کیا کریں جب ایسا ہو؟

تحریر: تیسیر الزائد ترجمہ: تنویر آفاقی

جیسے ہی نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا مجھے اپنی سات سالہ بچی کے ساتھ ایک نئے تجربے سے دوچار ہونا پڑا۔ اس تجربے کے بعد میں اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لینے پر مجبور ہوگئی۔ اس سلسلے میں چند ویب سائٹس کا بھی مطالعہ کیا۔ جس کے بعد اس نئے مسئلہ کو حل کرنے کی چند ترکیبیں اور تجاویز مجھے حاصل ہوئیں۔ اب میں چاہتی ہوں کہ کبھی اگر آپ بھی اس قسم کے تجربے سے دوچار ہوں تو ان ترکیبوں اور تجاویز کو اپنا کر دیکھیں، شاید آپ کا مسئلہ بھی حل ہوجائے۔

اسکول جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو میری بیٹی نے اچانک لا پروائی اور بے توجہی کا رویہ اختیار کرلیا۔ میں اور اس کے ابو اس سے اسکول کے متعلق سوال کرتے، سلیبس کے متعلق کوئی سوال کرتے یا اس کے دوستوں کے متعلق ہی کچھ پوچھتے تھے، وہ کوئی جواب نہیں دیتی تھی بلکہ مکمل طور پر بے توجہی کا رویہ اختیار کرلیتی تھی۔ اس کی یہ بے رخی اور بے توجہی اتنی بڑھی کہ ہوم ورک سے بھی جی چرانے لگی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ ہماری باتوں پر ایسا طرزِ عمل اپناتی گویا ہماری بات سن ہی نہیں رہی ہے۔ بچہ اگر اس قسم کا رویہ اختیار کرنے لگے تو اس سے یقینا ماں باپ کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں اور انھیں غصہ آجاتا ہے۔ اس وقت کی ان کی حالت کو وہی والدین سمجھ سکتے ہیں جنھیں بچے کی اس کیفیت سے دوچار ہونا پڑا ہو۔

اس مسئلے سے متعلق مختلف ویب سائٹس کے توسط سے جو کچھ مجھے معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ بچہ آپ سے اس قسم کی بے رخی اور توجہی کا رویہ اس لیے اپناتا ہے کیونکہ یہ رویہ بچے کے اندر قوت کا احساس پیدا کرتا ہے اور معاملے کی زمام پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ رویہ اس احساس کا بھی مظہر ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہوگیا ہے، نیز آپ کی بات نہ سن کر یا اس پر کوئی توجہ نہ دے کر گویا وہ اپنے بازوؤں کی طاقت آپ کو دکھانا چاہ رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں ماہرین کی رائے یہ ہے کہ والدین خود سے یہ اہم سوال کریں کہ ’’اس وقت میرا بچہ مجھ سے کیا چاہتا ہے؟‘‘

یقینی طور پر وہ مزید قوت کا خواہش مند ہے۔ اور جوں ہی حسنِ اخلاق، والدین کی فرماں برداری و اطاعت کے تعلق سے آپ اپنے لیکچر کا آغاز کرتے ہیں، اس کے پہلے ہی حرف سے وہ قوت حاصل کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس لیے اس موقع پر یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ نرمی کے ساتھ بچے کے مفاد اور اس کے مستقبل کے متعلق سنجیدگی سے غوروفکر کریں اور اس کے بعد ہی کوئی قدم اٹھائیں۔

سنجیدہ قدم

اس موقع پر ضرورت یہ ہے کہ آپ کوئی سنجیدہ اور حتمی قدم اٹھائیں لیکن یہ کام فوری طور پر نہ کریں، بلکہ آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر کسی دوسرے کام میں مشغول ہوجائیں۔ لیکن یہ نہ سمجھیں کہ اس طرح بچہ آپ پر غالب آگیا ہے، بلکہ تھوڑی دیر کے لیے اس صورت حال سے باہر نکل کر آپ اپنے کو منظم کرکے مسئلے کے تمام پہلوؤں پر اطمینان سے غوروفکر کرسکیں گے اور کوئی ایسا طریقہ اختیا رکرسکیں گے جو نہ تو آپ کے بچے کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہو اور نہ ہی گھر کے پرامن ماحول پر اس کا کوئی برا اثر پڑے۔ یہ بات ہمیشہ آپ کے پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ آپ کا بچہ اپنی نفسیاتی و جسمانی نشوونما کے دوران ان حدود سے زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو گھر کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ اس میں آپ کو اس کی مدد کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر آپ کا بچہ مہمانوں کی آمد پر انھیں سلام کرنے سے انکار کرتا ہے، یا ہچکچاتا ہے تو مہمان کے رخصت ہونے تک آپ اسے کچھ نہ کہیں۔ مہمان تشریف لے جائیں تو بچے کو واضح طور پر اس بات سے باخبر کردیجیے کہ ’’دیکھو، ہم تمھارے دوستوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے ہیں، تمہاری طرح ہی ان کو بھی پیار کرتے ہیں، لیکن اگر تم ہمارے دوستوں کے ساتھ مہذب طریقے سے پیش نہیں آؤگے تو …‘‘ یہاں آپ کسی مناسب سزا کا ذکرکردیں جس کے بارے میں آپ کو یقین ہو کہ اس سزا کا ذکر اس پر ضرور اثر انداز ہوگا۔ مثلاً یہ کہ تمھیں فلاں پروگرام میں شرکت نہیں کرنے دی جائے گی یا تمھارا فلاں کھلونا تم سے واپس لے لیا جائے گا۔ البتہ اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کے دوران بچوں سے آپ کی گفتگو کا انداز کیا ہونا چاہیے، اس پر ہم آئندہ سطور میں گفتگو کریں گے۔

