بعض احادیث میں ایسی باتیں ملتی ہیں جن سے بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کی تنقیص کی گئی ہے، اسے مرد کے برابر درجہ نہیں دیا گیا ہے اوراس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی گئی ہیں جن سے اس کی تحقیر و تذلیل ہوتی ہے۔ یہ احادیث معتبر اور مضبوط سندوں سے مروی ہیں،اس وجہ سے اصطلاحی طور پر انھیں’صحیح‘ قرار دیا گیا ہے۔اس کے باوجود ایک طبقہ ان کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے اور انھیں صحیح ماننے میں تردّد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان احادیث کو بلا تامل رد کردینا چاہیے، خواہ وہ حدیث کی کیسی ہی معتبر کتابوں میں پائی جاتی ہوں،اس لیے کہ وہ عورت کو درجۂ انسانیت سے گراتی ہیں اور اس کے بارے میں منفی تاثرات پیش کرتی ہیں۔
عموماً ایسی احادیث کے بارے میں شکوک و شبہات اس بنا پر پیدا ہوتے ہیں کہ ان کا مطالعہ ان کے سیاق میں نہیں کیا جاتا۔ الفاظ اور جملوں کا صحیح مفہوم ان کے سیاق میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔ سیاق سے کاٹ کر انھیں دیکھا جائے تو ان کے معانی کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں، بلکہ بسا اوقات برعکس ہوجاتے ہیں۔ یہی معاملہ ان احادیث کے ساتھ ہوا ہے کہ سیاق سے ہٹ کر ان کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے ان کا نا مطلوب مفہوم نکال لیا گیا ہے۔آئندہ سطور میں اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
۱۔ ایک حدیث میں عورت کو منحوس کہا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’نحوست تین چیزوں میں ہے: عورت گھر اور گھوڑا۔‘‘(بخاری:۵۰۹۳) اس مضمون کی متعدد روایات ہیں، جن کے الفاظ اوراندازِ بیان میں کچھ فرق ہے۔ اگر ان سب کو سامنے رکھا جائے تو اس حدیث کے درست مفہوم تک پہنچنے میں آسانی ہوگی۔ چنانچہ ایک دوسری روایت حضرت عبد اللہ بن عمر ؓہی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں نحوست کا تذکرہ کیا گیا تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھر، عورت اور گھوڑے میں ہوتی۔ (بخاری) اس سے واضح ہے کہ نبی کریمﷺ کے اس قول سے نحوست کا اثبات نہیں، بلکہ نفی ہو رہی ہے۔ آپ ؐکے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر نحوست ہوتی تو ان تینو ں میں ہوتی، لیکن جب ان میں نہیں ہے تو کسی چیز میں نہیں ہے۔ مذکورہ حدیث میں عورت ،گھر اورگھوڑے کا خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب ان تینوں چیزوں کو منحو س سمجھتے تھے اور ان کے بارے میں بد شگونی کرتے تھے۔ حضور اکرمؐ نے اس جاہلی عقیدے کی بیخ کنی کرنے کے لیے ان میں نحوست کی نفی فرمائی ۔
اس مفہوم کی تائید حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے ہوتی ہے۔ ان کی خدمت میں ایک مرتبہ کچھ لوگ حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ حضرت ابو ہریرہؓ حضور اکرمؐ سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ گھر ،عورت اور گھوڑے میں نحوست ہے۔ یہ سن کر حضرت عائشہؓ غضب ناک ہوگئیں اور فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمدؐ پر قرآن نازل کیا۔اللہ کے رسولؐ نے یہ بات کبھی نہیں کہی، بلکہ آپ نے یہ فرمایا کہ اہل جاہلیت ان چیزوں سے بد فالی لیتے تھے۔‘‘(احمد:۲۶۰۳۴)
۲۔ایک حدیث حضرت ابو ہریرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’عورت، گدھا اور کتا کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ کجاوہ کے آخری حصے جیسی کوئی چیز سامنے رکھ لی جائے۔(مسلم:۵۱۱)
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ اگر کوئی شخص کھلی جگہ پر نماز پڑھ رہا ہو تو اسے اپنے سامنے سترہ رکھ لینا چاہیے۔دوسری بات یہ کہ اگر اس کے سامنے سترہ نہ ہو اور کوئی آگے سے گزر جائے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ حدیث میںعورت، گدھے اورکتے کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت گدھے اور کتے کے مساوی ہے ؟
