شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کی کمر میں کبھی درد نہ ہوتا ہو۔ جو جاندار چاروں ہاتھ پیروں پر چلتے ہیں، ان کی کمر پر اتنا بار نہیں پڑتا جتنا ہماری کمر پر پڑتا ہے۔ جب ہم سیدھے کھڑے ہوتے ہیں تو ہمارے اعصاب ہماری کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے مستقل طور پر تنے رہتے ہیں۔
ہمارے پٹھوں کے کمزور ہوجانے سے بھی ہماری کمر میں درد ہونے لگتا ہے اگر کمر کے پٹھے شروع ہی سے کمزور ہوں یا جسم بھاری ہوا ور کمر کو زیادہ بار اٹھانا پڑتا ہو تو یہ شکایت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جب تک ہمارے یہ پٹھے مضبوط رہتے ہیں، ہمیں دردِ کمر کی شکایت لاحق نہیں ہوتی۔ کھلاڑی مرد اور عورتیں جو ٹینس، گولف یا ایسے ہی کسی دوسرے کھیل کے عادی ہوتے ہیں، شاذ و نادر ہی دردِ کمر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی ورزش سے ان کے پٹھے مضبوط رہتے ہیں۔
اعصابی یا ذہنی دباؤ
کم لوگ ہی یہ بات جانتے ہوں گے کہ کمر کا درد بہت زیادہ جذباتی ہوجانے سے بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ اعصابی دباؤ ہماری صحت کے لیے ہر طرح مضر رہتا ہے۔ نفسیاتی مسائل میں مبتلا لوگ بالعموم نچلے دھڑ میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔ ایک خاتون کو اپنے باپ سے بہت محبت تھی۔ وہ ہر طرح اپنے باپ پر انحصار رکھتی تھی۔ جب باپ کا انتقال ہوگیا تو یہ خاتون یکایک دردِ کمر میں مبتلا ہوگئی۔
اسی طرح ایک عورت کو اپنی بیٹی کی طرف سے ایک جذباتی صدمہ پہنچا۔ اس کی کمر میں بھی، بغیر کسی ظاہری وجہ کے سخت درد رہنے لگا۔ اسی طرح ایک شخص ایک مقابلے کے امتحان میں ناکام ہوا تو اس تکلیف میں مبتلا ہوگیا۔ ایسی ہی کتنی مثالیں اور واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جذبات ہماری صحت پر بالعموم اورہماری کمر کی ہڈی اور اعصاب پر بالخصوص اثر انداز ہوتے ہیں۔
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عورتوں کی کمر میں رحم کے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے درد ہوتا ہے لیکن تجربات نے اس خیال کی تردید کی ہے۔ ضروری نہیں کہ عورتوں میں دردِ کمر کی شکایت کی وجہ ہمیشہ یہی ہو، اس کے دوسرے اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔
بعض اوقات کمر میں بغیر کسی معقول وجہ کے یکایک سخت درد محسوس ہوتا ہے۔ ہمیں خیال نہیں رہتا اور ہم کبھی کبھی بے احتیاطی سے کوئی وزن اٹھالیتے ہیں، کسی الماری یا بھاری فرنیچر کو ہٹاتے وقت جسم کا پورا زور لگادیتے ہیں یا اگر بے احتیاطی سے رومال جیسی کوئی ہلکی چیز بھی اٹھائی جائے تو ہمارے اعصاب غلط طریقہ سے متاثر ہوتے ہیں اور ہم دردِ کمر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
ذرا سی غلطی ہمیں ہفتوں تک ناکارہ کردینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ کمر میں اتنا شدید درد ہوتا ہے کہ ہم کئی کئی دن بستر سے نہیں اٹھ پاتے۔ ایک مرتبہ صحت ہو بھی جائے، تب بھی ایسی ہی کوئی معمولی سی بے احتیاطی پھر وہی شکایت پیدا کردیتی ہے، جو لوگ شروع ہی سے مزدوری کرتے اور اپنی کمر پر بھاری بوجھ اٹھاتے ہیں۔ انہیں اس قسم کی کوئی شکایت لاحق نہیں ہوتی کیوں کہ ان کے اعصاب اس قسم کے بار کے اچھی طرح عادی ہوجاتے ہیں۔
ریڑھ کی ہڈی
بعض صورتوں میں ہماری ریڑھ کا زیریں حصہ قدرے ٹیڑھا ہوجاتا ہے۔ لنگڑے آدمی اس قسم کی کیفیت میں زیادہ مبتلا ہوجاتے ہیں،کیونکہ ان کی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ سے چھوٹی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ بیٹھنے کا صحیح طریقہ اختیار نہیںکرتے۔ وہ آگے کو جھک کر بیٹھتے ہیں اور ان کی ریڑھ کمان ہوجاتی ہے۔ یہ بری عادت ہوتی ہے، اس سے ریڑھ کی ہڈی پر خراب اثر پڑتا ہے اور پھیپھڑوں پر بھی۔ کیونکہ وہ گہرا سانس نہیں لے سکتے۔
اگر آپ سیدھے چلتے ہیں اور سیدھے بیٹھتے ہیں اور آپ کی ریڑھ کی ہڈی عمودی طور پر نچلی ہڈی پر ٹھہری رہتی ہے تو آپ کی کمر میں درد نہیںہوگا۔ حاملہ عورتوں کو کچھ عرصے کے لیے زیادہ بار برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ان کی ریڑھ کے پٹھے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور انہیں اپنی کمر میں درد محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ مرد جن کی توند نکل آتی ہے، مستقل طور پر ایک بار اٹھائے پھرتے ہیں اور دردِ کمر میں مبتلا رہتے ہیں۔
عورتوں کا معاملہ
بعض عورتوں کو سنِ یاس پر پہنچنے پر یعنی جب ان کے ایام بند ہوجاتے ہیں، ان کی کمر میں درد ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں کیلشیم یا چونے کی کمی ہوجاتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈیاں یعنی مہرے اتنے ملائم ہوجاتے ہیں کہ ہڈی کا بالائی حصہ آگے کی جانب جھک جاتا ہے۔ اس وقت کسی مصنوعی سہارے یا مناسب علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔
ریڑھ کے جوڑ کبھی کبھی نقرس کی زد میں آکر سخت درد کا سبب بنتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ جوڑوں میں کوئی خرابی پیدا ہو لیکن درد کے حملے بعض افراد کو زندگی بھر ہوتے رہتے ہیں۔ نقرس کی ایک شکل بالعموم جوانوں پر حملہ آور ہوتی ہے، جس میں پوری ہڈی بہت سے مہروں پر مشتمل ہونے کے باوجود واحد ٹکڑا معلوم ہوتی ہے۔ یہ ٹکڑا آگے کو جھکتا ہے تو متعلقہ شخص سر اور پورا جسم جھکا کر چلتا ہے۔
وائرس کا درد
کمر کے درد کی ایک شکل وہ بھی ہے جو خاص قسم کے وائرس سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ مریض بستر سے بھی نہیں اٹھ سکتا۔ چیچک لاحق ہونے سے ایک ہفتے قبل بھی کمر میں سخت درد محسوس ہوتا ہے۔ بعض بچوں کو چیچک کا ٹیکہ لگوانے کے بعد بھی ایسا ہی درد محسوس ہوتا ہے۔
درد کی ایک اور عام شکل وہ ہے جو کمر کے نچلے حصہ سے شروع ہوکر ران کی ہڈی تک سرایت کرجاتی ہے۔ ہماری ریڑھ کے ہر دو مہروں کے درمیان قدرت نے ایک طرح کی گدی فراہم کی ہے۔ بعض اوقات یہ گدی پھٹ جاتی ہے اور اس کا مواد ریڑھ کی نالی میں داخل ہوجاتا ہے اور اعصاب پر بار ڈال کر سخت درد کا سبب بنتا ہے۔
اگر کھانستے، ناک صاف کرتے یا اجابت کرتے وقت کمر کے نچلے حصے میں سخت درد محسوس ہوتو قطعی ممکن ہے کہ مہروں کے درمیان کی گدی پھٹ گئی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مہرہ کچل جاتا ہے اور اوپر یا نیچے کے مہرے میں گھس جاتا ہے۔ اس وقت مریض اپنے معالج سے کہتا ہے: ’’یہ میرے بچپن میں ہوا ہوگا، جب ایک مرتبہ میں درخت سے گر گیا تھا۔‘‘ اگر کوئی شخص بے خبری کے عالم میں کمر کے بل اوپر سے نیچے گر جائے، تب بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے، اس کی کمر ٹھک جاتی ہے۔
سرسری علاج
اگر دردِ کمر معمولی ہوتو ایک دو ٹکیاں اسپرین کی کھانے سے آپ کو افاقہ محسوس ہوگا۔ بعض لوگوں کو گرم پانی کے ٹب میں بیٹھنے سے بھی سکون ملتا ہے۔ کمر پر مالش کروانے یا دبوانے سے بھی فائدہ محسوس ہوتا ہے۔ اگر نرم بستر پر لیٹنے سے زیادہ تکلیف محسوس ہو تو تخت پر لیٹنے کاانتظام کرلیجیے تاکہ کمر سیدھی رہے۔
اگر اس طرح افاقہ نہ ہو تو اپنے معالج سے مشورہ کیجیے۔ ممکن ہے کہ وہ سینک وڈایاتھرمی، تجویز کرے۔ ڈایا تھرمی ایک طرح کی سینک ہوتی ہے، جس میں گرم پانی کی بوتل کے بجائے بجلی سے حرارت پہنچانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔
اگر دردِ کمر نقرس یا گٹھیا سے پیدا ہوا ہو تو مناسب علاج ضروری ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ورزش سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ایک ورزش ذیل میں تحریر کی جاتی ہے۔
مفید ورزش
سیدھے کھڑے ہوجائیے۔ آگے جھک کر اپنے ہاتھوں سے اپنے پیروں کے انگوٹھے چھونے کی کوشش کیجیے لیکن ٹانگیں سیدھی رکھیے، اس کے بعد پھر سیدھے کھڑے ہوجائیے۔ پیروں کے درمیان تھوڑا فاصلہ کرلیجیے اور پھر پہلے کی طرح جھک کر پیروں کے انگوٹھے چھوئیے اور جسم کو ادھر ادھر حرکت دیجیے۔
دوسری ورزش یہ ہے کہ سیدھے لیٹ جائیے۔ بازو موڑ کر اپنے سینے پر رکھ لیجیے اور بار بار اٹھنے، لیٹنے کی مشق کیجیے یا باری باری اپنی ٹانگیں سیدھی کھڑی کیجیے۔
آرام دہ کرسی استعمال کرنے سے بھی کمر کو آرام ملتا ہے، اپنے لیے ایسی کرسی بنوائیے یا اس میں ایک دو گدّے اس طرح رکھیے کہ وہ پیچھے سے آپ کی کمر کو سنبھالا دیں۔ پست قد عورتوں کو کرسی پر بیٹھتے وقت اپنے پیروں کے لیے کوئی چوکی یا تپائی استعمال کرنی چاہیے۔ اگر کودنے، پھاندنے سے آپ کی کمر میں درد ہوتا ہے تو ایسا نہ کیجیے۔