حجابِ اسلامی میں تین تحریریں نظر سے گزریں اور طبیعت نے قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ چند باتیں ذہن میں آئیں جنھیں سپردِ قلم کرنا ضروری سمجھا۔ ہوسکتا ہے کہ میری رائے سے کسی کو اختلاف بھی ہو، مگر ایک بات تو یہ ہے کہ زندگی آزمائش و قربانیوں کا نام ہے، دوسرا معاملہ تعین کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں دو طرح کی سوچ رائج ہے۔ ان میں ایک تو یہ ہے کہ دوسرے فرد کو شروع سے ہی دبا کر رکھو تاکہ وہ تم پر حاوی نہ ہوسکے۔ یہ ایک خوف کی کیفیت ہوتی ہے جس کے تحت فرد انسانوں پر مسلسل زیادتیاں کرتا رہتا ہے اور اس میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہے، اپنے اس طرزِ عمل سے وہ بڑا مطمئن ہوتا ہے اور اپنے آپ کو کامیاب اور عقلمند تصور کرتا ہے۔ پھر اچانک جب اس کی گاڑی مخالف سمت مڑتی ہے تو وہ چکرا کر رہ جاتا ہے، کہ یہ کیا ہوا؟
اس ضمن میں شوہر بیوی کو پوری زندگی ہر طرح سے دبا کر رکھتا ہے، اسے گن کر نوالے دیتا ہے، اس کے ساتھ محدود معاملات رکھتا ہے، اس کے گھر والوں کے ساتھ درشت رویہ اختیار کرتا ہے، بیوی کے بناؤ سنگھار سے اس کو کوئی غرض نہیں ہوتی، وہ اپنی آنکھیں باہر ٹھنڈی کرلیتا ہے۔ اور اگر عورت اس طرح کی ہوتی ہے تو وہ شوہر کو اپنے دباؤ میں رکھتی ہے، اپنے گھر والوں کی عزت کراتی ہے لیکن شوہر کے گھر والوں سے اسے کاٹ دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اچانک نہیں ہوجاتا۔ ایک بچہ یا بچی معاشرے میں یہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب ایک لڑکی عورت کو مظلوم دیکھ کر جوان ہوتی ہے، جس میں ماں، بہن، خالہ، پھوپھی وغیرہ اور ایسی کئی خواتین کی زندگی کا پورا منظر اس کے سامنے ہوتا ہے۔ اس کے ذہن میں مرد کے بارے میں منفی تاثر پختہ ہوجاتا ہے۔ جوان ہونے اور شادی ہونے تک ایک پختہ سوچ تیار ہوجاتی ہے کہ مجھے ان لوگوں کی طرح اپنی زندگی برباد نہیں کرنی۔ اور پھر ارد گرد کے لوگ سونے پہ سہاگہ ہوتے ہیں۔ کوئی صحیح مشورہ نہیں دیتا، ہر کوئی یہ سمجھاتا ہے کہ پہلے دن سے شوہر کو کس طرح سب سے جدا کرنا ہے۔ دوسری طرف اگر ایک لڑکا ماں کی صورت میں یا کسی بھی خاتون کی صورت میں ایک عورت کو ظلم سہتے دیکھتا ہے تو اس کی نفسیات یہ بن جاتی ہے کہ میں بیوی پر ظلم نہیں کروں گا بلکہ اس کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ رکھوں گا، تو بیوی اسے بیوقوف سمجھ کر دبا لیتی ہے۔ اس میں (معذرت کے ساتھ) بزرگوں کا بھی قصور ہوتا ہے۔ ساس یہ سوچتی ہے کہ بیٹا بیوی کی محبت میں گرفتار ہوکر مجھے نظر انداز نہ کردے، لہٰذا وہ اول روز سے ہی بہو کی ناقدری کرتی اور اسے ظلم و ستم کا نشانہ بناتی ہے اور اس کے شوہر کی نظر میں اسے دو ٹکے کا کرکے چھوڑتی ہے۔ دیکھا جائے تو وہ یہ صرف خوف اور جہالت کی بناء پر کرتی ہے۔ پھر ساسوں کو بھی صحیح مشورہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا، ہر کوئی انہیں غلط راستے کی طرف لے جاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ ہم ایسی جگہ لڑکی کا رشتہ کریں جہاں لڑکے کی سرے سے ماں ہی نہ ہو۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ یہ فرائض اس گھر کی دوسری خواتین پورا کرتی ہیں۔
