اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں ہر شعبہ زندگی کے لیے رہنمائی موجود ہے۔وہاں زندگی ایک ناقابلِ تقسیم اکائی ہے۔ عقائد، اخلاق، معیشت و معاشرت اور تہذیب و تمدن زندگی کے مختلف پہلو ہیں۔ اور سب پہلوؤں کو سنوارنے اور نکھارنے ہی سے پوری زندگی میں حسن، قرینہ اور شائستگی پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے دینِ اسلام نے زندگی کے معاشرتی خدوخال کو دلکش بنانے کا خاص اہتمام کیا ہے۔ معاشرت میں کھانے پینے کے آداب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور اسلام نے بھی ان معاشرتی آداب کو اپنی پوری اسکیم کا ایک ضروری حصہ قرار دیا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف ایک بزرگ نے یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے:
اَلاَکْلُ مِنَ الدِّیْنِ ۔ ’’کھانا پینا بھی دین میں داخل ہے۔‘‘
اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ اس پر قرآن نے روشنی ڈالی ہے۔
کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعَمَلُوْا صَالِحاً ’’ مومنو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔‘‘
غرض یہ ہے کہ ہمارا کھانا پینا حیوانات کی طرح آزادانہ نہیں ہے کہ جب چاہیں اور جس طرح چاہیں کھائیں پئیں، بلکہ اس پر کچھ پابندیاں اور قیود عائد ہوتی ہیں اور اس کے کچھ آداب و سنن اور طریق مقرر ہیں اس لیے کہ حیوانات جو کھاتے پیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ ان کی فطرتِ حیوانی کا تقاضا ہے اور ہمارا کھانا پینا علاوہ اس کے اس مقصد کے لیے بھی ہے کہ ہم اطاعتِ الٰہی کے لائق ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کھانے پینے میں ہم شریعت کے قواعد اور اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہیں تو اس پر ہمیں اللہ کی طرف سے اجر و صلہ بھی ملتا ہے۔ اگرچہ اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے جسمانی تقاضوں کو پورا کیا ہے اور کوئی مذہبی اور دینی خدمت انجام نہیں دی جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’انسان کو اس لقمہ پر بھی اجر ملتا ہے جو وہ اٹھا کے اپنے منہ میں ڈالتا ہے یا اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے۔‘‘
کھانے سے پہلیبعض آداب اور شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ وہ درج ذیل ہیں:
کھانا حلال و طیب اور پاکیزہ ہو
٭ کھانا حلال اور طیب ہو اور ایسے ذرائع سے حاصل نہ کیا گیا ہو جو شرعاً ممنوع ہیں۔ یا جن میں کوئی کراہت پائی جاتی ہے۔ اکلِ حلال کی اہمیت کس درجہ ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں قتلِ نفس سے روکا ہے وہاں اس کا آغاز اس طرح کیا ہے:
’’مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔‘‘
اس کے بعد فرمایا:
وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ۔ ’’اور اپنے درمیان قتل و فساد کی آگ نہ جلاؤ۔‘‘
اس کے یہ معنیٰ ہوئے کہ حرام خوری قتلِ نفس سے بھی زیادہ مجرمانہ فعل ہے۔
٭ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے چاہئیں کیونکہ کچھ پتہ نہیں کہ ان سے کیا کیا کام لیا گیا ہے یا کس کس نوع کی آلائشوں سے یہ آلودہ ہوں۔ لہٰذا پاکیزگی اور نظافت کا یہ تقاضا ہے کہ کھانے سے پہلے طہارت کی طرف سے اطمینان حاصل کرلیا جائے۔ آنحضرتؐ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’کھانے پینے سے پہلے ہاتھ دھو لینا فقر و افلاس کو دور کرتا ہے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھولینے سے جنون کا عارضہ لاحق نہیں ہوتا۔
٭ دستر خوان بجائے منبر اور چوکی کے زمین پر بچھایا جائے۔ حضرت انسؓ بن مالک کا کہنا ہے:
’’آنحضرتؐ نے نہ تو کبھی چوکی پر رکھ کر کھانا تناول فرمایا اور نہ تھال میں سجا کر۔‘‘
اس انداز کو آنحضرتؐ نے اس لیے پسند فرمایا کہ اس میں تواضع کی جھلک پائی جاتی ہے۔
٭بیٹھنے کا انداز: کھانے سے پہلے بیٹھنے کا آسان اور عمدہ سا انداز اختیار کرے اور پھر اس پر قائم رہے۔ آنحضرتؐ کا معمول یہ تھا کہ آپ کبھی تو اکڑوں بیٹھ کر کھانا تناول کرتے اور کبھی ایک زانو ہوکر اور بہر حال ایسی وضع اور انداز ہر گز اختیار نہ کرتے کہ جس میں کبرو غرور کے آثار پائے جائیں۔ چنانچہ آپؐ کا ارشاد ہے:
’’میں تو اللہ کا ایک غلام ہوں۔ اس لیے اسی طرح کھاتا ہوں جس طرح کہ ایک غلام کھاتا ہے اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جس طرح ایک غلام بیٹھتا ہے۔‘‘
ٹیک لگا کر کھانا پینا ممنوع ہے اور معدہ کے لیے مضر بھی ہے۔ ہاں اگر چبانے کی قسم کی کوئی چیز ہو تو لیٹے لیٹے بھی اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔
٭کھانے کا مقصد: کھانے کا مقصد یہ قرار دے کہ اس طرح جسم میں جو قوت پیدا ہوگی، اس کو اطاعتِ الٰہی میں صرف کروں گا۔ ناز و تنعم کو نصب العین نہ قرار دے۔ اہل حق کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ ابراہیم بن شعبان نے اسی بنا پر کہا ہے:
’’اسی برس سے میرا یہ معمول ہے کہ خواہشاتِ جسم کو پورا کرنے کے لیے کھانا نہیں کھایا۔‘‘
لیکن یہ غرض اس وقت پوری ہوتی ہے جب انسان اس کے ساتھ ساتھ تقلیل غذا کا بھی عادی ہو کیونکہ پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے عبادت میں وہ ذوق و نشاط پیدا نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا:
’’ابن آدم بطن کے فراغوں کو جو پُر کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی شر، نہیں اسے تو چند لقموں ہی پر قناعت کرنا چاہیے جو اس کی پشت کو سیدھا رکھنے میں مدد دیں اور اگر اتنا نہ کرسکے تو پھر ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے رہنے دے۔‘‘
اور یہ اس وقت ہوپائے گا جب شدید بھوک سے پہلے انسان کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے اور پھر ابھی سیر نہ ہوا ہو اور دسترخوان بڑھا دے۔ تقلیلِ غذا سے قناعت پیدا ہوگی اور طبیعت عبادت کے لیے تیار اور ہلکی پھلکی رہے گی۔ علاوہ ازیں اس کا بہت بڑا طبی فائدہ یہ ہے کہ انشاء اللہ اس کے بعد طبیب و معالج کی منت کشی کی بہت کم ضرورت رہے گی۔
٭تکلفات سے پرہیز: ماحضر پر اکتفا کرے اور تکلفات و تنعمات کا منتظر نہ ہو۔ حتیٰ کہ سرکہ اور چٹنی تک کی پروا نہ کرے کیونکہ کھانے کی جو مقدار اور نوعیت بھی جسم میں فی الجملہ قوت پیدا کرتی ہے اور انسان کی عبادت اور اطاعت کے قابل بنادیتی ہے، وہی بہت ہے۔ بلکہ ایسی غذا بجائے خود ایک خیر ہے کہ جس کی تحقیر جائز نہیں۔ یہی سبب ہے اگر کھانا موجود ہو اور نماز کا وقت بھی آگیا ہو تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ پہلے کھانا کھائے پھر نماز پڑھے بشرطیکہ نماز کے وقت میں گنجائش اور وسعت پائی جاتی ہو۔ حدیث میں ہے:
’’جب عشاء کا وقت ہوجائے اوررات کا کھانا بھی موجود ہو تو پہلے کھانا کھالو۔‘‘
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ اس رخصت سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے تھے یعنی بارہا ایسا ہوا کہ قرأت کی آواز ان کے کانوں میں پہنچی اور وہ نماز کے لیے اٹھے نہیں بلکہ کھانے میں مشغول رہے۔
لیکن یہ رخصت کوئی کلیہ نہیں ہے اگر کھانے کے لیے طبیعت میں رغبت نہ ہو اور نہ کھانے سے کوئی ضرر لاحق ہوتا ہو تو اس صورت میں تقدیم صلوٰۃ اولیٰ ہے۔ اور اگر تاخیر میں یہ خطرہ ہو کہ کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا، یا دل پر اس کا خیال بری طرح حاوی رہے گا اور نماز میں وہ سکون حاصل نہیں ہوسکے گا جو نماز کی جان ہے تو اس صورت میں تقدیم طعام ہی میں بھلائی ہے۔
٭تنہا خوری سے اجتناب: تنہا کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ اور لوگ بھی اس میں شریک ہوجائیں۔ جیسے بیوی بچے، دوست احباب وغیرہ۔ آنحضرت ؐ کا ارشاد ہے:
’’کھانا رکھا ہو تو اکٹھا کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں برکت عطا کرے گا۔‘‘
خود حضورؐ کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ عموماً تنہا نہیں کھاتے تھے۔ حدیث میں ہے:
’’بہترین طعام وہ ہے جس میں کئی کھانے والے شریک ہوں۔‘‘