اگر بچوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوتا تو شاید یہ مضمون لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بچہ مزدوری اور بچوں کے استحصال پر اس قدر دماغی اور کاغذی کام کرنے کی ضرورت نہ ہوتی کیونکہ پھرہمارے سیاست داں کم سے کم انتخاب کے موقعہ پر بچوں کے لیے سچ مچ سنجیدہ ہوجایا کرتے۔ بلکہ بچوں کے متعدد گروپ بھی سیاست میں اپنی قسمت آزما رہے ہوتے اور سیاسی سودے بازی کے ذریعے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ پچھلے ہفتے یومِ اطفال منایا گیا، اور اس سے پہلے ۱۰؍اکتوبر کو بچہ مزدوری کو روکنے کے لیے ایک اور قانون فائلوں پر بوجھ بن کر داخل ہوگیا۔ بچہ مزدوری کا معاملہ ہمارے ملک میں بالکل اسی طرح ہے جیسے ہم پندرہ اگست مناتے ہیں۔ اپنے سارے قومی تیوہاروں کی طرح ہم بچہ مزدوری کو بھی سیلبریٹ کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ جب اخبارات کے پہلے صفحہ پر کسی بچے کی بوجھ اٹھاتے ہوئے تصویر شائع ہو تو سمجھئے آج ۸؍نومبر ہے اور یہ یوم اطفال ہے۔ ایک دو تقریریں دس بیس مضامین چند جلسے جلوس، چینلوں کی بریکنگ اور اخباری کوریج اور تمت بالخیر۔
بچوں کے حقوق کے لیے اقوام متحدہ نے اس سے پہلے بھی ممبر ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ بچوں کی صحت، تعلیم اور استحصال سے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ بعض ممبر ممالک نے اس سلسلے میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے لیکن ہمارے ملک ہندوستان میں فی الحال ایسی علامتیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ ۱۹۸۶ء میں جب بچہ مزدوری کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون بنایا گیا تو اس وقت تک ہمارے ملک میں ایک کروڑ تیس لاکھ بچے مزدوری میں مصروف تھے۔ دس سالوں میں یہ تعداد گھٹ کر ایک کروڑ تیرہ لاکھ ہوئی۔ لیکن گلوبلائزیشن اور معاشی پالیسیوں میں لچک پیدا کرنے کے بعد ملک میں یہ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ ۲۶ لاکھ ہوگئی۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو حکومت کے مطابق ہیں۔ اقوام متحدہ کی بچوں کی تنظیم یونیسف کے مطابق ہندوستان میں تین کروڑ ۵۰ لاکھ بچے مزدوری میں پھنسے ہیں جبکہ دوسری غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق یہ تعداد دو سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس میں سے ۵۰ فیصد مزدور زراعت کے شعبے میں اور بقیہ سروس سیکٹر اور ہوٹلوں وغیرہ میں ہیں۔
ہمارے ملک میں بچہ مزدوری کے سلسلے میں کئی مفروضے بھی ہیں۔ دراصل بچوں کو مزدوری میں جھونکنے والے افراد اور کمپنیاں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ سستی محنت حاصل کرکے کم لاگت میں زیادہ پیداوار کرسکتے ہیں۔ عموماً بچے بھی چاہے وہ کارخانے میں ہوں یا ہوٹل میں زیادہ پھرتی کے ساتھ کام انجام دیتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے اس فریق کو سمجھنے اور سمجھانے اور قانونی دائرے میں لانے کا سرگرم رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ دوسری طرف وہ ماں باپ اور سرپرست ہیں جو اپنے ماتحت بچوں کو بڑی آسانی سے مزدوری کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ اس کے پیچھے کئی سماجی مسائل ہیں جس میں سب سے بڑا مسئلہ غربت کا ہے۔ اس ملک میں جہاں ۴۰ کروڑ افراد غربت کے دائرے میں ہیں، ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو صرف ایک ڈالر کے خرچ پر اپنی گھر گرہستی چلا رہے ہیں۔ کروڑ وں بچے ایسے ہیں جو ابتدائی تعلیم یا اسکول میں داخلہ پانے سے محروم ہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو غربت کی وجہ سے بچوں کو مزدور بنانا اپنے آپ کو مزید غربت کی طرف دھکیلنا ہے۔ ایک بچے کو تعلیم اور ہنر سے دور رکھ کر ہم اپنے طویل عرصے کے مستقبل کو مزید غریب کردیتے ہیں۔ یہ حقیقت سماجی بیداری کا موضوع بننا چاہیے تھا۔
دوسری طرف ہمارے یہاں ذات برادری اور ورن سسٹم کے مطابق کاموں کی تاریخی تقسیم ایک مخصوص طبقے کے لیے بچہ مزدوری کو مستقل جائز بنادیتی ہے۔ ۵۰۰۰ سالوں سے جن لوگوں کو بنیادی وسائل سے بھی محروم رکھا گیا۔ انھوں نے مجبور ہوکر اپنی ضرورتوں کے لیے بچوں کو مزدوری میں جھونکے رکھا۔ تیسری طرف قانون ہیں جن کو بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ قانون ملک سے اس لعنت کو ختم کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک میں قانون نے کب اپنا کام کیا ہے؟ کس لعنت کو ختم کرنے میں قانون نے اپنا اثر دکھایا ہے۔ اس لیے قانون سے امید رکھنا کہ وہ بچہ مزدوری کو ختم کردے ایک فضول بات ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قانون بذات خود خراب ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قانون کے نفاذ میں کون کیا کررہا ہے۔ جن افسروں کو فیکٹری سے موٹی رشوت مل رہی ہے، وہ بچہ مزدوری کے لیے کیوں سرگرم ہوں گے۔ اعلیٰ ذات کا افسر کیوں یہ چاہے گا کہ وہ پسماندہ ذات کے بچوں پر دست شفقت رکھے اور انھیں اس لعنت سے نجات دلائے۔ جب تک ملک کی نوکر شاہی کو ٹھیک ٹھاک نہ کیا جائے، جب تک نوکر شاہی کو ملک کی نمائندہ باڈی نہ بنایا جائے اس وقت تک یہ نوکر شاہی چند سرمایہ داروں اور چند نفرت زدہ فلسفوں کی غلام بنی رہے گی۔
چوتھی چیز خود قانون کا زیادہ سماجی ہونا ہے۔ مگر قانون سوشل فرینڈلی نہیں ہے۔ جس طرح سے قانون بنائے جاتے ہیں اس میں اس بات کے لیے کوئی متبادل نہیں ہوتا ہے کہ اس قانون سے متاثر ہونے والے خاندانوں کا کیا ہوگا۔ برازیل میں بچہ مزدوری پر کنٹرول کرنے کا سب سے کامیاب تجربہ ہوا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں برازیل میں ۵۰ فیصد بچہ مزدوری کا خاتمہ ممکن ہوا ہے اس کے لیے انھوں نے بچوں کے والدین کی کفالت کا انتظام کیا۔ لازمی تعلیم کو سختی سے نافذ کیا، بچہ مزدوری کو غیر قانونی قرار دیا اور ان کی انتظامیہ نے اس پوری اسکیم کو ایمانداری کے ساتھ نافذ کیا۔