آپ سوچیں گے کہ ان باتوں سے آئیڈیل شوہر بیوی کا کیا تعلق؟ تو جناب یہ رشتہ دو دلوں کا ہی میل نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی جیسا بنادیتا، مگر اللہ کی مصلحت یہ نہ تھی۔ وہ تو یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں کس نے درست عمل کیے اور حقیقی تقویٰ اختیار کیا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں صالح میاں بیوی اور ان کے صالح (دونوں طرف کے) گھر والے مفقود نہیں، چنانچہ جو بچے اپنے ارد گرد کی خواتین خاص طور پر ماں اور دادی،خالہ، مامی، پھوپھی، چاچی وغیرہ کو بہترین کردار کی زندگی گزارتے دیکھتے ہیں تو ان کی سوچ مثبت بن جاتی ہے۔ یہ اگر خواتین ہوتی ہیں تو ماں اور بہو کی صورت میں اور اگر مرد ہو تو بیٹے اور سسر کی صورت میں زندگی میں بہترین اور مثالی کردار ثابت ہوتے ہیں جن کی معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔ میاں بیوی خاندان سے کٹ کر نہیں رہ سکتے، انہیں بہرحال قدم قدم پر خاندان کی ضرورت پڑے گی۔ ذرا سوچیے تو سہی کہ وہ خاندان کے بغیر کیسے زندگی گزارسکتے ہیں؟ شروع میں، میں نے خوف کا ذکر کیا۔ درحقیقت صرف خوف دلوں سے نکل جائے اور اس کی جگہ قربانی لے لے تو گھر دنیا میں ہی جنت بن سکتے ہیں۔ مرد ایک خاص وقت تک بیوی کے دباؤ میں رہتا ہے، پھر پورے کا پورا والدین کے دباؤ میں آجاتا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ یا ایک بیٹا خاص وقت تک بیوی کے دباؤ میں رہنے کے بعد پھر ایسا پلٹا کھاتا ہے کہ وہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ یہ کوئی فرضی کہانیاں نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے وہ کردار اور معاملات ہیں جو ہمہ وقت دیکھنے میں آتے ہیں اور ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ ہم یہ سب اس لیے کرتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں اس طرح ہم شروع سے آخر تک اچھی زندگی گزاردیں گے۔ ہمیں یہ زندگی صرف ایک بار ملی ہے، ہماری وجہ سے دوسروں پر جو بھی بیتے ہمیں اس سے کیا غرض! لیکن… پھر کیا ہوتا ہے کہ زندگی ایک جیسی تو نہیں رہتی، آزمائش تو آکر رہتی ہے۔ اور زندگی کی گاڑی مخالف سمت رواں ہوجاتی ہے۔ پھر آنکھیں کھلتی ہیں کہ یہ کیا ہوا؟ ہمیں کیا کرنا تھا اور ہم نے کیا کیا؟
دراصل بات یہ ہے کہ یہ سب ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدئہ آخرت کمزور ہوتا ہے، ہم اس یقین کے دعوے تو کررہے ہوتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ ہم عبادت سے الگ ایک دوسرا نظام چلا رہے ہوتے ہیں اور حقوق العباد کو یکسر نظر انداز کررہے ہوتے ہیں۔ ہم سسرال کی خدمت و تعاون کرنے کے بعد سسرال یا شوہر سے ستائش کی توقع کیوں رکھتے ہیں! ہم یہ کام رب کی رضا کے لیے کیوں نہیں کرتے اور پھر اپنے رب پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے؟ معاملہ اپنے رب پر کیوں نہیں چھوڑ کر مطمئن ہوجاتے؟ وہ تو دنیا اور آخرت میں بہترین صلہ و اجر دینے پر قادر ہے۔
ایک بات جو میں عرض کرنا ضروری سمجھتی ہوں وہ یہ ہے کہ جب نئی بہو بیاہ کر آتی ہے تو وہ اکثر یہ کوشش کرتی ہے کہ پہلے دن سے ہی اس گھر میں اپنی مرضی چلائے۔ وہ پورے گھر کے افراد کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتی ہے۔ خاص طور پر جب گھر میں افراد کم اور بزرگ بے مصرف یا کمزور ہوں۔ کوشش یہی کی جاتی ہے کہ لڑکی کا رشتہ ایسی جگہ ہو جہاں فیملی چھوٹی ہو یا لڑکا اکیلا ہو۔ لیکن ایک موڑ پرآزمائش گھیر لیتی ہے اور وہ دونو ںتنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہاں ایک چیز اور بھی ہے، وہ ہے جنریشن گیپ۔ یہ ایک خلا ہے جو دونسلوں کے درمیان ہے۔ اسے حکمت اور عقلمندی سے پُر کیا جاسکتا ہے اور نوجوانوں سے زیادہ بزرگوں کو محنت کرکے اسے پُر کرنے کی ضرورت ہے۔ اصول اور قوانین جائز حد تک درست اور ضروری بھی ہیں لیکن اس چیز سے فائدہ اٹھا کر اپنا اقتدار اور حکومت قائم کرنا منفی اثرات کو جنم دیتا ہے۔ بزرگوں کے لیے ضروری ہے کہ شفقت، محبت اور دل میں اترنے والا اندازِ گفتگو اختیار کریں۔ نوجوان نسل بعض اوقات لا ابالی ہوتی ہے لیکن بزرگ اپنے ماضی کے تجربات کو یاد کریں، اس وقت وہ جس طرح سوچتے تھے اسی طرح یہ بھی سوچتے ہوں گے۔ ہمارے معاشرے میں تربیت و اصلاح کا عمل نہیں ہے۔ ہمارا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نسل کو باغی و خود سر بنار ہا ہے۔ اس پر بزرگوں کی بے حکمتی اور درشت رویہ سونے پہ سہاگہ کا کام کرتا ہے۔ عام زندگی میں بھی اگر ہم ہر کام صرف رضائے الٰہی کی خاطر کرتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج ہی برآمد ہوتے ہیں، چاہے اس میں وقت ہی کیوں نہ لگ جائے حق غالب ہوکر ہی رہتا ہے۔ جب سامنے والاشخص یہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ اس کا ہر عمل صلے سے بے نیاز اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہوتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ اس کادل لپکتا ہے اور اس میں ماننے والے فرد کے لیے حقیقی محبت اور قربانی و ایثار کا حقیقی جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
کبھی سوچا کہ اللہ نے رشتے کیوں بنائے؟ اور انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کیوں پیدا کی ؟ نسل کو دو میاں بیوی اکیلے پروان نہیں چڑھا سکتے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں یہ کام بہت مشکل ہے۔ عام طور سے دیکھنے میں آتا ہے کہ دو تین بچوں کے بعد وہ جھنجھلاہٹ اور انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ کبھی بزرگوں نے سوچا بھی ہے۔ اگر معاشرے کے چند بزرگ اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے یعنی جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے ضروری ہے کہ بہو اگر کام کررہی ہو تو آپ بچوں کو دیکھیں، انہیں شفقت سے تربیت دیں اور وہ آپ سے کچھ سیکھیں۔ اور معاملات ایسے اختیار کریں کہ ان کے دل میں اللہ اور اس کے بندوں کا شکر پیدا ہو۔ درشت رویہ دلوں کو پھاڑ دیتا ہے جبکہ اسلام دلوں کو جوڑنے اور مل کر اچھی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ خوبیاں اور خامیاں سب میں ہوتی ہیں لیکن اگر خامیوں کو درگزر کرکے خوبیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو خوبیاں پروان چڑھتی ہیں، خامیاں پس پردہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جہاں فرد کی خامیاں بیان کی جاتی ہیں، وہاں فرد کی خوبیاں در پردہ ہوجاتی ہیں اور فرد کی خامیاں سامنے آتی ہیں۔ اگر ہم گھر کے افراد کو آپس میں جوڑ کر رکھیں گے اور شفقت و محبت کا رویہ پیدا ہوجائے گا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ہم ظلم کریں گے تو وہ ردِعمل کے طور پر متعلقہ افراد پر ظلم کریں گے اور معاشرہ ظلم سے بھر جائے گا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، یہ باتیں آئیڈیل میا ںبیوی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