کیا ہم زمانے کے ساتھ بدل جائیں؟

مریم جمیلہ

’’اگر اسلام نے نئی دنیا کے ساتھ مطابقت پیدا نہ کی تو وہ ختم ہوجائے گا۔‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو مسلمان ملکوں کا مغربی تعلیم یافتہ اور با اقتدار طبقہ مسلسل دہراتا رہتا ہے۔ وہ یہ تنبیہ کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتاکہ ہم لوگ گزرے ہوئے زمانے میں زندگی بسر نہیں کرسکتے، ہمیں تعلیم دی جاتی ہے کہ عہد گزشتہ کو واپس لانے کی کوشش، محض خام خیالی ہے کیونکہ کوئی شخص بھی تاریخ کے میلان کو بدل نہیں سکتا۔ لہٰذا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ بدلتی ہوئی سیکولر سوسائٹی کے مطالبات مان لیں اوراپنے اعتقادات انہی سانچوں میں ڈھال لیں۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ طاقت حاصل کرنے کے لئے قرآن کی ان تشریحات وتعبیرات کو رد کردینا چاہئے جو نسلاً بعدنسل ہوتی چلی آرہی ہیں اور قرآن کو آزادانہ اور جدید زندگی کی روشنی میں پڑھناچاہئے۔
عملی طور پر وہ تمام اصلاحات جن کی مسلمان حکومتیں تائید و حمایت کرتی ہیں۔ اپنے دماغ میں یہی منزل مقصود رکھتی ہیں۔ ان حالات میں ہمیں اس پہلو سے اچھی طرح غور وفکر کرنا چاہئے کہ مذکورہ بالا تعلیمات و خیالات کا امت مسلمہ پر کیسا اثر پڑے گا۔
چونکہ حکومت اسلامی کا نظریہ اس دنیا کے لئے جس پر خالص مفاد پرستی کی حکومت ہے، ایک عذاب کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے ہم سے یہ مغربی تعلیم یافتہ لیڈر کہتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ کے لئے خلافت کے خاتمے کو قبول کرلینا چاہئے اور اس امکان کو خارج از بحث سمجھنا چاہئے کہ آئندہ وہ کبھی زندہ ہوسکے گی۔ اب وہ حکومت و سیاست جس کی بنیاد مذہب پر ہو عہدوسطیٰ کی قابل نفرت علامت سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا دنیائے جدید میںاپنا مقام حاصل کرنے کے لئے سیکولر حکمرانی سے مصالحت کرلینی چاہئے اور اپنے آپ کو اسی کے موافق تیار کرنا چاہئے ۔ اس منزل کی طرف مارچ کرنے کے لئے مسلمان ملکوں میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جن میں ثابت کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے تمام تاریخی مصائب کی وجہ خلافت تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خلافت وحکومت اسلام کا کوئی حقیقی جزو نہیں ہے اس لئے کہ پیغمبر علیہ السلام کا مشن صرف تبلیغ میں محدود تھا۔ انہوں نے کبھی بھی حکومت کی خواہش نہیں کی۔ وہ صرف حالات تھے جنھوں نے ان کو حکومت قائم کرنے پر مجبور کردیا۔
کوئی علمی وفکری بددیانتی اتنی گہری نہ ڈوبی ہوگی جتنی ان لوگوں کی خیانت ڈوب چکی ہے۔ اسلام ایک اسلامی جماعت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور اسلامی جماعت منظم اداروں اور قیادت کے بغیر سلامت نہیں رہ سکتی۔
خاتمۂ خلافت کے بعد دوسرا قدم شریعت اسلامیہ کا اخراج ہے۔ جب سے اسلامی قانون کے بارے میں مغربی تعلیم یافتہ لیڈروں نے یہ خیال قائم کیا ہے کہ وہ غیر ترقی یافتہ ہے اور اس کا تصور عدل مغرب کے قانونی دروبست سے پست ہے ۔ اس وقت سے یہ بات بھی مان لی گئی ہے کہ صرف لادینی قوانین ہی مسلمانوں کی سماجی فلاح کے ضامن ہوسکتے ہیں اور انہیں عہد حاضر کے جدید معاشرے کا تکمیلی جزو بناسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ سود خواری، شراب نوشی، قمار بازی اور زناکاری جیسے قرآنی قوانین کی ممانعت کا نفاذ، موجودہ دور میں زیادہ دنوں تک قابل قبول نہیں رہ سکتا۔ ان جرائم پر قرآن نے جو سزائیں مقرر کی ہیں انہیں غیر انسانی اور وحشیانہ کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا ایک برائی وقت اور مقام کا لحاظ کئے بغیر برائی نہیں رہتی؟ کیاکسی قانون کی عمدگی کافیصلہ صرف اس کی نرمی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ کیا جرائم پیشہ طبقہ پورے معاشرے سے زیادہ ہمدردی کا مستحق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ شریعت کے بغیر اسلامی طریق زندگی محض کھوکھلے نظریات کا مجموعہ رہ جاتا ہے۔
