خوبصورت بال یقینا شخصیت کو جاذب نظر بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو گنجے پن کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ عجیب و غریب نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کل یہ مرض بے حد تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے۔ کئی اسباب کے باعث مردو خواتین تیزی سے اس مسئلے کا شکار ہورہے ہیں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خواتین گنجی نہیں ہوسکتیں۔ بدقسمتی سے یہ قطعی صحیح نہیں ہے۔ خواتین کے بال بھی گرتے ہیں۔ امریکن ہیئر لوزکاؤنسل کے مطابق ۲ کروڑ سے زیادہ امریکی خواتین بالوں سے محروم ہورہی ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ خواتین کے زیادہ بال جھڑنا بظاہر دکھائی نہیں دیتا اور اس بارے میں گفتگو بھی بہت کم ہوتی ہے۔‘‘
گو کہ بالوں کا جھڑنا عام طور پر سن یاس کے بعد ہوتا ہے لیکن کم از کم ۵۰؍لاکھ خواتین جن کی عمر ۴۰؍برس سے کم ہے اس تجربے سے دوچار ہیں اور ۲۰؍فیصد تعداد ان عورتوں کی ہے جو بلوغت کے بعد ہی سے اس مسئلے میں گرفتار ہوجاتی ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جو مرد وخواتین اس مسئلہ کا شکار ہوتے ہیں وہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں اوراس معاملے میں کوئی قدم اٹھانا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت میں بالوں کے جھڑنے کو روکنے حتیٰ کہ نئے بال اگانے کے سلسلے میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ بال اڑنے کے علاج کا آغاز پہلی بار ۱۹۸۸ء میں اس وقت ہوا جب فوڈ اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن (FDA) نے مینوکسیڈل ، برانڈنیم، روگین کو بعض بالغوں میں بالوں کی دوبارہ افزائش کی تصدیق شدہ پروڈکٹ کے طور پر منظور کرلیا۔
روگین، جلد ہی مقبول ہوگئی کیونکہ پبلک نے پہلی مرتبہ یہ سنا تھا کہ ’’بالوں کا اڑنا قابلِ علاج ہے‘‘ لوگوں نے اپنے ڈاکٹروں کے پاس جانا شروع کردیا ڈرگ کمپنیوں نے روگین سے زیادہ علاج کی تلاش میں بنیادی ریسرچ کے لیے سرمایہ کاری شروع کردی کیونکہ روگین ہر فرد کے لیے کارآمد نہیں تھی۔
اب سائنس داں کہتے ہیں کہ وہ بال اڑنے کے بنیادی سبب سے آگاہی کے نزدیک تر پہنچ چکے ہیں۔ اور اس کا علاج اب زیادہ دور نہیں۔
بال جھڑنے کا سبب
کئی چیزیں قبل از وقت بال اڑنے کا سبب ہوسکتی ہیں۔ بشمول آئرن کی کمی مسلسل ڈائنگ، کیموتھراپی، حمل سے پہلے کی تبدیلیاں دیگر ہارمون کا غیر متوازن ہونا، ٹرامیٹک اسٹریس، آٹو امیون ڈس آرڈرز، تھائر ائیڈابنار میلیٹیز حتی کہ بالوں کی غیر ذمہ دارانہ دیکھ بھال۔
لیکن ۷۵ فیصد سے ۹۵ فیصد کیسوں میں اس کا سبب موروثی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اسے اینڈرو جنیٹیک الوپسیاکے نام سے پکارتے ہیں۔
محققین اب تک اس ناقص جین یا جینز کی شناخت نہیں کرپائے ہیں جو کہ بالوں کے اڑنے کا سبب ہوتا ہے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک خاصیت ہے جو دوسرے خواص پر غالب آجاتی ہے۔
اگر ماں یا باپ ناقص جین کے حامل ہیں، تو پھر لگ بھگ ایک تہائی امکان اس بات کا ہوتا ہے کہ یہ جین ان کے بچے میں بھی نمودار ہوجائے گا۔ جین کی موروثیت بھی جنسی تضاد سے جڑی ہوتی ہے۔ عورتوں کے بال اڑنا عموماً باپ کے جین کے پول سے آتا ہے جبکہ مردوں کو گنجاپن امتیازی طور پر ماں کی جانب سے ہوتا ہے، کیوں؟
