کھوکھلے الفاظ

انور خان

بوڑھے کو پہلے میں نے تب دیکھا جب ساحل پر لوگ ابھی آنے شروع نہیں ہوئے تھے۔ میں نے سوچا سمندر کے کنارے یونہی تفریح کے لیے آیا ہوگا اور بیٹھا سمندر کی لہریں گن رہا ہے۔ لیکن جب ساحل لوگوں سے پٹ گیا اور جلسہ شروع ہوا تو میں نے دیکھا وہ سب سے آگے کی صف میں بیٹھا ہوا ہے۔

اسٹیج تیار کرنااور اس کی آرائش، کرسیوں اور مائیکروفون کا بندوبست میرا روزگار ہے۔ یہاں جتنے جلسے ہوتے ہیں ان کا انتظام میں ہی کرتا ہوں۔ حالانکہ سمندر کے کنارے کرسیاں لگانا میرے نزدیک مہمل اور غیر اخلاقی فعل ہے۔ سمندر اورانسان کا رشتہ ایسا مقدس اور پراسرار رشتہ ہے جسے ہم کبھی پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔

ساحل اتنا وسیع ہے کہ اس میں لاکھوں لوگ سماسکتے ہیں، اسی لیے شہر کے تمام بڑے اور اہم جلسے یہیں ہوتے ہیں۔ جب کسی جلسے کا اعلان ہوتا ہے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔ انسانی سروں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے، لیکن جب میں جوشیلی، غصیلی، زہریلی تقریریں سنتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سمندر کے کنارے ہزاروں کیڑے مکوڑے جمع ہوکر سمندر کی آواز پر غالب آنے کی کوشش کررہے ہوں۔ میں اپنے کان بند کرلیتا ہوں اور مقررین کے چہروں پر نظر جماتا ہوں۔ جو بڑے مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں یا جلسہ ختم ہونے تک سمندر کے پاس جاکر بیٹھ جاتا ہوں اور اس کی سرگوشیاں سننے لگتا ہوں۔

مقررین کے مضحکہ خیز چہروں سے اکتا کر میں نے مجمع کی طرف دیکھا تو بوڑھے پر نظر پڑی جو بڑے غور سے تقریریں سن رہا تھا۔ بوڑھے کے بدن پر بس ایک چادر تھی اور ہاتھ میں ایک لاٹھی جو اس وقت اس کے سامنے رکھی ہوئی تھی۔ موٹی سی عینک کے پیچھے اس کا چھوٹا سا گول چہرہ اور گنجا سر کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ تقریریں سنتے ہوئے لوگ کبھی ہنستے، کبھی غصے میں آتے، کبھی نعرے لگاتے اور کبھی تالیاں بجانے لگتے۔ بوڑھا تعجب سے کبھی مقررین کو دیکھتا اور کبھی سامعین کو۔

تقریروں میںایسی کیاخاص بات تھی؟میں مقرروں کو سننے لگا۔ وہی باتیں تھیں، الفاظ کے جادوگر، کرشمے دکھا رہے تھے۔ الفاظ کبھی کپاس کی طرح ہلکے ہوجاتے، مقرر انھیں دھنکتا تو روئی کے گالوں کی طرح فضا میں بکھرنے لگتے۔ پھر دوسرا مقرر آیا اور لفظوں کو رنگین غباروں کی طرح اڑانے لگا۔ غبارے اڑے اور دیکھتے دیکھتے سب کی دسترس سے دور بادلوں میں غائب ہوگئے۔ پھر تیسرا مقرر آیا اور الفاظ پتھروں کی طرح برسنے لگے۔ پھر ایک شخص آیا، اس نے ہاتھ جوڑے اور کچھ کہا اور سب اٹھ کر جانے لگے۔ ان کے چہرے بے رونق تھے اور بال بکھرے۔ بھوک ان کے چہروں پر لکھی تھی۔

میدان خالی ہوگیا۔ میرے آدمی سامان سمیٹنے لگے۔ تبھی میں نے دیکھا بوڑھا اسی طرح بیٹھا ہوا ہے ، کسی سوچ میں گم۔

’’کیا بات ہے بابا، آپ گئے نہیں؟‘‘

بوڑھے نے میری طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں عجیب سی بے بسی تھی۔

’’چائے پیوگے؟‘‘ میں نے ملازم سے ساحل کی کسی دوکان سے چائے لانے کے لیے کہا۔

بوڑھے نے میری طرف دیکھا، جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو۔ پھر رک گیا۔

’’آپ کچھ کہہ رہے تھے بابا، رک کیوں گے؟‘‘ میں نے کہا ’’کہیے نا!‘‘

’’یہ تقریریں…‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔

’’یہ تقریریں کیا…‘‘ میں نے پوچھا۔

’’یہ تقریریں اتنی کھوکھلی؟ کیوں تھیں؟‘ ‘ بوڑھے نے پوچھا۔

’’پتہ نہیں بابا، میں تو قریب قریب روز ہی ایسی تقریریں سنتا ہوں۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے لفظ بولنے والوں کے دل میں اترتے ہی نہیں، حلق میں جمع رہتے ہیں۔ اس لیے سننے والوں کے دلوں تک نہیں پہنچتے۔‘‘

’’ہمیں تو زندگی بھر کی جستجو میں چند لفظ ملے تھے جو دلوں کو روشن اور روحوں کوسیراب کردیتے تھے۔‘‘

’’یہ بھی تو وہی الفاظ دوہرا رہے تھے۔‘‘

’’ہاں لفظ تو وہی تھے، لیکن ان کے پیچھے یقین کی وہ قوت کہاں تھی؟ جو زندگی کے تجربے سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘

میں لاجواب ہوگیا۔ملازم چائے لے آیا تھا۔ ہم دونوں چائے پینے لگے۔ میدان اب بالکل خالی تھا۔ اندھیرا دن پر قابو پاچکا تھا، لیکن پوری طرح گہرایا نہیں تھا۔ دور ساحل پر حرکت کرتے انسان پر چھائیوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ ہر طرف خاموشی تھی اور سمندر کا نغمہ ، اب صاف سنائی دے رہا تھا۔بوڑھا اٹھا اور لکڑی ٹیکتے ہوئے آگے بڑھا۔

’’بابا‘‘ میں نے اسے آواز دی۔

’’کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ جب سمندر کا نغمہ سنائی دے رہا ہو تو لفظ غیر ضروری ہوجاتے ہیں۔‘‘بوڑھا رک گیا،چند لمحے خاموش رہا جیسے سمندر کا نغمہ سن رہا ہو۔ پھر بولا: ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘

آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بوڑھا اندھیرے میں تحلیل ہوگیا۔ اب صرف سمندر کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں