دنیا کی پانچ استرادی طاقتوں (ویٹو پاورس) میں سے ایک ’’برطانیۂ عظمیٰ‘‘ کے لیے آج کل ایک بڑا مسئلہ مسلم خواتین کے ’’چہرہ کا پردہ‘‘ بن گیا ہے۔
برطانیہ کے سابق وزیرِ خارجہ جیک اِسٹرا سے لے کر تا حال وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر تک سب کا برطانوی مسلم خواتین سے یہی اصرار ہے کہ:
’’پردہ چہرے سے اٹھا، انجمن آرائی کر!‘‘
عذر یہ ہے کہ جب وہ بات کرتی ہیں تو بات سمجھ میں نہیں آتی۔ حالاں کہ اگر وہ پردہ چہرے سے اٹھا کر کوئی بات کریں گی تواور سمجھ میں نہیں آئے گا کہ:
’’ان کو دیکھیں کہ ان سے بات کریں؟‘‘
مگر ان بوجھ بجھکڑوں کی سمجھ میں بھلا اس مسلم مردوں کی باتیں کون سی آجاتی ہیں، جو اپنے چہروں پر کوئی پردہ نہیں ڈالے رکھتے (بس ایک گھنی سی داڑھی ہی تو رکھتے ہیں) کہ اب وہ پردہ دار مسلم عورتوں کی باتیں سمجھنے چلے ہیں۔
……٭٭٭……
بات یہ ہے کہ ہوسناک نگاہیں مشرق کی ہوں یا مغرب کی، ہیں وہ ہوسناک نگاہیں۔ فواحش و شہوات مشرقی ہوں یا مغربی، رہیں گے وہ فواحش و شہوات۔ محسنِ انسانیت ﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ:
’’ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
تو اگر کوئی خاتون اپنی فطری حیا کے تقاضے کی تکمیل دینِ فطرت کے اس حکم کو اپنا کر کرتی ہے، جو قرآنِ حکیم کی سورئہ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ میں دیا گیا ہے۔ تو خواہ وہ خاتون مشرق کی ہو یا مغرب کی، وہ صرف فواحش، شہوات، کفر اور الحاد کو رد کرتی ہے اور اپنے لیے اسلام کے قابل شرف اور پاکیزہ طرزِ حیات کو قبول کرتی ہے۔
……٭٭٭……
قبولیتِ اسلام کی ایک تحریک ہے، جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں ایک مخصوص رفتار سے پھیلتی جارہی ہے۔ کیا مغرب، کیا مشرق، کیا شمال، کیا جنوب۔ بلاشبہ اس اشاعتِ اسلام میں ایک بہت بڑا حصہ ان عالمی اسلامی تحریکوں کا ہے، جو اپنے کردار اور اپنے لٹریچر کے ذریعہ سے سسکتی، تڑپتی، بلکتی اور سکون و اطمینان کی تلاش میں بھٹکتی انسانیت کو، بلا امتیازِ رنگ و نسل و وطن، صلاح و فلاح، فوز و کامرانی اور امن و سلامتی کی راہ پر چلنے آنے کی دعوت دیے جارہی ہیں۔
صرف خواتین کے حوالے سے دیکھیے تو آپ کو فرانس، جرمنی، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کنیڈا، امریکہ نیز افریقی ممالک، چین، جاپان، حتی کہ ویت نام اور لاؤس میں بھی مختلف رنگ ، نسل، زبان، تہذیب اور ثقافت رکھنے والی خواتین اسلام قبول کرنے کے بعد ایک ہی رنگ یعنی ’’صبغۃ اللہ‘‘ میں رنگی ہوئی نظر آنے لگتی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں صرف اسلام ہی تمام گلوبل مسائل کا ہر جگہ یکساں حل پیش کرسکتا ہے۔ اور وہ حل یہ ہے کہ اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے کفر و الحاف کو ترک کرکے اسلام کو قبول کرلیا جائے۔
آپ میں سے اکثر کو ان غیر مسلم بالخصوص مغربی خواتین کے تاثرات پڑھنے کا اتفاق ہوا ہوگا، جن کو اتفاقاً اور بسا اوقات مجبوراً کسی مسلم ملک میں حجاب لینا پڑگیا اور پھر ایک پاکیزہ طرزِ زندگی اور ان کی نگاہوں کے درمیان پڑے ہوئے تمام حجابات ایک ایک کرکے اٹھتے چلے گئے۔
……٭٭٭……
جاہلیت خواہ جدید ہو یا قدیم، اسلام کے مقابلے میں، رہے گی جاہلیت۔ اور ایک نہ ایک دن بالآخر ہوا ہوجائے گی۔ قرآن جن مظاہر کو شہوات پرستی، ہوائے نفس اور تبرج الجاہلیۃ قرار دیتا ہے۔ آپ اپنی فلسفیانہ ایڑی چوٹی کا پورا پورا زور لگا کر خواہ ان کو کتنا ہی مہذب نام کیوں نہ دے لیں اور اہلِ طغیان و طاغوت کی اس باب میں کیسی ہی نظریاتی معاونت کیوں نہ کرلیں کہ:
’’تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام!‘‘
مگر فسق و فجور، فسق و فجور ہی رہے گا۔ اصحاب النار، اصحاب النار ہی رہیں گے اور اصحاب الجنۃ، اصحاب الجنہ۔ دونوں مساوی درجہ پر فائز نہیں کیے جاسکتے۔ اصحابُ الجنۃ ہم الفائزون۔ مگر بقولِ اقبالؔ:
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند