کوسمیٹکس کو عرصۂ دراز تک محفوظ رکھنے والے کیمیائی مادے پیرابینز کی کھوج پہلی بار برطانوی سائنس دانوں نے انسانی سرطان زدہ چھاتیوں میں لگایا ہے۔ برطانوی ماہرینِ علم سلعات جنھوں نے چھاتی کے سرطان کا مطالعہ کرنے کے بعد ان میں پیرا بینز کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے، کا کہنا ہے کہ انسانی چھاتیوں میں پیرا بینز کی موجودگی سرطان کا سبب بنتی ہے۔ امریکی غذا و دوا کے ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے رسولیوں کے برطانوی ماہرین کی اس تحقیق پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میںشیمپو، فیشل ماسک، بال بڑھانے والی مصنوعات اور ناخنوںکی کریم میں پیرا بینز ہی استعمال ہورہا ہے۔
جنرل آف ایپلائڈ ٹوکسی کولوجی نامی جریدے کی جنوری، فروری کی اشاعت میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کی مصنفہ فیلپی ڈی ڈربری کا کہنا ہے کہ ’’ ہم پہلے سمجھتے تھے کہ پیرا بینز انسانی جسم میں جذب نہیں ہوتا، لیکن اس پر مطالعہ کرنے کے بعد دیکھا کہ یہ نہ صرف جسم میں جذب ہوجاتا ہے، بلکہ کیمیائی مادے ایسٹروجین کو متاتر کرکے چھاتیوں کے سرطان کا سبب بنتا ہے۔ یہ ابھی ہماری ابتدائی تحقیق ہے اور اس پر مزید مطالعہ و تحقیق کی ضرورت ہے۔‘‘
نیویارک کے بیتھ اسرائیل میڈیکل سینٹر کے چھاتی کے سرجن اور میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر برٹ پیٹرسن فلیپی ڈی ڈربری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عفونت ربا یعنی بدبو دور کرنے کے لیے استعمال ہونے والی کوسمیٹکس اور پسینہ روکنے والی مصنوعات استعمال کرنے والے یقینا اس تحقیق سے پریشان ہوجائیں گے۔
ڈسکوری ڈوٹ کوم کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۴ء میں ہونے والے ایک مطالعے کے دوران پتا چلا تھا کہ پیرابینز ۱۳۲۰۰ مختلف کوسمیٹکس میں استعمال ہوتا تھا جن میں بغلوں کی بدبو دور کرنے والے کیمیائی مادے اور پسینہ روکنے والے کیمیائی مادے بھی شامل ہیں، جو انسانی جلد کے ذریعہ سے جسم میں جذب ہوجاتے ہیں۔
مذکورہ مطالعہ ۲۰ برس جاری رہا اور اس مطالعہ کے دوران ۲۰ برطانوی خواتین کی سرطان زدہ چھاتیوں سے غدود حاصل کیے گئے۔ بی بی سی نیوز آن لائن کا کہنا ہے کہ ان سب عورتوں میں پیرا بینز پایا گیا، جب کہ ۴ سرطان زدہ چھاتیوں میں پیرابینز کی سطح بہت بلند تھی۔ مطالعہ کے دوران معلوم ہوا کہ پیرا بینز کا چھاتیوں کے غذود میں داخل ہونے کا ذریعہ انسانی جلد ہے، یعنی منھ اور سانس کے ذریعہ سے پیرابینز انسانی جسم میں داخل نہیں ہوتا۔ برطانوی ماہرین کے اس انکشاف کے بعد امریکی کوسمیٹکس ایسوسی ایشن نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں اور پیرابینز نقصان دہ نہیں، یہ صارفین کے لیے محفوظ ہیں۔
دی کوسمیٹک ٹوائلیٹری اینڈ فریگرنس ایسوسی ایشن کے اس رد عمل کو رد کرتے ہوئے فلیپی ڈی ڈربری کہتی ہے کہ اس حوالے سے ابھی مجھے بہت کچھ کرنا ہے اور میں دیگر ماہرین طب کو دعوت دیتی ہوں کہ وہ آئیں اور کوسمیٹکس استعمال کرنے والی چھاتی کے سرطان میں مبتلا خواتین اور صحت مند خواتین کی چھاتیوں کے غدودوں اور بافتوں کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ اس میں پیرابینز کی سطح کیا ہے۔
ایڈنبرگ بریسٹ یونٹ ریسرچ گروپ، ریڈنگ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سرطان اور کوسمیٹکس کا آپس میں تعلق ہوسکتا ہے۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک بغلوں کی بدبو ختم کرنے کے لیے استعمال ہونے والی کوسمیٹکس کی وجہ سے پیرابینز انسانی جسم میں پنجے گاڑ لیتا ہے۔ برطانوی تجارت و صنعت کے محکمے ڈپارٹمنٹ آف ٹریڈ انڈسٹری کے ایک ترجمان نے آن لائن کو بتایا کہ ’’پیرا بینز برطانیہ اور پورے یورپ میں استعمال کے لیے حکومت سے منظور شدہ ہے۔ ہماری معلومات کی حد تک یہ انسانی جسم کے لیے محفوظ کیمیائی مادہ ہے۔ اب چوں کہ پہلی بار اس کے مضر اثرات کا انکشاف ہوا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ برطانوی حکومت سائنس دانوں سے اس مختصر مطالعے پر مزید تحقیقات کرائے تاکہ چھاتیوں کے سرطان اور پیرا بینز کا آپس میں تعلق واضح ہو۔‘‘
حسین نظر آنا ہی کسی کی خواہش ہوتی ہے، لیکن حسن کی خاطر اپنی صحت کو داؤ پر لگا دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