دس برس پہلے میری شادی میرے قریبی عزیز کی ہی ایک لڑکی سے ہوئی تھی۔اللہ نے اس کی شکل میں مجھے ایک بہتر بیوی سے نوازا ہے۔اللہ تعالی نے ہمیں تین عدد بچوں سے بھی نوازا ہے۔اپنا معاشی معیار بلند اور اچھا کرنے کے لیے میری بیوی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ملک سے باہر جا کر کوئی کام شروع کروں۔مجھے اس کا مشورے پر عمل کرتے ہوئے کام تلاش کرنا شروع کیا اور اللہ کے فضل سے ایک یوروپی ملک میں کام مل گیا جس سے مجھے خوب اچھی آمدنی ہونے لگی ۔میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں اس کام سے نفسیاتی طور پر مطمئن نہیں ہوں۔ کیوں کہ اگر چہ آمدنی بہت زیادہ ہے تاہم اس طرح ہم ایک دوسرے سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔یہاں بچوں کی پرورش کا بوجھ بھی تمھیں اکیلے اٹھانا پڑتا ہے۔لیکن میری بیوی نے جواب دیا کہ بچوں کے لیے بہتر معاشی پوزیشن بنانے کی خاطر وہ ان تمام ذمہ داریوں کو تن تنہا برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔اس نے بار بار اصرار کیا تو میں نے بھی اس کی بات مان لی اور ہم نے یہ طے کیا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ اور بچے میرے پاس آجایا کریں گے اور اس کے علاوہ سال میں ایک بار میں گھر آیا کروں گا۔
باوجود اس کے کہ بیوی اور بچوں سے دور رہنے کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا، میں صرف اس لیے صبر کرتا رہا تاکہ اپنی بیوی کا خواب پورا کرسکوں۔لیکن مجھے اس وقت ایک دھچکا سا لگا جب میری بیوی نے مجھ سے یہ مطالبہ شروع کردیا کہ میں سال میں ایک بار کے بجائے دو بار گھر آیا کروں۔اس سے بھی زیادہ تکلیف اور ذہنی اذیت مجھے اس وقت ہوئی جب اس مسئلے پر میں نے بیوی سے بات کی۔ میں نے کہا کہ سال میں دوبار چھٹی لے کر آنے سے میرا عہدہ متاثر ہوگا۔ مجھے عن قریب پروموشن ملنے والا ہے جس سے امید ہے کہ اور زیادہ آمدنی میں اضافہ ہوگا اگرچہ اس کی قیمت تم لوگوں کی رفاست سے محرومی اور دوری کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی۔اس نے میری اس بات کا جو جواب دیا وہ واقعی غصہ دلانے والا تھا۔ اس نے کہاکہ کوئی فرق نہیں پڑتا ، بس تم آجائو خواہ تمہاری نوکری ہی کیوں نہ چلی جائے، کیوں کہ ہمیں اس بات کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ تم ہمارے ساتھ رہو۔میں نے کہا: یہ کیا پریشانی ہے؟ کیا تم نے ہی مجھ سے نہیں کہا تھا کہ میں کوئی اور بہتر کام کرنے کی کوشش کروں۔اور رتمھاری خواہش کے آگے میں اپنی وہ ملازمت بھی قربان کر دی جس سے ہمیں الحمد للہ مناسب آمدنی ہو رہی تھی۔میں نے اس وقت تم سے کہا بھی تھا کہ بچوں ی پرورش کی ذمہ داری تمھارے اکیلے کندھوں پر آجائے گی۔اب میں اپنی ملازمت چھوڑ کر کیسے چلا آئوں ۔ یہاں آکر میں پھر سے ملازمت تلاش کروں جس سے خرچ چلانے کے لائق ہی آمدنی ہو سکے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو دولت میں نے اب تک اکٹھا کی ہے اسی کو کھا کھا کر ختم کرنے کی نوبت آجائے گی۔محض اس وجہ سے ملازمت کیسے ترک کردوں کہ تمھیں محسوس ہورہا کہ مجھے تمھارے قریب ہی رہنا چاہیے۔ہمارے درمیان تعلق کیسے راہ مستقیم پر رہ سکتا ہے جب کہ مجھے یہ بھروسہ نہیں ہے کہ تم اپنے ہی کیے ہوئے وعدے کو پورا نہیں کررہی ہو؟ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمارے درمیان جو بات طے پائی ہے میں اس پر قائم رہوں گا اور محض تمھاری حماقتوں کو پورا کرنے کے لیے میں اپنا معاشی مستقبل خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔آخر تم نے ہی تو چاہا تھا اور اس پر اصرار بھی کیا تھا کہ میں ملک سے باہر چلا جائوں اور میں نے تمھارا مطالبہ تسلیم کرلیا ۔لیکن اب میں تمھاری یہ خواہش پوری کرنے سے قاصر ہوں کہ جو بات ہمارے درمیان پہلے سے طے پا چکی ہے اس سے پھر جائوں۔گھر اور بچوں کی پرورش کی ذمہ داری نبھانا تمھارا کام ہے میرا نہیں۔کیوں کہ اس صورت حال کا انتخاب کرنی والی تم ہی ہو ، میں نہیں۔مرضی نہ ہوتے ہوئے بھی میں نے تمھاری بات مانی تھی۔
محترم! یہ وہ گفتگو ہے جو آخری بار اس موضوع پر میرے اور میری بیوی کے درمیان ہوئی ہے۔ میں اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ اسی لیے میں نے پہلی فرصت میں آپ کو مسئلے سے آگاہ فرمایا ہے تاکہ آپ اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔
برادر عزیز! جواب دینے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے خط کی بعض قابل لحاظ باتوں پر تبصرہ ہوجائے۔
۱۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایفائے عہد، یعنی کیا ہوا وعدہ پورا کرنا دین کا جز ہے۔ لیکن اس کی حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان نے قسم بھی کھا لی ہے اور قسم کھانے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ دوسری سے زیادہ بہتر ہے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ اپنی قسم توڑ دے اور وہ صورت اختیار کرے جو بہتر ہو۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِّاَیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْاوَتُصْلِحُوْابَیْنَ النَّاسِ وَاللّٰہُ سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘
(البقرۃ: ۲۲۴)
۲۔ آپ کی اپنی ترجیحات میں اضطراب پایا جاتاہے۔اس میں شک نہیں کہ کامیاب ملازمت کی اہمیت ہے اور معاش کی بھی قدر و قیمت ہے، لیکن ان دونوں کی اہمیت کے باوجود یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کے حصول کی قیمت اپنی ازدواجی زندگی کو غیر متوازن اور اضطراب کا شکار بنا کر ادا کی جائے۔
۳۔ ازدواجی زندگی کی ترجیحات میں سے یہ بھی ہے کہ دونوں میں کوئی بھی اپنے شریک حیات کو پریشانی میں مبتلا نہ ہونے دے اور بلا وجہ کے مطالبات سے اس کی زندگی کو مجروح نہ کرے۔ملازمت خواہ کتنی ہی اعلی ترین حاصل ہو جائے، اور مال ودولت کتنی بھی حاصل کر لی جائے ، اس کا بدل مل جانا ممکن ہے۔ لیکن اس بات سے آپ بھی اتفاق کریں گے کہ نیک بیوی یا نیک اولاد کا بدل ملنا ناممکن ہے۔
۴۔ ہماری زندگی کا مقصد دولت بٹورنا نہیں ہے لیکن پھر بھی ہمارا حال یہ ہے کہ بے حالی ہو کہ خوش حالی ہم بس دولت بٹورے اور جمع کیے چلے جاتے ہیں۔حالانکہ اسلام نے اعتدال پر ابھارا ہے۔یعنی نہ افراط اور نہ تفریط۔اب ایسی کو ن سی چیز مانع ہے کہ آپ ضرورت کے وقت بھی اپنی جمع کردہ پونجی میں سے کچھ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔اگر اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اس پونجی کو خرچ نہیں کرنا چاہتے تو آپ نے اسے جمع ہی کیوں کیا تھا۔