بچوں سے گفتگو کے طریقے

بچوں کے ساتھ گفتگو کے سلسلے میں ایک اہم بات کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنے بچوں سے جس طرح اور جس انداز میں گفتگو کرتے ہیں آپ کے بچے بھی دوسروں سے گفتگو کرنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کریں گے۔ اور ظاہر بات ہے آپ یہی چاہیں گے کہ آپ کا بچہ مہذب اور شائستہ انداز میں دوسروں سے گفتگو کرے۔ بچے کی اس پہلو سے تربیت میں درج ذیل نقاط سے آپ کو مدد مل سکتی ہے:

(۱) گفتگو کے آغاز سے پہلے بچے سے جسمانی رابطہ بھی قائم کیجیے۔ یہ بہت اہم ہے کہ گفتگو کے وقت وہ آپ کی نظروں کے سامنے ہو اور آپ کی آنکھیں بچے کی آنکھوں کے عین سامنے ہوں۔ لیکن آپ کی آنکھوں میں کسی قسم کی سختی کی جھلک نہ ہو ورنہ بچہ یہ سمجھے گا کہ آپ اسے قابو میں کرنا چاہتے ہیں حالانکہ آپ کا مقصد صرف اس کو سمجھانا اور اس کی بات کو سمجھنا ہے۔ اسے اپنی جانب متوجہ ہونے کا موقع دیجیے۔ مثلاً آپ اسے اس کے نام سے پکار کر اس قسم کی بات کہیں: ’’احمد، میں چاہتا ہوں کہ تم میری طرف دھیان دو۔‘‘ یا ’’فاطمہ! میری طرف دیکھو۔‘‘ وغیرہ۔ یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ ’’گفتگو کے آغاز میں آپ بچے کو اس کانام لے کر ہی مخاطب کریں۔

(۲) مختصر جملوں اور عبارتوں کا استعمال کریں۔ اسی طرح گفتگو بھی بہت طویل اور بورکرنے والی نہ کریں۔ کیونکہ آپ کی بات جس قدر طویل ہوگی بچہ اتنی ہی زیادہ بے توجہی برتے گا۔ بلکہ آپ کی طویل اور بور کرنے والی باتوں سے بچہ یہ مطلب اخذکرے گا کہ آپ کو خود اپنی بات پر اعتماد نہیں ہے۔ ہوگا یہ کہ آپ تو ایک ہی نقطے پر زور دینے کے لیے بار بار اسے دہراتے رہیں گے حالانکہ لمبی بات ہوجانے سے بچے کی حرکت سے آپ کو غصہ آسکتا ہے۔ اور یہ مقصد ہرگز ہمارا نہیں ہے۔

(۳) آسان اور سادہ الفاظ کا استعمال کریں جو بچے کی عمر کے بالکل مناسب حال ہوں۔ جس وقت بچے آپس میں گفتگو کررہے ہوں، آپ اس وقت بھی ان پر نگاہ رکھیں کہ وہ کیا بول رہے ہیں، اس طرح آپ ان کی زبان کو سمجھ سکیں گے اور ان کی زبان میں بات کرنا آپ کے لیے آسان ہوجائے گا۔ حرکات و سکنات میں عجیب سی تبدیلی محسوس ہو تو سمجھ جائیے کہ بچہ آپ کی بات سمجھ نہیں پا رہا ہے۔ بچوں کے سلسلے میں والدین کی طرف سے ایک بڑی غلطی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ایسے جملے یا ان سے ایسے سوال کرتے ہیں جو بچے کی عمر سے بالکل مناسبت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر بچے سے یہ سوال کیا جائے کہ : ’’تم نے یہ کام کیوں نہیںکیا؟‘‘ اس سوال کا جواب دینا بچے کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات بڑوں کے لیے بھی اپنے کسی کام کے سلسلے میں کوئی صفائی یا وضاحت بڑی مشکل ہو جاتی ہے۔

