کڑوا پھل

مظفر احمد

کئی دنوں کے بعد جیسے ہی اپنے شہر میں داخل ہوا مختلف جگہوں پر لال لال کپڑوں کے بینر ٹنگے نظر آئے۔ جن پر لکھا ہوا تھا قومی یکجہتی زندہ باد … آل انڈیا قومی یکجہتی زندہ باد وغیرہ۔

سورج پورا لال ہوچکا تھا۔ شہری زندگی پورے عروج پر تھی۔ گاڑیاں تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھیں۔ شہر تھا یا انسانوںکا جنگل۔ گاڑیوں کی پے، پاں سے کان پھٹے جارہے تھے۔ انسانوں کے اس جنگل میں لگ بھگ سو آدمیوں کا پروسیشن زندہ باد کے نعرے لگاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک رکشہ پر دو مہا پرش زور زور سے نعرے لگا رہے تھے اور زمین پر چلنے والے اپنے رہنماؤں کی آواز سے آواز ملا رہے تھے، ان کے نعرے تھے… قومی یکجہتی زندہ باد۔ مہاتما گاندھی زندہ باد… سبھدرا جوشی زندہ باد… اندرا گاندھی زندہ باد… سیکولر بھارت زندہ باد… یکساں سول کوڈ زندہ باد … وغیرہ۔

رکشہ پر بیٹھے مہا پرش شہر کے دو مشہور و معروف لیڈر پرکاش سنگھ اور صفدر جنگ تھے… ان دونوں کی حالت قابلِ دید تھی… دونوں دیوانہ وار نعرے لگا رہے تھے۔ چہرہ سرخ، آنکھیں لال اور پیشانی پسینے سے شرابور، بس دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

سورج ڈھل رہا تھا۔ شام جوان ہورہی تھی کہ پرکاش کے گھر سے آواز آئی… اَدھر می… ارے بیٹاتو جھوٹ کا دیوانہ ہورہا ہے… کیوں اپنا اور سماج کا دشمن بنا ہوا ہے…اَدھرمی ہوگیا ہے… دھرم کو نشٹ کرنے پر تلا ہے… تمہارے پرکھوں نے تو اسی دھرم کو مان کر زندگی گزاری… ہندو مسلم کے بیچ اس وقت بھی تو میل جول تھا!

’’پتا جی آپ خواہ مخواہ پریشان ہوتے ہیں۔ آپ کا بڑھاپا ہے، آرام سے جیون بتائیے۔‘‘

’’ٹھیک کہتا ہے! ٹھیک ہی کہتا ہے تو۔ اب تو تو ہی میرا مالک ہے نا۔ میں نے تجھے ہر گندگی اور برے واتا ورن (ماحول) سے اس طرح بچا کر رکھا جس طرح مرغی اپنے بچوں کو چیل سے… تو غلط کرتا رہے اور میں دیکھتا رہوں اس لیے کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ ٹھیک ہی کہتا ہے بیٹا!‘‘

’’اب یہ زمانہ آپ والا نہیں۔ یہ سب نہ کروں تو کیسے جیوں گا؟‘‘ پرکاش نے باپ کو جواب دیا… مگر بوڑھا وہ تو فیصلہ کرچکا تھا کہ جو بھی ہو بیٹے سے نپٹ کر ہی رہے گا۔

بوڑھے نے کہا … تو اس کا مطلب ہے کہ جیون کی گاڑی کو چلانے کے لیے حرام اور حلال کا بھی خیال نہ کرے گا… میں تیری حرام کی کمائی پر جیون نہیں بتاسکتا…‘‘ بوڑھے باپ نے دو ٹوک الفاظ میں پھولتے دم کے ساتھ کہا۔ باپ بیٹوں کی توتو میں میں کی آواز گھر کی چہار دیواری پھاند کر باہر آرہی تھی۔