اسلامی قیادت اور اسلامی قانون کو نکال باہر کردینے کے بعد امت کے پارہ پارہ ہوجانے میں کوئی دشواری نہ تھی ۔ ایک ایسی عالمی اسلامی اخوت، جو نسل، زبان اورجغرافیہ سے بلند ہو اب قومی و وطنی برتری سے آنکھ ملانے کے لائق نہ رہی ۔ بنا بریں مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ ’’روح عصر‘‘ کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لئے امت وملت کے نظریے کو ترک کرکے اس کی جگہ قوم پرستی (نیشنلزم) کو قبول کرلینا چاہئے۔
نظریۂ قوم پرستی کی مقبولیت نے مختلف ملکوں کے رہنے والے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا اور ایک دوسرے کا مخالف بنا دیا ہے۔ یہ نظریہ اس حد تک جاپہنچا ہے کہ ایک مشترکہ اسلامی ورثے پر زور دینے کے بجائے قوم پرست لیڈر اپنے ملک کی جاہلی تہذیب پر اس طرح فخرکرنے لگے ہیں جیسے وہ ان کا زریں دور تھا۔ جس سے اسلام نے انہیں محروم کردیا۔ مثال کے طور پر ترکی قوم پرست لیڈر اپنے جد اعلیٰ عثمان کے عہد کو بیرونی زبانوں کی غلامی کا زمانہ قرار دیتے ہیں۔ رضا شاہ پہلوی نے اپنے ملک کا نام فارس کے بجائے ایران رکھ دیا اس لئے کہ فارس کسی زمانے میں ایرین نسل کا وطن تھا۔ متحدہ عرب جمہوریہ (مصر) کی حکومت، قاہرہ کے پبلک مقامات پر فرعون کے دیو قامت مجسمے بنوا رہی ہے اور اس پر ایک عظیم عرب بادشاہ کی حیثیت سے فخر کر رہی ہے۔ قوم پرست لیڈر حضرت عمرؓ کو ایک عظیم الشان اس لئے نہیں سمجھتے کہ وہ مقدس اور خدا پرست خلیفہ تھے بلکہ ان کی عظمت کے گن اس لئے گاتے ہیں کہ وہ عجمی قوموں پر عربی حکومت مسلط کرنے کے ہیرو (چیمپئن ) تھے۔
بعض موضوعات پر یہ نئی روشنی کے لیڈر بے حد اصرار کرتے ہیں ، مثلاً ان کے نزدیک اتحاد اسلامی کا نظریہ اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ اسی بات کو ایک ترکی لیڈر اسی طرح پیش کرتا ہے۔ ’’ہم ایک ترکی اسلام وضع کرنا چاہتے ہیں جو اسی طرح ہمارا خاص اسلام ہوگا جس طرح انگلش چرچ انگلینڈ کے لئے خاص ہے۔ انگلش چرچ نہ اٹالین ہے نہ جرمن اس کے باوجود کوئی شخص بھی ملامت نہیں کرتا کہ انگریز عیسائی نہ رہے۔ پھر ہم ترک ہی کیوں اپنے خاص اسلام سے محروم رہیں‘‘۔
یہ جو مسلسل شور مچتارہتا ہے کہ بغیر متن کے قرآن کا سرکاری ترجمہ شائع کیا جائے تو دراصل اس کے پیچھے وہی نیشنلزم کانظریہ کام کر رہا ہوتا ہے ۔ ترکی اور انڈونیشیا نے لاطینی حروف تہجی اختیار کرلیے ہیں اور انگریزی زبان کی برتری تسلیم کرلی ہے۔ نیز دیگر غیر عرب ممالک کے نظامہائے تعلیم میں عربی زبان سے غفلت برتی جارہی ہے۔ اس طرح قرآن کی زبان تیزی سے ناقابل فہم ہوتی جارہی ہے۔ بغیرمتن کے قرآن کا سرکاری ترجمہ نہ صرف یہ کہ امت مسلمہ کی بربادی کو مکمل کردے گا بلکہ خود قرآن کے متن میں بھی خلل انداز ہوگا۔
اسلامی دنیا کی مسلمان حکومتوں میں صنعتی انقلاب کے ذریعہ معاشی ترقی اور معیار زندگی کو اونچا کرنے کا بے حد جوش پایا جاتا ہے ۔ کوئی شخص پوچھ سکتا ہے ، کیا یہ اسلام کے خلاف ہے؟ کیا اسلام معاشی انصاف اور انتہائی غربت کو دور کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا؟ قرآن، ترک دنیا اور رہبانیت کی مذمت کرتا ہے اور ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم اپنی جائز کمائی ہوئی دولت سے استفادہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ کائنات کی دولتوں اورنعمتوں کو انسان کی بھلائی کے لئے استعمال کیا جائے۔ لہٰذا اسلام مشینی ارتقاء کا دشمن نہیں ہوسکتا۔ بات ٹھیک ہے لیکن دوسری طرف اسلام سختی سے عہد حاضر کے اس نظریہ کا مخالف ہے کہ مادی استحصال اور جسمانی ومادی طاقت کا نقصان تو برداشت نہ کیاجائے اور انسانی وجود کے اخلاقی پہلو کی طرف سے مکمل غفلت برتی جائے۔
یہ بات نہیں ہے کہ سائنسی اکتشافات بطور خود نقصان دہ ہیں بلکہ زیادہ تر مادی فلسفہ ٔ حیات، صنعت و حرفت کو تخریبی مقاصد کے لئے اس طرح استعمال کرتا ہے کہ انسانیت پر مصائب کے بادل چھا جاتے ہیں اور خاندانی تعلقات اورمذہبی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔ عہد جدید کے کارخانے اپنے کارندوں کو عبادت کے لئے وقت نہیں دیتے۔ رمضان کے روزوں کی اس لئے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ اس سے کارخانے کی پیداوار پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس نظریہ نے اسکولوں پر بھی حملہ کیا ہے جہاں خالص مفاد پرستانہ مضامین پورے نظام الاوقات پر مسلط کردیئے گئے ہیں ۔ اس طرح فنی اور تجارتی درسیات کی انتہائی توقیر اور اسلامیات کی تحقیر کی جاتی ہے۔ عہدجدید کا صنعتی انقلاب اس فلسفہ کو ترقی دے رہا ہے کہ کسی آسمانی مدد کے بغیر انسان، غربت، مرض اورجہالت پر قابو پاسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ سائنس نے انسان کو اللہ سے آزاد کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غربت اور سماجی ناانصافی کے خلاف جنگ میں کوئی حکومت نہیں چاہتی کہ قرآن کے قوانین زکوٰۃ، حرمت سود اور میراث کو نافذ کرے یا اوقاف کو مؤثر طریقے سے استعمال کرے۔
’’مسلمان عورت کی آزادی ‘‘ ان لیڈروں کے نزدیک سماجی ترقی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اگر ’’آزادی‘‘ سے ان کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں کو اس کا حق ملنا چاہئے کہ وہ تعلیم کے ذریعہ اپنی دماغی صلاحیت کو ترقی دیں اور جہاں ضروری ہو وہاں اپنی قابلیتوں سے اپنی روزی بھی حاصل کریں تو یہ بات ٹھیک ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے مساوات مرد وزن کے مردِ میدان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مسلمان عورتوں کو مردوں کے ساتھ اختلاط اور بے حیائی کے لباس کی بھی آزادی ملنی چاہئے۔
چونکہ مسلمان عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ مردوں کے سامنے اپنے جسم کا مظاہرہ نہ کریں اس لئے جدید فیشن کے لباس بالکل مخالف مقصد کے لئے تراشے گئے ہیں ۔ بلاشبہ کتاب وسنت دونوں ہی سے متصادم ہیں۔ مغربی لباس کے انتخاب واختیار کی تقریباً ہر مسلمان ملک سرکاری طور پر حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ترکی نے تو یہ مضحکہ خیز قدم اٹھایا ہے کہ اس نے مغربی لباس پہننا قانوناً لازم کردیا ہے۔ مغربی لبا س ترقی و کامیابی کی علامت بن گیا ہے۔ وطنی وقومی لباس جواب دیہاتوں کے بہت ہی غریب طبقے استعمال کرتے ہیں پستی اورجہالت کی علامت قرار دے دیئے گئے ہیں۔ دشمنان اسلام کی مغرب کے لباس اور اس کے معاشرتی عادات و خصائل اختیار کرکے اسلامی تشخص کی تمام علامات کو ختم کرنے کی کوشش فی الواقع ارتداد کے ہم معنی ہے۔ پیغمبر علیہ السلام نے یہ بات اپنے اس فرمان میں صاف کردی ہے :جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے اس کا شمار اسی میں ہے اس طرح ہم لوگوں پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ موجودہ دور کی مادی زندگی سے اسلام کی مطابقت کیوں ناممکن ہے۔
مسلمان عہد حاضر کے میلانات ورجحانات کا ساتھ دے کر نہیں بلکہ ان سے لڑ کر قوت و طاقت حاصل کرکے زندہ رہ سکتے ہیں نیز ان کے تمام ذرائع و وسائل، دنیا بھر کے مسلمانوں کے اندر غیراسلامی قوانین کے خلاف عام بیزاری پیدا کرنے کے لئے صرف ہونے چاہئیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ان تمام اسلام پسند لیڈروں کو جو کسی حکومت پر اثرانداز ہونے کے لائق ہوں، اثر ڈالنا چاہئے کہ وہ اسلامی طریق زندگی کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں