کھانا کھانے سے متعلق نبوی ہدایات

سید جلال الدین عمری

کھانے کے سلسلے میں رسولؐ کی ہدایت یہ ہے کہ آدمی پیٹ زیادہ نہ بھرے، اس لیے کہ شکم پْری کے جہاں کئی نفسیاتی اور اخلاقی نقصانات ہیں، وہیں انسان کی صحت بھی اس سے خراب ہوجاتی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

’’آدمی نے پیٹ (کے برتن) سے برا کوئی برتن نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھ سکیں۔ اگر بہت ضرورت ہو تو ایک تہائی اس کے کھانے، ایک تہائی پینے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے ہونا چاہیے۔‘‘ (ترمذی)

معدے کا فساد بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ اس حدیث پر عمل ہو تومعدہ ٹھیک رہ سکتا ہے۔ یوں آدمی معدے کی خرابی سے جنم لینے والے امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے مومن کی یہ صفت بتائی: اس کی خوراک کم ہوتی ہے۔ پیٹ بھر لینا ان لوگوں کا شیوہ ہے جو دنیا کے بھوکے ہوتے ہیں اور جنھیں خدا اور آخرت پر یقین نہیں ہوتا۔ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت جابرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’مومن کا کھانا ایک آنت میں ہوتا ہے اور کافر سات آنتوں میں بھرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

یہ نتیجہ ہے مومن اور کافر کے مابین ذہنوں کے فرق کا! اسی وجہ سے دونوں کے اندازِ زیست میں زبردست تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس کا مظاہرہ زندگی کے دیگر معاملات کی طرح کھانے پینے میں بھی ہوتا ہے۔ ایک مومن سوچتا ہے ، خوردن برائے زیستن۔ بلکہ زیستن کو خدا کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگانے کا جذبہ اس کے اندر کار فرما ہوتا ہے۔ کافر ’’زیستن برائے خوردن‘‘ پر عمل کرتا ہے۔ وہ دنیا کی نعمتوں کو جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ سمیٹنا چاہتا ہے۔ اپنا پیٹ بھی اس طرح بھرتا چلا جاتا ہے کہ اسے نتائج تک کی فکر نہیں ہوتی۔

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:

’’مجھے نہیں معلوم کہ نبیؐ نے کبھی چھوٹے پیالہ میں کھانا کھایا ہو۔ آپ کے لیے کبھی پتلی اور نرم و ملائم روٹی تیار کی گئی ہو (اور ٓپ نے کھائی ہو) اور آپ نے کبھی (خوان) استعمال کیا ہو۔ حدیث کے راوی حضرت قتادہؓ سے سوال کیا گیا کہ پھر کس چیز میں آپ اور آپ کے صحابہ کھانا کھایا کرتے تھے؟ فرمایا، دسترخوان پر۔‘‘ (صحیح بخاری)

اس حدیث میں ’’سکرج‘‘ کا لفظ آیا ہے، جو چھوٹے پیالے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے عدم استعمال کی متعدد وجوہ بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے دور میں اس کا رواج نہ تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ اہل عرب اجتماعی طور پر اور مل جل کر ایک برتن میں کھانا کھانے کے عادی تھے۔ الگ الگ پیالوں میں کھانے کا رواج نہ تھا۔ ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ چھوٹے پیالے یا پیالیاں کھانے نہیں بلکہ ایسی ادویہ یا جوارشات کے لیے استعمال کی جاتی تھیں جو ہاضم ہوں۔ عرب اس قدر پیٹ بھر کے کھانے کے عادی ہی نہ تھے کہ انھیں دوا کی ضرورت پیش ا?تی۔

حدیث میں کہا گیا ہے کہ آپ نے کبھی ’خوان‘ استعمال نہیں فرمایا۔ ’خوان‘ اب ہر طرح کا دستر خوان کہلاتا ہے لیکن یہاں ایک خاص قسم کے ’خوان‘ کا ذکر ہے۔ اس کی شکل یہ تھی کہ تانبے کے بڑے طباق یا سینی کو تانبے ہی کی چوکی پر جڑ دیا جاتا۔ اس پر پیالے بنے ہوتے تاکہ انواع و اقسام کے کھانے نکالے جا سکیں۔ یہ کافی بھاری ہوتا تھا، اسے ایک سے دو آدمی اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے تھے۔

اس طرح کے خوان دنیا دار اور عیش پرست اصحاب ثروت استعمال کرتے۔ آپؐ اور صحابہ جس طرح کی زندگی گزار رہے تھے، اس میں ان کی گنجائش نہ تھی۔ راوی حدیث، قتادہؓ کہتے ہیں کہ وہ کھانے کے لیے ’سفرہ‘ استعمال کرتے۔ ’سفرہ‘ عام دستر خوان کو کہا جاتا ہے۔ یہ بالعموم چمڑے کا بنا ہوتا ہے۔ اسے فرش پر بچھا کر کھانا کھایا جاتا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو رسول اللہؐ کے بعد شروع ہوئی، اسے بدعت نہیں کہا جاتا۔ بلکہ بدعت وہ ہے جو سنت ثابتہ کے خلاف ہو اور جو کسی امر شرعی کو ختم کر دے، جب کہ اس کی علت موجود ہو۔ بعض اوقات تو اسباب کے بدلنے پر نئی چیزیں ایجاد کرنا پڑتی ہیں۔ ماندہ صرف اس لیے ہے کہ کھانے کو ذرا اونچا رکھا جائے تاکہ کھانے میں آسانی ہو۔ اس طرح کی چیزوں میں کوئی کراہت نہیں۔ اسی سے میز کرسی پر بھی کھانا کھانے کا جواز نکلتا ہے۔

حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے دست مبارک میں بکری کا شانہ تھا۔ آپ اسے چھری سے کاٹ کر تناول فرما رہے تھے کہ اتنے میں اذان ہو گئی۔ آپ نے چھری رکھ دی اور نماز کے لیے تیار ہو گئے۔ (صحیح بخاری)

اس حدیث کے ذیل میں امام نوویؒ فرماتے ہیں ’’اس میں گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھانے کا جواز ہے۔ گوشت سخت ہو یا اس کا ٹکڑا بڑا ہو تو اس کی ضرورت پیش ا?تی ہے۔ لیکن علما نے کہا کہ بلاوجہ چھری کا استعمال ناپسندیدہ ہے۔

امام بغوی فرماتے ہیں: ’’اہلِ علم نے اس بات کو پسندیدہ قرار دیا ہے کہ گوشت نوچ کر کھایا جائے۔ اس میں تواضع اور کبر سے اجتناب اور دوری ہے۔ چھری سے کاٹ کر کھانا مباح ہے۔‘‘

علامہ ابن حزم کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھانا پسندیدہ ہے۔ اسی طرح چھری سے کاٹ کر روٹی کھانا بھی ناپسندیدہ نہیں۔ کیونکہ اس سلسلے میں کوئی صریح ممانعت نہیں آئی۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ تبوک میں رسول اللہؐ کی خدمت میں پنیر پیش کیا گیا۔ آپ نے چھری طلب فرمائی اور اللہ کا نام لے کر اسے کاٹا۔ (ابو دائود)

گوشت کو دانتوں سے نوچ کر کھائیے

کھانا ہاتھ سے کھانا اور یوں کہ زیادہ سے زیادہ لعاب دہن اس کے ساتھ پیٹ میں پہنچے، یہ لعاب ہضم میں معاون بنتا ہے۔احادیث میں اس کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ حضرت صفوان بن امیہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:

’’گوشت کو دانتوں سے نوچ کر کھائو اس لیے کہ یہ زیادہ لذیذ اور ہضم میں معاون ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: ’’میں رسول اللہؐ کے ساتھ کھانے میں شریک تھا۔ اپنے ہاتھ سے گوشت کو ہڈی سے الگ کر کے کھا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا ’’ہڈی کو اپنے منہ سے قریب کرو اور دانتوں سے گوشت نوچ کر کھائو۔‘‘ (ابو دائود)

اس امر کی حکمت واضح ہے۔ گوشت کو ہڈی سے دانتوں کے ذریعے آسانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گوشت نوچ کر کھانے سے دانتوں کا عمل بڑھتا اور لعاب دہن زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ نوک زبان ہی لذت محسوس کرنے لگتی ہے۔

کھانا ضائع نہ کیجیے

کئی لوگوں کے دستر خوان پر کھانا بہت ضائع ہوتا ہے۔ اسے شاید بڑائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ کھانا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اسے کسی قیمت ضائع نہ کیجیے۔ اس دنیا میں جہاں بے شمار انسان دانے دانے کے محتاج ہیں اور بھوکوں مر رہے ہیں، وہاں یہ کتنی بڑی نادانی اور ناسپاسی ہو گی کہ جن لوگوں کو اللہ نے آسودگی عطا کی ہے، وہ اسے ضائع کر دیں۔

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کھانے کی قدر کیجیے، کھاتے وقت روٹی کا ایک ٹکڑا اور گوشت کی کوئی بوٹی دستر خوان سے گر جائے تو اسے بھی نہ پھینکیے بلکہ صاف کر کے استعمال کر لیں۔ برتن میں کھانا ادھر اْدھر نہ چھوڑیے بلکہ اسے چاروں طرف سے صاف کر لیا جائے۔ یہاں تک کہا گیا کہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ دھونے سے پہلے انگلیوں میں شوربا، چاول یا اسی نوع کی اور کوئی چیز لگی ہو تو انھیں خوب چوس اور چاٹ لیں۔ اس سلسلے میں بعض روایات پیش کی گئی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی شخص کھائے تو اپنا ہاتھ چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے (تاکہ وہ صاف ہو جائے)۔‘‘ (صحیح بخاری)

انگلیوں کو چٹانے کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی آدمی قریب ہو، اسے اپنی جھوٹی انگلی چٹوانے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ دوسرے کو اپنی جھوٹی انگلی اس وقت چٹائے جب اس سے قلبی تعلق ہو۔ جیسے اپنی اولاد یا بیوی یا کوئی ایسا فرد جو عقیدت اور محبت رکھتا ہو یا جس سے غیر معمولی بے تکلفی ہو اور جو اسے ناپسند نہ کرے۔

حضرت انسؓ اس معاملے میں رسولؐ کے مبارک عمل اور آپ کی ہدایت کا اس طرح ذکر کرتے ہیں:

’’رسول اللہؐ کھانا تناول فرماتے تو اپنی تینوں انگلیوں کو چوس کر صاف کر لیتے۔ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اس کی گندگی صاف کرے اور اسے کھا لے۔ شیطان کے لیے اسے نہ چھوڑے۔ آپ نے ہمیں حکم دیا کہ کھانے کے برتن کو اچھی طرح صاف کریں تاکہ اس میں کوئی چیز نہ لگی رہے۔ آپ نے فرمایا، تم نہیں جانتے کہ تمھارے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔‘‘ (مسلم)

لیکن امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ جو لقمہ گر جائے، اسے صاف کر کے استعمال کرنا مستحب ہے۔ لیکن اس پر عمل اسی وقت ہو گا جب جگہ پاک ہو۔ اگر جگہ ناپاک یا نجس ہے تو لقمہ بھی ناپاک ہو جائے گا۔ اگر اسے دھویا جا سکتا ہو تو ضرور دھو لیا جائے۔ اگر ممکن نہ ہو تو کسی حیوان کو کھلا دیجیے۔ شیطان کی غذا نہ بننے دیں۔

جو لقمہ ہاتھ سے گر جائے اسے اٹھا کر کھانا آج کی تہذیب میں سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنا نہیں جانتے وہ پہلے بھی اسے معیوب ہی سمجھتے تھے۔ لیکن رسولؐ نے صحابہ کرامؓ میں سادگی، خدا ترسی اور اس کی نعمتوں کی قدر شناسی کا جو پاکیزہ جذبہ پیدا کیا، اس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے۔

حضرت معقل بن یسارؓ کھانا کھا رہے تھے۔ ہاتھ سے ایک لقمہ گر پڑا۔ انھوں نے اسے اٹھایا، صاف کیا اور کھا لیا۔ کچھ دہقان وہاں موجود تھے۔ وہ ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کرنے لگے۔ حضرت معقل بن یسارؓ سے بعض لوگوں نے کہا ’’اللہ امیر (غالباً وہ اس وقت بصرہ کے امیر تھے) کا بھلا کرے، یہ دہقان اس بات پر مسکرا رہے ہیں کہ کھانا آپ کے سامنے موجود ہے، کوئی کمی نہیں پھر بھی آپ نے ہاتھ سے جو لقمہ گرا اسے اٹھا کر کھا لیا۔‘‘

انھوں نے جواب دیا کہ ان عجمیوں کی وجہ سے میں رسول اللہؐ کا ارشاد نہیں چھوڑ سکتا۔ ہم میں سے کسی کا لقمہ گر جاتا تو آپ حکم دیتے کہ اسے اٹھائے اور صاف کر کے کھا لے۔شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ (ابن ماجہ)

رسول اللہؐ کے اس ارشاد میں بڑی معنویت ہے کہ شیطان کے لیے کھانا نہ چھوڑا جائے۔ برتن میں یا دستر خوان پر اس طرح کھانا چھوڑ دینا کہ وہ کسی کے کام نہ آسکے یا صاف ستھرے دستر خوان پر بھی کوئی لقمہ گر جائے تو اسے ہاتھ نہ لگانا، کبروغرور کی علامت ہے۔ اس ناپاک جذبے سے انسان شیطان کو اپنے عمل میں شریک کر لیتا ہے۔ اللہ کے بندے خاکسار اور متواضع ہوتے ہیں، وہ متکبروں کے طور طریقے نہیں اختیار کرتے۔

یہ بات بھی صحیح ہے کہ ہمیں نہیں معلوم، ہماری غذا کے کس حصے میں خیروبرکت ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ غذا کا کتنا اور کون سا حصہ جزوبدن بنے گا، کون سا حصہ ہماری دنیا اور آخرت کے لیے مفید ثابت ہو گا؟ یہ سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو غذا اللہ نے ہمیں عطا کی ہے، اس کی قدر کریں۔ اس کے کسی حصے کو ضائع نہ ہونے دیں۔ اس کے ایک ایک جزو سے برکت کی توقع رکھیں۔

اللہ کا شکر

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آدمی اللہ کا شکر ادا کرے۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ اس بندہ سے خوش ہوتا ہے جو کسی بھی وقت کھائے تو اس پر اس کی حمد و ثنا کرے اور جب کوئی چیز پئے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے۔‘‘ (مسلم)

اس سلسلے میں دعائیں بھی آئی ہیں۔ ان کی اس پہلو سے بڑی اہمیت ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نکلی ہیں۔ یہ دعائیں بتاتی ہیں کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور اس کی دی ہوئی غذائوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد شکر کے موزوں ترین الفاظ کیا ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ جب کھانے سے فارغ ہوتے تو یوں دعا فرماتے:

ترجمہ:’’سب تعریف اور شکر ہے اللہ کا، بہت شکر، پاکیزہ شکر، اور ایسا شکر کہ اس میں برکت ہوتی رہے۔ اس کے انعامات کو رد نہیں کیا جا سکتا اور نہ چھوڑا جا سکتا ہے۔ ان سے آدمی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمارا رب ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ کوئی چیز تناول یا نوش فرماتے تو دعا فرماتے:

’’سب تعریف اور شکر ہے خدا کا جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں ان لوگوں میں داخل فرمایا جو مسلم اور اس کے فرماں بردار ہیں۔‘‘(ابو دائود)

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’ جو شخص کھانا کھائے اور کہے شکر ہے خدا کا جس نے میری کسی تدبیر اور طاقت کے بغیر مجھے یہ چیز کھلائی اور اس رزق سے نوازا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘ (ترمذی)

کھانے کے بعد منہ اور ہاتھ صاف کیجیے

کھانے کے بعد منہ اور ہاتھ کی صفائی ضروری ہے۔ ہاتھ صاف نہ ہو تو اس پر گندگی جمع ہو گی اور جلد متاثر ہو سکتی ہے۔ صفائی میں بے احتیاطی سے دانتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسلام ان سب باتوں کو اہمیت دیتا ہے۔ خاص طور پر رات کو کھانے کے بعد صفائی کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

’’بے شک شیطان بڑا حساس اور چاٹنے والا ہے۔ جس شخص کے ہاتھ میں رات کو سوتے وقت گوشت کی بو موجود ہو اور اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔‘‘ (ابو دائود)

اس میں کھانے کے بعد ہاتھ صاف کیے بغیر سونے سے منع کیا گیا ہے۔ ممکنہ نقصان کی طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ کھانے کی بو ہاتھ میں رہ جائے تو کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ سکتا ہے۔ ایسی کوئی تکلیف پہنچے تو آدمی کو اپنے پر ہی ملامت کرنی چاہیے۔ یہ سراسر اسی کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ ہاتھ پر میل اور چکنائی کے جمع رہنے سے جراثیم پرورش پاتے اور ان سے جلدی امراض کا خطرہ رہتا ہے۔

رات کو منہ ہاتھ دھو کر دانت صاف کر کے سونا طبی لحاظ سے کئی پہلوئوں سے مفید ہے۔ یہ شریعت کے منشا کے بھی عین مطابق ہے۔ ان احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس کی بہتر اور جامع شکل وضو ہے۔ حدیث میں اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ آدمی وضو کے ساتھ اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آنکھیں موند لے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146