اکثر بہنیں اور بچیاں تعجب سے مجھ سے پوچھتی ہیں۔ ’’اتنے بڑے گھر میں آپ اکیلی کیسے رہ لیتی ہیں؟ جبکہ تنہائی تو ایک عذاب ہوتی ہے۔‘‘
میں کہتی ہوں ’’تنہائی اس کے حق میں عذاب ہوتی ہے جس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ جس نے اپنی زندگی کا مقصد متعین کرلیا وہ تنہائی کو اپنا دوست بنالیتا ہے۔ اور تنہائی میں اپنے مقصد کے خاکے میں رنگ بھرنے کی تدابیر سوچتا رہتا ہے۔ یہ بات بھرے پرے گھر، دوستوں کے جمگھٹے اور یارباش لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں بھرے پرے گھر کا انکار نہیں کررہی ہوں بلکہ یہ کہہ رہی ہوں کہ جس نے اپنی زندگی کا ایک مقصد طے کرلیا ہے اس کے لیے گھر کے افراد پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔
میں تنہائی میں ضرور ہوں۔ لیکن تنہائی مجھے اس لیے نہیں ستاتی ہے کہ میں روز مرہ کے گھریلو کام نمٹا کرجب فرصت ہوتی ہے تو یا تو قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھ کر اللہ کی کتاب کو سمجھنا چاہتی ہوں یا دینی اور ادبی کتابیں پڑھ کر اپنی معلومات میں اضافہ کرتی رہتی ہوں یا اپنی بہنوں تک دین کی باتیں پہنچانے کے لیے نکل جاتی ہوں۔
اگر کھاتے پیتے گھرانے کی اور تعلیم یافتہ بہنیں قرآن برکت کے لیے پڑھنے کے بجائے غوروفکر کرتی ہوئی اپنی زندگی بنانے کے لیے ترجمہ کے ساتھ پڑھیں تو بہت فائدہ ملے گا۔ یہ مشورہ میں اپنے تجربے کی بنا پر دے رہی ہوں۔ اس طریقے سے میری معلومات میں بھی اضافہ ہوا اور قرآن کا ہم سے کیا مطالبہ ہے، وہ بھی معلوم ہوا اور میرے دل ودماغ کی کھڑکیاں بھی کھل گئیں۔ میں اسی کی طرف اپنی بہنوں کو دعوت دیتی رہتی ہوں۔
ایک بہن نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا: ’’اگر آپ کو ایک بیٹی ہوجاتی تو وہ آپ کی خبر گیری کرتی رہتی۔‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’واقعی میں بیٹی جیسی نعمت سے محروم ہوں، لیکن خدا کی شاکی نہیں ہوں۔ اس نے مجھے بیٹی کی نعمت سے کیوں محروم رکھا اس کی مصلحت وہی جانے۔ میں تویہ سمجھتی ہوں کہ شاید اسی میں میرے لیے خیر ہے۔ ورنہ خدا نے جہاں مجھے دو بیٹے دیے ہیں وہیں بیٹی بھی دے سکتا تھا۔ میرے ساتھ بانجھ پن کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔ اولاد اللہ کی دین ہیں جس کو چاہتا ہے صرف لڑکے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے صرف لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے۔ بندے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ میں نے ایک بڑے بنگلے والی پڑوسن سے پوچھا: ’’آپ تو چاند ہوگئیں، کبھی ہمارے گھر آتی ہی نہیں ہیں؟‘‘
کہنے لگیں: ’’کیا بتاؤں بہن، سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے، کیسے آؤں؟‘‘
میں نے تعجب سے کہا: ’’ارے…! آپ کے گھر میں دو بہویں ہیں، دو نوکرانیاں ہیں۔ پھر بھی آپ کہتی ہیں کہ سرکھجانے کی فرصت نہیں ہے۔ کیوں کیا سارے گھر کا کام آپ کو ہی کرنا پڑتا ہے؟‘‘
ہنسنے لگیں اور کہا: ’’گھر کا کام کاج تو بہویں اپنی نگرانی میں کرالیتی ہیں۔ کپڑے برتن، جھاڑنا پونچھنا وغیرہ نوکرانیاں کرلیتی ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’پھر بھی آپ کو سرکھجانے کی فرصت نہیں ملتی ہے؟‘‘