’’ارے پرکاش!… ارے پرکاش… کتنی دیر کردی؟ … بیٹھا بیٹھا تھک گیا … آخر انتظار کی بھی تو حد ہوتی ہے … کیا بکواس میں لگا ہوا ہے۔‘‘

صفدر نے پرکاش کو پکارتے ہوئے کہا۔ ’’ارے صفدر! کیا کروں؟ پتا جی ہم لوگوں کے کام کو ڈھونگ بتاتے ہیں… وہ تو مجھ کو اَدھرمی کہتے ہیں … وہ کہتے ہیں کہ میں دھرم کو نشٹ کررہا ہوں… بتاؤ تو آخر تمھیں انھیں سمجھاؤنا!‘‘

ارے پرکاش! میں انھیں کیا سمجھاؤں، ان بوڑھوں کا دماغ ہی چل گیا ہے۔… دیکھو نہ میرا بڈھا بھی مجھے بدچلن، ڈھونگی اور بے دین کہتا ہے … ہزار سمجھاؤ مانتا ہی نہیں۔ صفدر بھی پرکاش سے اپنے باپ کی برائی کرنے لگا۔

ارے صفدر… ارے صفدر … بیٹا سن تو… ذرا ادھر آ تو… آیا کاکا… فوراً آیا کاکا۔

صفدر اور پرکاش کے باپ میں بڑی گہری دوستی تھی۔ صفدر، پرکاش کے باپ گوبند سنگھ کو کاکا کہتا تھا۔

ارے صفدر تم لوگوں نے کیا جلسہ جلوس کرنا شروع کردیا ہے؟ … کیوں تم لوگ ادھرمی اور ناستک بن رہے ہو؟ گوبندسنگھ نے صفدر سے کہا۔

دھرم کو تم لوگ کیو ںبٹا لگا رہے ہو بیٹا؟… ایک تو دھرم کو مانتا نہیں اور الٹا اسے بدنام کرنے پر تلا ہے … یہ ہندو مسلمان کا جھگڑا دھرم کے کارن نہیں ہوتا … یہ تو ادھرمی لوگ کرواتے ہیں… دیکھو تو میں اور تمہارے پتا جی ایک ہی شہر میں رہتے ہیں۔ دونوں الگ الگ دھرم کو مانتے ہیں… مگر ہم دونوں کا میل جول تو سبھی جانتے ہیں۔

گوبند، صفدر سے بولتا رہا اور صفدر غور سے سنتا رہا۔ ہاں کاکا! آپ ٹھیک ہی کہتے ہیں … اچھا دیر ہورہی ہے چلتا ہوں۔

چل پرکاش، لوگ انتظار کررہے ہوں گے… دیکھو کاکا ٹھیک ہی کہتے ہیں … صفدر نے پرکاش سے کہا۔

ارے تو میں کہا ںکہتا ہوں کہ وہ غلط کہتے ہیں۔ پرکاش نے بھی حامی بھردی۔

پر نام حضور!… سلام سر! کئی آوازیں اپنے لیڈروں کو سلام کرنے کے لیے بیک وقت اٹھیں۔ جلسہ نزدیک تھا۔ تیاری زور وشور سے ہورہی تھی۔ روزانہ جلوس نکل رہے تھے ، کارنرس میٹنگیں ہورہی تھیں۔ چندے اکٹھے ہورہے تھے۔

شور تھا کہ فلاں آرہے ہیں…فلاں صاحب آرہے ہیں۔

شہر میں بڑی حد تک سرگرمی بھی پیدا ہوگئی۔ پھر دیکھتے دیکھتے وہ دن بھی آگیا جس کا پرچار مہینوں سے ہورہا تھا۔ جلسہ گاہ سج چکی تھی۔ اسٹیج بھی خوب پرکشش ہے۔ میدان میں کاغذ کی رنگ برنگی جھنڈیاں لہرارہی ہیں۔ دیکھتے دیکھتے جلسہ گاہ لوگوں سے بھر جاتی ہے اور اس طرح … تقریر کا سلسلہ شروع ہوجا تا ہے۔

