ہفتے میں صرف ایک دن!
جدید وضع سے سجے ہوئے ڈرائنگ روم کو دوسرے انداز سے ترتیب دیا جاتا۔سامنے دیوار پر لگا ہوا مونا لیزا کی لافانی مسکراہٹ والافریم پلٹ دیا جاتا۔
منٹل پیس پر رکھا ہوا مجسمہ گوتم کا، ایفل ٹاور، سوئزرلینڈکے قدرتی مناظر، ننگے جسم اور عریاں پنڈلیاں، پیرس کی رقا صاؤں کا ممی بت، مچھلی کا سرتنکوں سے بنا ہوا دخانی جہاز، بھوسا بھرا ہوا ننھا، منّا ہرن اور آسام کے چائے کے باغات میں ٹوکریاں سنبھالے عورتیں، سب پر لمبی لمبی نقابیں ڈال دی جاتیں۔ کونے کی میز پر رکھے ہوئے ٹیلی ویژن سیٹ کو تابوت کی شکل دینے کے لیے سفید غلاف منڈھ دیا جاتا۔ جھالروں والے دیوان پر سے پردہ اور جانوروں کے پروں والے کشن ہٹا کر گاؤ تکیہ رکھا جاتا اور کمرے کی تمام جدید روشنیاں گل کرکے درمیان میں لگا ہوا فانوس جلادیا جاتا۔ تب کمرے میں ایک دبیز اور خوابناک سی فضا قائم ہوجاتی۔ گھر کے افراد اور ان کے رشتے دار تقدس اور پاکیزگی کا جذبہ لیے ہوئے کمرے میں داخل ہوتے۔ دن کو اسی انداز میں گزارنے کا خیال گھر کے بزرگ کو اچانک ہی آیا تھا۔ لادینی اور بے راہ روی کا دھارا ایسا اندھا دھند بہہ رہا تھا کہ کبھی کسی بھی وقت قیامت آسکتی تھی۔ لوگوں کو راہِ راست پر لانے کی یہ ایک معمولی سی کوشش تھی جو گھر سے شروع ہوکر اب آہستہ آہستہ پورے خاندان پر اپنا اثر کررہی تھی۔
ہفتہ بھر کے ہنگاموں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد لوگ وقت مقررہ پر پہنچ جاتے۔ عورتیں سروں پر ساریوں کے پلو سنبھال کر اور اپنے نیم عریاں بازوؤں کو ڈھک کر بیٹھ جاتیں اور مرد رومال اور ٹوپیوں سے اپنے سر ڈھانپ لیتے اور تب کمرے کی خاموشی کو توڑتی ہوئی ایک آواز ابھرتی:
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے گویا کہ وہ پتھر ہیں۔‘‘
’’یا ان سے بھی زیادہ سخت حالانکہ بعض پتھر ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی بہہ نکلتا ہے۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف سے گر پڑتے ہیں، اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘
آواز وسیع کمرے کے گہرے سناٹے میں پھیلتی۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے درجن سو ا درجن افراد ایک دوسرے کو دیکھتے اور ٹٹولتی نظریں ایک دوسرے کے سینے میں گھس کر تلاشی لینی شروع کردیتیں اور دوسرے ہی لمحے گھبرا کر پلٹ آتیں۔ان کے دل خوف سے لر ز اٹھتے۔ پھیلے ہوئے سناٹے میں دلوں کی ٹھکا ٹھک ابھر ابھر کر ایک دوسرے کو بلانے لگتیں۔چہرے ست کرنیچے کی طرف لٹک جاتے، پیشانیاں ندامت کے پسینے سے بھیگ جاتیں اور گردنیں شرمساری سے جھک جاتیں کہ پھر وہی آواز ابھرتی۔
’’کیا وہ لوگ نہیں جانتے تھے؟ حق تعالیٰ کو سب خبر ہے، ان چیزوں کی جن کو وہ مخفی رکھتے ہیں اور ان کی بھی جن کا وہ اظہار کرتے ہیں، کیا انسان یعنی حشر ونشر کا منکر شخص یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں ہرگز جمع نہ کریں گے؟ کیوں نہیں، ہم اس پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پوروں تک کو درست کردیں۔‘‘
آواز بتدریج بڑھتی پھیلتی ،کانوں سے ٹکراتی اور دل پر گرم گرم برمے کی طرح پڑتی۔ عجز و نیاز سے جھکی ہوئی گردنیں کچھ اور جھک جاتیں۔ وہ سب سراسمیگی سے ادھر ادھر دیکھتے۔
پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنے میں جہاں بہت سے فائدے ہیں، مالی منفعت، روپیہ کی بچت، فارغ البالی اور خوشگوار مستقبل، وہاں ایک نقصان بھی ہے، وہ ہے مذہب کا زیاں۔ لیاقت حسین کے نتھنے کانپے اور انھوں نے چور نگاہوں سے اپنی بیوی کو دیکھا۔ بیوی کا وقار اور حسن اس لمحے عذاب بن کر ان کے احساسات پر چھا گیا۔ نائلہ جس سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی تھی وہ شہر کی ایک اعلیٰ سوسائٹی تھی۔
نگاہوں کی گرمی اپنے چہرے پر محسوس کرکے نائلہ نے ذرا گردن گھما کر شوہر کی طرف دیکھا۔ لیاقت حسین کا شرمسار چہرہ دیکھ کر نائلہ کی باچھیں کھل گئیں لیکن اس نے بڑے ادب سے سرپر لئے ہوئے ا سفید ساری کے پلو کو اور آگے کی طرف سرکایا۔ اپنے کھلے بازوؤں کو اچھی طرح ساری سے ڈھانکا اور پوری طرح مؤدب ہوکر بزرگ کے چہرے پر جمادیں۔ خاموشی کے طلسم میں بزرگ کی آواز پر اسرار بن کر چھاتی ہوئی بڑھتی۔
’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے جائے قرار بنایا اور اوپر آسمان کا گنبد بنایا۔ پھر کیا یہ زمین پر چلے پھرے نہیں کہ ان کو ان لوگوں کا انجام نظر آتا، جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں، جو ان سے تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ ان سے طاقت میں بہت زیادہ تھے اور زمین میں ان سے شاندار آثار چھوڑ گئے ہیں، جو کچھ کمائی انھوں نے کی تھی آخر وہ ان کے کس کام آئی؟ عنقریب انھیں معلوم ہوجائے گا جب طوق ان کی گردنوں میںہوں گے اور زنجیریں جن سے پکڑ کر وہ کھولتے ہوئے پانی کی طرف کھینچے جائیں گے۔‘‘
یہ آواز ظفر علی کے اوپر پہاڑ بن کر گری۔ عجلت سے رومال نکال کر انھوں نے اپنا پسینہ خشک کیا، آواز آتی رہی۔ ظفر علی کے آگے ان کی چار لڑکیاں – دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں، جن کی شادی کے لیے وہ ہاتھ پیر ماررہے تھے۔ بڑی لڑکی ریحانہ ایم اے کرچکی تھی۔