2020 کو بغیر کسی شبہ کے ’’وبا‘‘ کا سال قرار دیا ہے، اس وبا نے دنیا کے معاشی، سماجی، معاشرتی خدوخال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ کوئی شعبہ ایسانہیں بچا ہے جس کو اس وبا نے متاثر نہ کیا ہو نہ کوئی طبقۂ زندگی۔ اس وبا نے زندگی کے پہیے کو اگر مکمل طور پر روکا نہیں تو سست ضرور کردیا ہے۔ تعلیم اور ملازمتوں کی نئی شکل سامنے آئی ہے۔ سماجی زندگی ختم ہونے کے برابر ہو گئی ہے، تمام طبقہ زندگی میں اس وبا سے جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو اہے وہ خواتین ہیں۔
بین الاقوامی اداروٍں کے مطابق یہ وبا ’’جینڈر نیوٹرل‘‘ نہیں ہے اس نے عورتوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس حوالے سےTriple Burden تجزیات کیے جارہے ہیں۔ Triple burden یا تہرے بوجھ کی اصطلاح پیداواری بوجھ (Productiove) خانگی بوجھ (Reproductive) اور کمیونٹی بوجھ (Community) کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
خواتین عام طور پر ان تینوں بوجھ کو زیادہ اٹھاتی ہیں۔ روایتی معاشروں میں خواتین پر پیداواری یا معاشی بوجھ نہیں ہوتا لیکن جیسے جیسے خواتین کے حقوق کی جدوجہد کامیابی حاصل کر رہی ہے، خواتین کے اس بوجھ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور تمام اعداد و شمار چیخ چیخ کر اس بات کی گوائی دے رہے ہیں کہ خواتین اس بوجھ کو مکمل طور پر اپنے سر لے چکی ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سنگاپور میں کل ملازمتوں کا 45 فیصد حجم خواتین کے پاس ہے۔ آئس لینڈ، جو ایک ترقی یافتہ ملک ہے، یہاں 79.1 فیصد ملازمتیں خواتین کے پاس ہیں۔ سوئیڈن اور نیوزی لینڈ میں 70 فیصد سے زیادہ ملازمتیں خواتین کے پاس ہیں۔ اس کے ساتھ جب اس بات کا تجزیہ کیا جاتا ہے کہ خواتین کے پاس کتنے انتظامی اور دوسری نوعیت کے عہدے ہیں تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اکثر خواتین ایسے عہدے لینا پسند نہیں کرتیں جس سے ان کے گھریلو ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مشکل ہو یعینی وہ اپنی خانگی ذمہ داریوں کو مقدم رکھتی ہیں۔ چنانچہ کورونا کے دنوں میں ’’ورک فرام ہوم‘‘ کا مظہر (Phenoment) بظاہر خواتین دوست تھا کہ وہ گھر بیٹھے پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دے سکتی تھیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی۔ اکثر خواتین کے لیے گھر سے کام کرنا دشوار ترین ثابت ہوا۔
ایک خاتون نے ٹوئٹر پر پیغام بھیجا کہ اگر میرے پاس سے کوئی بے سروپا پیغام آجائے تو نظر انداز کر دیں، یہ میرے چار سالہ بچے کی جانب سے ہوگا۔‘‘ آن لائن میٹنگز کے دوران خواتین کو بچوں کو ساتھ بٹھا کر کام کرنا پڑا۔ ورلڈ اکنامک فورم نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ کووڈ 19 کی وجہ سے عورتوں کے کام‘ بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نیز اعلیٰ عہدوں پر فائز عورتیں اپنی جیسی پوزیشن رکھنے والے مردوں کے مقابلے میں زیادہ دبائو کا شکار ہیں۔ ہر چار میں سے ایک عورت پارٹ ٹائم کام یا نوکری چھوڑنے کے متعلق سوچ رہی ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ 18 دسمبر)
یہ وبا سب سے زیادہ چیلنجنگ دو شعبوں کے لیے رہی ایک تعلیم دوسرے صحت۔ ان دونوں شعبوں سے سب زیادہ خواتین منسلک ہیں۔ عالمی ادارہ محنت کے مطابق کووڈ۔19 کی وجہ سے بے روزگار ہونے میں دو تہائی تعداد عورتوں کی ہے۔ پاکستان میں بھی سب سے زیادہ خواتین تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ آن لائن تدریس کے نتیجے میں جو کام بیس پچیس کے اسٹاف سے لیا جاتا تھا، اب نصف تعداد سے لیا جاسکتا ہے لہٰذا نجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والی خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد مختلف حیلوں بہانوں سے یا تو ملازمت سے محروم کر دی گئی یا پھر تنخواہ سے۔ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں خواتین مردوں کے مقابلے میں کمزور ہیں لہٰذا ’’ورک فراہم ہوم‘‘ کی زیادہ ذمہ داری مردوں پر ڈالی گئی اور اس طرح کام نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو ملازمت یا تنخواہ سے محروم ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ کاروبا متاثر ہونے کی وجہ سے گھر کے مردوں کے بے روزگار ہونے کی صورت میں خواتین نے مختلف قسم کی معاشی سرگرمیوں کا بیڑا اٹھایا جس میں آن لائن خریدوفروخت کے علاوہ گھر سے کھانا پکانا وغیرہ شامل ہیں۔
تہرے بوجھ کے ضمن میں دوسرا اہم ترین ذمہ داری خانگی ہے جو روایتی اور جدید ہر معاشرے میں خواتین کی ہی ذمہ داری قرار پارتی ہے۔ اس میں بچوں کی دیکھ بھال‘ ان کی پرورش اور گھریلو کام کاج ہیں۔ اس وبا نے اس حوالے سے مائوں کے بوجھ میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خواتین کا وہ طبقہ جو سب سے زیادہ مزے میں تھا‘ اس وبا سے بری طرح متاثر ہوا۔ آن لائن تدریس میں بچوں کی تعلیم و تردیس کا مکمل بوجھ مائوں پر آگیا۔ بچوں کو کلاس کے لیے بٹھانا‘ ان کی نگرانی کرنا‘ ہوم ورک اور دیگر امور مائوں کی ذمہ داری بن گئے اس سے قبل بچوں کو تیار کرکے اسکول بھیجنا اور پھر باقی ذمہ داری ٹیوٹر اور ٹیوشن کے حوالے تھی مائوں کے ذمہ نگرانی کا ایک موہوم سا فریضہ بچتا تھا۔ اس پر یہ بھی ظلم ہوا کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں گھریلو ملازمین یا ماسیاں بھی نہیں تھی تو گھریلو امور کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی تھی۔ پاکستان کے ایک عام گھر میں ماسیاں گھروں کا لازمی حصہ بن چکی ہیں اس کے ساتھ بچوں اور گھر کے مردوں کے گھر میں ہونے کی وجہ سے گھریلو ذمہ داریوں میں دگنا اضافہ ہوگیا لہٰذا یہ وبا گھر میں رہنے والی خواتین کے لیے بالکل دوستانہ ثابت نہیں ہوئی۔
تیسرا بوجھ کمیونٹی کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے جو زیادہ تر رضا کارانہ ہوتا ہے اور اکثر خواتین خوشی سے یہ ذمہ داری انجام دیتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی لوگوں کے کام آنا‘ خدمت خلق ایک اہم ذمہ داری سمجھ کر کی جاتی ہے۔ وبا میں ناگہانی اموات اور بے روزگاری نے ان ذمہ داریوں میں اضافہ کیا۔ پاکستان میں خوش آئند بات یہ ہے کہ اس وبا کے دوران لوگوں نے ایک دوسرے کی خوب مدد کی جس کی وجہ سے معاشرے میں استحکام بھی نظر آیا۔
مذکورہ بالا تجزیہ بظاہر اس بات کی عکاسی کر رہا ہے کہ کووڈ۔19 نے خواتین کو سب سے زیادہ متاثر کیا لیکن دراصل خواتین یا مرد یا بچے سب ایک معاشرے کا حصہ ہیں‘ ایک کی مشکل دوسری کی مشکل ہے۔ ایک کی آسانی دوسرے کی آسانی ہے۔ مشکل میں کوئی بھی ہو وہ سب کی مشکل ہوتی ہے۔ بوجھ مرد یا عورت کا نہیں بلکہ خاندان اور معاشرے کا بوجھ ہے جس سے سب مل کر ہی نکل سکتے ہیں۔