کم کھائیں – صحت بنائیں!

بنت فضل

مراد صاحب کا پورا گھرانہ چٹور پن میں اپنی مثال آپ تھا۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا ہی ان کی تفریح تھی۔ وہ کہیں بھی جاتے ان کی نظر کھانے پینے کی چیزوں پر ٹکی رہتی۔ ابھی چاٹ بھلے کھائے ہیں، تو پھر برگروں کی باری آگئی۔ تکے کباب کے بعد مچھلی کھائی جا رہی ہے۔ تلے ہوئے آلو تو سب کی من پسند غذا تھی۔ چوں کہ گھر کے پاس ہی اشیائے خورد و نوش کی کئی دکانیں تھیں لہٰذا ان کی روزی روٹی کا پورا پورا خیال رکھا جاتا۔ ہر وقت بازار سے کچھ نہ کچھ آرہا ہوتا۔

لیکن ایک عجیب بات تھی کہ خوراک پر اتنی توجہ دینے کے باوجود تندرستی اس گھرانے سے روٹھی رہتی۔ مراد علی چھانٹ چھانٹ کر مقوی غذائیں کھاتے، بیگم اور بچوں کو بھی کھلاتے مگر آئے دن کوئی نہ کوئی بیمار رہتا۔ عموماً پیٹ خراب ہونے کی شکایت رہتی، ساتھ ساتھ کئی دوسرے عوارض بھی مہمان بن جاتے۔ اسی لیے آئے دن ڈاکٹروں کے پاس آنا جانا لگا رہتا۔ رفتہ رفتہ آمدنی و خرچ کا توازن ایسا بگڑا کہ مراد علی کو سنجیدگی سے اخراجات کا جائزہ لینا پڑا۔

انھوں نے ایک ماہ آمدنی و خرچ کا پورا پورا حساب رکھا۔ مہینے کے آخر میں جب حساب کتاب کیا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے، ماہانہ بل نکالنے کے بعد سب سے زیادہ خرچ دو چیزوں پر ہوا تھا اور تقریبا برابر برابر… یعنی خوراک اور ڈاکٹر پر۔ اس بات نے مراد صاحب کو ایسا پریشان کیا کہ اس کا منفی اثر ان کی روز مرہ کارکردگی پر بھی پڑا۔

وہ بہت دن اسی ذہنی خلفشار میں مبتلا رہے کہ جب وہ اپنے گھر والوں کو اتنی وافر مقدار میں بہترین خوراک کھلاتے ہیں تو پھر ڈاکٹر کا بل اتنا زیادہ کیوں؟ آئے دن کیوں کوئی نہ کوئی بیمار رہتا ہے؟ خود مراد علی بلند فشار خون اور بواسیر کے مریض تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد انھوں نے مشورے کے لیے اپنے ایک سنجیدہ مزاج دوست کو منتخب کیا کہ لوگ ان کی باتوں کا مذاق نہ اڑائیں۔

مراد علی نے پھر اپنی پریشانی پوری طرح ان کے سامنے بیان کردی۔ دوست نے سارا معاملہ دھیان سے سنا او رچند ایک سوال بھی کیے جو ان کے اہل خانہ کی غذائی عادات کے بارے میں تھے مثلاً کیسا کھانا کھاتے اور کتنے وقفے سے کھاتے ہیں؟ مراد علی نے فخریہ انداز سے بتایا ’’ماشاء اللہ کھانے پینے میں ہم نے کبھی کمی نہیں کی بلکہ میرے تینوں بچے تو صرف کھانے پینے کے لیے کھلا جیب خرچ لیتے ہیں۔سارا دن ہم کھاتے پیتے رہتے ہیںـ۔‘‘

یہ سن کر دوست کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے کہا: ’’مراد بھائی! میرا خیال ہے کہ میں نے آپ کی پریشانی کی وجہ دریافت کرلی ہے۔ مزید تحقیق کے لیے کل آپ میرے ساتھ ایک ڈاکٹر دوست کے پاس چلیں، ان سے مل کر آپ کی پریشانی کا حل انشاء اللہ ضرور نکل آئے گا۔‘‘

