صاف لگ رہا تھا کہ بزرگوار ذرا دیر کے مہمان ہیں۔ ان کی آنکھیں بند اور منہ کھلا ہوا تھا۔ پٹیوں، نلکیوں اور ٹیوبوں میں جکڑا ہوا لکڑی جیسا جسم بے سدھ تھا۔ آس پاس بیوی بچے، عزیز رشتہ دار، دوست احباب سب ہی تھے۔ کسی کی آنکھوں میں آنسو، کسی کے ہاتھ میں تسبیح، کوئی گڑگڑا رہا تھا، کوئی رو رہا تھا، کسی کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے۔ ایک عالم تھا اضطراب کا۔ قیامت تھی، جو آتی دکھائی دے رہی تھی۔ نزدیک … اور نزدیک … اور بالکل ہی نزدیک پہنچ گئی تھی۔ ڈاکٹر موجود، جان چھڑکنے والے نزدیک، دوائیںدستیاب، دعائیں حاضر، مگر اس بوڑھے بدن سے جان تھی کہ نکلی جا رہی تھی …منظر برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا … آنسوؤں، سسکیوں، گریہ و زاری میں لمحے بھر کو خیال آیا اور گویا چھوکر نکل گیا کہ۔۔۔ حضرت نے عمر گزار لی، مدت پوری کرلی۔۔۔ بچپن بھی دیکھا، لڑکپن بھی، جوانی بھی ان پر خوب آئی۔ زندگی کے سارے ہی رنگ، ذائقے دیکھے، چکھے ۔۔۔ بچے، بچوں کے بچے بھی دیکھ لیے۔ حج، عمرہ، عبادت، ریاضت، نوکری کاروبار سب کچھ کرلیا۔۔۔ اور کیا رہ گیا کرنے کو؟ بچا کیا ہے دیکھنے کو؟ ۸۸ برس بڑی عمر ہوتی ہے۔۔۔ ہر ابتدا کا اختتام طے ہے۔ آج نہیں تو کل جانا ہی ہے۔۔۔ پھر کیوں ہلکان ہوتے ہیں؟ کیوں مرنے والے کے ساتھ مرے چلے جا رہے ہیں؟ ابھی دنیا باقی ہے، اوروں کی زندگی تو سلامت ہے،بہت کچھ دیکھنا ہے، بہت کچھ کرنا ہے۔
بہت اچھا ہوتا کہ ان باتوں کا، خیالات کا کھٹ سے کوئی جواب آتا۔ کوئی آگے بڑھ کر تائید کرتا اس خیال کی، سوچ کی، مگر حضرت…!!! تسلی تو دور کی بات ہے، الٹا جی نے شرمندہ کیا اور خوب ملامت بھی کہ احمق … بستر پر لیٹا ہوا انسان ہے۔ کوئی ’’کھلونا‘‘ نہیں۔ اس کے ارد گرد کھڑے سارے افراد تماشائی نہیں، اس کے رشتہ دار ہیں۔ کسی سے شوہر کا رشتہ، کسی سے باپ کا، کسی سے بھائی کا رشتہ، کسی کا ماموں، چاچا، تایا، تو کسی سے دوستی کا رشتہ ہے… اور ان سب کو ’’محبت کے رشتے‘‘ نے اس شخص سے جوڑ رکھا ہے۔ انسانی رشتے کوئی کھلونے تھوڑا ہی ہوتے ہیں کہ ہاتھ سے چھوٹے اور ٹوٹے … کوئی ڈنر سیٹ ہیں کیا جو پرانا ہوگیا تو بازار سے خرید کر لے آئے؟ یہ کوئی ڈرائنگ روم میں لگی ’’پینٹنگ‘‘ ہیں کیا جنہیں جھاڑا پونچھا، اور چل دیے… ناں … ناں! انسان سے تو انسان کا بڑا پکاّ رشتہ ہوتا ہے۔ جو ایک دفعہ قائم ہو جائے، ایک مرتبہ بن جائے تو پھر مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا۔ ہزار خراشیں آئیں مگر ٹوٹتا نہیں ہے… کیوں؟ اس لیے کہ ان رشتوں کو اللہ نے ایسا ہی بنایا ہے… یہ ہوتے ہی ایسے ہیں … دکھ سکھ، دھوپ چھاؤں سب سے گزرتے ہیں، مگر یہ رشتے ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں …لیکن ایسا لگتا ہے یہ باتیں صرف کہنے کی حد تک ہیں …دل کو بہلانے کی ہیں۔ فقط خوش کرنے کے لیے ہیں۔ ورنہ حقیقت اور صورتحال تو کچھ اور ہی ہے۔
یہ ذرا پرانی بات ہے۔ ابھی ماؤں کے پاس کافی وقت تھا اور باپوں کے پاس فرصت تھی گھر کے لیے، بچوں کے لیے۔ بچے کی ذات ان کے لیے سب کچھ تھی۔ ذرا سی رونے کی آواز آئی… بچے کو چمکارا، پچکارا، گود میں لیا، گلے سے لگایا، پیار کیا، لوری سنائی، تھوڑا سا جھلایا، تھپکی دی۔ بچے کا رونا یہ گیا وہ گیا۔ ہونٹوں پر ہنسی، طبیعت میں افسوس اطمینان آگیا۔ زخم جسم پر لگا ہو یا دل پر…ذرا سی توجہ، تھوڑی سی دیکھ بھال، معمولی سی دل جوئی سارے زخموں کوٹھیک کردیتی تھی… ایسا برسوں ہوتا رہا اور وقت گزرتا رہا۔ پھر انسان کی زندگی میں تفریح کے لیے، دل بستگی کے لیے، لطف کے لیے ’’کھلونے‘‘ آگئے۔ ماں باپ بھی آخر انسان تھے۔ اب ان کی زندگی میں فرصت ذرا کم ہونے لگی۔ ان کے اور بچے کے درمیان پیدا ہونے والے کھلونے آنا شروع ہوگئے۔ ایسا ہی ہوتا ہے، بالکل ایسا ہی… ابتدا میں ہر نئی چیز اجنبی اجنبی لگتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ انسان عادی ہو جاتا ہے، ایڈجسٹ ہو جاتا ہے، رفتہ رفتہ پچھلی باتوں کو بھولنے لگتا ہے۔ بچے تو پھر بچے ہوتے ہیں، کیا کرتے؟ سکون، خوشی، دل جوئی کے لیے ماں باپ کی توجہ کی جگہ کھلونے ملنے پر کتنا روتے؟ کب تک روتے؟ دھیرے دھیرے وہ کھلونوں کے عادی ہوگئے۔ ان کے ساتھ گزارا کرنے پر سمجھوتا کرلیا۔ ان کے دل نے بھی کھلونوں کو قبول کرلیا اور دماغ نے بھی۔ مگر یہ مٹی کے تھے۔ کھیلنے کے دوران ٹوٹ جانا ایک بڑا ’’مسئلہ‘‘ تھا۔ پھر یہ بھی تھا کہ اب بچوں کا دل بھی ان سے بھر سا گیا تھا۔ کھلونے تو کھلونے ہی ہوتے ہیں ناں! انسان نے پھر سوچنا شروع کیا کہ کون سے کھلونے ہوں جو ٹوٹتے نہ ہوں، پہلے کے مقابلے میں ذرا پائیدار ہوں، دیر تک چلیں۔ دماغ نے راہ سجھائی۔ اب مٹی کی جگہ لکڑی کے کھلونوں نے لے لی۔ یہ بچوں کے لیے نئے تھے۔ بچوں نے ان کے ساتھ دل لگایا اور لگے کھیلنے۔ ابتدا میں سب خیریت رہی۔ کچھ عرصے بعد یہ کھلونے بھی ٹوٹنے لگے۔ اب بچے بھی ذرا سمجھ دار ہونے لگے۔ ماڈرن ہونے لگے۔ چیزوں کی سوجھ بوجھ ان میں آنے لگی۔ کھلونوں کی حقیقت بھی ان پر کھلنے لگی۔ اس لیے اکتانے لگے۔ ادھر انسان کے پاس فرصت اور کم، مصروفیت مزید بڑھنے لگی۔ اسے بچوں کے کھلونوں کے انتخاب سے الجھن ہونے لگی۔ کوفت محسوس ہونے لگی۔ اس کے پاس وقت کہاںتھا کہ وہ بچوں کے اس ’’چھوٹے مسئلے‘‘ کے لیے دماغ پر زور ڈالے۔ کوئی حل تلاش کرے اور اس کا انتظام کرے۔ مگر کیا کرتا، کھلونوں کی ضرورت تو باقی تھی۔
وقت مزید آگے سرکا۔ انسان نے اور ترقی کی۔ زندگی مزید مصروف ہوگئی اور ماڈرن بھی۔ بچے اب بچے نہیں رہے، کچھ خود بڑے ہوگئے، کچھ کو حالات نے بڑا کر دیا۔ بچپن کی اور چیزیں تو شاید ٹھیک سے یاد نہیں رہیں۔ کھلونوں سے حاصل ہونے والا لطف، تفریح، مزہ بہرحال وہ بھولے نہیں تھے۔ ان کے دل و دماغ میں بیٹھ چکا تھا۔ باقی سب ٹھیک تھا، بس ایک مسئلہ آڑے آرہا تھا۔ ان کی عمر کے مطابق، ذوق اور پسند کے لحاظ سے کھلونے دستیاب نہیں تھے۔ کہاں سے ملتے؟ کیسے ملتے؟ کوئی اس سائز کے کھلونے بنا نہیں رہا تھا جو ہاتھوں میں آنے کے بجائے بازوؤں میں سما سکیں… الجھن بڑھتی جا رہی تھی کیا کریں؟ کیسے کریں؟ زندگی بھی بچپن، لڑکپن سے ہوتے ہوئے جوانی کی دہلیز پر آگئی تھی۔ عادتیں بھی ذرا بدل گئی تھیں۔ سوچ و خیالات بدل گئے تھے۔ ضرورتیں بھی بدل گئیں۔ کھلونوں سے کھیلنے میں پتا ہی نہیں چلا کہ یہ سب کچھ کب ہوا؟ یہ حل کس نے ڈھونڈا؟ سوچ کس نے دی؟ ترکیب کس نے سکھائی؟ معلوم نہیں۔ مگر صاحب!! جو بھی تھا کمال تھا کہ اتنی خوبصورتی سے ایسی مہارت سے، ایسی ہوشیاری سے، نہایت سلیقے سے دل بہلانے کے لیے، تفریح حاصل کرنے کے لیے، لطف لینے کے لیے، مزے کے لیے، کھلونوں کی جگہ انسان کو ’’کھلونا‘‘ بنا دیا، پھر انہیں بڑی عمدگی سے قریبی انسانی رشتوں میں متعارف کرا دیا۔ اب زندگی کے نئے رنگ تھے، نئے ڈھنگ تھے۔۔۔ انسان، انسان سے کھیلنے لگا۔ شوہر بیوی کا رشتہ جو کبھی مقدس، معتبر، محترم، محبوب اور مضبوط ہوتا تھا، اب برسوں بعد اس نے ایک نئی شکل اختیار کرلی اور فقط کھلونا بن کر رہ گیا۔
اب کھلونے ہیں اور کھیل۔۔۔ جب اس سے دل بھر جاتا ہے، طبیعت اکتا جاتی ہے تو ۔۔۔کھلونا توڑ دیا جاتا ہے یا چھوڑ دیا جاتا ہے، اور نئے کھلونے کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ معلوم نہیں یہ کھیل کب ختم ہوگا؟lll