’’سچ پوچھیں تو ہمیں اس بارے میں کوئی آئیڈیا نہیں۔‘‘ ڈاکٹر اورنٹریچ نے بتایا: ’’یہ ایک مشاہدہ ہے جو کہ ہزار ہا برس سے دیکھنے میں آرہا ہے اور ابھی تک ابتدائی درجے میں ہے۔‘‘
صحت مندسر
اپنے مکمل شباب میں ایک صحت مند سر میں لگ بھگ ۰۰۰،۱۰۰ بال ہوتے ہیں۔ روزانہ ۵۰ سے ۱۲۵ بال جھڑ جاتے ہیں۔ جو آپ کے برش سے چمٹ کر آپ کی نالیوں میں ڈھیر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بالوں کے غدود کی سادہ سی قدرتی گردش ہے۔ ان میں سے ہر ایک بالوں کا ایک ماخذ بال تیار کرتا ہے جو کہ لگ بھگ ۱۰۰۰ دونوں کے لیے ہوتا ہے پھر یہ تین ماہ تک آرام کرتا ہے بال جھڑ جاتا ہے، یہ سوجاتا ہے، پھر دوبارہ بیدار ہوتا ہے تاکہ اس عمل کا پھر سے آغاز کرسکے۔
انفرادی غدود اپنے شیڈول پر خود عمل کرتے ہیں۔ لہٰذا کسی بھی وقت میں صرف ۱۰ فیصد سے ۵ فیصد بے حس وحرکت ہوتے ہیں۔
بال اڑنے کے اس مرحلے میں تبدیلی دھیرے دھیرے آتی ہے۔ بال کا بدقسمت غدود اپنے بیکار وقت سے افزوں انداز میں لاڈ وپیار کرتا ہے۔ جب یہ بیدار ہوتا ہے تو ڈھیلا اور بے حس ہوتا ہے ایک شاکی اور ناراض ملازم کی مانند اپنی افزائش کے مرحلہ میں نیم دلی سے قدم رکھتا ہے۔ مختصر سے مختصر وقفے کے لیے کام کرتا ہے اور ہر ہر مرتبہ تسلسل کی گردش میں پہلا اور مختصر بال پھوٹتا ہے۔ آخر میں یہ ہوتا ہے کہ یہ الارم کلاک کا جواب ہی نہیں دیتا۔
جہاں تک بال اڑنے کا تعلق ہے خواتین کے پاس کم از کم ایک ایسی بات ہے جو مردوں کے پاس نہیں ہوتی۔ وہ یہ کہ وہ کبھی بھی تقریباً مکمل طور پر گنجی نہیں ہوتیں بلکہ انہیں بالوں کے منتشر انداز میں پتلا ہونے کے تجربے سے دوچار ہونا پڑتا ہے گویا کہ کسی سر پھرے ہیئر ڈریسر نے ٹویزرز کی مدد سے ہر دوسرا یا تیسرا بال اکھاڑ پھینکا ہے۔ خواتین کے سامنے کے بال بھی عام طور پر اپنی جگہ قائم رہتے ہیں البتہ بقیہ کھوپڑی کے بال باریک ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عام طر پر پہلے وہ اس بات کو نوٹ کرتی ہیں کہ ان کی پونی ٹیل کم کثیر رہ گئی ہے۔ کیونکہ مردہ ہونے والے غدود بالوں کے گچھے پیدا نہیں کرتے۔ پھر ان غدود کے مردہ ہونے کے بعد وہ مرکزی حصے میں چوڑے پن کا مشاہدہ کرتی ہیں۔
محققین ابھی تک بالوں کے اڑنے میں اہم کردار ادا کرنے والے مجرم کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن انہیں شبہ ہے کہ ٹیسٹوسٹیر ون کی ایک بائی پروڈکٹ ڈائی ہائیڈرو ٹیسٹو سٹیرون (DHT) اس عمل کو برانگیختہ کرتی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ DHT بطور پیغام رساں کام کرتی ہے جو کہ بالوں کی افزائش کو کنٹرول کرنے والے جین یا جینز کو اکساتا ہے کہ وہ کھوپڑی کے غدودکوشٹ ڈاؤن کردے۔ ’’ہمیں ابھی تک اس پیغام کا اصل متن معلوم نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر برگ فیلڈ نے کہا۔
لیکن کیا ٹیسٹو سٹیرون ایک ’’مردانہ ہارمون‘‘ نہیں؟ ہاں اور نہیں! صحت مند مرد میں عام طور پر اس کا دس گنا ہوتا ہے اور اس سے کہیں زیادہ DHTجیسا کہ خواتین میں ہوتا ہے۔
خواتین کو بہرحال ٹیسٹو سٹیرون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مسلز کی ڈیولپمنٹ کے لیے ضروری ہے اور لازمی طور پر اسٹروجن (Estrogen) کی پروڈکشن کے لیے ۔ البتہ زیادتی چاہے کسی بھی چیز کی ہواچھی نہیں ہوتی سائنس دانوں کو یقین ہے کہ جو خواتین بال جھڑنے کا شکار ہوتی ہیں ان میں ٹیسٹو سٹیرون اور DHTکے ابنارمل ہائی لیولز ہوتے ہیں بعض خواتین میں یہ اضافیت ایکنی اور روئیں نکلنے کا سبب بنتی ہے۔
(ماخوذ)
——