حدیث میں نماز فاسد ہوجانے سے مراد اس کا باطل ہوجانا نہیں، بلکہ اس میں نقص وعیب پیداہوجانا ہے،اس لیے کہ اس سے نمازی کے خشوع و خضوع میں کمی آجاتی ہے۔ عورت کے گزرنے سے نماز میں نقص پیدا ہونے کی علّت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے نمازی کی توجہ اور یک سوئی میں خلل واقع ہو جائے گا، بر خلاف مرد کے کہ اس کے گزرنے سے نمازی کے انہماک میں اس طرح کا خلل واقع نہیں ہوگا۔ گدھا اور کتا کے گزرنے سے نماز میں نقص پیدا ہونے کی علّت دوسری ہے۔وہ یہ کہ ان کی آواز یا حرکت سے نمازی کی یک سوئی متاثر ہوگی۔
اسی کا اشارہ حضرت عائشہؓ کی روایات سے ملتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک موقع پر حضرت عائشہ ؓکے سامنے لوگوں نے کہا کہ عورت ،کتااور گدھا نمازی کے آگے سے گزر جائیں تو اس کی نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کا سختی سے انکا ر کیا اور فرمایا: ’’تم لوگوں نے عورتوں کو گدھوں اور کتوں کے برابر بنادیا۔ جب حضورر ﷺ نماز پڑھتے تھے تو میں آپؐ کے آگے تخت پر لیٹی رہتی تھی۔ مجھے کوئی ضرورت پیش آتی تو چپکے سے وہاں سے اٹھ جاتی تھی‘‘۔ ایک روایت میںہے کہ وہ فرماتی ہیں:’’جب اللہ کے رسول ﷺ سجدہ کرنا چاہتے تو مجھے اپنے ہاتھ سے ٹھوکا لگاتے، چنانچہ میں اپنا پیر سمیٹ لیتی۔ اس کے بعد جب آپؐ قیا م کی حالت میں چلے جاتے تو پھر اپنا پیر پھیلالیتی تھی ۔ اس زمانے میں روشنی کا انتظام نہیں تھا۔‘‘(بخاری:۵۱۱)
یہ ایک دودن کا واقعہ نہیں ہے، بلکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا بارہاہوتا تھا کہ اللہ کے رسولﷺ رات میں نماز پڑھتے تھے اور حضرت عائشہ ؓآپؐ کے سامنے اور قبلہ کے درمیان لیٹی رہتی تھیں، لیکن آپؐ نے کبھی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا، نہ ان کے سامنے لیٹے رہنے کی وجہ سے آپؐ کی توجہ اور انہماک میں خلل پڑا۔اگر ایساہوتا تو آپؐ ضرور انھیں سامنے سے ہٹ جانے کے لیے کہتے۔
۳۔ ایک حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا اس کا بالائی حصہ ہوتا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کروگے تو اسے توڑ دوگے اور اگر اسے چھوڑ دوگے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس تم عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔(بخاری:۳۳۳۱) دوسری روایت کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں: ’’عورت پسلی کی مانند ہے۔‘‘(بخاری:۵۱۸۴)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے مردوں سے خطاب فرمایاتو آپؐ نے ابتدا میں اور آخر میں بھی انھیں عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی ہدایت کی ۔درمیان میں آپؐ نے عورت کو پسلی سے تشبیہ دی ۔کیا اس تشبیہ کا مطلب عورتوں کی فطرت میں کسی کجی، نقص اور خامی کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ سیاق سے اس کی نفی ہوتی ہے۔غور کیا جائے تو اس سے عورت کی ایک خوبی کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے جو مردوں میں نہیں پائی جاتی۔ آپؐ نے عورت کو پسلی کے اوپری حصے سے تشبیہ دی ،جس میں بہت زیادہ جھکاؤ ہوتا ہے۔ اس ارشاد نبویؐ کا مقصد عورت کی فطرت میں پوشیدہ اس کے وصف ( جھکنا، دوسروں کا خیال رکھنا، ان کی حفاظت کرنا) کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا ہے۔ یہ تو عورت کا قابلِ تعریف وصف ہے ، نہ کہ قابل ِمذمت وصف۔پسلی جسم انسانی کا ایک عضو ہے، جو اپنی منحنی شکل کی وجہ سے اندرونی اعضاء(قلب، جگر وغیرہ) کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کا ٹیڑھا پن کوئی عیب یا نقص نہیں، بلکہ اس کا حسن ہے۔ اس تشبیہ کی معنویت یہ ہے کہ جس طرح پسلی اپنے ٹیڑھے پن کے ذریعے اندرونی اعضا کی حفاظت کرتی ہے اسی طرح عورت اپنے مخصوص مزاج کے ذریعہ خاندان کی نگہ داشت کرتی ہے اور اہلِ خانہ کے ساتھ محبت و شفقت، مہربانی و غم خواری اورلطف و عنایت سے پیش آتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو اسے توڑ دوگے۔‘‘ اس سے آپؐ کا مقصد لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا تھاکہ اگر وہ عورت کی فطرت اور مزاج کے خلاف اس کے ساتھ برتاؤ کریں گے تو اس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور عائلی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا، جس طرح اگر پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹوٹ جائے گی، لیکن اگر اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے تو عائلی زندگی خوش گوار رہے گی۔
۴۔ ایک حدیث حضرت اسامہ بن زید ؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا :’’میرے بعد مردوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ فتنہ عورتوں کا ہوگا۔‘‘ (بخاری)
اس حدیث کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ عربی زبان میں لفظ’ فتنہ‘ کا استعمال کن معانی میں ہوتا ہے؟ اس کا اصل معنیٰ ہے سونے چاندی کو آگ میں تپانا ، تاکہ اس کا کھوٹا حصہ کھرے حصے سے الگ ہو جائے۔پھر اس کا ستعمال ناپسندیدہ چیزوں کے لیے کیا جانے لگا۔ چنانچہ قرآن مجید میںکبھی اس کا استعمال کفر کے معنیٰ میں ہوا ہے ،کبھی گناہ کے معنیٰ میں ۔ فتنہ کے اصلی معنیٰ آزمائش و جانچ کے ہیں۔اسی معنیٰ میں اس کا استعمال مذکورہ حدیث میںہواہے کہ اس کے ذریعہ مرد کو آزمایا جاتا ہے اور اس کا امتحان لیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کی فطرت میں ایک دوسرے کی جانب میلان کا جذبہ رکھا ہے۔البتہ عورت کے اندر کشش زیادہ ہوتی ہے اور مرد اس کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے بسا اوقات وہ حرام کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے مردوں کو ہوشیار کیا ہے کہ وہ عورتوں کی جانب زیادہ میلان ہونے کی وجہ سے آزمائش میں نہ پڑیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتاہے کہ حدیث میں عورت کے لیے ’فتنہ‘ کا لفظ اس کی حقارت و ذلت اور نقص و عیب پر دلالت نہیں کرتا اور اس سے اس کی قدر گھٹانا مقصود نہیں ہے۔
۵۔ ایک حدیث حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:’’میں نے جنت میں دیکھا تو اس کے اکثر لوگ فقراء تھے اور میں نے جہنم میں دیکھا تو اس میں اکثر عورتیں تھیں۔(بخاری:۳۲۴۱)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت سب کے سب فقراء نہیں ہوں گے، بلکہ دوسرے لوگ بھی ہوں گے۔ اسی طرح جہنم میں صرف عورتیں ہی نہیں ہوں گی، بلکہ دوسرے لوگ بھی ہوں گے۔دوسری بات اس سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جہنم میں عورتیں محض عورتیں ہونے کی وجہ سے نہیں جائیں گی۔ بہت سی عورتیں متقی اور نیک ہوتی ہیں۔ان کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جنت و جہنم میں داخلہ کا معیار مرد یا عورت ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کے دیگر معیارات ہیں۔
اس مضمون کی ایک دوسری حدیث حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:’’مجھ کو جہنم دکھائی گئی ، تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی۔ وہ نافرمان ہوتی ہیں ۔ سوال کیا گیا: کیا وہ اللہ کی نافرمانی کرتی ہیں؟ آپ ؐ نے جواب دیا: وہ اپنے شوہروںکی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر تم اپنی بیوی کے ساتھ زندگی بھر حسن سلوک کرو، لیکن کسی دن وہ تمھاری طرف سے اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات دیکھے تو فوراً کہہ دیتی ہے کہ تم نے آج تک میرے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ نہیں کیا۔ (بخاری)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے جہنم میں جانے کا سبب ان کی ناشکری ہے۔جو عورتیں اس مذموم خصلت سے بچیں گی وہ جہنم سے محفوظ رہیں گی۔ اس ارشادِ نبوی سے عورتوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح مقصود ہے،ان کی تذلیل و تحقیر، مذمت و ملامت اور نقص و عیب مقصود نہیں ہے۔