کہنے لگیں: ’’بڑا بیٹا رنگین ٹی وی لے آیا ہے۔ اس میں بڑے اچھے پروگرام آتے ہیں اور رات کے بارہ بجے سے پرانی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ ایسی خراب عادت پڑگئی ہے کہ جب تک ایک دو بجے تک فلمیں نہیں دیکھ لیتی نہ چین ملتا ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ میں اگر اٹھنا چاہوں تو بہو ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیتی ہے کہ ’’امی یہ سیریل بڑے مزے کا ہے اسے ضرور دیکھتی جائیے۔‘‘ شوہر اور بچے بھی اصرار کرتے ہیں کہ ’’کل یہ سیریل نہیں آئے گا اس لیے آج ہی دیکھ لینا چاہیے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’پھر نماز کب پڑھتی ہیں۔‘‘
کہنے لگیں : ’’رات دو تین بجے سوتی ہوں تو صبح نو بجے اٹھتی ہوں۔ ناشتے سے فارغ ہوتے ہوتے بارہ بج جاتے ہیں۔ پھر ٹی وی کھول کی بیٹھ جاتی ہوں۔ چار بجے دوپہر کا کھانا کھاتی ہوں۔ چند سہیلیاں آجاتی ہیں تو ان سے گپ شپ لڑاتی رہتی ہوں۔ رات دس گیارہ بجے شوہر اور بچے دکانوں سے آجاتے ہیں، سب مل کر کھانا کھاتے کھاتے بارہ بج جاتے ہیں۔ پھر بچے ٹی وی کھول دیتے ہیں اور ہم سب صوفوں پر بیٹھ کر رنگین نظاروں میں کھو جاتے ہیں۔ نماز کے لیے وقت ہی کہاں ملتا ہے؟ … بہن! ابھی تو لمبی عمر پڑی ہے۔ ذرا عمر ہوجائے تو نماز شروع کردوں گی۔ ویسے اذان کی آواز کانوں میں پڑتے ہی سر پر پلو اوڑھ لیتی ہوں اور شب برات اور شب قدر میں پانچ پانچ سو رکعتیں نماز ضرور پڑھتی ہوںاور عید کی نماز تو کبھی چھوڑتی ہی نہیں۔‘‘
میں نے ایک حدیث سنائی: ’’فرصت کو مشغولیت سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو۔‘‘
کہنے لگیں: سب کہنے کی باتیں ہیں جو آپ جیسی عورتوں نے بنالی ہیں۔ ہمیں دیکھو جن کو دن دونی رات چوگنی ترقی ہورہی ہے، پراپرٹی خرید رہے ہیں، دوکانیں ہیں، دو دو کاریں ہیں۔ اگر خدا ناراض ہوتا تو کبھی کا پکڑ لیتا اور اتنی ترقی نہ دیتا۔‘‘
میں نے کہا: ’’یہ ترقی خدا کی طرف سے آزمائش بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
کہنے لگیں: ’’یہ مولوی ملاؤں کے پیٹ کی جلن ہے، جو ہم جیسوں کی دولت اور ترقی دیکھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘
آدھی رات کے وقت پڑوس کے بنگلے سے آوازیں آنے لگیں۔ کار اسٹارٹ ہوئی اور تیزی سے جاتی محسوس ہوئی۔ رات کی وجہ سے میں باہر نہیں نکل سکی۔ صبح فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر قرآن کی تلاوت کی پھر باہر نکلی۔ پڑوس کے بنگلے کے گیٹ پر اس گھر کی بڑی بہو ملی۔ میں نے رات کی آوازوں کے بارے میں پوچھا تو ایک دم رونے لگی اور کہا: ’’آنٹی! رات کو ہم پر مصیبت ٹوٹ پڑی۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘
کہنے لگی: ’’رات کو امی ابا اور ہم سب بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ ہماری دکان کے پڑوس والے کا فون آیا کہ ہماری دکان میں آگ لگ گئی ہے۔ فوراً آئیں۔ میرے میاں کار لے کر فوراً دوڑے۔ خدا جانے کیا ہوا کہ انھوں نے ایک رکشہ کو ٹکر ماردی چونکہ تیز جارہے تھے ان کی ٹکر سے رکشہ الٹ گیا اور رکشہ ڈرائیور اسی جگہ مرگیا۔ رکشہ والوں نے ان کی کار کو روکا اور کار کو چکنا چور کردیا اور ان کو اتنا مارا کہ بے ہوش ہوگئے۔ چند لوگوں نے ان کو ہسپتال پہنچادیا۔ ادھر ہم بیٹھے ان کے فون کا انتظار کررہے تھے کہ ہماری جان پہچان کے ایک رکشہ والے نے ہمارے گھر آکر اس حادثے کی خبر دی۔ ابھی ہم سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ انکم ٹیکس والے آدھمکے اور گھر میں گھس کر جہاں جہاں حساب وکتاب کے رجسٹر تھے اپنے قبضے میں کرلیے اور تجوری کھول کر نقد رقم اور زیورات لے کر چلے گئے۔ اور ابا کو صبح آفس آنے کے لیے کہہ گئے۔ ابا اس صدمے سے بے ہوش کر گر پڑے۔ میرے دیور نے ان کو ہسپتال میں داخل کرادیا ہے۔ امی حیران و پریشان دل تھامے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہماری توکچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اچانک یہ کیا ہوگیا اور ہم کیا کریں؟‘‘
میں نے اندر جاکر دیکھا کہ خاتون خانہ مصلے پر بیٹھی رو رو کر دعا مانگ رہی ہیں۔ اس حادثے سے میرا دل بھی بھر آیا اور میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد خاتون خانہ نے کہا: ’’بہن! ہم لٹ گئے۔ نہیں معلوم میرے گھر کو کس کی بری نظر لگ گئی۔‘‘ میں نے دلا سہ دیتے ہوئے کہا: ’’صبر کیجیے بہن!۔‘‘
کہنے لگیں: ’’کیسے صبر کروں؟ دکان جل گئی، کار توڑ پھوڑ دی گئی، میرے شوہر اور بیٹا اسپتال میں پڑے ہوئے ہیں، انکم ٹیکس والے الگ بلاگئے ہیں، چھوٹا بیٹا کیا کرے؟ آپ کہتی ہیں صبر کروں، کس دل سے صبر کروں؟‘‘ یہ کہہ کر زاروقطار رونے لگیں۔
میں نے کہا: ’’خدا سے مدد طلب کیجیے، وہی مشکلات میں کام آتا ہے۔‘‘
اچانک سر سے چادر کھینچ کر کہنے لگیں: ’’کہاں ہے خدا؟ کیوں اس نے ہم پر یہ مصیبت ڈالی ہے؟ کیا اسے میرا ہی گھر ملا تھا؟‘‘
بڑی بہو بھاگی ہوئی آئی اور ساس کے کندھے پکڑ کر کہنے لگی: ’’امی! ایسی باتیں نہیں کرتے، خدا ناراض ہوجائے گا۔‘‘
اس کا ہاتھ جھٹک کر کہنے لگیں: ’’ناراض ہوتا ہے تو ہوجائے، اب کون سا راضی ہوکر ہمیں آرام پہنچا رہا ہے؟‘‘
اسی وقت اپنے ابا کو ہسپتال میں داخل کرانے کے لیے لے گیا چھوٹا بیٹا آگیا۔ ماں نے پوچھا : ’’بیٹا … ! تیرے ابا اور بھیا کا کیا حال ہے؟‘‘
بیٹے نے کہا: ’’ابا کا حال تو ٹھیک ہے، مگر بھیا کو زیادہ چوٹ لگی ہے وہ ابھی تک بے ہوش ہیں۔‘‘
ماں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’بہن!… صبر کرو کہنا بہت آسان ہے۔ لیکن جس کے دل پر آرے چل رہے ہوں، وہی جانتا ہے کہ مصیبت کیا ہوتی ہے؟‘‘
میری آنکھوں کے سامنے ان کا سابقہ رویہ گھوم گیا۔ لیکن میں نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا: ’’خدا سے مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ وہ مدد کرے تو ساری مصیبتیں دور ہوجاتی ہیں۔‘‘
دونوں بہویں بھی نزدیک آگئی تھیں اور چھوٹا بیٹا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور کہا: ’’دنیاوی مصیبت ہمیں مصیبت اسی لیے نظر آتی اور دل میں چبھتی ہے کہ ہمارا دل مال میں، کاروبار میں، اولاد میں اور دنیاوی آسائشوں میں اٹکا ہواہوتا ہے۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز چھن جاتی ہے تو دل بے چین ہوجاتا ہے اور زبان شکایتیں کرنے لگتی ہے۔ اگرہمارا یقین یہ ہو کہ یہ ساری چیزیں خدا کی دی ہوئی ہیں، وہ جب تک چاہتا ہے ہمارے پاس رہنے دیتا ہے اور جب چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے، جس کی چیز تھی اس نے لے لی تو ہمیں دکھ کیوں ہو؟
