امتحانات کا بوجھ سر سے اترتے ہی بچوں نے سکون کا سانس لیاہے اور کھیل میں وقت گزارنا شروع کر دیا ہے۔چھٹیوں میں ہی بچوں کو کھیل کود کے زیادہ مواقع ملتے ہیں، اس لیے ان کو چوٹ بھی اسی موسم میں زیادہ لگتی ہے۔معمولی چوٹوں سے کس طرح بچا جائے اور ان کا علاج کس طرح کیا جائے۔یہ جاننا اچھی ماؤں کے لیے ضروری ہے۔
چھٹیاں بچوں کے لیے گولڈن ٹائم ہوتا ہے،جس میں وہ جی بھر کر کھیل کود اور موج مستی کرتے ہیں اور سال بھر کے اسکول روٹین اور امتحانات کی وجہ سے دماغ پر پڑنے والے بوجھ کو ہلکا کرتے ہیں۔موج مستی کے طریقے بہت سے ہیں جن میں سب سے پسندیدہ اور عام مشغلہ کھیل ہے۔ کھیل کی وجہ سے بچوں کو چوٹ بھی لگتی ہے اسی لیے پورے سال کی بہ نسبت چھٹیوں میں بچوں کو چوٹ لگنے کا تناسب 40%ہوتا ہے۔صرف دہلی میں مارچ اور اپریل کے دوران معمولی چوٹ سے زخمی ہونے والے بچوں کی تعدادا کافی ہوتی ہے۔ جب کہ بری طرح زخمی ہونے والوں کی تعداد۱۵۰۰ سے ۲۰۰۰ تک ہوجاتی ہے۔اگر بچوں کی چوٹ کی سلسلے میں کچھ باتوں کا خیال رکھا جائے توبچوں کو لگنے والی چوٹ اور ان کے بڑے نقصانات سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
جسم انسانی کی بناوٹ کے اعتبار سے جسم کے کچھ حصہ زیادہ چوٹ کھاتے ہیں، مثال کے طور پر:
گھٹنہ،کہنی، سر، دانت،ہونٹ، آنکھوں کے آس پاس، پیر کے تلوے۔
کن کھیلوں میں لگتی ہے چوٹ
®پتنگ اڑانے میں: چھٹیوں میں بچے دن بھر پتنگ اڑاتے ہیں۔ پتنگ بازی کئی حادثوں کی وجہ بنتی ہے۔پتنگ لوٹنے کی کوشش میں بعض اوقات بچے سڑک پر دوڑ پڑتے ہیں یا چھت سے نیچے گر جاتے ہیں اور بری طرح زخمی ہو جاتے ہیں۔
®لکا چھپی: بچوں کو یہ کھیل بھی بہت پسند ہے۔ لیکن کئی بار وہ ایسی جگہ پر جاکر چھپ جاتے ہیں جہاں چوٹ لگنے کا اندیشہ رہتا ہے یا کیڑوں مکوڑوں کا ڈر رہتا ہے۔
®پٹو مار یا گیند تڑی:کھیل کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں ایک دوسرے کو مارا جاتا ہے۔اس میں جس کے ہاتھ میں گیند آجاتی ہے وہ دوسروں کونشانہ بنا کر اسی گیند سے مارتا ہے۔کبھی کبھی گیند آنکھ، ناک یا کنپٹی پر وغیرہ پر لگ جاتی ہے جس سے بچوں کو سخت چوٹ لگ جاتی ہے۔
®کرکٹ: شاید اس دور کے بچوں کا سب سے پسندیدہ کھیل یہی ہے۔ اس کھیل کو بچے جتنے شوق سے دیکھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ شوق سے کھیلتے ہیں۔کرکٹ کھیلتے وقت بچوں کو اکثر گیند سے چوٹ لگ جاتی ہے۔ یا رن لیتے ہوئے، رن آئوٹ کرنے کے لیے دوڑتے ہوئے پیر میں موچ وغیرہ آجاتی ہے۔کبھی کبھی دوڑت ہوئے دو لوگ آپس میں ٹکرا جاتے ہیں اور دونوں کو زبردست چوٹ لگ جاتی ہے۔بچوں کو ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ ہلکی گیند کا استعمال کریں اور اس کھیل کو کھلے میدان میں ہی کھیلیں۔ گلیوں کے اندر تو بالکل نہ کھیلیں کیوں کہ گاڑیاں وغیرہ کے شیشے ٹوٹنے کا اندیشہ رہتا ہے یا کسی کے گھر کا شیشہ ٹوٹ سکتا ہے۔
®گلّی ڈنڈا: یہ کھیل بہت خطرناک ہے۔ اس کھیل سے دوسروں کو یا راہ چلتے لوگوں کو چوٹ لگنے کا اندیشہ رہتا ہے۔اگرچہ اب اس کھیل کو بچے کم ہی کھیلتے ہیں ، پھر بھی بچوں کو یہ کھیل کھیلنے سے روکتے رہنا چاہیے۔
®فرسٹ ایڈ کِٹ: گھر میں ایک چھوٹی سے فرسٹ ایڈ کٹ ضرور ہونی چاہیے تاکہ فوری طور پر چوٹ کا علاج ہوسکے اور زیادہ خون نہ بہے۔کِٹ کے اندر یہ سامان ہونا چاہیے:
®ڈٹال یا سیولون Dettol/ Sevelon
®روئیCotton
®پٹّیBandage
®اینٹی سیپٹک کریم
®اینٹی سیپٹک صابون
®ہینڈی پلاسٹ/بینڈیڈ یا اس جیسی چپکنے والی پٹی
®کچھ اینٹی بایوٹک دوائیں
® بلیڈ(نیا)
®پلاسٹک ٹیوزر (پلاسٹک کا پتلا سا چمٹا)
جاذب نظر بینڈیج:
بچے بینڈیج لگوانا پسند نہیں کرتے۔وہ فوری طور پر لگوا تو لیتے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد ہی اسے اتار پھینکتے ہیں۔جس کی وجہ سے زخم دیر میں ٹھیک ہوتا ہے۔اس کے حل کے لیے بازار میں ایسے بینڈیج ملنے لگے ہیں جو بچوں کو دلچسپ معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بینڈیج دکھنے میں خوبصورت اور جاذب نظر ہوتے ہیں جن کے اوپر کارٹون کا یا کسی پرندے وغیرہ کی تصویر بنی ہوتی ہے۔