یہ سن کر مراد علی خوش ہوگئے۔ اگلے دن وہ دونوں ڈاکٹر موصوف کے گھر گئے۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ ڈاکٹر فارغ تھے لہٰذا گپ شپ کے لیے کافی وقت تھا۔ انھوںنے دل جمعی سے مراد علی کا مسئلہ سنا، ان کے غذائی معمولات پوچھے اور گویا ہوئے:

’’جناب! آپ کے مسئلے کے اندر ہی اس کا حل بھی چھپا ہوا ہے۔‘‘

اب حیران ہونے کی باری مراد علی کی تھی بولے جناب! میرا تو مسئلہ ہی مسئلہ ہے، حل کہاں ہے؟‘‘

یہ سن کر داکٹر او ران کے دوست دونوں بے ساختہ ہنس پڑے۔ ڈاکٹر نے پھر مراد علی کو سمجھاتے ہوئے بتایا: ’’جناب آپ غور اور توجہ سے میری باتیں سنیں۔ آپ کو خود ہی مسئلے کا حل مل جائے گا۔

’’دیکھئے شروع ہی سے ڈاکٹر اور اطبا یہ ہدایت کرتے چلے آئے ہیں کہ غذا سادہ کھاؤ اور جب پہلی غذا ہضم ہوجائے، تب دوسری کھاؤ۔ایک کھانے کے بعد فوراً دوسرا کھانا کھانے سے معدہ خراب ہو جاتا ہے۔ یہ چوں کہ ہمارے جسم کا انتہائی اہم حصہ ہے لہٰذا اس کی خرابی بے شمار بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ ہم عموماً اس بہت اہم نکتے کو ذہن میںنہیں لاتے۔

’’یاد رکھیں، انسانی جسم میں تقریبا ہر بیماری کی بنیاد معدہ ہے۔ خراب معدہ ہی ہر مرض کو حملے کی دعوت دیتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب دست آئیں، تو معدہ خراب ہے، نہیں بلکہ ہر بیماری معدے کی خرابی سے شروع ہوتی ہے۔ یہی آپ کا بھی مسئلہ ہے۔ آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو مختلف اوقات مین جو مختلف بیماریاں چمٹی رہتی ہیں، ان کے جنم لینے کی بنیادی وجہ معدے کی خرابی ہے۔ جب آپ اس بے چارے عضو پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال دیں گے تو خرابی تو ہوگی۔

’’آپ کے مسئلے کا حل کھانے کی مقدار گھٹانا ہے بلکہ میں آپ کو ایک نقشہ بنا دیتا ہوں، جس سے آپ کو اپنا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس میں درج ہے کہ کون سی غذا ہضم ہونے میں کتنا وقت لیتی ہے۔ آپ اس حساب سے وقفہ رکھ کر کھائیے او راپنے اہل خانہ کو بھی ہدایت کیجیے کہ اس نقشے میں دی گئی ہدایات پر پوری طرح عمل کریں۔ انشاء اللہ سب کو افاقہ ہوگا۔‘‘

یہ سن کر مراد علی بولے: ’’کھانے ہی سے تو ہمیں قوت ملتی ہے، زیادہ کھانے میں کیا مضائقہ ہے؟‘‘

ڈاکٹر صاحب بولے: ’’جناب! بات برعکس ہے، زیادہ کھانا صریحاً صحت کی بربادی ہے۔ ہضم مختلف قسم کی غذائیں کھاتے ہیں جن کے ہضم ہونے میں مختلف وقت لگتا ہے۔ بعض غذائیں جلد ہضم ہوجاتی ہیں، جب کہ بعض کو دیر لگتی ہے۔