شیخ عبدالقادری جیلانیؒ بہت بڑے تاجر تھے۔ ایک بار غلام نے اطلاع دی کہ مال سے لدا ہوا آپ کا جہاز سمندری طوفان میں گھر کر ڈوب گیا ہے۔ شیخ نے سرجھکایا او ر سر اٹھا کر کہا: ’’الحمدللہ!‘‘ تھوڑی دیر بعد ایک دوسرا غلام آیا اورخوشخبری سنانے لگا: ’’یا شیخ!… آپ کا جہاز مال لے کر صحیح سلامت پہنچ گیا ہے۔ شیخ نے پھر سر جھکایا اور سر اٹھا کر کہا: ’’الحمدللہ!‘‘ مریدین پوچھا: ’’دونوں حالتوں میں الحمدللہ؟ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ شیخ نے فرمایا: ’’جس نے مال دیا تھا اس نے لے لیا تو میرا کیا گیااس لیے الحمدللہ۔ پھر اسی نے مال لوٹا دیا تو میری جانب سے الحمدللہ۔‘‘
’’ہمارا یہ تصور ہو تو ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘خاتون نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تو دونوں بہوؤں نے اور بیٹے نے کہا: ’’امی!… آنٹی جو کچھ کہہ رہی ہیں سنئے!‘‘
میں نے کہا: ’’ایک سچا واقعہ سناتی ہوں شاید اس سے آپ کا غم ہلکا ہوجائے۔ ایک صحابی سفر پر گئے تھے۔ جس رات وہ سفر سے واپس آئے اسی رات ان کے بچے کا انتقال ہوگیا۔ بیوی نے بیٹے کے انتقال کی خبر دینے کے بجائے اچھا پکا کر کھلا دیا شوہر نے پوچھا: ’’بیٹا کہاں ہے؟‘‘ بیوی نے کوئی بہانہ کردیا۔ شوہر صبح تک آرام سے سوئے۔ صبح اٹھے تو بیوی نے کہا: اگر کوئی شخص آپ کے پاس مال لاکر رکھے اور چند دن بعد واپس مانگ لے تو آپ کیا کریں گے؟ شوہر نے کہا: اس کا مال خوشی خوشی واپس کردوں گا۔
بیو ی نے کہا: ہمارا بیٹا اللہ کی امانت ہمارے پاس تھا کل رات اس نے اپنی امانت واپس لے لی۔ یعنی ہمارے بیٹے کاانتقال ہوگیا۔ اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘ شوہر نے کہا : ’’میں کیا کہوں؟ جس کی امانت تھی اس نے واپس لے لی۔ اس کا کیا شکوہ؟‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے گھر پر ایک مصیبت ٹوٹی ہے، آپ لوگ اس ذہن سے سوچیں تو یہ مصیبت ہلکی ہوجائے گی۔‘‘
بڑی بہو نے کہا: ’’آنٹی… ایسا سوچنا ہمارے لیے تو بہت مشکل ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’چونکہ برسوں سے ہمارا ذہن اس طرح کی چیزوں میں پھنسا ہوا ہے اس لیے ہمارے ذہن میں یہ بات نہیں اترتی۔ اس کے لیے قرآن، حدیث، سیرتِ رسولﷺ اور سیرتِ صحابہ و صحابیات کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ دوچار ماہ میں ذہن نہیں بنے گا بلکہ مسلسل مطالعہ کیا جائے تو انشاء اللہ ذہن بن جائے گا۔‘‘
خاتون خانہ نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’بیٹے! انکم ٹیکس والوں نے آفس بلایا ہے۔ تیرے ابا اور بھیا تو ہسپتال میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب تو ہی گھر کا بڑا ہے۔ بھیا کا ایکسیڈنٹ کا معاملہ ہے۔ پولیس والوں کا معاملہ ہے۔ جلی ہوئی دکان اور انکم ٹیکس والوںکا معاملہ ہے۔ وکیل سے مشورہ کرکے اسے ساتھ لے کر سارے معاملات طے کرلے۔ ان باتوں پر بعد میں غور کریں گے۔‘‘
——