درد اصل میں جسم کا تنبیہی نظام ہے جو اضافی زخم سے بچانے پر مرکوز ہو تا ہے۔ درد اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جسم کے اندر یا باہربیماری یا لا علمی کی وجہ سے کوئی زخم واقع ہو چکا ہے۔تاہم اگر درد زیادہ دیر تک رہے تو اسے سنجیدگی سے لے کر کسی ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں آج کل سب سے زیادہ جس درد کا مسئلہ لوگوں کو درپیش ہے، وہ کمردرد ہے۔ عمر کے ابتدائی حصے میں 16 سے 25 سال کی عمر میں جو درد واقع ہوتا ہے وہ عموماً ایسا ہوتا ہے جو ہماری لا علمی، ٹھیک طرح سے نہ بیٹھنے، دفتر میں سارا سارا دن بیٹھے رہنے، لانگ ڈرائیو، تکلیف دہ بستر اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے جبکہ درد کی دوسری قسم وہ ہے جو عمر کے آخری حصے میں کمر کی ہڈیوں میں Degenerative Changesاور ہڈیوں کے بھربھرے پن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس درد کو Spondylitus کہتے ہیں۔ دونوں طرح کے درد کا بہترین علاج فزیو تھراپی ہے۔ ہمارے ہاں فزیو تھراپی کو سمجھنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ البتہ یورپی ممالک میں کمر درد ایک مہنگا ترین طبی مسئلہ ہے۔ وہاں تقریباً ایک چوتھائی مریض اپنے کمر درد کی وجہ اپنے کام کو قرار دیتے ہیں۔
یوں تو کمر درد کئی صورتوں میں خود بہ خود ٹھیک ہوجاتا ہے لیکن جن مریضوں کا کمر درد ٹھیک نہیں ہوتا، انہیں اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور جلد از جلد کسی فزیو تھراپی سینٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اب ہمارے ملک میں بھی فزیو تھراپسٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد مخصوص مہارت سے اس کام کو سر انجام دےرہی ہے۔ مستقبل میں مریض کو کمر درد اور پٹھوں کی تکلیف سے بچانا اور نئی تکنیک سے طاقت فراہم کرنا ہی فزیو تھراپسٹ کا کام ہے۔ برطانیہ میں تو کمر درد کو کم کرنے کے لیے واحد امید فزیو تھراپسٹ ہی کو سمجھا جاتا ہے۔
کمر درد کے علاج کے لیے فزیو تھراپی کے مختلف طریقوں کو آزمایا جاتا ہے۔ جن میں ورزش کا طریقہ سب سے زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔ اس کے علاحدہ جدید طرز کی مشینوں سے جن میں الٹراسونک تھراپی، لیزر، ٹینس، بائیو فیڈ بیک اور کمر کی بافتوں کو کھینچنے کےلیے ٹریکشن اور مینول ٹک ٹیکس وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے مریض جنھیں پہلے سرجری کا مشورہ دیا جاتا تھا،وہ اگر دو سے چار ہفتے فزیو تھراپی کروالیں تو انہیں خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس طریقہ علاج کی شرح کامیابی 50 سے 60 فیصد تک ہے۔
دراصل مرض کی درست تشخیص ایک مشکل اور کافی ذمہ دارانہ کام ہوتا ہے۔ جس میں درد کرنے والے حصے کے نیچے بافتوں میں یا پھر ان بافتوں میں، جن کی وجہ سے درد کسی دوسری جگہ محسوس ہو تا ہو، کی تشخیص ضروری ہے۔مثلاً اگر پنڈلیوں میں درد ہے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ درد صرف پنڈلیوں ہی میں ہے بلکہ اس کی درست تشخیص، مریض کی تفصیلی ہسٹری ہی سے معلوم ہوسکے گی۔ عموماً بافتوں اور ان کی بیرونی عصبی تاروں یا جڑوں میں خرابی ہی کو مریضوں کے درد کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
آخر میں چند ایک مفید باتیں :
lایسےافراد جنھیں عموماً کمر درد کی شکایت رہتی ہے صبح کم از کم آدھا گھنٹہ تیز چہل قدمی کریں۔
lکوئی وزنی چیز اٹھانا ہو تو بیٹھ کر اٹھائیں۔
lدفاتر میں کام کرنے والے افراد زیادہ دیر ایک ہی پوزیشن میں ہرگز نہ بیٹھیں۔
lہر ایک گھنٹے کے بعد دو سے تین منٹ کے لیے اپنے دفتر ہی میں ہلکی پھلکی چہل قدمی کرلیا کریں۔
lکرسی سے پوری طرح ٹیک لگا کر بیٹھیں۔ ایسے مریضوں کے بیڈرومز میں اگر شیشہ یا واش بیسن کافی نیچا لگا ہوا ہے تو انہیں کنگھی کرنے، چہرہ دھونے یا شیو بنانے کے لیے اپنی کمر کو جھکانا نہیں چاہیے بلکہ اپنے پاؤں کو ایک قدم آگے بڑھا کر کام کرنا چاہیے اور کروٹ لے کر اٹھنا چاہیے۔
lواش روم میں کموڈ استعمال کرنا چاہیے۔ سیڑھیوں کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے اور زمین پر سونے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ll