۵۔ ازدواجی زندگی میں اہل خانہ کے وجود کی اہمیت کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ گھر کے دوسرے لوگ شوہر یا بیوی کا بدل نہیں ہو سکتے۔ اگر ایسا ہوسکتا تو شوہر اپنے والدین کے گھر رہتا اور بیوی اپنے گھر رہتی۔
۶۔ آپ کتنے ہی جواز پیدا کرلیں، لیکن زوجین میں سے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اسی بات کہیں، جیسی آپ نے کہی ہے کہ : ’’اپنی ذمہ داریاں تم تنہا اٹھائو گی ، کیوں کہ تم نے ہی اس صورت کو اختیار کرنے کے لیے کہا تھا اور اس پر اصرار کیا تھا اور مرضی کے بغیر مجھے تمھاری خواہش کے آگے جھکنا پڑا تھا۔‘‘شادی ایک کشتی کی مانند ہے جس کا چپو شوہر اور بیوی دونوں سنبھالے ہوئے ہوتے ہیں۔اگر دونوں میں سے کوئی ایک صرف اپنی نجی ذمہ داری کو ادا کرنے پر ہی اکتفا کرے گا تو کشتی کا محفوظ رہ پانا ناممکن ہے۔بلکہ ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں وصیت فرمائی ہے کہ رفقاً بالقواریر ’’شیشوں (مراد خواتین) کے ساتھ نرمی کا معاملہ رکھو۔‘‘اللہ تعالی نے مرد کو قوامیت کے مقام پر رکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اپنی بیوی کے معاملات بھی انجام دینے ہیں۔آپ کا اپنی بیوی سے یوں کہنا کہ’’ اسی نے تو ایسا کرنے کا وعدہ کیا تھا، اب اس کی ذمہ داری ہے کہ اس وعدے کو نبھائے۔‘‘یہ بات گھر کے باہر کسی اور سے تو کہی جاسکتی ہے لیکن گھر اور بیوی کے معاملات میں ایسا کہنا درست نہیں ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کی استطاعت کو سمجھیں ، ایک دوسرے کی ضرورتوں کو محسوس کریں اور مطالبے سے پہلے ہی انھیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔
تجزیہ
بیوی نے ایک معاملے میں غور وفکر کرنے کے بعد ایک بڑی ذمہ داری اپنے سر پر ڈال لی۔اور مقصد یہ تھا کہ بچوں کا معاشی مستقبل بہتر ہو جائے۔میاں بیوی کے درمیان یہ بھی طے ہو گیا کہ شوہر ایک بار گھر آیا کرے گا اور سال میں ایک باربچے اس کے پاس ملنے آیا کریں گے۔لیکن پھر بیوی یہ مطالبہ کرنے لگی کہ شوہر ایک بار نہیں، بلکہ دوبار گھر آیا کرے۔
پروگرام میں اس تبدیلی کے اسباب جو بھی ہوں، بہر حال وہ مثبت ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں کو خوشی سے ہمکنار کرنے والے ہی ہوں گے۔ممکن ہے اس تبدیلی کی وجہ ازدواجی ضروریات ہوں۔اور اگر ایسا ہی ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے قلبی لگائو رکھتی ہے اور اس سے محبت کرتی ہے۔سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اولاد کی تربیت میں شوہر کی ضرورت محسوس کرتی ہو اور اس کے لیے ہو یہ ضروری سمجھتی ہو کہ شوہر کا بچوں کے ساتھ رہنا ضروری ہے۔یا خود بیوی نفسیاتی طور پر اس بات کی ضرورت محسوس کر رہی ہو کہ اس کا شوہر ، اس کا شریک حیات گھریلو ذمہ داریوں میں اس کو قوت پہنچائے۔یہ تمام اسباب زیادہ اہم نہیں ہیں۔ بلکہ اہم بات یہ ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہ اس کا حق ہے جس کو پورا کرنا شوہر پر واجب ہے۔شوہر کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ بار آنے سے اس کی ملازمت میں ترقی رک سکتی ہے۔حالانکہ بیوی کی ضرورتیں پوری کرنا وہ مقصد ہے تو ملازمت میں ترقی وکامیابی سے کہیں بڑھ کر ہے۔میں تاکیداً یہ بات عرض کروں کہ یہ ضرورت ہے، کھیل یا تفریح نہیں ۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنا شریعت میں مطلوب ہے، لیکن کسی اسراف کے بغیر۔
کیا اللہ کی راہ میں جہاد سے بڑھ کر بھی قیمتی کوئی چیز ہے؟ وہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہ حکم جاری کر دیا تھا کہ کوئی بھی فوجی اپنی بیوی سے چار مہینے سے زیادہ کے لیے دور نہ رہے۔یعنی اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواہ کسی بھی محاذ پر ہو چار ماہ پورے ہونے کے بعد لازماً اپنی بیوی کے پاس پہنچ جائے۔میں جو ازدواجی تعلقات کی بات کر رہا ہوں، اس سے مراد محض قلبی تعلقات ہی نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد ہر طرح کے جذباتی، نفسیاتی، اور گھریلوتعلقات مراد ہیں۔اور باوجود اس کے کہ میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ فقہی آراء سے تعرض نہ کروں،لیکن میں یہ بات تاکید کے ساتھ کہا کرتا ہوں کہ زوجین میں سے کسی ایک کا بھی سفر کرنے کا ارادہ ہو تو اس کا فیصلہ مشترکہ طور پر ہونا چاہیے ۔ یہ فیصلہ انفرادی فیصلہ نہیں ہو سکتا خواہ اس کے پیچھے خاندان کے مستقبل کو سنوارنے جیسے دلائل ہی کیوں نہ کارفرما ہوں۔ ایک فریق کو نظر انداز کرکے انفرادی طور پر اگر کوئی اس کا فیصلہ کرتا ہے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی اور اپنے خاندان کو بھی تباہ کردے۔
آپ کی بیوی آپ پر بے پناہ اعتماد کرتی ہے، اسی طرح اسے آپ پر بھی اعتماد ہے۔یہ ضروری ہے کہ آپ اس بات کا اندازہ کر لیں کہ وہ اس معاملے میں غرور اور گھمنڈ سے کام نہیں لے رہی ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ وہ خود بھی جان اور سمجھ رہی ہے کہ وہ اپنے کیے ہوئے فیصلے سے رجوع کر رہی ہے۔لیکن اسے ایسا کوئی سبب مل گیا ہے جس کی وجہ سے وہ رجوع کر رہی ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ محض اپنے وعدے پر قائم رہنے کے لیے اس بات کو چھپائے رہے کہ اسے اپنے شوہر کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کے پرنے والے منفی اثرات کو بھی چھپائے رہے۔
مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ملازمت میں کامیابی کی بھی اہمیت ہے۔ کیوں کہ کامیاب ملازمت آمدنی کا ذریعہ بعد میں ہے، پہلے وہ انسان کی نفسیاتی ضرورت ہے۔لیکن آپ کی گفتگو کے بین السطور سے میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ملازمت میں کامیابی اور ترقی کا تصور کلی طور پر آپ کے خیالات پر اس قدر غالب آچکا ہے کہ وہ آپ کی ازدواجی ضرورتوں کو پھلانگ چکا ہے۔یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔کیوں کہ شوہر اپنی بیوی سے دور رہے تو اس کے فزیولیجیکل نقصانات وقت کے ساتھ بڑھتے جاتے ہیں۔اور آپ اس کو معمول بنا لیں تو یہی خطرے کی جڑ ہے۔
برادر عزیز! آپ کو بیوی کی صورت میں کتنی بڑی نعمت ملی ہوئی ہے اس کا انداز ہ آپ کو ہوسکتا ہے۔ سوچیں اگر آپ کی بیوی نے اس کے بر عکس یہ کہا ہوتا کہ آپ کو یہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، بس گرمیوں میں ایک بار آجایا کریں ، اس کیعلاوہ باقی وقت آپ ہمارے لیے خوب خوب دولت کما تے رہیے ، تو آپ کا رد عمل کیا ہوتا!
اگر آپ اپنی بیوی کی یہ بات نہیں مانتے ہیں کہ آپ ایک بار کے بجائے دو بار گھر آیا کریں —حالانکہ یہ اس کا حق ہونے سے پہلے آپ پر فرض بھی ہے — تو اس سے اس کے جذبات مجروح ہوں گے اور وہ اپنی ذات میں مقید ہو کر رہ جائے گی، آپ کے تعلق سے اس کے جذبات کند ہو جائیں گے، بلکہ اس کے لیے گھر کی دوسری ذمہ داریاں ادا کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔میں آپ کو ایک راز کی بات بتانا چاہتا ہوں۔ عورت کے لیے سب سے کٹھن بات یہ ہے کہ اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔اور اس سے بھی بڑی مصیبت اس کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر اس بات کا اظہار کرے کے اسے اس کی ضرورت ہے اور شوہر تاویلوں کے ذریعے اس کی اس ضرورت کو مسترد کردے۔اس کے لیے یہ بات بھولنا ناممکن ہے کہ اس کا شوہر اس کی طرف سے تجاہل برت رہا اور اس کے احساسات کو سمجھ نہیں پا رہا ہے۔اور ممکن یہ یہ چیز کبھی اسے برانگیختہ بھی کر دے۔ اور میرے خیال میں اس کی طرف سے اظہار اس سے بہتر ہے کہ وہ انھیں اپنے دل میں چھپائے رہے اور اپنی ذات میں محصور ہو کر رہ جائے۔
حل
اللہ کی مدد ونصرت کے طلب گار رہیں اور پوری کوشش کریں کہ آپ اپنی بیوی کی ضرورتوں کوپورا کریں گے۔آپ کی دفتری اور ملازمتی مصروفیات خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ آپ دفتر میں یہ وجہ بیان کریں کہ گھر میں ہنگامی صورت حال کی وجہ سے آپ کو جانا ہے۔یہ حقیقت بھی ہے اور قابل اعتبار عذر بھی ہے۔ آپ کو جلد سے جلد اپنی بیوی کے پاس جانا چاہیے تاکہ اپنے اوپر اور آپ پر بھی اس کا اعتماد بحال ہو سکے۔آپ تو خود اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ آپ کی زندگی میں آپ کا گھر آپ کے لیے سب سے زیادہ قیمرتی دولت ہے، جو آپ کے اندر سے منفی رجحانات کو ختم کرتی ہے۔اگر کوئی بات پیش آہی جائے اور آپ دونوں میں سے کسی ایک صورت کو اختیار کرنے کے سلسلے میں پس وپیش میں مبتلا ہوں تو میری رائے تو یہی ہے — واللہ اعلم— کہ خیر اور بھلائی اسی میں ہے کہ آپ کو عائلی استحکام حاصل ہو۔خواہ اس کے لیے آپ کو اپنی جمع پونجی ہی کیوں نہ خرچ کرنی پڑے۔کیوں کہ جو پونجی آپنے جمع کی ہے وہ اسی قسم کے ہنگامی حالات کے لیے جمع کی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو اس کا اچھا بدل عطا فرمائے گا۔ وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔
——