نام غذا                      منٹ؍ گھنٹہ

آلو                               3.30

تلا ہوا انڈا                     3.30

مرغ کا گوشت                3.45

مرغ کے کباب               4.00

بھنا ہوا گائے کا گوشت    3.30

پکی ہوئی ترکاریاں        3.30

ابلے چاول                    1.30

دال مونگ                    2.30

گیہوں کی روٹی            3.30

ابلی ہوئی سبز پھلیاں      3.45

گاجر                          3.30

بند گوبھی                    4.30

مکھن                         3.30

ابلا انڈا                       3.30

بکرے کا گوشت            3.15

گوشت کے کباب          4.00

مچھلی کباب                3.00

پلاؤ                           3.45

چقندر                        3.30

دال ماش                     2.45

ہر قسم کی دال             2.30

دودھ                          2.00

شلغم                           3.30

پھول گوبھی                 4.30

گھی                           4.00

سیب                           2.30

جن لوگوں کے معدہ کمزور ہو یا وہ بوڑھے ہوں، انہیں ہلکی یا جلد ہضم ہونے والی غذا کھانی چاہیے۔ جوان او رصحت مند آدمی مرغن اور دیر ہضم اشیا کھاسکتے ہیں لیکن قاعدے قرینے سے۔‘‘

طب مشرق کے اطبا نے غذا ہضم ہونے کے سلسلے میں جو تجزیے کیے تھے، جدید غذائی تحقیق بھی ان کی تصدیق کرتی ہے۔ قدیم اور جدید معلومات کے مطابق سب سے ہلکی غذا ابلے ہوئے چاول ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ ابالنے کے بعد چاول اپنی زیادہ تر غذائیت سے محروم ہوجاتے ہیں لہٰذا ساتھ میں دوسری غذائیت بخش غذا بھی کھانی چاہیے۔ چاولوں کی کھچڑی بھی جلد ہضم ہونے والی غذا ہے۔ دیگر ایسی غذاؤں میں اراروٹ، ساگودانہ، جوکا شوربا، کچا انڈا، میٹھے اور پکے ہوئے پھل شامل ہیں۔ ان کے ہضم ہونے کا دورانیہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے ہے۔

سب سے دلچسپ اور مرحلہ وار دورانیہ ہضم انڈے کا ہے۔ کچا انڈا پھینٹ کر استعمال کریں تو وہ دو گھنٹے میں ہضم ہوتا ہے۔ اگر نیم برشت (ہاف بوائل) کھائیں، تو ڈھائی گھنٹے کا عرصہ لگے گا۔ سخت ابلا ہوا ہونے کی صورت مین ساڑھے تین گھنٹے صرف ہوں گے۔ تلنے کی صورت میں بھی ساڑھے تین گھنٹے لگتے ہیں اور اگر زیادہ گھی میں تلا گیا ہو، تو پھر اس کے ہضم ہونے میں چار گھنٹے لگیں گے۔

پھلوں کے بارے میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ میٹھے اور پختہ پھل کھائیں۔ سخت اور کچے پھل ثقیل ہوتے اور ہضم ہونے میں ساڑھے تین گھنٹے لگاتے ہیں۔ سیب کو ہضم ہونے کے لے دو گھنٹے چاہئیں۔ ابلی ہوئی سبزیاں، ڈھائی گھنٹے میں جب کہ پکی ترکاری ساڑھے تین گھنٹے میں ہضم ہوتی ہے۔ دال ہضم ہونے میں ڈھائی گھنٹے کی لیتی ہے۔ گیہوں کی خمیری روٹی سوا تین گھنٹے فطری روٹی ساڑھے تین گھنٹے میں اور باجرہ، مکئی اور جوار کی روٹی ساڑھے تین گھنٹے میں ہضم ہوتی ہے۔

بکری کے گوشت کا شوربہ تین گھنٹے اور بھنا ہوا گوشت سواتین گھنٹے میں ہضم ہوتا ہے۔ مختلف قسم کے کباب بھی ہضم ہونے میں مختلف وقت لیتے ہیں۔ مثلا بھیڑ کے گوشت کے کباب ڈھائی گھنٹے، مچھلی اور تیتر کے تین گھنٹے، بکری کے گوشت کے سوا تین گھنٹے، مرغ اور بڑے کے گوشت کے کباب ساڑھے تین گھنٹے میں ہضم ہوتے ہیں۔ مکھن ساڑھے تین سے چار گھنٹوں میں ہضم ہوتا ہے۔lll(اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146