’’کہاں جارہے ہو!‘‘

اصفیہ صدیقہ

چہرہ وہی، جگہ وہی، کام وہی اور سوال، سوال بھی وہی مجھے بے پناہ حیرت نے آن گھیرا۔ سات سال پہلے مدرسہ جاتے وقت نیم کے سائے میں بڑی سی گدی پر بیٹھے اس شخص نے مجھ سے یہی سوال کیا تھا اور مجھ پر سوالیہ نگاہ ڈال کر اس کے ہاتھ ٹوکریوں کی بنائی میں الجھتے چلے گئے۔ اس وقت میرے کچے ذہن نے اس سوال کو نہ سمجھا۔ لیکن ان گزرتے ہوئے سالوں نے مجھے اب سمجھا دیا کہ اس شخص کا یہ سوال ضرور کوئی نہ کوئی کہانی چھپائے ہوئے ہیں۔ گو کہ اس کے سوال کا جواب دینا ہر کوئی گوارا نہ کرتا تھا، لیکن وہ تھا کہ ہر راہ چلنے والے سے یہی سوال کرتا، کہاں جارہے ہو؟ سوال پوچھنے کا انداز ایسا تھا کہ جانے والا ایک پل کے لیے ٹھٹک جاتا اور سوچنے لگتا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ اگر وہ صحیح کام اور صحیح مقصد کے لیے جارہا ہو تو ایک اندازِ بے نیازی سے گزر جاتا۔ یوں جیسے اس کا سوال اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور اگر جانے والا کسی غلط کام اور گمراہ کن راستہ پر جارہا ہو تو پھر خود بخود اس شخص سے اس کے سوال پوچھنے کا مقصد پوچھ بیٹھتا اور اس کی بات سن کر اپنے آپ کا محاسبہ کرنے لگتا۔ پھر اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی صحیح راہ ہولیتا۔
میں بھی ایک ایسی لڑکی ہوں جس کے قدم سات سال بعد ایک دن راہ چلتے اسی سوال نے یکایک روک لیے تھے۔ سات سال کا عرصہ ، چہرہ وہی، جگہ اور کام وہی اور سوال بھی وہی میں نے ذرا رک کر پوچھا:’’بابا آپ ہر جانے والے سے یہ سوال کیوں کرتے ہیں؟ ‘‘ انھوں نے بہت خاموشی سے مجھے دیکھا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئے، میں نے محسوس کیا کہ وہ شاید ذہنی طور پر کچھ ٹھیک نہ تھے۔ میں نے پھر پوچھا۔
آپ یہ سوال کرکے یہاں راہ گیروں کو رکواتے کیوں ہیں؟ میں کون ہوتا ہوں بیٹا! راہ چلتوں کو روکنے والا ! ان کے لہجے میں حد درجہ اداسی تھی۔ میں تو بس ان کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ جہاں جا رہے ہیں جس مقصد کے لیے جارہے ہیں، وہیں پہنچنے کی سعی کریں۔ آج کا انسان اپنے اپنے حساب سے کام سوچ کر گھر سے نکلتا ہے اور راستے میں غلط رہبری سے کسی کے کہنے پر فیصلہ بدل دیتا ہے اور جلد بازی میں غلط راہ کا انتخاب بڑی آسانی سے کرلیتا ہے اور پھر جب اس کیحصہ میں مایوسی اور ناکامی آتی ہے تو پچھتانا رہ جاتا ہے۔ ہاں وہی مایوسی، وہی ناکامی اور وہی پچھتاوا جو میرا مقدر بنا۔ کیسا پچھتاوا؟ میں نے سوال داغا۔ انھوں نے ایک سرد آہ بھر کر مجھے دیکھا اور کہنے لگے۔
بیٹا تمہاری عمر اور تجربہ دونوں ہی کم ہیں۔ اس عمر میں تمہیں صحیح رہبری نہ ملے اور تمہارا رہبر ہی رہزن بن جائے تو ساری زندگی بے کار ہوجائے گی۔
۳۵ سال پہلے میں نے گریجویشن مکمل کیا اور نوکری کی تلاش میں نکل پڑا۔ ہر طرف مایوسی، ناامیدی اور نامرادی تھی۔ کوئی رہبر نہ تھا کہ رہنمائی کرتا، زندگی کی راہوں میں صحیح اور غلط کی نشان دہی کرتا۔ کسی اچھی نوکری کے انتخاب میں میری رہنمائی کرتا۔ اسی مایوسی کے عالم میں میں اپنی اسناد لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ کسی نے مجھے مخاطب کیا میں نے چونک کر دیکھا ایک بے حد نفیس شخص کھڑا مجھ سے یہاں بیٹھنے کی بابت سوال کررہا تھا۔ میں انتہائی اداسی سے اپنے بارے میں بتانے لگا۔ اس شخص نے مجھے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے لیے کہا تو میں بے ساختہ پوچھ بیٹھا: ’’آپ مجھے کہاں لے جائیں گے۔‘‘ ’’تمہیں تمہارے مقصد سے ملوانے۔‘‘
میں نے کچھ کہنے کے لیے زبان کھولی ہی تھی کہ انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا اور کچھ توقف کے بعد کہنے لگے، ایک رات مجھے ایک خوفناک خواب نے زندگی کے ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جس پر سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں دلدل میں پھنسا جارہا ہوں۔ دم گھٹنے لگا اور میں چیخ چیخ کر مدد کے لیے پکار رہا ہوں لیکن کوئی میری سنتا ہی نہیں اور میں دلدل میں پھنستا ہی چلا گیا اور جب میں بیدار ہوا تو خوف کے مارے بری حالت تھی۔ سارا جسم پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ اپنے گناہوں کا احساس ہوتے ہی میں ندامت کے عالم میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہوگیا۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے بعد میں کچھ ہلکا ہوگیا تو پہلا کام یہی کیا کہ اس ہوٹل اور ان لوگوں کو چھوڑ چھاڑ کر بھاگ نکلا اور آج یہاں میں سکون سے عبادتوں میں مصروف کچھ نہ کچھ کام کرلیتا ہوں تاکہ پیٹ بھرنے کے لیے کچھ کما سکوں۔ انھوں نے ایک لمبی سانس لی اور کچھ دیر آنکھیں موند لیں۔
میں پوری توجہ ان کے چہرے پر مرکوز کیے ان کے آگے بولنے کی منتظر تھی کہ آنکھیں کھول کر انھوں نے کہا۔ بیٹا میرا یہ سوال یہی کہتا ہے کہ زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ ہر طرف دھوکہ ہے، فراڈ ہے، مجھے ڈر ہے، یہ معصوم و بے گناہ جو اپنے انتخاب کے لیے صحیح مقام تک جاتے جاتے میری طرح بھٹک نہ جائیں۔ گمراہ لوگوں کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ بیٹا تم بھی دل میں ایک عزم لے کر چلو گے تو کبھی بھٹک نہ پاؤ گے۔ ذہن میں ہمیشہ اپنے مقام کو یاد رکھو۔ یہ کہہ کر انھوں نے آنکھیں موند لیں۔
میں چپکے سے اٹھی اور ان کے الفاظ کو ذہن و دل میں سمیٹتے ہوئے چل پڑی تو پیچھے سے اس شخص کی درد بھری آواز نے میرے عزم و حوصلہ کو اور بڑھایا۔ وہ بڑی ہی درد بھری آواز میں گنگنا رہے تھے۔
فی زمانہ کوئی رہبر بھی بھروسہ کا نہیں
عزم دل ساتھ رکھو راہ بتانے کے لیے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146