(۴) بچے کے سامنے ایسی پیش کش رکھیں جو اس کو آپ کی بات ماننے کے لیے راغب کرسکیں۔ مثال کے طور پر آپ اس سے کہیں کہ ’’اسکول یونیفارم اتار کر کپڑے تبدیل کرلو تاکہ ہوم ورک کرنے سے پہلے تم آسانی سے کھیل سکو۔‘‘

(۵) بچے سے مثبت انداز میں بات کریں۔ بچہ اگرگھر کے اندر اچھل کود مچا رہا ہے تو اس سے یہ کہنے کے بجائے کہ ’’یہاں مت کودو، یا یہاں مت کھیلو۔‘‘ آپ اس سے یہ کہیں کہ ’’تم باہر صحن میں جاکر کھیل سکتے ہو۔‘‘

(۶) بات کا آغاز اس جملے سے کریں کہ ’’میں چاہتا ہوں یا میں چاہتی ہوں…‘‘ مثال کے طور پر آپ بچے سے کہیں کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے بھائی کو بھی کھیلنے کا موقع دو۔‘‘ یا ’’میں چاہتا ہوں کہ تم صوفے سے نیچے اتر کر کھیلو۔‘‘ اس طرح کے جملوں کا خاص طور سے ان بچوں پر اچھا اثر پڑتا ہے، جنھیں یہ بات پسند نہیں آتی کہ ان سے حکم کے انداز میں کوئی بات کہی جائے۔

(۷) کام کو وقت کے ساتھ مشروط کردیں۔ مثلاً بچے سے کہیے کہ’’جب تم دانتوں میں برش کرلوگے تو میں تمھیں کہانی سنادوں گا۔‘‘ یا ’’جب تم اپنا ہوم ورک مکمل کرلو تو کارٹون فلم دیکھ سکتے ہو۔‘‘ ایسے موقع پر ہم نے ’’اگر‘‘ کے بجائے ’’جب‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ کیونکہ ’’اگر ‘‘ سے بچہ یہ مطلب اخذ کرسکتا ہے کہ اسے اختیار ہے کہ وہ متعلقہ کام کو انجام دے یا نہ دے۔ اور ظاہر بات ہے یہ آپ کا مقصد ہرگز نہیں ہے۔

(۸) جس وقت آپ کا بچہ کسی اور کام میں مشغول ہو اور آپ اس دوران اس سے کوئی کام کرانا چاہتے ہوں تو نرمی اور ملاطفت کا انداز اختیار کیجیے۔ مثال کے طور پر اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ٹی وی بند کرکے سبق یاد کرنے بیٹھ جائے تو پہلے چند منٹ کے لیے اس کے پاس بیٹھ کر وہ پروگرام دیکھ لیجیے جو وہ دیکھ رہا ہے اور جب وہ پروگرام ختم ہوجائے یا اشتہار کے لیے وقفہ ہوجائے تو اس سے ٹی وی بند کرادیجیے اور کہیے کہ اب جاکر اپنا ہوم ورک کرلے۔ یہ کام آپ کو خوش اسلوبی سے انجام دینا ہوگا۔

(۹) آپ جو کام اس سے کرانا چاہتے ہیں اس میں اسے اختیار بھی دیجیے۔ مثال کے طور پر آپ چاہتے ہیں کہ بچہ سلیپنگ ڈریس پہن لے اور سونے سے پہلے دانت بھی صاف کرلے، تو آپ اس سے اس طرح کہیں کہ ’’بیٹا تم سلیپنگ ڈریس پہنو گے یا دانت صاف کرکے پھر پہنو گے؟‘‘ یا یہ کہ ’’سرخ رنگ کی شرٹ پہنو گے یا نیلے رنگ کی؟‘‘

(۱۰) ہر بچہ تہذیب سے بولنا سیکھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ قدرت دی ہے کہ اگر اسے تربیت دی جائے تو وہ سیکھ سکتا ہے۔ ’’اگر آپ کی اجازت ہو۔‘‘ ’’شکریہ‘‘ جیسے الفاظ مشق وممارست کے ذریعہ بچہ بہ آسانی سیکھ لیتا ہے۔ لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچہ دوسروں کے ساتھ اسی طرح گفتگو کرے تو آپ بھی اس کے ساتھ ایسے ہی بات کیجیے۔

(۱۱) ہمیشہ بچے کو دفاعی پوزیشن میں مت رکھیے۔ مثال کے طور پر آپ ہمیشہ اس سے اسی قسم کے سوال مت کرتے رہیے کہ ’’میں نے جو کام تم سے کہا تھا وہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ یا ’’جلدی سی کپڑے پہنو۔‘‘ اس کے بجائے وہی انداز اور جملے اختیار کیجیے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔

(۱۲) بڑے بچوں کے سلسلے میں ہوسکتا ہے آپ کو کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑتا۔ ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے مطلوبہ کاموں کی فہرست ایک کاغذ پر اس طرح لکھ کر دیں کہ اسے پسند آئے۔ فہرست کے صفحے پر آپ دلچسپ اسکیچز اور تصویریں بھی بناسکتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے بچے کو وقت پر ایس ایم ایس بھیج کر بھی اسے کام یاد دلاسکتے ہیں۔

(۱۳) بچے کے ساتھ گفتگو کرنے کا کردار آپ نے جس مہارت سے نبھایا ہے، اسی مہارت سے بچے کی باتوں کو توجہ سے سننے کا کردار بھی آپ کو نبھانا پڑے گا۔ یعنی یہ ضروری ہے کہ آپ بھی بچے کی بات کو پوری توجہ سے سنیں، کوشش کریں کہ بچے کے غصے کو آپ جذب کرلیں اور اسے یہ احساس دلائیں کہ آپ اس کی بات کو بہ خوبی سمجھ رہے ہیں۔ بچے کے جذبات کے ساتھ وہی معاملہ کیجیے جو بچوں کی بات سمجھ لینے والے شخص کو کرنا چاہیے۔

(۱۴) اکثر اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ آپ اپنے چھوٹے چھوٹے جملے اس کے سامنے دہرائیں، خاص طور سے اس وقت جب کہ آپ کا بچہ تین سال سے کم عمر کا ہو۔ لیکن جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی رہے جملوں کی اس تکرار کو کم کرتے جائیں۔

(۱۵) اسے غوروفکر کرنے اور سوچنے کا موقع دیں۔ اس کو یہ مہلت دیں کہ وہ آپ کے جملوں میں خالی جگہ کو پُر کرسکے۔ مثال کے طور پر یہ کہنے کے بجائے کہ ’’اپنے اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے سامان کو سلیقے سے رکھو۔‘‘ آپ اس سے یوں کہیں کہ ’’تم اپنی ان مختلف چیزوں کو کہاں رکھو گے؟‘‘ تاکہ وہ آپ کوسوچ کر جواب دے سکے کہ کہاں رکھنا ہے۔

(۱۶) کسی کام سے روکنے سے پہلے ایک بار اسے توجہ ضرور دلادیں یا ہوشیار کردیں۔ خاص طور سے جب آپ یہ چاہتے ہوں کہ وہ کھیل ترک کرکے سونے کے لیے چلا جائے یا آپ کسی دوست کے یہاں جائیں اور آپ کا بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہو تو وہاں سے روانہ ہونے سے پہلے بچے کو توجہ دلادیں۔

(۱۷) دوسروں سے باتیں کرنے کے سلسلے میں بچے کی حوصلہ افزائی کیجیے ۔ آپ اپنے اختیار اور پسند سے اس کے لیے موضوع کا انتخاب کیجیے کہ وہ اس موضوع پر بات کرے یا ان چیزوں کے سلسلے میں بتائے، جن سے اسے خوشی ہوتی ہے۔ بالخصوص جب آپ کا بچہ اسکول سے واپس آئے تو اس سے عام قسم کے سوالات مت پوچھئے بلکہ کوشش کیجیے کہ کسی خاص بات سے متعلق اس سے سوال کریں۔

(۱۸) بچے کی سرزنش کے وقت اس کی جانب سے آپ کی بات کو نہ ماننے یا انکار کرنے کا ردِ عمل سامنے آئے تو آپ اپنی بات اس قسم کے جملے پر ختم کیجیے ’’میں نے جو کہہ دیا اسے اب بدلوں گا نہیں، میں مجبور ہوں۔‘‘ خاص طور سے ایسے معاملات میں جہاں لازمی طور پر آپ اسے سرزنش کرنا ضروری سمجھتے ہوں۔ ایسے موقع پر وہی مناسب فیصلہ کیجیے جو بچے کے مفاد میں ہو۔

بچے کی تربیت کا یہ پہلو ایسا ہے کہ اس میں آپ کو صبر اور مستقل مزاجی سے کام لیتے ہوئے بچے کے مستقبل پر نگاہیں مرکوز رکھنی ہیں۔ ابتداء میں ہوسکتا ہے کہ آپ پریشان ہوجائیں، جھنجھلاہٹ کا شکار بھی ہوسکتے ہیں، لیکن بعد میں معاملہ خود بہ خود آسان ہوجائے گا۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہماری اولاد ہمارے پاس امانت ہے۔ وہ اللہ کی نشانیاں اور اللہ کی طرف سے ہماری مدد کا ذریعہ ہیں۔ اس بات پر مکمل یقین رکھیے کہ جو اچھے عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ ان کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146