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بلندی حاصل کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ظاہر بات ہے کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔‘‘
’’تم پھر سے خول میں بند ہورہے ہو۔‘‘
’’تم تعمیر اخلاق کو خول کہہ رہے ہو۔‘‘
’’نہیں‘‘
’’تو پھر‘‘
’’اس سے تمہیں اکیلا پن ملے گا۔‘‘
’’آدمی کو مثالی تو بننا چاہیے۔‘‘
’’ساکت و جامد مجسمہ ہو تم۔‘‘
’’ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔‘‘
’’تمہیں یاد ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’بچپن میں بچے گڈّے گڑیا کی شادی رچایا کرتے تھے۔‘‘
’’ہاں تو۔‘‘
’’چند لڑکیوں نے ایک لڑکی کو دلہن بنایا تھا۔‘‘
’’تو پھر‘‘
’’اس لڑکی کے گال گلابی اور ہونٹ سرخ تھے۔‘‘
’’چنگاری کو راکھ میں دبی رہنے دو۔‘‘
’’چند لڑکوں نے تمہیں دولہا بنایا تھا۔‘‘
’’تم بار بار بیتی باتوں کو کیوں یاد دلارہے ہو؟‘‘
’’وہ تمہاری شادی رچانا چاہتے تھے۔‘‘
’’وہ معصوم دن تھے۔‘‘
’’وہ تو امنگ بھرے دن تھے۔‘‘
’’وہ سب نادان تھے۔‘‘
’’تم پتھر ہو۔‘‘
’’ایسا کیوں کہتے ہو۔‘‘
’’تم پتھر بھی ہو اور اکیلے بھی!‘‘
(اتنے میں کمرے میں کوئی داخل ہوتا ہے)
’’خاموش کیوں بیٹھے ہو!‘‘
’’بحث ہورہی ہے۔‘‘
’’کس سے‘‘
’’جسم اور روح سے۔‘‘
’’نادان ہو تم‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’روح، جسم کے بغیر بے کار ہے اور جسم، روح کے بغیر ادھورا ہے۔‘‘
’’اور کردار‘‘
’’وہ تو بس اعتدال کا نام ہے۔‘‘
(پھر کمرے میں خاموشی چھا جاتی ہے۔)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں