حالیہ دنوں میں فلمی دنیا کی تین خواتین کے بارے میں عبرتناک خبریں شائع ہوئیں۔ اسٹاک ہوم کی گریٹا گاربو ۸۵ سال کی عمر میں ۱۹۹۰ میں انتقال کرگئی، اس کے بعض خطوط کا پتہ چلا ہے۔ روزنامہ دی ہندو نے اس خبر پراس طرح سرخی لگائی ’’گاربو کی مایوسی اور بے صلہ محبت کی داستان‘‘ ’’نجی خطوط نے گاربو کی تباہ زندگی کے بارے میں تازہ اور عبرتناک حقائق کاانکشاف کیا۔‘‘
دوسری خبر یہ ہے کہ ۴۶ سالہ میڈونا نے اپنی کتاب مکمل کی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے ’’دولت زندگی میں اصلی خوشیاں نہیں خرید سکتی۔‘‘ میڈونا نے بھر پور عریاں کیریر کے بعد روحانیت کی طرف رجوع کرلیا ہے اور یہودیت سے وابستہ ’’قباّلہ‘‘ فرقہ میں شامل ہوگئی ہے۔ میڈونا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’کیتھولک دنیا نے کبھی میرے سوال کا جواب نہیں دیاکہ زندگی کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟‘‘
تیسری خبر ہندوستان کی سابق اداکارہ کرشمہ کپور کی ہے۔ ایک بچی کی پیدائش کے بعد بزنس مین شوہر سنجے کپور اور کرشمہ کپور میں علیحدگی ہوگئی ہے۔
یہ نئی خبریں نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی فلمی یا اباحیت پسند خواتین کے بارے میں ایسی ہی خبریں آتی رہی ہیں۔ یہ خبریں ایک بار پھر لوگو ںکو خبردار کررہی ہیں کہ فلمی دنیا اور اس کی زندگی اوراس کا فلسفہ حقیقی دنیا سے بہت دور ہے۔ اگر اس کلچر کو اختیار کرکے خود اداکارائیں خوش نہیں ہیں تو یہ کلچر باقی دنیا کو خوش کیسے رکھ سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فلمی دنیا کا طرزِ زندگی معیار مانا جاتا ہے۔ صحافتی ذرائع اس مصنوعی دنیا کو عوام میں بیچ رہے ہیں۔ لباس اور کھانا پینا ہی کیا، گفتگو چال چلن تک اس کے معیار پر بنانا قابل فخر ہوگیا ہے۔ ’’گناہ‘‘ کا تصور مٹا دیا گیاہے۔ انسانی قدروں میں جن حرکتوں کو جرائم میں شامل کیا جاتا ہے فلمی دنیا ان جرائم کو فیشن آف لائف بتار ہی ہے۔ موجودہ طرز زندگی لذت پرست زندگی ہے۔ تعلیم ،روزگار،تجارت اورمصنوعات کی معمولی معمولی باتیں بھی اسی فلسفہ سے حاصل کی جاتی ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے اگر یہ اور یہ چیز نکال دی جائے تو باقی حصہ پاک و صاف ہے۔ بلکہ پورا نظام زندگی ہی غیر انسانی اور غیر فطری بنیادوں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس صورت حال پر ساغر نظامی کے الفاظ یاد آتے ہیں:
خندہ جز شورش آغوش بلا کچھ بھی نہیں!
نغمہ جز ماتم تابوت صدا کچھ بھی نہیں!
جگنووں کا یہ چراغاں ہے شراروں کا فریب
لالہ و گل کا تبسم سے بہاروں کا فریب!
کھل کھلاتے ہوئے چہروں پہ نہ جا جان بہار
اس مصنوعی دنیا میں استحصال کا سب سے بڑا نشانہ عورت ہی ہے۔ یہ تین مثالیں ہی نہیں ایسی سیکڑوں مثالیں آچکی ہیں۔ پردہ سیمیں پر جو چہرے آج خوش نظر آرہے ہیں، ان کی ذاتی زندگی فطری کرب سے بھری ہے۔ اسکول کالج کی بیشتر طالبات اس طرز زندگی کو چھونے کے لیے سخت مقابلہ کررہی ہیں۔ خواتین کمیشن، تنظیمیں اور دانشور پریشان ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم کا سیلاب کیوں آیا ہے۔ واویلا مچانے والوں کو خود احتسابی کی فرصت نہیں۔ لوگوں کی توجہ بھٹکانے کے لیے مسلم عورتوں کی حالت زار، عمرانہ، گڑیا اور اب ثانیہ مرزا کے ایشو پر گرما گرم بحث کرائی جارہی ہے۔
اس صورتحال میں مسلم امت کی ماؤں اور بیٹیوں کا رویہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ پچھلے مہینے ہندوستان ٹائمس نے ایک خصوصی فیچر شائع کی ہے’’Being a Muslim Women in India ‘‘اس رپورٹ میں ’’قابل تقلید‘‘ مسلم لڑکیوں کے کارنامے اور ان کے خیالات معلوم کیے گئے تھے۔ ریڈیو جوکی، ماڈلس اور سول سروسز کی ایک لڑکی کا انٹرویو شامل تھا۔ سب کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام ایک آزاد مذہب ہے، ان کا دین ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔ لیکن کچھ ملا مولوی اس کی من مانی تشریح کرتے ہیں ہم انھیں نہیں مانتے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم طالبات کا ایک اہم حصہ کس کی گرفت میں ہے۔
دوسری طرف اسلام پسند خواتین کا حال خود ان کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن فی الحال وہ ہندوستانی معاشرے میں اصلاح اور دعوت کی مضبوط آواز بننے سے کوسوں دور ہیں۔ علمی بحثوں میں اسلام پسند خواتین کے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ جو لوگ زندگی کے صحیح راستے اور معاشرے میں خواتین کی حیثیت سے واقف ہیں، عملی جدوجہد میں ابھی تک ان کا انتظار جاری ہے۔بقول نعیم صدیقی کیا عذر تراشو گی آخر:
جب حشر میں پوچھا جائے گا
کیا اپنے قویٰ سے کام لیا
جب کفر سے دین کی ٹکر تھی
تو تم نے کس کا ساتھ دیا
تھا پاس خزانہ قوت کا
وہ کس مقصد پر صرف کیا
عمیر انس