سویمنگ پول سے پرہیز ہی بہتر ہے
اگر آپ کے بچے سویمنگ پول پر جاتے ہیں تو تنہا نہ جانے دیں۔ دوست وغیرہ کے گھر میں سویمنگ پول ہو تو بھی کسی بڑے کی نگرانی میں انھیں نہانے کا موقع دیں۔ زیادہ دیر تک پانی میں موج مستی نہ کرنے دیں۔انڈین میڈیکل ایسوی ایشن کے معاون سکریٹری ڈاکٹر روی ملک کے مطابق حادثے سے ہونے والی بچوں کی اموات میں سب سے زیادہ موتیں سویمنگ پول میں ڈوبنے سے ہوتی ہیں۔اس لیے اگر آپ نگرانی نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ انھیں سویمنگ پول میں نہ جانے دیں۔
والدین کے لیے قابل توجہ
®کھیلنے کے لیے بچوں کو ہلکی گیند دیں
®بچے کھیل کے میدان پر جوتے نہ اتاریں
®بچے کھیلتے وقت آپس میں جھگڑا نہ کریں
®کبھی بھی بچے اکیلے سویمنگ پول میں نہ جائیں۔
®بچوں کو دن بھر کھیلنے کے لیے آزاد نہ چھوڑیں
®اِن ڈور گیمس (گھر کے اندر رہ کر کھیلے جانے والے کھیل مثلاً کیرم ) کے فائدے ان پر واضح کریں ۔
®پارک یا میدان میں جانے سے پہلے انھیں اچھے طریقے سے جوتے اور کپڑے پہنا کر بھیجیں
®انھیں کھیلنے سے ہر گز نہ روکیں لیکن کھیل کا وقت اور جگہ متعین کردیں تو بہتر ہے۔
چوٹ لگ جائے تو۔۔۔
گھبرائیں نہیں۔ نہ ہی بچوں کو ڈانٹیں، پیٹیں۔سب سے پہلے بچے کی چوٹ کو دیکھیں اور ضرورت کے مطابق ابتدائی علاج کریں۔اگر چوٹ معمولی ہے تو اس کا علاج آپ فرسٹ ایڈ کٹ کی مدد سے خود ہی کرسکتی ہیں اور چوٹ زیادہ ہو تو قریبی ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔
ابتدائی علاج کیسے کریں
چوٹ لگنے کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں مثلاً زخم، کھرونچ، جلنا، کٹنا، موچ، فریکچراور اندرونی چوٹ وغیرہ۔ مول چند ہسپتال کے انٹرنل میڈیسن کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر وریندر اگروال کے مطابق ابتدائی علاج کے دوران سب سے پہلے کسی صاف کپڑے یا ٹشو پیپر سے یا صاف روئی سے زخم کو صاف کریں اور تھوڑا سا دبائو بنا کر گندا خون باہر نکال دیں۔خون نکالنے کے بعد نل کی تیز دھار سے ٹھنڈے پانی سے اس کو صاف کریںاور زخم کے آس پاس کی جلد کو اینٹی سیپٹک صابون سے دھو دیں۔خیال رہے کہ زخم کے اوپر صابون نہ لگنے دیں کیوں کہ زخم پر صابون لگنے سے انفیکشن کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے۔زخم صاف کرنے کے بعد اس پر کوئی مرہم لگا دیںیا ہینڈی پلاسٹ یا اس جیسی کوئی بینڈیڈ لگا دیں۔
نظر انداز نہ کریں
اگر بچوں کو کہیں زخم یا کھرونچ لگتی ہے یا تھوڑا سا بھی خون نکلتا ہے تو ہم اس کو زیادہ اہمیت دیتے ہیںاور اس کا صحیح طریقے سے علاج کراتے ہیں۔ لیکن جو چوٹ دکھائی نہیںدیتی ہے، اس کا ابتدائی علاج کرکے بھول جاتے ہیں۔بچوں میں درد کو برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ انھیں تھوڑا بہت درد ہوتا ہے تو اسے وہ اپنے والدین سے نہیں بتاتے جو کبھی کبھی وقت کے ساتھ ساتھ بہت سنگین ہوجاتا ہے۔مول چند میڈی سٹی کے چائلڈ ڈیولپمنت اینڈ ایڈولسینٹ ہیلتھ سینٹر کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر جتیندر ناگپال کا کہنا ہے کہ بچے کو اگر اندورنی چوٹ لگتی ہے تو اس کا اچھی طرح علاج بہت ضروری ہے۔ چوٹ لگنے کے بعد اگر خون نہیں نکلتا ہے تو کئی بار خون کے تھکّے جمع ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے بعد میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی بچوں کی جان کو خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔خون نکلنے والے زخم کو بھی ابتدائی علاج کے بعد نظر انداز نہیں کردینا چاہیے۔ایک بار کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھا لینا ضروری ہے۔
(ہندوستان ہندی سے ترجمہ: ادارہ)
——