۶۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’میں نے تمہارے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا جو عقل اور دین کے معاملے میں ناقص ہو، لیکن وہ ہوشیا ر مرد کی عقل کو گم کر دے۔ ‘‘(بخاری:۳۰۴)
اس حدیث کی بنیاد پر ایک قاعدۂ کلّیہ بنا لیا گیا ہے کہ عورتوں میں مردوں کے مقابلے میںعقل کی کمی ہوتی ہے اور ان کی فکری صلاحیتیں مردوں سے کم تر ہوتی ہیں، حالاں کہ حدیث میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے۔ یہ احتمال آپ کے اس ارشاد سے دور ہوجاتا ہے کہ ’’ عورت ہوشیار مرد کی عقل کو گم کر دیتی ہے‘‘۔ اگر عورت ’ناقص العقل‘ ہوتی تو کیسے ہوشیار مرد کی عقل کو قابومیں کر لیتی۔ درحقیقت اس حدیث میں مرد پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کا ،جو عورت میں پائی جاتی ہے، تذکرہ کیا گیا ہے۔
اسی حدیث میں آگے یہ وضاحت موجود ہے کہ عورتوں کے’ ناقصات العقل و الدین‘ ہونے کا کیا مفہوم ہے؟ عورتوں کے اس سوال پرکہ ناقصات العقل کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے ان سے دریافت فرمایاکہ کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کا نصف نہیں ہے؟ آپؐ کا اشارہ اس ارشاد باری کی طرف تھا جس میں بعض صورتوں میںدو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کے برابر قرار دیا گیا ہے اور اس کی یہ توجیہ بیان کی گئی ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یا دلا دے۔ (البقرۃ:۲۸۲) اس توجیہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورت کی عقلی وفکری صلاحیت مرد کے مقابلے میںکم ہوتی ہے، بلکہ اس سے ان خارجی اسباب و عوامل کی طرف اشارہ ملتاہے جوعورت کے غورو فکر کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیںاور ان سے وہ جلد متاثر ہوجاتی ہے، کیوں کہ اس کی فطرت میں جذبات کا غلبہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے فطری جذبات سے مغلوب ہو کر اشیاء کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے۔ اس کے جذبات بسا اوقات اس کی عقل پر غالب آجاتے ہیں۔ عورتوں نے ’دین میں نقص‘ کا مطلب جاننا چاہا تو آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا: کیا ایسا نہیں ہے کہ تم حیض کی حالت میں روزہ اور نماز نہیں پڑھ سکتیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، تو آپؐ نے فرمایا: تمہارے دین میں نقص کا یہی مطلب ہے۔‘‘ اس جواب سے بھی عورتوں کی تحقیر مقصود نہیں تھی، بلکہ انھیں اللہ تعالیٰ نے جو شرعی رخصتیں دی ہیں اور ان کے ساتھ جو نرمی و آسانی کا معاملہ کیا ہے اس کو بتلانا مقصود تھا۔
معلوم ہوا کہ اس حدیث میں عورت کو مرد سے کم تر نہیں کہاگیا ہے، بلکہ دونوں کے مزاج میں پائے جانے والے فرق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نقص دین سے وہ کمی مراد لی گئی ہے، جو عبادات کے معاملے میں حیض کی وجہ سے انھیں لاحق ہوتی ہے۔ یہ عورتوں کے لیے کوئی قابل گرفت چیز نہیں ہے۔ اورنقصِ عقل سے مراد ذہانت، دانش مندی یا غوروفکر کی استعداد میں کمی نہیں ہے، بلکہ اس سے صرف اس جانب اشارہ مقصود ہے کہ عورت اپنے جذبات کے غلبے اور مزاج کی رقت و نرمی کی وجہ سے گواہی کو درست طریقے سے منضبط نہیں کر پاتی۔ lll
[ اس مضمون کی تیاری میں ایک عربی مضمون کے اس ترجمے سے مدد لی گئی ہے، جو سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ میں شائع ہوا ہے]