پانچواں پہلو ہماری سماجی بیداری کی حالت ہے۔ بچوں کی مزدوری کو عوام کی ایک اکثریت بہت ہی ہلکے پھلکے انداز میںلیتی ہے جس کی وجہ سے استحصال کرنے والوں کی حوصلہ شکنی تو دور بلکہ حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ حال بلا تفریق ملت و مذہب پورے ملک کا ہے۔ مسلم محلوں میں بڑی بڑی داڑھیاں رکھ کر اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے ہوٹل کے مالکان اپنے بچہ مزدوروں کو ڈانتے مل جائیںگے۔ وہ پیغمبر جس نے بچوں کو جنت کا پھول قرار دیا۔ جس نے بچوں کی تعلیم و تربیت اور کفالت کو ان کے والدین اورسرپرستوں کی لازمی ذمہ داری قرار دیا ہے، وہاں بہت سے مواقع ایسے آئے جب بچہ مزدوری کو اصلاح معاشرہ کا موضوع نہیں سمجھا گیا۔ چند سال پہلے گجرات کے گاندھی آشرم میں ہندو مسلم رہنماؤں پر مشتمل ایک گروپ ٹھہرا۔ اس آشرم میں یتیم بچے رہتے ہیں۔ ان بچوں کو رات بھر جگا کر ان سے مہمانوں کے لیے انتظام کروائے گئے۔ کھانا بنوایا گیا، اگلے روز جب مہمان پہنچے تو ان بچوں نے ہی ان کو کھانا پیش کردیا۔ ان رہنماؤں میں کسی نے یہ نہیں سوچا کہ جن بچوں کا استحصال کرکے یہ کھانا انھیں پیش کیا جارہا ہے وہ انھیں کیسے منظور ہوگا۔ بالآخر ایک سماجی کارکن نے ہمت کرکے اعلان کیا کم سے کم وہ تویہ کھانا نہیں کھاسکیں گے۔ اس لیے بچہ مزدوری کے خاتمے کے لیے ایک بڑی سماجی بیداری بھی ضروری ہے۔ سماجی تحریک چلانے والے افراد، تعلیم یافتہ لوگ ایسے ہوٹلوں میں کھانا کھانے اور چائے پینے سے انکار کر دیں جہاں بچوں کا استحصال ہورہا ہے۔ یا پھر انھیں مجبور کریں کہ وہ ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا بھی فری انتظام کریں۔
بچہ مزدوری کے لیے ایک اور وجہ ہماری تعلیمی پالیسیاں اور روزگار کی پالیسیاں ہیں۔ ایک طویل عرصے سے ہماری تعلیمی پالیسیاں بھی ایسی ہیں جن سے روزگار کے لائق بنانے والے پرائمری اور اعلیٰ تعلیمی ادارے پرائیویٹ ہاتھوں میں ہیں اور سرکاری اور سستے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کا مطلب بے روزگار بناکر مجرم بن جانا، یا پھر بے راہ رو بنے رہنا ہے۔ حکومتوں کا طرز عمل یہ ہے کہ انھوں نے مسلم محلوں کے لیے تھانے اور پولیس چوکیاں بنائی ہیں اور اسکول دوسرے محلوں کے لیے ہیں۔ کہ بیشتر غیر سرکاری تنظیموں کے ایجنڈے میں سماج کے محروم طبقے کے لیے کوئی موثر پروگرام ہے ہی نہیں۔
بچہ مزدوری کو مستقل لعنت بنائے رکھنے میں پرائیویٹ سیکٹر کا بھی ایک بڑا رول ہے۔ جس ملک کی عوام سے انھوں نے دولت کے ڈھیر بنائے جس کی وجہ سے وہ دنیا کے چند بڑے امیروں میں شامل ہوگئے ہیں۔ ٹاٹا، برلا، امبانی سمیت سارے گروپ اسی دولت کا ایک معمولی حصہ بھی معاشرے کو واپس کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔اگر ان گروپوں نے ملک کے چند حصوں میں ایسے بچوں کے لیے کچھ پروگرام چلائے ہوتے اور شفافیت کے ساتھ محروم طبقات کے بچوں کو تعلیم یافتہ بناکر اپنی اور دوسری کمپنیوں میں روزگار دلاتے تو ہر سال ہزاروں خاندان اپنے بچوں کو مزدوری سے واپس بلالیتے۔
اس طرح سے بچہ مزدوری ایک سماجی مسئلہ ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے سماجی اور سیاسی سطح پر سرگرمی کی ضرورت ہے۔ معاشی اور تعلیمی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کا غریب طبقہ سب سے زیادہ شکار ہورہا ہے۔ اصلاحی تحریکات اور مذہبی تحریکات کو بھی اپنی ترجیحات میں بچوں کے مسائل کو شامل کرنا ہوگا، تب جاکر ہندوستان اس لعنت سے نجات پاسکے گا۔