صفدر میاں کھڑے ہوتے ہیں … ہاں بھائیو! … یہ ہم لوگوں کی خوش نصیبی ہے کہ آج ہم لوگوں کے درمیان بھارت کے دو عظیم رہنما شری… اور شری … موجود ہیں۔ قبل اس کے کہ میں اپنی باتیں شروع کروں زور دار نعرے لگائیے… مہاتما گاندھی … زندہ باد … قومی یکجہتی زندہ باد… ہاں تو بھائیو! اور بہنو! ہم لوگ اپ لوگوں کو بتائیں گے کہ ہم کیا چاہتے ہیں … ہمارے سامنے عظیم مقاصد ہیں… ہم چاہتے ہیں کہ آئے دن کے ہندومسلم جھگڑے مٹ جائیں… اس طرح کے جھگڑوں کو ختم ہونا ہی چاہیے۔ جب تک یہ جھگڑے ہوتے رہیں گے دیش کبھی ترقی نہیں کرے گا۔ مگر یہ جھگڑے … ان کے فساد مٹیں کیسے؟ … صرف کہنے سے تو نہیں مٹ سکتے… پہلے یہ دیکھئے کہ یہ جھگڑے اور فساد ہوتے ہیں کیوں؟

دیکھئے ان جھگڑوں کی اصل جڑ اور بنیادیں مذہب ہیں … الگ الگ مذہب کے ماننے والے آپس میں لڑتے بھڑتے ہیں … جھوٹ جھوٹ… بالکل جھوٹ… تم ادھرمی لوگ ایسا کرواتے ہو… پرکاش کا باپ گوبند بھرے مجمع میں کھڑا ہوکر چلایا… ساتھ میں صفدر کا باپ بھی تھا… پھر کیا تھا … بہت سی آوازیں اٹھیں… بوڑھا سچ کہتا ہے … بوڑھا سچ کہتا ہے۔

نہیں بوڑھا غلط کہتا ہے۔ صفدر بابو ٹھیک کہتے ہیں… دھرم ہی جھگڑے کی اصل جڑ ہے۔ دوسری طرف سے آواز آتی ہے اور دیکھتے دیکھتے سارا میدان ہنگاموں سے گونجنے لگتا ہے… بہت دیر کے بعد لوگ شانت ہوکر بیٹھتے ہیں …

اور اب پرکاش بابو اٹھے … ہاں تو دوستو! صحیح بات یہی ہے کہ الگ الگ دھرموں کو مٹا کر … تمام قوموں کی تفریق کو ختم کرکے … ایک قوم بنادینے سے ہی آپس میں میل جول باقی رہ سکتا ہے۔ بھارت جسے مہا دیش کے لیے قومی یکجہتی آوشیک(ضروری) ہے ، اسی میں ہمارا اور بھارت ورش کا کلیان ہے … یکساں سول کوڈ کا لاگو ہونا ضروری ہے… اس سے الگ الگ رہنے کی بھاؤنا ختم ہوگی … اور اس طرح بھارت کے واسی ایک ہوکر اور صرف بھارت واسی بن کر رہیں گے۔ اور اس کے بعد باہر سے آئے ہوئے لیڈروں نے بھی اپنا اپنا راگ الاپنا شروع کیا… اور پھر جلسہ ختم ہوا۔

بھائی کل کا جلسہ کیا خوب تھا… پرکاش اور صفدر نے کیا خوب کہا … ارے کیا خاک ٹھیک کہا … یہ لوگ بے ایمان ہیں۔ ان کا ایمان ہے نہ دھرم… چاپلوس اور موقع پرست ہیں۔ ان کے کالے کرتوتوں سے کون ہے جو واقف نہیں… ہوٹلوں اور چوراہوں پر لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے تھے۔ جتنے منہ اتنی باتیں… اور اس طرح کئی دنوںتک یہ بحث کا موضوع بنا رہا۔

آخر ہم لوگ اس طرح کب تک ملتے رہیں گے… دیکھو تم ٹھیک ہی کہتی ہو… مگر میرے لیے شادی ذرا ٹیڑھی کھیر ہے… میرے ماں باپ اور خاندان کے لوگ ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

کیوں نہیں کرنے دیں گے…کیا ہم لوگ کوئی غلط کام کریں گے… دیکھو! مجھ میں اتنی سکت کہاں کہ ماں باپ اور خاندان کے لوگوں کا مقابلہ کروں!

تو اس کا مطلب! تم مجھ کو دھوکا دیتے رہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ میں اب بھی دل سے چاہتا ہوں… میری دلی تمنا ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوجائیں … مگر…

دیکھو اگر مگر سے کام نہیں چلے گا… آخر اس میں رکاوٹ ہے کیا؟

دیکھو شوبھا! … تمہارا دھرم الگ ہے اور میرا …

دیکھو رحمت! میں دھرم پر وشواس نہیں کرتی … یہ سب پنڈتوں اورملاؤں کے ڈھکوسلے ہیں… تم ماڈرن ایج کے ہوکر بھی دھرم ورم کے جھنجھٹ میں پڑتے ہو… ہم لوگوں کو تو دھرم کے بندھنوں کو توڑ کر مثال قائم کرنی ہے۔ شوبھا تم ٹھیک کہتی ہو… میں بھی دھرم پر وشواس نہیں کرتا۔ نام کا ہی سہی مگر ہوں مسلمان … پیدا بھی مسلمان خاندان میں ہوا ہوں… خاندان کے لوگ کٹر مذہبی ہیں… ہمارے خاندان میں اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ رحمت نے شوبھا کو سمجھانے کی کوشش کی۔

رحمت چھوڑو!… ان پرانی باتوں کو … بغاوت کرو… بغاوت کا نام ہی جیون ہے۔ شوبھا نے کہا۔

مگر … کس سے بغاوت کروں… صرف فادر کی بات تو نہیں … خاندان ہے … سماج ہے… رحمت نے شوبھا کو سمجھایا۔

شوبھا پرکاش کی بیٹی اور رحمت صفدر کا بیٹا تھا۔ ایک ہی شہر کے رہنے والے تھے اور ایک ہی کالج میں زیر تعلیم تھے… دونوں کو ایک دوسرے سے عشق تھا… اور عشق بڑھ کر جنون ہوگیا تھا۔ اور اب شادی کی بات کرنے لگے تھے … تھوڑی دیر بعد شوبھا نے جھلائے ہوئے انداز میں کہا … رحمت اگر تم مجھے چاہتے ہو تو پھر ماں باپ … گھر… خاندان … اور پورے سماج سے دشمنی مول لینی ہوگی… میں لڑکی ہوکر ہمت کرسکتی ہوں اور تم … کائر …ڈرپوک… میرا بھی تو سماج ہے اور پھر بھرا پورا ہے …اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ تمہارے اور میرے پتا یکساں سول کوڈ کی باتیں کرتے ہیں … ہم لوگوں کی شادی سے مثال قائم ہوگی… ہمارے پتا جی اور تمہارے پتا بھی خوش ہوں گے۔

ہاں شوبھا ٹھیک کہتی ہو… ہم لوگوں کی شادی ہوگی… اور ضرور ہوگی۰

شوبھا! شوبھا!

جی پتا جی! جی پتا جی!

کیا سن رہا ہوں … تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ہے… تو رحمت کے بچے سے کیوں ملتی جلتی ہے… میں اس کمینہ کی جان لے لوں گا… وہ مجھے جانتا نہیں … تو میری سماج میں ناک کٹوائے گی… پرکاش نے شوبھا کو ڈانٹا۔

پتا جی ! یہ سچ ہے… میں رحمت سے پریم کرتی ہوں اور وہ مجھ سے … لوگوں کو بولنے دیجیے … ہم دونو ںکی شادی ہوجائے گی… شوبھا نے تقریباً بے شرم ہوکر صاف صاف باپ سے کہہ دیا۔

نہیں ایسا نہیں ہوسکتا… تمہیں اپناارادہ بدلنا ہوگا۔ تمہیں نہیں معلوم کہ ہم لوگ … ہیں اور وہ … یہ شادی نہیں ہوسکتی… پرکاش نے بیٹی سے کہا۔

پتا جی! … آخر اس میں حرج کیا ہے…ہم دونوں تو آدمی ہیں… ہم دونوں میں فرق ہی کیا ہے۔

شوبھا باپ سے ایک فلسفی کی طرح بحث کررہی تھی۔

بہت فرق ہے… تمہارا دھرم … اور … اس کا … پرکاش نے کہا۔

پتا جی یہ آپ کہتے ہیں!… آپ تو یکساں سول کوڈ کی بات کرتے ہیں … قومی یکجہتی پر بھاشن دیتے ہیں … شوبھا بولتی گئی اور یہاں تک کہ بولتے بولتے اس کی آواز رندھ گئی۔

… تڑاخ … تڑاخ… شوبھا کے خوبصورت گالوں پر پرکاش نے دو زور دار چانٹے جڑ دیے۔ منحوس منہ لگاتی ہے۔

ابا جان! آخر اس میں برائی کیا ہے انسانی حیثیت سے تو ہم انسان ہیں پھر کچھ اور… رحمت نے اپنے باپ کو جواب دیا… مگر ایسا نہیں ہوسکتا… یہ شادی کسی طرح ممکن نہیں …ہمارے خاندان میں ایسا کبھی نہیں ہوا … صفدر نے رحمت کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔

تو ابا جان ! آپ لوگوں کے نعرے … یکساں سول کوڈ… اور قومی یکجہتی … سب یونہی ہیں؟ رحمت نے باپ سے کہا۔

نکل جا یہاں سے… فوراً نکل جا۔ میں تیری شکل دیکھنا نہیں چاہتا… صفدر نے بیٹے کو ڈانٹا۔ رحمت گھر چھوڑآیا…

شوبھا بھی گھر چھوڑ کر ہوسٹل آگئی… صفدر میاں… صفدر میاں … پرکاش نے پکارا۔ کہو بھائی پرکاش کہو… کیسے آنا ہوا؟

سنو صفدر! اپنے لاڈلے کو سمجھاؤ … ورنہ اس کا انجام تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ … پرکاش آنکھیں لال پیلی کرکے بولتا رہا اور وہاں سے سیدھے گھر چلا آیا۔ صفدر کے ہزار روکنے پر بھی نہ رکا۔

دوچار دنوں کے بعد رحمت اور شوبھا نے کورٹ میر ج کرلیا…

ارے سنی رے ریکھا… راکھی نے ریکھا سے کہا۔

کیا…؟

ارے تم نہیں جانتیں شوبھا نے رحمت سے شادی کرلی۔ کمینہ رحمت کا بچہ…

اسے پرکاش کی بیٹی کے ساتھ ہی ایسا کرنا تھا۔ پورے شہر میں اس شادی کا چرچا تھا۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں … دیکھتے دیکھتے پورے شہر کی فضا گرم ہوگئی… لوگ ایک دوسرے کوشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے… کچھ لوگ آگ پر تیل ڈال رہے تھے … پھر کیا تھا… معاملہ بہت سنگین ہوگیا۔

رات کے دو بج رہے تھے … شہر قبرستان بنا ہوا تھا… لوگ اپنے گھروں میں بے خبر سو رہے تھے… کہ اچانک نعرہ لگا … بجرنگ بلی کی جئے … نعرہ تکبیر اللہ اکبر۰

اور دیکھتے ہی دیکھتے گھروں سے شعلے اٹھنے لگے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں