کناڈا کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کایہ کہہ دینا کہ ’’مجرمانہ ذہنیت کے افراد سے بچنے کے لیے خواتین کو ‘Slut’لاپرواہانہ لباس پہننے سے اجتناب کرنا چاہیے‘‘ پوری مغربی دنیا میں خواتین تنظیموںاور اداروں کے لیے شدید اعتراض کا سبب بن گیا۔ ان کے اس بیان کے خلاف پوری دنیا میں عصرِ حاضر کی ’آزادی کی متوالی‘ خواتین سڑکوں پر اتر آئیں اور انھوں نے اس بات کو خواتین کی آزادی پر حملہ تصور کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔ کناڈا کے اس پولیس افسر کے اس قول میں انھیں ایسا محسول ہوا جیسے کہ ان کو صدیوں پرانے جاہلی دور میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور انھیں گھر کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں نوکرانی بناکر رکھنے بلکہ قیدی بناکر رکھنے کی بات کہی جارہی ہے۔
اس بیان کے خلاف دنیا کے مختلف شہر وں میں خواتین کے احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں نمایاں ترین مظاہرہ لندن کا “Slut Walk”احتجاج تھا، جس میں نیم عریاں سے بھی زیادہ لباس میں ملبوس خواتین نے حصہ لیا۔ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈس تھے اور اپنے جسم کی نمایاں جگہوں پر انھوں نے Sluts(لاپرواہ) لکھ رکھا تھا۔ ان کے اس بیان کا سیاق وسباق اور پس منظر وہاں پر بڑھتے ہوئے زنا بالجبر کے واقعات تھے۔ مذکورہ پولیس آفیسر کے خیال میں اس قسم کے واقعات میں تیز رفتار اضافے کا سبب خواتین کا ’’لاپرواہانہ‘‘ یاغیرشائستہ لباس پہن کر عوامی مقامات پر گھومنا پھرنا ہے۔
زنا بالجبر اور خواتین کے خلاف جرائم کے تیز رفتار اضافے کا بنیادی سبب خواتین کے غیر شائستہ لباس کو سمجھنے والے یہ پہلے پولیس افسر نہیں ہیں۔ اس سے پہلے کناڈا ہی کے ایک پولیس افسر نے اسی قسم کی بات کہی تھی۔ خود ہندوستان کی راجدھانی دہلی کے ایک پولیس کمشنر دہلی میں خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم پر اپنے تبصرے میں یہی بات کہہ چکے ہیں۔ دہلی کی خاتون وزیرِ اعلیٰ شیلا دکشت ’’خواتین کا تحفظ گھر کی چہاردیواری سے شروع ہوتا ہے‘‘ کہہ کر اسی قسم کا پیغام دے چکی ہیں۔ کئی سال قبل خود فرانس کے ایک پولیس افسر نے بھی اسی قسم کی بات کہی تھی۔
مختلف ملکوں کے اعلیٰ پولیس افسروں کااس بات پر متفق ہونا کہ خواتین کے خلاف جرائم کے اضافے میں ان کی عریاں لباسی کا بھی رول ہے، خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ پولیس کا نظام دنیا کا وہ ادارہ ہے جس کا براہِ راست تعلق ملکوں کے نظام و قانون کی رکھوالی سے ہے اور وہ اس سلسلہ کا سب سے ذمہ دار اور باعتماد ادارہ ہوتا ہے۔ جرائم کے اسباب و عوامل اور ان کی روک تھام کے سلسلہ میں اس کی تدابیر نہ صرف اعتماد کرتی ہے بلکہ اسی کے مطابق چلنے پر مجبور ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم اور زنا بالجبر کے واقعات کے سلسلہ میں اعلیٰ پولیس افسر کی رائے قطعیت کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسے میں اگر کناڈا کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے یہ کہا ہے تو وہ یقینا ایک ذمہ دارانہ بات ہوگی اور اس کے عملی تجربے پر مبنی بھی۔ اس لیے کہ پولیس کوئی ماہرین سماجیات کا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے مختلف مسائل پر تھیوری دے۔بلکہ وہ ملک کے نظم و نسق کو عملاً کنٹرول کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کے پاس جرائم کے اعداد و شمار اور ان کے اسباب و عوامل کی بھی تفصیلات ہوتی ہیں اور ہر جرم کے اسباب و عوامل جاننے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس مجرمین کے پس منظر اور نفسیات کا گہرا علم بھی ہوتا ہے۔
پھر اگر کوئی تجربہ کار اور اعلیٰ پولیس افسر اپنے تجربہ کی بنیاد پر کوئی بات کہتا ہے جو عملی بات ہے تو اس پر غور وفکر کرنے کے بجائے اس پر اس قدر شدید احتجاج کچھ ہضم ہونے والی بات نظر نہیں آتی۔ اگر اس پولیس افسر نے کوئی غیر ذمہ دارانہ بات کہی ہے تو کم از کم مغرب کے تعلیم یافتہ اور ’مہذب‘ سماج میں اس کا جواب ’نیم عریاں سے بھی کم لباس میں ملبوس ہوکر احتجاج کرنے کے بجائے حقائق کو پیش کرکے دیا جاسکتا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا، کیوں؟ اس پر ہماری خواتین کو غوروفکر کرنا چاہیے۔ اپنے ملک ہندوستان کے پس منظر میں بھی اور مغربی دنیا کی موجودہ تہذیبی و معاشرتی صورتحال کے سیال و سباق میں بھی۔ یہ طرزِ فکر وعمل ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔
کسی اعلیٰ شخصیت کا خواتین سے شائستہ لباس پہن کر نکلنے کی اپیل کا مطلب کیا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ خواتین کو تاریخ کے تاریک ترین دور میں دھکیلنے کی فکر رکھتا ہے اور کیا یہ موجودہ زمانے میں ممکن بھی ہے۔ یا پھر مغرب نے اپنی فکر کی آنکھوں پر متعصبانہ سوچ کی عینک لگا رکھی ہے اور شائستہ لباس میں اسے کالے برقعے کا خوفناک ہیولہ نظر آتا ہے، جس کے بارے میں ’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہی خواتین کے تحفظ کا ضامن ہے۔
لباس اور اسپورٹس
مغربی دنیا حجاب سے خوف زدہ ہے یا وہ اسلام اور مغرب کی تہذیبی کشمکش میں اسلامی تہذیب کو شکست دینے کی آخر کوششوں میں لگی ہے۔ اس کے ثبوت کے طور پر ہم فرانس اور بلجیم میں حجاب پر قانونی پابندی اور اس قسم کی کوششوں کو پیش کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک اور تازہ ترین مثال ایران کی فٹ بال ٹیم کو جوشائستہ لباس میں مقابلے کے لیے میدان میں اتری تھی، مقابلے سے باہر کردینا بھی ہے جو اولمپک مقابلوں میں شرکت کے لیے کوالیفائنگ میچ کھیلنے کے لیے آئی تھی۔
ادھر حالیہ واقعہ میں امریکی ریاست جارجیا کے صوبے میں رہنے والی پاکستان نژاد لڑکی کلثوم عبداللہ کو ویٹ لفٹنگ کے مقابلے میں شرکت سے محروم کردیاگیا ہے۔ اس کی محرومی کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ ساتر لباس پہنے ہوئے تھی اور اس نے اپنا سر ڈھانک رکھا تھا۔ کلثوم عبد 43-53 کلو گرام کے زمرے کی کھلاڑی ہیں۔ اس کے بعد امریکہ کے ویٹ لفٹنگ کے ادارے نے ملک گیر مقابوں میں حصہ لینے پر ان کے لیے پابندی لگادی۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ایسا اس ملک میں ہورہا ہے جو شخصی آزادی کا انتہائی حد تک نہ صرف قائل ہے بلکہ دنیا بھر میں اس کا ’محافظ‘ بھی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور خود اس کے ملک میں خواتین کا لباس کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہاں کوئی عورت اگر چاہے تو برہنہ ہوکر سڑک پرآسکتی ہے اور برہنہ ہوکر احتجاج کرنا اور مختلف اشوز پر لوگوں کی توجہ مبذول کرانا وہاں کے معروف ماڈلس اور سرکردہ خواتین کی عام روایت ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ برہنگی کی آزادی تو ہے مگر لباس اور شائستہ لباس پہننے پر پابندی ہے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اسپورٹس کے کنڈکٹ کا معاملہ ہے توہم یہ مان لیتے ہیں کہ اسپورٹس کا کنڈکٹ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ مگر اسپورٹس کی آڑ میں جس طرح مغربی تہذیب نے خواتین اسپورٹس پرسنس کو برہنہ کرنے کی کوشش کی ہے اور جو لباس ان کے لیے وضع اور طے کیا ہے وہ اسپورٹس کے فن کے مظاہرے سے زیادہ لڑکیوں کے جسم کی نمائش پر مرکوز ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال کے طور پر ہم بیڈ منٹن کھلاڑی لڑکیوں کے لیے نئے ڈریس کوڈ کو لے سکتے ہیں جو واضح طور پر نیم عریاں لباس ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے خواتین بیڈ منٹن کھلاڑی پورے جسم کو ڈھکنے والا ٹریک سوٹ پہن کر کھیلتی تھیں۔ مگر اب نئے ڈریس کوڈ میں اس کی گنجائش نہیں رہی۔ اس کے پیچھے جو سبب بتایا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ کھیل دراصل ناظرین کی توجہ کھوتا جارہا ہے۔ اور اگر اس طرح کے لباس میں لڑکیاں کھیلیں گی تو یہ ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ گویا کہ ’’ناظرین کرام‘‘ کھیل دیکھنے نہیں بلکہ اب کھلاڑی لڑکیوں کے جسم دیکھنے جائیں گے اور اس سے کھیل کو پذیرائی حاصل ہوگی۔
جب کھیل پر اس طرح کی سوچ کا اثر ہوگا تو یقینا ساتر لباس میں رہ کر کھیلوں میں شرکت کرنے والی لڑکیوں کے لیے اس کے راستے بند ہوتے چلے جائیں گے۔ اور اس کا واضح مطلب یہی ہوگا کہ ایک تہذیب کو چھوڑ کر دوسری تہذیب رکھنے والے کھلاڑی محروم ہی رہیں گے۔
ہمارے خیال میں بہتر یہ ہے کہ اسپورٹس کو تہذیبی کشمکش پر مبنی سیاست کا شکار نہ ہونے دیا جائے اور فرد کی آزادی کے لیے یکساں پیمانے ہی رکھے جائیں۔ اگر فرد کی آزادی کے لیے الگ الگ پیمانے بناکر ایک خاص تہذیب وثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہٹانے کی کوشش کی جائے گی تو اسلام اور مغرب کے درمیان خلیج مزید بڑھتی جائے گی اور یہ اس کا سیاسی نقصان ہوگا جبکہ مغرب کو اس کا تہذیبی اور ثقافتی نقصان بھی اٹھانا پڑسکتا ہے اور یقینا اٹھانا پڑے گا۔ وہ اس طرح کہ جس شدت کے ساتھ آپ حق داروں کو ان کے حق سے محروم کریں گے انصاف پسند اور معقول لوگوں کی ٹیم اسی شدت کے ساتھ اس کی بازیابی کے لیے میدان میں اترسکتی ہے۔ ایسا اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں سبھی لوگ، ایسے نہیں جنھوں نے عقل کی آنکھوں پر تعصب کی عینک لگارکھی ہو۔ یہاں کچھ ایسے بھی ضرور ہیں اور وہ تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں جو دنیا اور اس کے واقعات کو حقیقت کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اور منظر کے ساتھ ساتھ واقعات و حوادث کے پس منظر کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شمشاد حسین فلاحی